Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے۔ علامہ شامی نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں۔جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہوں؛ لیکن اگر شہر کی تمام مساجد میں بھی گنجائش نہ رہے تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے؛ لیکن مسجد میں جماعت ثانیہ سے احتراز کیا جائے۔ ہاں اگر مساجد کی کمی ہو اور دوسری جگہ بھی جمعہ قائم کرنا ممکن نہ ہو اور تمام لوگ ایک ساتھ مسجد میں نہ سماتے ہوں تو ایسی صورت میں جمعہ ثانیہ کی گنجائش ہوگی۔’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘(۱)’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام، وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح قولہ: (إلا الجامع) أي الذي تقام فیہ الجمعۃ، فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري، والظاہر أنہ یغلق أیضاً بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال: إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجیء إلیہ، وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا؛ لکن لا داعي إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر، ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۲)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۱)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۔(۱) ’’أیضاً‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۲) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 83
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نے جو دوری ذکر کی ہے وہ بہت زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی سڑک پار کرنااور گلی پار کرنا کوئی معقول عذر ہے، اس لیے جمعہ کی اجتماعیت کے پیش نظر بہتر ہے کہ لاک ڈاؤن کے عذر کی بنا پر جو جمعہ دوسری مسجدوں میں قائم کیا گیا تھا وہ بند کر دیا جائے اس لیے کہ ایک مرتبہ جمعہ قائم ہونے کے بعد بند کرنے میں حرج نہیں ہے۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 82
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جامع مسجد میں بھی تمام لوگوں کی گنجائش نہ ہو تو شہر میں متعدد مساجد میں نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے اس لیے مذکورہ صورت میں نئی تعمیر شدہ مسجد میں ضرورتاً جمعہ کی نماز قائم کی جاسکتی ہے۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت کا مقصد جمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے؛ اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے؛ لیکن اگر جامع مسجد میں بھی تمام لوگوں کی گنجائش نہ ہو، تو شہر میں متعدد مساجد میں نماز جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہے۔ جہاں پر جمعہ کے شرائط پائے جاتے ہوں وہاں پر متعدد مسجدوں میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے؛ لیکن اگر ایک جگہ سارے لوگ پڑھ سکتے ہیں، تو دوسری جگہ جمعہ قائم کرنا بہتر نہیں ہے۔ اگر لاک ڈاؤن کی عذر کی وجہ سے چھوٹی مسجدوں میں جمعہ قائم کیا گیا تھا، تو بہتر یہ ہے کہ عذر کے ختم ہونے کے بعد صرف جامع مسجد میں جمعہ قائم رکھا جائے اور دوسری مسجدوں میں جمعہ بند کردیا جائے۔ ایک مرتبہ جمعہ قائم ہونے کے بعد بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اجتماعیت جو کہ جمعہ کے اہم مقاصد میں سے ہے اس کے اظہارکے لیے بند کرنا بہتر ہے، تاہم اگر ضرورت کے پیش نظر جمعہ پڑھا گیا تو جمعہ ادا ہو جائے گا۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۱)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا … سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۲)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند أبي حنیفۃ و محمد یجوز‘‘(۳)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔(۳) ابن العلاء الأنصاري، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون: في صلاۃ الجمعۃ، النوع الثاني: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاہر الروایات المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۳)فأما إذا لم یکن إمام بسبب الفتنۃ أو بسبب الموت ولم یحضر والٍ آخر بعد حتی حضرت الجمعۃ، ذکر الکرخي أنہ لابأس أن یجمع الناس علی رجل حتی یصلي بہم الجمعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائط، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 79
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قیام جمعہ کی شرائط اس بستی میں پائی جاتی ہیں تو اس نئی مسجد میں جمعہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیںاگرچہ پہلی مسجد کا صحن خالی رہ جائے۔(۱)(۱) (وتودي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، وعلیہ الفتویٰ شرح المجمع للعیني وإمامۃ فتح القدیر دفعاً للحرج۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)وتصح إقامۃ الجمعۃ في مواضع کثیرۃ بالمصر وفناء ہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶) وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ، وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ، وہو الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر فی صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 78
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ چھوٹی مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت نہیں ہوتی اور اس کے قریب بڑی مسجد ہے جس میں نماز جمعہ ہوتی ہے چھوٹی مسجد میں اس سے پہلے مسلمانوں نے نماز جمعہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی سب لوگ بڑی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اس لیے اگر اس چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی جائے تو شرعاً جمعہ کا جو مقصد ہے اور جو اس کی شان ہے اس کا فوت ہونا لازم آئے گا اس لیے اس چھوٹی مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا شرعاً درست نہیں ہے، تاہم اس میں جمعہ پڑھا تو ادا ہو جائے گا۔(۱)(۱) (وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، … وعلیہ الفتویٰ شرح المجمع للعیني وإمامۃ فتح القدیر دفعاً للحرج۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)قولہ: (مطلقاً) … و مقتضاہ أنہ لا یلزم أن یکون التعدد بقدر الحاجۃ کما یدل علیہ کلام السرخسي الآتي قولہ: (علی المذہب) فقد ذکر الإمام السرخسي أن الصحیح من مذہب أبي حنیفۃ جواز إقامتہا في مصر واحد في مسجدین وأکثر، وبہ نأخذ لإطلاق ’’لا جمعۃ إلا في مصر‘‘ شرط المصر فقط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في جواز استنابۃ الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶)وتصح إقامۃ الجمعۃ في مواضع کثیرۃ بالمصر وفناء ہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز جمعہ کے لیے شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ان شرائط میں سے ایک شرط شہر یا قصبہ کا ہونا ہے قریہ صغیرہ یعنی چھوٹی بستی جہاں ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب نہ ہو وہاں جمعہ قائم کرنا درست نہیں ہے اگر جمعہ قائم کردیا گیا ہے تو لوگوں کو سمجھا کر بند کرانے کی کوشش کی جائے لیکن اگر لوگ بند کرنے پر آمادہ نہ ہوں یا فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو پھر اس صورت میں جمعہ کو جاری رہنے دیا جائے۔ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایسی صورت میں جمعہ جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔ کفایت المفتی میں ہے:اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں۔(۱)’’وعبارۃ القستاني: تقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق، وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لاتجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کما في المضمرات‘‘(۲)(۱) مفتی کفایت اللہ، کفایت المفتی، ’’کتاب الصلاۃ: پانچواں باب‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۷۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے، جمعہ کی فرضیت مکہ میں ہو چکی تھی لیکن آپ نے وہاں جمعہ قائم نہیں کیا پھر ہجرت کے موقع پر آپ نے چودہ دن قبا میں قیام فرمایا جو کہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا جمعہ کی فرضیت ہوچکی تھی لیکن آپ نے قبا میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کی، بلکہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں جمعہ قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مدینہ سے باہر بہت سی بستیوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور بہت سے علاقے فتح ہوگئے تھے، پھر بھی وہاں جمعہ قائم نہیں کیا گیا، جب کہ وہاں کے لوگ مدینہ میں حاضر ہوکر جمعے میں شریک نہیں ہوسکتے تھے؛ یہاں تک کہ ’’جواثیٰ‘‘ کے لوگوں (یعنی وفدِ عبد القیس) نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر بخوشی اسلام قبول کیا اور واپس اپنے علاقے میں جاکر سنہ ۷؍ ہجری میں ’’جواثیٰ‘‘ (جو اس وقت بہت بڑا قصبہ اور مرکزی حیثیت رکھتا تھا) میں جمعہ قائم کیا اور مدینہ کے بعد یہ پہلی جگہ تھی جہاں جمعہ قائم کیا گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ہونا شرط ہے۔’’جمع أہل المدینۃ قبل أن یقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقبل أن تنزل الجمعۃ وہم الذین سموہا الجمعۃ، فقالت الأنصار للیہود: یوم یجتمعون فیہ کل سبعۃ أیام، وللنصاری أیضا مثل ذلک، فہلم فلنجعل یوما نجتمع ونذکر اللہ ونصلی ونشکرہ فیہ، أو کما قالوا: فقالوا: یوم السبت للیہود، ویوم الأحد للنصاري، فاجعلوہ یوم العروبۃ، وکانوا یسمون یوم الجمعۃ یوم العروبۃ، فاجتمعوا إلی أسعد بن زرارۃ فصلی بہم، یومئذ وذکرہم فسموہ الجمعۃ، حتی اجتمعوا إلیہ‘‘(۱)(۱) أخرجہ عبدالرزاق في مصنفہ، ’’باب أول من جمع‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۹، رقم: ۵۱۴۴۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 75
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نابینا پر جمعہ کی فرضیت میں اختلاف ہے، حضرت امام ابوحنیفہ کے یہاں نابینا پر جمعہ فرض نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک اگر کوئی نابینا کو مسجد تک لے جانے والا موجود ہو تو نابینا پر جمعہ کی نماز فرض ہے۔’’و السادس سلامۃ العینین فلا تجب علی أعمی عند أبي حنیفۃ خلافا لہما إذا وجد قائدا یوصلہ وہي مسألۃ القادر بقدرۃ الغیر‘‘(۲)نابینا شخص چوں کہ پاکی کا بہت زیادہ اہتمام نہیں کر پاتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ ہے لیکن اگر وہ سب سے ا فضل ہے اور طہارت کا اہتمام بھی کرتاہے تو اس کی امامت مکروہ نہیں ہے اور جمعہ کی امامت کا بھی یہی حکم ہے۔’’وکرہ إمامۃ العبد إن لم یکن عالما تقیا والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس وإن لم یوجد أفضل منہ فلا کراہۃ‘‘(۱)(۲) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۵۔(۱) أیضاً: ’’فصل بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 74
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب واللہ الموفق: جمعہ شہر، قصبہ اور فناء شہر میں قائم کیا جاسکتا ہے، اگر مدرسہ غیر مسلم بستی سے صرف سو میٹر کے فا صلے پر ہے اور اُس بستی میں شرائط جمعہ موجود ہیں یعنی وہاں کی آبادی تین ہزارکے آس پاس ہے تومذکورہ مدرسہ میں جمعہ قائم کیا جاسکتاہے اس لیے کہ وہ فناء شہر اور اس کے مضافات کے حکم میں ہے۔’’(فناؤہ) بکسر الفاء (وہو ما) حولہ (اتصل بہ) أولا، کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ) کدفن الموتی ورکض الخیل، والمختار للفتوی تقدیرہ بفرسخ، ذکرہ الولوالجی‘‘(۱)’’(لاتصح الجمعۃ إلا في مصر جامع، أو في مصلی المصر، و لاتجوز في القری)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا جمعۃ و لا تشریق و لا فطر و لا أضحی إلا في مصر جامع و المصر الجامع: کل موضع لہ أمیر و قاض ینفذ الأحکام ویقیم الحدود، و ہذا عند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ، و عنہ أنہم إذا اجتمعوا في أکبر مساجدہم لم یسعہم، و الأول اختیار الکرخي و ہو الظاہر، و الثاني اختیار الثلجی، و الحکم غیر مقصور علی المصلي؛ بل تجوز في جمیع أفنیۃ المصر؛ لأنہا بمنزلتہ في حوائج أہلہ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷۔(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷ تا ۵۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 73