نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اس سلسلے میں حضرات فقہاء سے ایسی کوئی صراحت منقول نہیں کہ پہلے جامع مسجد میں نماز ہو پھر دیگر مساجد میں جمعہ ہو اس لیے جہاں پر متعدد مساجد میں جمعہ قائم کرنا درست ہے وہاں کسی بھی مسجد میں پہلے جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔’’(وتؤدي في مصر في مواضع) أي تؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد، وہو الأصح؛ لأن في الاجتماع في موضع واحد في مدینۃ کبیرۃ حرجا بینا‘‘(۱)(۱) زیلعي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص ایک جگہ نماز جمعہ پڑھانے یا پڑھنے کے بعد دوسری جگہ جمعہ کی امامت کرتا ہے تو اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی، اس لئے کہ امام کی یہ نماز نفل ہے اور اقتداء کرنے والوں کی نماز فرض ہے اور فرض نماز ادا کرنے والے نفل پڑھنے والے کی اقتداء کریں تو اقتداء کرنے والوں کی نماز نہیں ہوتی، البتہ ایک جگہ جمعہ کی نماز پڑھ کر دوسری جگہ پھر پڑھنا بطور نفل کے درست ہے۔’’لا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضاً آخر سوائً تغیر الفرضان اسماً أو صفتاً‘‘(۱)’’(ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر) أي وفسد اقتداء المفترض بإمام متنفلٍ أو بإمام یصلی فرضاً غیر فرض المقتدي، لأن الاقتداء بناء وصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃٌ‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 99

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر آپ کی بستی بڑی بستی بہ حکم قصبہ ہے، یعنی: وہاں صحتِ جمعہ کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں تو آپ کی بستی میں ایک سے زائد مسجدوں میں بھی جمعہ کی نماز جائز ہے؛ کیوں کہ جس جگہ جمعہ جائز ہو، وہاں متعدد مساجد میں جمعہ قائم کرنا درست ہوتا ہے، البتہ جامع مسجد میں جمعہ پڑھنا افضل ہے، اس لیے مذکورہ علاقے کے مسلمانوں کو چاہیے کہ قریب قریب محلے والے باہم اتفاق واتحاد سے کسی مسجد کو متعین کرلیں جس میں زیادہ نمازیوں کو گنجائش ہو اور پھر وہیں سب مل کر جمعہ ادا کریں، یہی افضل اور بہتر ہے کیوں کہ جمعہ کی نماز میں اجتماع کی زیادتی شریعت میں مطلوب ہے، لہٰذا اس کا قیام بڑی مساجد ہی میں مناسب ہے اس لیے کہ بلا ضرورت ومصلحت سب مساجد میں جمعہ کا قیام مناسب نہیں۔ آپ کی بستی کے محلے کی مسجد وں میں جمعہ کا قیام اگر بر بنائے کوئی ضرورت اور مصلحت بھی نہیں ہے تو بلا وجہ ہر محلے کی مسجدوں میں جمعہ کا قیام مناسب معلوم نہیں ہوتا، اس سے احتراز ہی بہتر ہے۔’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذھب، وعلیہ الفتوی، شرح المجمع للعینی وإمامۃ فتح القدیر دفعاً للحرج‘‘(۱)’’(قولہ: مطلقاً) أي سواء کان المصر کبیراً أو لا، وسواء فصل بین جانبیہ نہر کبیر کبغداد أو لا، وسواء قطع الجسر أو بقي متصلاً، وسواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر، ہکذا یفاد من الفتح، ومقتضاہ أنہ لا یلزم أن یکون التعدد بقدر الحاجۃ کما یدل علیہ کلام السرخسي الآتي، قولہ: (علی المذہب) فقد ذکر الإمام السرخسي أن الصحیح من مذہب أبي حنیفۃ جواز إقامتہا في مصر واحد في مسجدین وأکثر، بہ نأخذ لإطلاق: ’’لاجمعۃ إلا في مصر‘‘ شرط المصر فقط، وبما ذکرنا اندفع ما في البدائع من أن ظاہر الروایۃ جوازہا في موضعین، لا في أکثر، وعلیہ الاعتماد۔ اھـ۔ فإن المذہب الجواز مطلقاً، بحر‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 97

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب واللہ الموفق: شریعت کا مقصد نماز جمعہ سے اجتماعیت کا اظہار ہے، اسی لیے شہر کی ایک مسجد میں جمع ہو کر جمعہ پڑھنے کا حکم دیا لیکن جب آبادی بڑھ گئی اور ایک مسجد میں تمام لوگوں کا نماز پڑھنا ممکن نہ رہا تو حضرات فقہاء نے دیگر مساجد میں بھی نماز پڑھنے کی اجازت دے دی، اس لیے جس جگہ جمعہ کے شرائط پائے جاتے ہوں وہاں متعدد مساجد میں جمعہ کی نماز درست ہے، لیکن اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ جن مساجد میں ضرورت ہو انہی میں جمعہ قائم کیا جائے، اس لیے مولانا گلفام کی سرپرستی میں جو مٹنگ ہوئی وہ درست ہے اس کا لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے۔آپ کی مسجد کے قریب میں ہی اگر کہیں جمعہ کی نماز ہو رہی ہو تو بہتر ہے کہ قریب کی مسجد میںسب لوگ مل کر جمعہ پڑھ لیں تاہم اس مسجد میں بھی جمعہ پڑھنا درست ہے۔’’وتؤدی الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتودی في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … و سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لاباس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۱) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: جی ہاں جمعہ کی نماز میں خواتین بھی شامل ہوسکتی ہیں؛ لیکن چوں کہ گھروں میں نماز کی صورت میں جمعہ میں دوسرے حضرات بھی شامل ہو سکتے ہیں؛ اس لیے  عورتوں کو پردہ سے شامل ہونا چاہیے۔ عورتوں پر جمعہ نہیں ہے؛ لیکن اگر جمعہ میں شریک ہوجائیں تو جمعہ درست ہوجائے گا جس طرح کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر مسافر کسی مسجد میں جاکر جمعہ  پڑھ لے تو اس کی جمعہ کی نماز درست ہوجاتی ہے۔(۱)(۱) قولہ: (وأقلہا ثلاثۃ رجال) … واحترز بالرجال عن النساء والصبیان؛ فإن الجمعۃ لا تصح بہم وحدہم لعدم صلاحیتہم للإمامۃ فیہا۔ بحال، بحر عن المحیط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب قال اللہ تعالیٰ: أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۴)(وفاقدہا) أي ہذہ الشروط أو بعضہا (إن) اختار العزیمۃ و (صلاہا وہو مکلف) بالغ عاقل (وقعت)، فرضا) عن الوقت لئلا یعود علی موضوعہ بالنقض وفي البحر: ہي أفضل، إلا للمرأۃ ……، قولہ: (وفي البحر إلخ) أخذہ في البحر من ظاہر قولہم: إن الظہر لہم رخصۃ، فدل علی أن الجمعۃ عزیمۃ، وہي أفضل، إلا للمرأۃ لأن صلاتہا في بیتہا أفضل وأقرہ في النہر، ومقتضی التعلیل أنہ لو کان بیتہا لصیق جدار المسجد بلا مانع من صحۃ الاقتداء تکون أفضل لہا أیضاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۹، ۳۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 94

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: جماعت کا جو وقت مقرر کر لیا جائے اس سے تاخیر کرنا یقینا نمازیوں کے لیے تکلیف دہ ہوگا، اور امام کے لیے مقتدیوں کو تکلیف دینا درست نہیں حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘(۲)کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کے کسی عمل سے دوسروں کو اذیت نہ ہو، البتہ اگر سبھی مقتدی وعظ وتذکیر کے لئے اس تاخیر قلیل پر راضی ہوں، تو پھر کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس رضامندی کا اظہار ان کی جانب سے ہو جائے خود اپنی طرف سے ان کی رضامندی بھی سمجھنا درست نہیں ہے۔(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ‘‘: ج ۵، ص: ۱۷، رقم: ۲۶۲۷، دار الاشاعت، دیوبند۔قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ ج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًاہ۳۴} (سورۃ الإسراء: ۳۴)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب علامۃ المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۱۰ ، رقم: ۳۳، یاسر ندیم، دیوبند)

قال الملا علي القاري: إن من وعد ولیس من نیۃ أن یفي فعلیہ الإثم سواء وفي بہ أو لم یف فإنہ من أخلاف المنافقین۔ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأداب: باب الوعد‘‘ مکتبہ فیصل، دیوبند: ج ۹، ص: ۱۰۳، رقم: ۴۸۸۱)عن أبي ہریرۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ، (والمؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم وأموالہم)۔ (أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الإیمان: صفۃ المؤمن‘‘:  دار الاشاعت، دیوبند،ج ۲، ص: ۲۳۰، رقم: ۴۹۹۵)وفي جامع الفصولین بغض عالماً أو فقیہاً بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (محمود بن إسرائیل، جامع الفصولین، الباب الثامن والثلاثون في مسائل کلمات الکفر‘‘:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ج ۲، ص: ۳۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 93

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: بشرط صحت سوال اگر جنگل فناء شہر میں ہے تو جمعہ کی نماز  درست ہے۔(۱)(۱)  شرط أدائہا أیضاً (الإذن العام) من الإمام حتی لو غلق بابہ وصلی باتباعہ لا تجوز۔ (النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰، مکتبہ زکریا دیوبند)ومنہا: الإذن العام، وہو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ، حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسہم وجمعوا لم یجز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 92

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: خطبہ وجماعت کرنا درست ہے، البتہ اذن عام وغیرہ  شرائط کا ہونا بھی ضروری ہے مسجد ہونا شرط نہیںہے اور مسافر جس جگہ پر ہیں اگر وہاں جمعہ ہوتا ہو، تو وہاں مسافر بھی جمعہ کی جماعت کر سکتے ہیں۔(۱)(۱) وفي الفتویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قری، وفیہا والٍ وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (حلبي کبیري، ’’فصل: في صلاۃ الجمعۃ، مطلب: في أصح الحدود للمصر‘‘: ج ۳، ص: ۹۷، ۹۸)(و) السادس: (الجماعۃ) وأقلہا ثلاثۃ رجال (ولو غیر الثلاثۃ الذین حضروا) الخطبۃ (سوی الإمام) بالنص؛ لأنہ لا بد من الذاکر وہو الخطیب، وثلاثۃ سواہ بنص {فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ} (الجمعۃ: ۹) (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب: قال اللہ تعالیٰ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۴)ومنہا: الإذن العام: وہو أن تفتح أبواب الجامع فیؤذن للناس کافۃ، حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسہم وجمعوا لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فإن فتح باب الدار وأذن إذنا عاما جازت صلاتہ، شہدہا العامۃ أو لم یشہدوہا، کذا في المحیط ویکرہ، کذا في التتارخانیۃ وإن لم یفتح باب الدار وأجلس البوابین علیہا لم تجز لہم الجمعۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: اس صورت میں نماز جمعہ مکان میں درست ہے؛ لیکن عام اجازت ہونا شرط ہے، نیز جو اختلاف ہو رہا ہے دیندار دانشوران کو شریک کر کے باہمی مشورے سے جلد از جد اس کو دور کیا جانا لازم ہے۔(۱)(۱) وفي الفتاویٰ الغیاثیۃ: لو صلی الجمعۃ في قریۃ بغیر مسجد جامع والقریۃ کبیرۃ لہا قری، وفیہا والٍ وحاکم جازت الجمعۃ بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلی في فناء المصر۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’فصل: في صلاۃ الجمعۃ، مطلب: في أصح الحدود للمصر‘‘: ج ۳، ص: ۹۷، ۹۸)(و) السادس: (الجماعۃ) وأقلہا ثلاثۃ رجال (ولو غیر الثلاثۃ الذین حضروا) الخطبۃ (سوی الإمام) بالنص؛ لأنہ لا بد من الذاکر وہو الخطیب وثلاثۃ سواہ بنص {فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ} (الجمعۃ: ۹) (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب: قال اللہ تعالیٰ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۴)ومنہا: الإذن العام: وہو أن تفتح أبواب الجامع، فیؤذن للناس کافۃ، حتی أن جماعۃ لو اجتمعوا في الجامع وأغلقوا أبواب المسجد علی أنفسہم وجمعوا لم یجز، وکذلک السلطان إذا أراد أن یجمع بحشمہ في دارہ، فإن فتح باب الدار وأذن إذنا عاما جازت صلاتہ، شہدہا العامۃ أو لم یشہدوہا، کذا في المحیط ویکرہ، کذا في التتارخانیۃ، وإن لم یفتح باب الدار وأجلس البوابین علیہا لم تجز لہم الجمعۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: جس جگہ پر شرعاً نماز جمعہ واجب ہے وہاں پراگر کچھ لوگوں کی نماز جمعہ چھوٹ جائے اور وہ حضرات کسی بھی جگہ پر یا میدان میں یا کسی دوسری مسجد میں نماز جمعہ مع خطبہ وجماعت کے ادا کر لیں، تو ان سب کی نمازجمعہ صحیح اور درست ہوگی۔(۱)(۱) (أو فناؤہ) بکسر الفاء (وہو ما) حولہ (اتصل بہ) أولا کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ) کدفن الموتی ورکض الخیل، والمختار للفتوی تقدیرہ بفرسخ۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷)کما یجوز أداء الجمعۃ في المصر، یجوز أدائہا في فناء المصر، وہو الموضع المعد لمصالح المصر متصلاً بالمصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 89