نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بچہ بالغ ہے، تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے اگر امام بطور قائم مقام اس بالغ بچہ سے نماز پڑھواتا ہے، تو اس کا مقصد بچہ کو نماز پڑھانا بھی اور سکھانا بھی ہو سکتا ہے، بہر صورت امام کا تنخواہ لینا جائز ہے، الا یہ کہ انتظامیہ کے ضابطے کے خلاف ہو۔(۱)

(۱) وإمام قوم: الإمامۃ الکبریٰ أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ) وفي نسخۃ لہا أي الإمامۃ (کارہون) أي لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہو لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أمّا إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم وأمّا من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثہ فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ رواہ الترمذی وقال: ہذا حدیث غریب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
ویبدأ من غلتہ بعمارتہ ثم ماہو أقرب لعمارتہ کإمام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدرکفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح وتمامہ في البحر۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب  یبدأ بعد العمارۃ بما ھو أقرب إلیھا‘‘: ج۶، ص:۵۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں آکر نماز باجماعت میں اقتداء کرنے سے جماعت اسلامی کے لوگوں کو نہ روکنا چاہئے اور اختلاف کو کسی بھی طرح بڑھاوا نہ دے کر اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار کرنی چاہئے، مسجد میں وہ لوگ بھی نماز پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان سے شادی بیاہ وغیرہ بھی درست ہے۔ اور حق پر رہنے والے فرقہ سے اہل سنت والجماعت مراد ہیں۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذي لہ ذمۃ اللّٰہ وذمۃ رسولہ فلا تخفروا اللّٰہ في ذمتہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل استقبال القبلۃ‘‘: ج۱، ص: ۷۲، رقم: ۳۹۱)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلّٰی صلاتنا و استقبل قبلتنا و أکل ذبیحتنا فذلکم المسلم۔ (أخرجہ النسائی، في سننہ، کتاب الإیمان و شرائعہ، باب صفۃ المسلم، ج۲، ص۵۵۰، رقم:۴۹۹۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص375

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہو یا خارجِ نماز باریک اور ایسا چست لباس جس سے جسم کی ساخت نظر آئے ایسا لباس کو پہننے کو فقہائے کرام نے ممنوع لکھا ہے، اگر کوئی شخص ایسا لباس پہنتا ہے جس سے اس کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو تو ایسے لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم ایسے لباس میں اگر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوگئی اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اتنا باریک لباس پہنے ہوا ہو کہ ناف کے نیچے گھٹنوں تک کا حصہ یعنی سرین شرمگاہ اور ران وغیرہ نظر آرہی ہوں تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی، نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔
’’(قولہ: لایصف ما تحتہ) بأن لایری منہ لون البشرۃ احترازا عن الرقیق ونحو الزجاج (قولہ: ولایضر التصاقہ) أي بالألیۃ مثلا، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب۔ وعبارۃ شرح المنیۃ: أما لو کان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۱)
’’أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  حذر أہلہ وجمیع المؤمنات من لباس رقیق الثیاب الواصفۃ لأجسامہن بقولہ: کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ، وفہم منہ أن عقوبۃ لابسۃ ذلک أن تعری یوم القیامۃ‘‘(۲)
’’في تکملۃ فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمرأۃ لاتقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ … وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذي یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذي یجب سترہ، فہو في حکم ماسبق في الحرمۃ وعدم الجواز‘‘(۳)
’’إذا کان الثوب رقیقًا بحیث یصف ماتحتہ أي لون البشرۃ لایحصل بہ سترۃ العورۃ‘‘(۱)
(۱)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘ج۲، ص: ۸۴۔
(۲) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب ماکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتجوز من اللباس‘‘: ج ۲۲، ص: ۲۰۔(شاملۃ)
(۳) مفتي محمد تقي عثماني،  تکملۃ فتح الملہم شرح المسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ‘‘: ج ۴، ص: ۸۸۔
(۱) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص274

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1225/42-536

الجواب وباللہ التوفیق:۔ بہشتی زیور کا مذکورہ مسئلہ درست ہے۔ قول صحیح یہی ہے کہ جب امام  بعد کی دورکعتوں میں سورہ ملائے گا تو جہری قرات کرے گا۔ اور آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔

(الفصل الثاني في واجبات الصلاة ) يجب تعيين الأوليين من الثلاثية والرباعية المكتوبتين للقراءة المفروضة حتى لو قرأ في الأخريين من الرباعية دون الأوليين أو في إحدى الأوليين وإحدى الأخريين ساهيًا وجب عليه سجود السهو، كذا في البحر الرائق". (الھندیہ 3/38)

لوترک سورۃ اردا بھا ما یقرآ مع الفاتحۃ فی اولی العشاء قید بہ وان کان غیرہ کذلک لبیان الجھر بذلک قضاھا وجوبا فی الاخریین مع الفاتحۃ لوجوب قضاء الواجب وہجھر بھا (سکب الانھر 104/ بحوالہ اختری بہشتی زیور 11/39)

ویجھر بھا وھو الصحیح لان الجمع بین الجھر والمخافۃ فی رکعۃ واحدۃ شنیع وتغیرالنفل وھو الفاتحۃ اولی  (ھدایہ 1/117)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2645/45-4012

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث پاک کی قراءت کے وقت بھی تجوید کی رعایت کرنی چاہئے  اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے تاہم قرآن کے طرز سے حدیث کا طرز مختلف ہونا چاہئے تاکہ اشتباہ نہ ہو۔ حروف کی پورے طور پر ادائیگی ضرور ی ہے  ہاں غنہ و مدہ اس قدر اہم  نہیں ہیں۔

(ورتلِ الحدیث) أیہا المحدث أی تمہل فی قرائتہ ولا تعجل ولاتسردہا سرداَ یمنع فہم بعضہ، ففی الصَّحِیحین عن عائشة - رضی اللہ عنہا - أنہ - صلی اللہ علیہ وسلم -: "لم یکن یسرُد الحدیث کسردکم "زاد الإسماعیلی: "إنما کان حدیثہ فہما تفہمہ القلوب " وزاد الترمذی: "ولکنہ کان یتکلم بکلام بین فصل یحفظہ من جَلَسَ إلیہ "وقال: حدیث حسن صحیح.( شرح الأثیوبی علی أَلْفِیَّةِ السُّیوطی فی الحدیث:2/107،الناشر: مکتبة الغرباء الأثریة - المدینة المنورة، المملکة العربیة السعودیة)

ویستحب أن یرتل الحدیث، ولا یسردہ سردایمنع السامع من إدراک بعضہ․ ففی الصحیحین من حدیث عائشة رضی اللہ عنہا، قالت: إن النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - لم یکن یسرد الحدیث کسردکم․ زاد الترمذی: ولکنہ کان یتکلم بکلام بین فصل، یحفظہ من جلس إلیہ. وقال: حدیث حسن صحیح.( شرح ألفیة العراقی:2/24،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت لبنان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دینا باعث گناہ ہے(۱) کسی کے مارنے کی جھوٹی گواہی دینا مزید گناہ کا باعث ہے ایسا شخص شریعت کی نظر میں فاسق ہے اور فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)
پس صورت مسئول عنہا میں مذکورہ امام کی امامت مکروہ تحریمی ہے تا آں کہ وہ بکر سے اپنی غلطی کی معافی مانگے اپنی جھوٹی گواہی کو واپس لے اور توبہ و استغفار کرکے اس کا اعلان کردے گواہی سے پہلے جو نمازیں اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ بلاکراہت درست ہوگئی ہیں۔

(۱) لأنہ کبیرۃ محضۃ وذلک بنص الحدیث الصحیح وہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکبر الکبائر الشرک باللّٰہ تعالیٰ وقتل النفس وعقوق الوالدین فقال: ألا أنبئکم بأکبر الکبائر قال: قول الزور أو قال: شہادۃ الزور۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۵، رقم: ۵۹۷۷)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ،وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع … قولہ: نال فضل الجماعۃ، أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص175

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے متقدمین فقہاء نے اسے ناجائز کہا ہے؛ لیکن متأخرین فقہاء نے جائز کہا ہے اس کی علت ہے دین کی بقاء وآبیاری تاہم اتنی طویل غیر حاضری کی جو کہ سوال میں درج ہے قانوناً، اخلاقاً اورشرعاً کسی صورت میں بھی ان ایام کی تنخواہ لینا ودینا جائز نہیں؛(۱) اس لیے اگر ان مہینوں کی تنخواہ دے گا، تو متولی پر ضمان آ جائے گا؛ اس لیے ان ایام کی تنخواہ دینا بھی جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ إذا کان في مدۃ الإجارۃ  لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرۃ۔ (شرح المجلد، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۹، رقم: ۲۴۵)

(۲) قال في الإسعاف: ولا یولی إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ لأن الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر ولیس من النظر تولیۃ الخائن لأنہ یخل بالمقصود۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في شروط المتولي‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)
وأما حکمہا فوجوب الحفظ علی المودع وصیرورۃ المال أمانۃ في یدہ ووجوب أدائہ عند طلب مالکہ، کذا في الشمني۔ الودیعۃ لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترہن، وإن فعل شیئاً منہا ضمن، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الودیعۃ، الباب الأول في تفسیر الإبداع والودیعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۴۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص263

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتنی دیر پہلے فجر کی جماعت کی جائے کہ اگر کسی وجہ سے نماز فاسد یا باطل ہوجائے تو اطمینان سے دوبارہ جماعت ہوجائے اس سے زیادہ تاخیر میں مقتدیوں کی رعایت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) قالوا: یسفر بہا بحیث لوظہر فساد صلاتہ یمکنہ أن یعیدہا في الوقت بقراء ۃ مستحبۃ۔ (زین الدین بن إبراہیم بن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب وقت صلاۃ العشاء‘‘:ج۱، ص: ۴۲۹، زکریا)
أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الإسفار بالفجر، ج۱، ص۴۰، رقم:۱۵۴)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص376

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی بڑی اہمیت ہے اور مساجد باجماعت نماز کا محل ہیں،حدیث میں مسجد میں نماز پڑھنے کی بڑی تاکید آئی ہے، لیکن اگر مسجد میں نماز باجماعت فوت ہوجائے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا اہتمام کریں تاکہ جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے، لیکن اب جو صورت حال اقلیتی ممالک میں پیدا ہورہی ہے جہاں مساجد کی کمی ہوتی ہے اور عام جگہوں پر نماز پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہے؛ بلکہ سڑک اور پبلک مقامات پر نماز پڑھنے پر فسادات کا خدشہ ہے اس لیے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا چرچ یا گرودوارہ میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح یورپی ممالک میں بھی مساجد کے نہ ہونے اور زمین خرید کر مساجد بنانے میں دشواری کی وجہ سے چرچ وغیرہ کرایہ پر لے کر جمعہ و عیدین کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
 یہ مسئلہ اختلافی ہے اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
پہلاقول: چرچ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ اس میں تصویریں ہوتی ہیں اور یہ قول حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے،اور یہی قول احناف کے علماء کی ایک جماعت کا بھی ہے،اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی قول ہے۔ اور اسی طرح حنابلہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر چرچ میں کوئی تصویر وغیرہ ہو تو اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
دوسرا قول: چرچ میں نماز پڑھنا جائز ہے جب اس میں تصویر نہ ہو اور یہ قول حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز ؒ اور امام شعبی ؒ کا ہے اور یہی حنابلہ کا بھی مذہب ہے۔
تیسرا قول: چرچ میں نماز پڑھناحرام ہے کیوں کہ وہاں شیاطین ہوتے ہیں اور ایسی جگہ نماز کا پڑھنا اس میں ایک قسم کی ان کی تعظیم ہے۔ یہی احناف کا قول ہے۔
’’(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا‘‘(۱)
 احناف کا قول کراہت کا ہے اس لیے حتی ا لامکان کوشش کی جائے کہ مساجد میں نماز کا اہتمام ہو اور اگر مساجد کا کوئی نظم نہیں ہوسکتاہے تو ہال وغیرہ کرایہ پر لے کر نماز جماعت کی کوشش کی جائے لیکن اگر اس کی بھی کوئی سبیل نہ ہو تو پھرضرورتًا گرودوارہ یا چرچ میں بھی نماز ہوسکتی ہے؛ البتہ اس کا خیال کیا جائے کہ سامنے کوئی تصویر یا مجسمہ نہ ہو؛ بلکہ چرچ وغیرہ کے مرکزی جگہ سے ہٹ کر جماعت بنائی جائے اوراگر سامنے تصوریر ہو تو اس پر پردہ ڈال دیا جایے، مجمع الفقہ الاسلامی جدہ وغیرہ نے ضرورت کے موقع پر چرچ میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے بلا ضرروت مکروہ قرار دیا ہے۔ احناف کے یہاںبھی کراہت کا تعلق عام حالات سے ہے؛ لیکن اگر ضرروت ہو تو نماز ہوسکتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے چرچ میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔
’’وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: إنا لا ندخل کنائسکم من أجل التماثیل التي فیہا الصور وکان ابن عباس: یصلي في البیعۃ إلا بیعۃ فیہا تماثیل‘‘(۱)
’’في فتاوی مجمع الفقہ الاسلامي: استئجار الکنائس للصلاۃ لا مانع منہ شرعا عند الحاجۃ، وتجتنب الصلاۃ إلی التماثیل والصور وتستر بحائل إذا کانت باتجاہ القبلۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ ‘‘: ج۲، ص: ۴۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في البیعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲، رقم: ۴۳۸۔
(۲) مجلۃ المجمع: ص: ۴۷۔(شاملہ)
(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ اھـ۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۳)
فإما أن تقطع رء وسہا أو تتخذ وسائد فتوطأ وإن لم تکن مقطوعۃ الرئوس فتکرہ الصلاۃ فیہ، سواء کانت في جہۃ القبلۃ أو في السقف أو عن یمین القبلۃ أو عن یسارہا، فأشد ذلک کراہۃ أن تکون في جہۃ القبلۃ؛ لأنہ تشبہ بعبدۃ الأوثان، ولو کانت في مؤخر القبلۃ، أو تحت القدم لا یکرہ لعدم التشبہ في الصلاۃ بعبدۃ الأوثان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۳۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص276

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2646/45-4006

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے،  کہ  نماز کا رکن فوت ہونے کی وجہ سے نماز درست نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند