نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)

نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں تعجیل بہتر ہے؛ البتہ کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے اور وقت کے اندر ہی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مذکورہ صورت میں عذر بھی ہے اور تاخیر بھی اتنی نہیں ہے جس سے نماز میں کوئی کمی آئے اس لیے درست ہے۔(۱)
(۱) تأخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدۃ، (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۵۷، مکتبہ اتحاد دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں سلف و صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نمازیں کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں، کمپاس یا قبلہ نماکی تعیین کا لازمی اعتبار نہیں ہے۔ ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیں ہے۔
اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صفیں اس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہو جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے؛ لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہا أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقی شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
ومن کا خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ ہو الصحیح: ہکذا في التبیین۔
وجہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل، والدلیل في الأمصار والقریٰ المحاریب التي نصبہا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعہم فإن لم تکن فالسوال من أہل ذلک الموضع، وأما في البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص270

 

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے بعد انگلیوں کا حلقہ بنایا جاتا ہے۔ آخر نماز تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرا۔ شامی میں ہے ’’أي حین الشہادۃ فیعقد عندہا الخ‘‘(۱) لیکن اگر کوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
عن عبد اللّٰہ بن الزبیر أنہ ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا ولا یحرکہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود باب:الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۹۹۰)
قال الطحطاوي في حاشیۃ علی مراقي الفلاح: قولہ، وتسن الإشارۃ، أي من غیر تحریک فإنہ مکروہ عندنا۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۱۱۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: راگ باجے کے ساتھ جانے والا امام و خطیب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے حتی الامکان اس کی امامت سے پرہیز کرنا چاہئے کسی دیندار پرہیز گار کے پیچھے نماز ادا کرنے کی سعی کریں۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس کی امامت میں نماز عید یا کوئی اور نماز ادا کرلی تو وہ ادا ہوگئی اعادہ ضروری نہیں ہوگی۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ …بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا وتمام، ومراء ومتصنع) قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: ’’مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص171

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتوی معلوم کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے لیے مسئلہ معلوم کیا جاتاہے۔ وہ قاری صاحب آپ کے امام نہیں ہیں؛ اس لیے آپ کی نماز کی صحت وفساد بھی اس سے متعلق نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں نہ ہمارے پاس تحقیق ہے اور نہ ہی اس قاری صاحب کا اقرار ہے؛ اس لیے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال واحوال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاہم اگر اس کو امام بنایا جائے تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصل الدین الصلاۃ خلف کل بر وفاجر۔ (أخرجہ الدار قطني في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۱ ، ص:۴۱۶، رقم: ۱۷۶۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص260

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ میں بھی نماز جمعہ اور دیگر نمازیں باجماعت درست ہیں؛ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) المسجد الجامع لیس بشرط لہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلي في فناء المصر، (محمد بن محمد، کبیری، ’’حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ‘‘:ص: ۵۵۱، مطبع اشرفي دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص373

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا  ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں، شامی میں ہے۔
’’ورفع یدیہ ماسًا بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ہو المراد بالمحاذۃ‘‘ عورت کے متعلق ’’والمرأۃ ترفع بحیث یکون رؤوس أصابعہا حذاء منکبیہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۲، ۴۸۳۔
وکیفیتہا إذا أراد الدخول في الصلوۃ، کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  416

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2643/45-4016

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قنوت نازلہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان حالات میں پڑھنا چاہئے۔

دعائے قنوت یہ ہے : اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوْمِنِیْنَ وَلِلْمُومِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔

و عن سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعة الآخرة من الفجر یقول: ”اللہم العن فلانا وفلانا وفلانابعد ما یقول: سمع الله لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیة، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاری شریف، کتاب المغازی، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیة، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)إن نبی الله صلی الله علیہ وسلم قنت شہرا فی صلاة الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیة، وبنی لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونة۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، ورعل وذکوان، النسخة الہندیة /۲ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳) ان قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة أو السریة (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲: ۴۴۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعی علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماونا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالی فی مراقی الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموی أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب: فی القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند