Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: غیر شرعی وضع اختیار کرنا، داڑھی کٹوانا، گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص فاسق ہے، (۱) جس سے اجتناب ضروری ہے، تاہم ایسے شخص کی امامت کراہت ِ تحریمی کے ساتھ درست ہے۔(۲)
(۱) انہکوا الشوارب وأعفوا اللحي۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب إعفاء اللحي‘‘: ج ۴، ص: ۱۴۵، رقم : ۵۸۹۳)
(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص195
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:شریعت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے ارشاد خداوندی ہے۔ وارکعو مع الراکعین(۱)۔ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو یعنی جماعت سے نماز ادا کرو بغیر کسی شرعی عذر کے امام کے بارے میں کینہ کپٹ رکھنا اور اس کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں نفرت دلانے کی ناکام کوشش کرنا اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا۔ یہ جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صلو خلف کل بر وفاجر‘‘ اور صاحب بدائع الصنائع نے تو جماعت سے نماز کو واجب فرمایا ہے ’’فالجماعۃ إنما تجب علی الرجل العاقلین الاحرار القادرین علیہا من غیر حرج‘‘ (۲) نماز باجماعت کے وجوب پر صاحب کبیری نے بہت سارے دلائل نقلیہ پیش کئے ہیں، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ نماز باجماعت عظیم الشان اسلامی شعار ہے اور دین اسلامی کی بڑی علامات میں سے ہے ترک جماعت کی عادت بنالینے والا سخت گنہگار اور فاسق اور مردود الشہادۃ ہے،(۳) اگر کسی جگہ کے مسلمان اپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر اکتفاء کریں جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں تو ان سے بذریعہ اسلحہ جہاد کرنا واجب ہے۔ گفتگو کا حاصل یہ نکلا کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اگر کسی شرعی عذر کے بغیر جماعت ترک کرے گا تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر بغیر عذر کے چھوڑ نے والا سخت گنہگار ہوگا خدائے پاک ہر مسلمان کو باجماعت نماز کی توفیق عطا فرمائے۔
(۱) سورۃ البقرہ: رکوع ۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴، زکریا دیوبند۔
(۳) إن تارکہا من غیر عذر یعزر و ترد شہادتہ ویأثم الجیران بالسکوت عنہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۴۳۹، دارالکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص390
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شیعہ حضرات کی چوںکہ بہت سی اقسام ہیں؛ اس لیے ان کو مطلقاً خارج اسلام قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ ان کے عقائد کفریہ نہ ہوں تب تک ان کو مسلمان ہی کہا جائے گا اور مسلمان جیسا بھی ہو سلام اس کو کیا جائے گا اور ان کی مساجد میں نماز بھی درست ہوگی؛(۱) البتہ ہندؤں کو نمستے نہ کیا جائے؛ بلکہ ایسا لفظ اختیار کر لیا جائے کہ جو ان کے یہاں سلام کے لیے استعمال ہوتا ہو اور ہمارے یہاں مذہبی اعتبار سے غلط نہ ہوتا ہو، جیسا کہ آداب کا جملہ ہے کہ اس سے ان کو سلام کیا جا سکتا ہے۔(۲)
(۲) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۳)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 35
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص اذان کا جواب دے رہا ہو اسے چاہئے کہ مؤذن کی اذان میں ’’أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ‘‘ کہنے پر اتنا ہی جملہ کہے اور اذان پوری ہونے پر دعاء اور درود شریف پڑھے اور جو اذان کا جواب نہیں دے رہا ہے وہ محمد رسول اللہ سن کر درود پڑھے، انگلی چومنے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے اس کو ثواب سمجھ کر اختیار کرنا بدعت ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن عمر وابن العاص أنہ سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علي فإنہ من صلی علی صلوٰۃ صلی
