Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں ثنا پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے اور سنت غیر مؤکدہ کو لفظ مستحب سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، لہٰذا ان صاحب کے مستحب کہنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)
(۲) وأما سننہا فکثیرۃ إلی أن قال ثم یقول: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا إلہ غیرک سواء کا إماماً أو مقتدیا أو منفرداً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، ۴۶۴، زکریا دیوبند)
وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ ونشر أصابعہ وجہر الإمام بالتکبیر والثناء التعوذ التسمیۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 417
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹ بولنا اور حرام مال کھانا سخت گناہ ہے(۱) ایسا کرنے والا فاسق ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۲)
(۱) {فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَہ۶۱} (آل عمران: ۶۱)
ما کان من خلق أبغض إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الکذب۔ (صحیح ابن حبان ذکر البیان بأن الکذب کان من أبغض الأخلاق: رقم: ۵۷۳۶) آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لایقبل ولا یأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لابأس بقبول ھدیتہ والأکل منہا الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج۵، ص: ۳۴۳)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص173
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت سے پہلے مسجد پہونچ جائے تاکہ نماز وقت پر ہو اور سنت گھر پر پڑھ کر آئے یا پہلے آکر مسجد میں پڑھے؛ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے کہ جماعت کے وقت پر مسجد میں پہونچا اور اور سنن پڑھنے کا وقت نہیں ہے، تو ایسی صورت میں فرض کے بعد سنت ادا کر لیتا ہے، تو صحیح ہے اگر کوئی اور صورت ہے، تو اس کو واضح طور پر لکھ کر مسئلہ معلوم کریں۔ تاہم امام صاحب کے لیے ظہر کی سنت ہمیشہ بعد میںپڑھنے کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (محمد الشوکاني، نیل الأوطار، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق، رقم:۱۰۸۸، ج۲، ص:۱۸۳)۔
وقد أخرج الحاکم عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (محمد الشوکاني، نیل الأوطار،کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق، رقم:۱۰۸۸، ج۲، ص:۱۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ترک نماز کے لیے مختلف وعیدات کا ذکر احادیث میں فرمایا گیا ہے، البتہ اس حقب کی روایت حدیث کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے اور اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین بھی ہیں اس لیے اس سے رحم اور سہولت کی امید بھی رکھنی چاہئے۔(۱)
(۱)عن عبد اللّٰہ بن عمر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الذي تفوتہ صلاۃ العصر فکأنما وتر أہلہ وما لہ عن أبي الملیح قال کنا مع بریدۃ في غزوۃ في یوم ذي غیم فقال بکروا بصلاۃ العصر فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ترک صلاۃ العصر فقد حبط عملہ۔(أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، أثم من فاتتہ العصر‘‘: ج ۱، ص: ۷۸، رقم: ۵۵۲)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن في جہنم لوادیا تستعیذ جہنم من ذلک الوادي في کل یوم أربع مائۃ مرۃ أعد ذلک الوادي للمرائین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث۔ (عماد الدین بن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۶، ص: ۵۴۸)۔
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصلاۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان إطلاق اسمہ الکفر علی من ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷)۔
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔(سلیمان بن احمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۳، ص: ۳۴۳)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: العہد الذي بینی وبینہم الصلاۃ، فمن ترکہا فقد کفر۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ما جاء في ترک الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۸، رقم:۲۶۲۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص374
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح دل میں نماز پڑھنے سے نماز ادا نہ ہوگی اگر رش کی وجہ سے نماز پڑھنا دشوار ہو تو بعد میں قضاء کریں۔(۱)
(۱) في فرائض الصلاۃ وہي ست منہا التحریمۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۵)
لاشيء من الفروض ماتصح الصلاۃ بدونہ بلا عذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عصر و عشاء سے قبل چار رکعت پڑھنا مستحب ہے جس کو سنت غیر مؤکدہ بھی کہا جاتا ہے ’’ویستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء‘‘ (۱) اور مستحب کا حکم یہ ہے کہ پڑھے تو ثواب ہوگا نہ پڑھے تو کوئی عقاب نہیں مصلی کو اختیار ہے، لہٰذا جو نہ پڑھے اس کو مطعون نہ کیا جائے۔(۲)
(۲) ندب الأربع قبل العصر والعشاء، وبعدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
وندب أي استحب أربع رکعات قبل صلاۃ العصر لقولہ علیہ السلام : من صلی أربع رکعات قبل العصر لم تمسہ النار … وندب أربع قبل العشاء لما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہ علیہ السلام کان یصلي قبل العشاء أربعاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۹۰، اشرفیہ دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 418
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1123/42-347
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر رکعت کے دونوں سجدے فرض ہیں۔ اگر کوئی ایک سجدہ بھی رہ گیا تو نماز نہیں ہوگی، سجدہ سہو بھی اس میں کافی نہیں ہوگا۔
(ومنها السجود) السجود الثاني فرض كالأول بإجماع الأمة. كذا في الزاهدي (الفتاوی الھندیۃ 1/70)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2644/45-4017
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ۔ ہاں البتہ اگر ہاتھ باندھ کر تلاوت شروع کردی تو اب سجدہ سہو تلاوت کی وجہ سے واجب ہوگا۔
"وَلَا يَجِبُ السُّجُودُ إلَّا بِتَرْكِ وَاجِبٍ أَوْ تَأْخِيرِهِ أَوْ تَأْخِيرِ رُكْنٍ أَوْ تَقْدِيمِهِ أَوْ تَكْرَارِهِ أَوْ تَغْيِيرِ وَاجِبٍ بِأَنْ يَجْهَرَ فِيمَا يُخَافَتُ وَفِي الْحَقِيقَةِ وُجُوبُهُ بِشَيْءٍ وَاحِدٍ وَهُوَ تَرْكُ الْوَاجِبِ، كَذَا فِي الْكَافِي". (الھندیۃ، كتاب الصلاة، الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي سُجُودِ السَّهْوِ ، ١ / ١٢٦)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس شخص کی آمد صرف ناجائز ہی ہو مثلاً صرف سود ہی کی آمد ہو تو معلوم ہونے کے باوجود اس کے یہاں کھانا کھانا جائز نہیں(۱) اگر امام صاحب ایسا ہی کرتے ہوں تو ان کو سمجھایا جائے باز نہ آئیں تو امامت سے معزول کیا جائے اور اگر کسی کی آمد مخلوط ہو تو اس کے یہاں کھانے کی گنجائش ہے اگرچہ احتیاط بچنے ہی میں ہے۔(۲)
(۱) أکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج۵، ص: ۳۴۳)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)
اجعلوا أئمتکم خیارکم۔ (أخرجہ قطني في سننہ، ’’باب تخفیف القراء ۃ لحاجۃ‘‘: ج ، ص: ، رقم: ۱۸۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص174