نماز / جمعہ و عیدین
رشوت خور کی امامت: (۱۴۸)سوال: ہمارے یہاں ایک امام صاحب جن کی عمر اسّی سال کے قریب ہے وہ ہر نیک آدمی کی مخالفت اور غیبت کرتا ہے یہی اس کا شیوہ ہوچکا ہے۔ اور رشوت خور بھی ہے لوگوں کو آپس میں لڑانا اس کے لیے بہت آسان ہے اس کی امامت کا حکم شرعاً کیا ہے؟ فقط: والسلام المستفتی: غلام محی الدین، جموں وکشمیر

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو یا سنت میں مشغول نمازیوں کی رعایت کرتے ہوئے جماعت میں تاخیر کی گنجائش ہے تاہم امام صاحب کا تاخیر کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اگر کبھی اتفاقاً چار، پانچ منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر مقتدیوں کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے۔(۲)
(۲) وینتظر المؤذن الناس ویقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:ج۱، ص: ۵۷)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ فإن رآہم اجتمعوا أقام وإلا انتظرہم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۴۴۹)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص377

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  وقت سے پہلے نماز نہیں ہوتی اگرکسی نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) (ومنہا) الوقت لأن الوقت کما ہو سبب لوجوب الصلاۃ فہو شرط لأدائہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا حتی لا یجوز أداء الفرض قبل وقتہ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: الصلاۃ في جوف الکعبۃ، ج۱، ص:۳۱۵)
قولہ: بأنہ سبب للأداء من حیث تعلق الوجوب بہ وإفضاؤہ إلیہ قولہ: وظرف للمؤدی لأنہ یسعہ ویسع غیرہ قولہ: وشرط للوجوب من حیث توقف وجوب فعل الصلاۃ علی وجودہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵)
(اعلم) أن الصلاۃ فرضت لأوقاتہا قال اللہ تعالی: {أقم الصلاۃ لدلوک الشمس} (سور الإسراء: ۷۸) ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتؤدی في مواقیتہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص279

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1954/44-1877

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوران حمل اگر خون جاری ہوجائے تو وہ یقینی طور پر بیماری کا خون ہے جس کو استحاضہ کہاجاتاہے، ایسی حالت میں عورت وضو کرکے نماز پڑھے گی۔ دوران حمل رحم کا منھ بند ہوتاہے، اس لئے  رحم سے خون نہیں آسکتاہے، اس لئے جوخون نظر آرہاہے وہ حیض یا نفاس نہیں ہے۔

(والناقص) عن أقلہ (والزائد) علی أکثرہ أو أکثرالنفاس أوعلی العادة وجاوز أکثرہما. (وما تراہ) صغیرة دون تسع علی المعتمد وآیسة علی ظاہر المذہب (حامل) ولو قبل خروج أکثر الولد (استحاضة.)(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ ط:زکریا، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: چوری کرنا گناہ کبیرہ اور اس کا مرتکب فاسق ہے(۲) اس لیے مذکورہ شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، اس کے پیچھے بکراہت تحریمی نماز ادا ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کو امامت سے الگ کردیا جائے؛ تاہم اگر وہ توبہ کرلے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا بغیر کسی کراہت کے درست ہے۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)

(۲) {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئً م بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌہ۳۸} (سورۃ المائدۃ: ۳۸)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ،ص: ۳۰۲، شیخ الہند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص176

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: یہ شخص سخت گناہگار ہے کہ اس سے جماعت میں شریک لوگوں کو تکلیف بھی ہوگی؛ لیکن اگر جماعت میں شریک ہوکر نماز اداء کرے، تو وہ نماز درست ہوگی ہاں اگر نشہ کی حالت میں ہو، تو بھگا دینا اور ہٹا دینا چاہئے کہ اس سے دوسروں کی نماز میں خلل اور فساد کی نوبت آسکتی ہے۔(۱)
(۱) {یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَأَنْتُمْ سُکٰرٰی} (سورۃ النساء: ۴۳)
قولہ تعالیٰ: {حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ} یدل علی أن السکران الذي منع من الصلاۃ ہو الذي قد بلغ بہ السکر إلی حال لایدري مایقول۔ (الجصاص، أحکام القرآن: ج ۲، ص: ۲۵۴)

وأیضا ہنا علتان أذی المسلمین وأذی الملائکۃ فبالنظر إلی الأولیٰ یعذر في ترک الجماعۃ وحضور المسجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘:ج ۲، ص: ۴۳۵)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص378

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت کے لیے نماز کی حالت میں ہاتھوں اور پیروں کا چھپانا شرط نہیں ہے اس لیے دستانوں و موزوں کے بغیر عورتوں کی نماز بالکل درست ہے زید کا قول غلط ہے اور دستانوں وموزوں کی شرط بلا دلیل ہے۔(۱)

(۱) وبدن الحرۃ کلہا عورۃ، إلا وجہہا وکفیہا، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: المرأۃ عورۃ مستورۃ واستثناء العضوین للابتلاء بإبدائہما، قال رضي اللّٰہ عنہ: وہذا تنصیص علی أن القدم عورۃ، ویروي أنہا لیست بعورۃ، وہو الأصح۔ قولہ: للابتلاء بإبدائہما ہذا تعلیل الاستثناء أي لوجود الابتلاء بإظہار الوجہ والکفین عندنا۔ ولہ الابتلاء في یدہا وفي کشف وجہہا خصوصا عند الشہادۃ والمحاکمۃ والنکاح۔ وفي المحیط إلا الوجہ والیدین إلی الرسغین والقدمین إلی الکعبین۔ وفي الوتری: جمیع بدن الحرۃ عورۃ إلا ثلاثۃ أعضاء الوجہ والیدان إلی الرسغین والقدمین۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘ عورۃ الحرۃ: ج ۲، ص: ۱۲۴، ۱۲۵)
عورۃ (الحرۃ) أي جمیع أعضائہا (عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا) فإنہا لا تجد بدا من مزاولۃ الأشیاء بیدیہا وفي کفیہا زیادۃ ضرورۃ ومن الحاجۃ إلی کشف وجہہا خصوصا في الشہادۃ والمحاکمۃ والنکاح وتضطر إلی المشی في الطرقات وظہور قدمیہا خصوصا الفقیرات منہن وہو معنی قولہ تعالی علی ما قالوا {إلا ما ظہر منہا} (سورۃ النور: ۳۱) أي ما جرت العادۃ والجبلۃ علی ظہورہ۔ (محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280

 

نماز / جمعہ و عیدین
عصر کی نماز کے بعد قضاء نماز پڑھنا کیسا ہے؟

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ ابتداء اسلام میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ جماعت کرنا ثابت ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے یہ عمل ترک ہو گیا اور عورتوں کا جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہو گیا۔(۱)

(۱) إن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)…عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، فصل في بیان محل وجوب الأذان: ج ۱، ص: ۳۸۰)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص502

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر والدہ کے بدن یا کپڑوں پر پیشاب نہ لگا ہو اور برابر میں جگہ ہو تو پیشاب کی جگہ سے معمولی سا الگ ہوجائے اور نماز پوری کرے نماز توڑنے کی ضرورت  نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو دوسری پاک جگہ پر نماز پڑھے۔ اور اگر بدن یا کپڑوں پر پیشاب لگ جائے تو نماز توڑ کر پاکی کے بعد نماز کا اعادہ کرے۔(۱)

(۱) اتفق المذاہب الأربعۃ علی أن بول الصبي نجس۔ (الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وبول غیر مأکول ولو من صغیر لم یطعم (در مختار) وفي الشامي: أي لا یأکل، فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳)
بول مایؤکل لحمہ کالاٰدمي ولو رضیعاً۔ قال الطحطاوي: ولو رضیعاً لم یطعم سواء کان ذکراً أو أنثیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص:۱۵۴)
(ومن أصابہ من النجاسۃ المغلظۃ کالدم والبول) من غیر مأکول اللحم ولو من صغیر لم یطعم (والغائط والخمر) وخرء الطیر لا یزرق في الہواء کذجاج وبط وإوز (مقدار الدرہم فما دونہ جازت الصلاۃ معہ: لأن القلیل لا یمکن التحرز عنہ؛ فیجعل عفواً، وقدرناہ بقدر الدرہم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرہم (لم تجز) الصلاۃ، ثم یروی اعتبار الدرہم من حیث المساحۃ، وہو قدر عرض الکف في الصحیح، ویروي من حیث الوزن، وہو الدرہم الکبیر المثقال، وقیل في التوفیق بینہما: إن الأولی في الرقیق، والثانیۃ فی الکثیف، وفي الینابیع: وہذا القول أصح، … (وإن أصابتہ نجاسۃ مخففۃ کبول ما یؤکل لحمہ) ومنہ الفرس، … (جازت الصلاۃ معہ ما لم یبلغ ربع) جمیع (الثوب) … وقیل: ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والکم والدخریص، إن کان المصاب ثوبا۔ وربع العضو المصاب کالید والرجل، إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج، وفي الحقائق: وعلیہ الفتوی۔ (عبد الغني المیداني، اللباب في شرح الکتاب، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘: ص: ۶۸، ط، قدیمی)(شاملہ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280