اللّٰہ علیہ بہا عشراً ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ فإنہ منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ وأرجوا أن أکون أنا ہو فمن سأل لی الوسیلۃ حلت علیہ الشفاعۃ‘‘(۲)
’’عن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب عن أبیہ عن جدہ عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہم قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قال المؤذن: أللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، فقال أحدکم: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، ثم قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ: قال: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ: ثم قال أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، قال: أشہد أن محمدا
رسول اللّٰہ، ثم قال: حي علی الصلاۃ قال لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، ثم قال: حي علی الفلاح، قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، ثم قال اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، قال: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، ثم قال: لا إلہ إلا اللّٰہ، قال: لا إلہ إلا اللّٰہ، من قلبہ دخل الجنۃ‘‘(۱)
’’بأن یقول بلسانہ کمقالتہ إن سمع المسنون منہ، وہو ما کان عربیا لا لحن فیہ، ولو تکرر أجاب الأول إلا في الحیعلتین فیحوقل وفي الصلاۃ خیر من النوم فیقول: صدقت وبررت۔ ویندب القیام عند سماع الأذان بزازیۃ، ولم یذکر ہل یستمر إلی فراغہ أو یجلس، ولو لم یجبہ حتی فرغ لم أرہ۔ وینبغي تدارکہ إن قصر الفصل، ویدعو عند فراغہ بالوسیلۃ لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (قولہ: ویدعو إلخ) أي بعد أن یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما رواہ مسلم وغیرہ إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی، فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا لي الوسیلۃ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تبتغي إلا لعبد مؤمن من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا ہو، فمن سأل اللّٰہ لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ ‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن …‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم:۳۸۴، مکتبہ: نعیمہ دیوبند۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن …‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم:۲۰۱، مکتبہ نعیمہ دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۷، ۶۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص173
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اور تمام عبادات میں نیت فرض ہے، بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی ہے اور فرض نمازمیں یا جمعہ کی نماز میں فرض کی نیت اور جمعہ کی نیت کرنا فرض ہے اگرکوئی جمعہ میںفرض کی نیت نہیں کرتا ہے یاجمعہ کی نیت نہیں کرتا ہے تو اس کی جمعہ کی نماز نہیں ہوگی؛ لہٰذا زید کی پہلی نماز جمعہ کی نہیں ہوئی؛ بلکہ نیت کے مطابق نفل ہوئی اورجمعہ کی دوسری نمازجو انہوں نے پڑھائی ہے وہ صحیح ہے۔
’’(قولہ النیۃ عندنا شرط مطلقا) أي في کل العبادات باتفاق الأصحاب‘‘(۱)
’’(ولا بد من التعیین عند النیۃ) ۔۔۔۔ وفي الأشباہ: ولا یسقط التعیین بضیق الوقت لأنہ لو شرع فیہ منتقلا صح وإن کان حراماً (قولہ عند النیۃ) أي سواء تقدمت علی الشروع أو قارنتہ، فلو نوی فرضا معینا وشرع فیہ نسي فظنہ تطوعا فأتمہ علی ظنہ فہو علی ما نوی کما في البحر‘‘(۲)
’’مطلق الصلاۃ ینصرف إلی النفل‘‘(۳)
حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے جس سے اس مسئلے پر بھی روشنی پڑتی ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنی قوم میں جاکر عشاء کی نماز پڑھا تے تھے، اس حدیث کی بنا پر حضرات شوافع یہ کہتے ہیں پہلی نماز فرض تھی اور دوسری نماز نفل تھی جب کہ احناف کی رائے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نفل کی نیت سے نماز پڑھتے تھے اورپھر لوگوں کو فرض پڑھا تے تھے۔ علامہ عینیؒ اور علامہ کشمیریؒ نے اسی کوراجح قرار دیا ہے کہ ان کی پہلی نماز نفل تھی۔
’’الثاني: أن النیۃ أمر مبطن لا یطلع علیہ إلا بإخبار الناوی، ومن الجائز أن یکون معاذ کان یجعل صلاتہ معہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بنیۃ النفل لیتعلم سنۃ القراء ۃ ‘‘(۱)
’’حتی انہم اختلفوا في أن أیا من صلاتیہ تقع عن الفریضۃ: فقال بعضہم: إن الفریضۃ تسقط بأولی صلاتیہ۔ وقال آخرون: بل تسقط بأکمل منہما، ولا یحکم علی إحداہما بتا، کما في ’’الموطأ‘‘ عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ لما سئل عن ذلک فوضہ إلی اللّٰہ‘‘(۲)
’’وإذا تقرَّر ہذا، لم یبقَ بیننا وبین الشافعیۃ خلاف في صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ، إلا أنہم قالوا: إن أولی صلاتیہ کانت فریضۃً والأخری نافلۃ، وقلنا بعکسہ۔ وحینئذٍ اعْتَدَلْنَا ککفتی المیزان، لا مزیۃ لہم علینا، لأن ما ادعوہ من باب الرجم بالغیب، فمن أین علموا أن صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کانت ہي الفریضۃ ولا یعلم حال النیۃ إلا من قبلہ، وما لم یبین ہو بنفسہ، فجعل أولی صلاتیہ فریضۃ تحکم، لم لا یجوز أن تکون تلک نافلۃ والأخری بعکس ما قلتم؟
فإن قلت: إن معاذا رضي اللّٰہ إذا نوی العشاء أول مرۃ علی ما قلتم، وقع عن فریضۃ لا محالۃ۔ قلت: کلا، فإنک قد علمت في مفتتح الکلام أن الفریضۃ تحتاج إلی نیۃ زائدۃ علی أصل الصلاۃ، وہي نیۃ وصف الفرضیۃ، فإنہ یتضمن أمرین: الصلاۃ، وذلک الوصف۔ فإذا أطلق في النیۃ ولم ینو ہذا الوصف، لا تقع إلا نافلۃ، ولعل صلاۃ معاذ رضي اللّٰہ عنہ مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت لإحراز فضیلۃ جماعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وصلاتہ في قومہ کانت لإسقاطہا عن ذمتہ، بل ہو الظاہر علی أصلنا۔ فإنہ کان إمام قومہ، فلا بد أن ینوي صلاۃ یصح اقتداؤہم بہ، وذلک علی ما قلنا۔ ولسنا ندعی أنہ کان یفعل کذلک؛ بل نقول: إنا نتوازن في الفعال حذو المثقال، ولا نرضی بخطۃ عسف‘‘(۱)
یہ مسئلہ اس قبیل سے نہیں ہے کہ نیت نفل کی کرے اور ادا فرض ہوجائے۔ علامہ حمویؒ نے ان مسائل کی جن میں نیت کے برخلاف عبادت کا تحقق ہوتا ہے اس کی فہرست دی ہے اور اس کے حصر کا دعوی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ونقض الحموی الحصر بمسائل ینوی فیہا خلاف ما یؤدي منہا ما لو طاف بنیۃ التطوع في أیام النحر وقع عن الفرض، وما لو صام یوم الشک تطوعاً فظہر أنہ من رمضان کان منہ، وما لو تہجد برکعتین فظہر أن الفجر طالع ینوبان عن سنۃ الفجر۔ وما لو صام عن کفارۃ ظہار أو إفطار فقدر علی العتق یمضي في صوم النفل۔ وما لو نذر صوم یوم بعینہ فصامہ بنیۃ النفل یقع عن النذر کما في جامع التمرتاشی‘‘(۲)
مفتی صاحب کو بظاہر مغالطہ ہواہے،نماز کے مسئلہ کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ رمضان روزہ کے لیے معیار ہے اور روزہ کا پورا وقت روزہ میں ہی مصروف رہتا ہے؛ اس لیے رمضان میں رمضان کے روزہ کے علاوہ کوئی روزہ درست ہی نہیں ہے، رمضان کا روزہ ہی متعین ہے اور متعین کے لیے تعیین کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے نفس روزہ کی نیت سے بھی رمضان کاروزہ ادا ہو جاتا ہے اور نفل کی نیت سے بھی رمضان کا ہی روزہ ادا ہوتا ہے؛ لیکن نماز میں وقت نماز کے لیے ظرف ہے جس میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد بھی وقت بچتا ہے؛ اس لیے یہاں پر فرض کی نیت کے ساتھ تعیین کی بھی ضرورت ہوتی ہے حتی کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر وقت میں تنگی ہو اور صرف فرض ادا ہو سکتا ہو اس وقت میں بھی اگر کسی نے نفل کی نیت کرلی، تو اس کی نفل نماز درست ہوجائے گی ،اگرچہ اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں ہے معلوم ہوا کہ نماز کو رمضان پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔
’’(قولہ: وبمطلق النیۃ) أي من غیر تقیید بوصف الفرض أو الواجب أو السنۃ لأن رمضان معیار لم یشرع فیہ صوم آخر فکان متعینا للفرض والمتعین لا یحتاج إلی التعیین والنذر المعین معتبر بإیجاب اللّٰہ تعالی فیصام کل بمطلق النیۃ إمداد‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب‘‘: ج ۲، ص: ۹۵،
(۳) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۰۔
(۱) بدرالدین عیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۶، دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۲) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵، شیخ الہند، دیوبند۔
(۱) الکشمیري، فیض الباري، کتاب الصلاۃ: باب إذا طول الإمام وکان للرجل حاجۃ فخرج فصلیٰ‘‘ج ۲، ص: ۲۸۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، فر وع في النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۱، ۱۲۲۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۱، ۳۴۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص295
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آہستہ اور پست آواز سے دعا مانگنا افضل ہے(۱) مقتدی دعا یا دکرلیں یا دعائیہ جملہ ختم ہونے پر مقتدی آمین کہ سکیں اس غرض سے ذرا آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) وہ بھی اس شرط سے کہ نمازیوں کا حرج نہ ہو؛ ورنہ تو اس طرح دعا مانگنا کہ نمازیوں کو تشویش ہو ان کی نماز میں خلل واقع ہو اس طرح دعا مانگنا جائز نہیں ہے، اس سے امام بھی گناہگار ہوگا جو لوگ امام کو اس طرح دعاء مانگنے پر مجبور کریں گے وہ بھی گناہگار ہوں۔(۳)
(۱) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ، قال الحسن: بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ بداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس إربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالیٰ {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۲) إذا دعانا بالدعاء المأثور جہراً ومعہ القوم أیضاً لیتعلموا الدعاء لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۳)
(۳) {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ إنہ لایحب المعتدین} (سورۃ الاعراف: ۵۵)، تضرعا یعني ادعوا ربکم تذللا واستکانۃ، وہو إظہار الذل في النفس والخشوع، یقال: ضرع فلان لفلان إذا أذل لہ وخشع، وقال الزجاج: تضرعا یعني تملقا وحقیقتہ أن ندعوہ خاضعین خاشعین متعبدین بالدعاء لہ تعالی وخفیۃ یعني سرا في أنفسکم وہو ضد العلانیۃ والأدب في الدعاء أن یکون خفیا لہذہ الآیۃ قال الحسن بین دعوۃ السرودعوۃ العلانیۃ سبعون ضعفا ولقد کان المسلمون یجتہدون في الدعاء ولا یسمع لہم صوت إن کان إلا ہمسا بینہم وبین ربہم وذلک أنہ تعالیٰ یقول: ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ وأن اللّٰہ تعالیٰ ذکر عبدا صالحا رضي فعلہ فقال تعالیٰ: إذ نادی ربہ نداء خفیا (ق) وعن أبي موسی الأشعري رضي اللّٰہ عنہ قال: کنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فجعل الناس یجہرون بالتکبیر فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیہا الناس أربعوا علی أنفسکم إنکم لاتدعون أصم ولا غائبا، إنکم تدعون سمیعا بصیرا وہو معکم والذي تدعونہ أقرب إلی أحدکم من عنق راحلتہ۔ (تفسیر الخازن، سورۃ الأعراف، ۵۵، ج ۲، ص: ۲۱۰)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص441
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اولاً فرض نماز کے بعد دو سنت پڑھے اور پھر چار سنت ادا کرے۔(۲)
(۲) رجح في الفتح تقدیم الرکعتین۔ قال في الإمداد: وفي فتاویٰ العتابي أنہ المختار۔ وفي مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح، لحدیث عائشۃ: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان قال الترمذي: حسن غریب، فتح (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص362
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر وہ جگہ مذکورہ شخص سے قریب ہے تو خود یا بذریعہ خط وغیرہ اہل مسجد کو مطلع کر دیا جائے کہ فلاں روز کی نماز کسی وجہ سے درست نہیں ہوئی،(۱) اس روز جو حضرات جماعت میں شریک تھے اپنی اپنی نماز لوٹا لیں، یہ بات نماز وجماعت کے اس وقت بتا دی جائے کہ جس میں زیادہ نمازی آتے ہوں اور امام جس نے نماز پرھائی اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
(۱) ولنا قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الإمام ضامن معناہ تتضمن صلاتہ صلاۃ القوم وتضمین الشيء فیما ہو فوقہ یجوز وفیہا ہو دونہ لا یجوز وہو المعنیٰ في الفرق فإن الفرض یشتمل علی أہل الصلاۃ فإذا کان الإمام مفترضاً فصلاتہ تشتمل علی صلاۃ المقتدي وزیادۃ فصح اقتداء ہ بہ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلوۃ، باب أذان العبد والأعمی وولد الزنا والأعرابي‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص40
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہونچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کرے وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔
’’إن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤ مکم خیار کم فإنھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبراني وفي روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے کہ: تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیوں کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے۔
فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے:
’’فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجھا ثم للأشرف نسباًثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوباً‘‘(۲)
الحاصل: امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جودین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو اگر سرکاری ٹیچر دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور ان سے کوئی بہتر نہ ہو تو ان کی امامت اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز درست ہے، نیز امام صاحب ٹیچر کی ذمہ داریاں پوری کر کے تنخواہ لے رہے ہیں اس لیے ان کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز بلا کراہت درست ہے۔
’’قال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللّٰہ تعالی: اختلف الناس في أخذ الجائزۃ من السلطان، قال بعضہم: یجوز ما لم یعلم أنہ یعطیہ من حرام، قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی: وبہ نأخذ ما لم نعرف شیئا حراما بعینہ، وہو قوْل أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وأصحابہ کذا في الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وفي شرح حیل الخصاف لشمس الأئمۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن الشیخ أبا القاسم الحکیم کان یأخذ جائزۃ السلطان وکان یستقرض لجمیع حوائجہ وما یأخذ من الجائزۃ یقضی بہا دیونہ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الحاکم، في المستدرک علی الصحیحین: ج ۳، ص: ۲۲۲، رقم: ۷۷۷۔
(۲) الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۸۳، ۸۴۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۲۔
(۲) أیضاً۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص65
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: کوئی مسائل کا جاننے والا نیک اور باشرع آدمی امام بنالیا جائے، ایسا شخص جو سٹہ لگاتا ہے یا لگواتا ہو وہ فاسق ہے اس کی امامت صحیح نہیں ہے۔(۱)
(۱) کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃ: خروج عن الاستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد۔ وشرعا: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ (فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ، تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ،، باب الإمامۃ‘‘: ص:۳۰۳)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ، فإنہ لایؤمن أن یصلي بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (أیضاً: ج۲، ص: ۲۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص196