Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حتی الامکان جماعت سے نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاہم اگر واقعی عذر ہو، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو ترک جماعت پر انشاء اللہ مواخذہ نہ ہوگا۔(۱)
(۱) عن ابن عباس -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالوا: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض،… لم تقبل الصلاۃ التي صلی۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۵۱)
قید لکونہا سنۃ مؤکدۃ أو واجبۃ فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص في ترکہا الخ ونقل عن الحلبي: أن الوجوب عند عدم الحرج وفي تتبعہا في الأماکن القاصیۃ حرج لایخفی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۱، زکریا)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص391
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بے شک ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سونے کی بنا پر قضا ہوگئی تھی؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں اور مخلوق ہیں خالق نہیں ہیں اور نیند نہ آنا خدا ہی کی صفت ہے {لا تأخذہ سنۃ ولا نوم}(۱) پس مذکورہ واقعہ سے ذرہ برابر شان نبوت پر حرف نہیں آتا؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ کوئی سستی یا غفلت یا بے پرواہی نہیں کی تھی۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہؓ کے ہمراہ سفر میں تھے اخیر رات میں ایک منزل پر قیام فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ ؓسے فرمایا کہ ہم کو بیدار کرنے کی ذمہ داری کون لیتا ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیدار کرنے کا ذمہ دار بنا کر تھوڑی دیر آرام کی غرض سے لیٹ گئے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بیدار رہنے کی کوشش کی، مگر ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور نتیجۃً سب کی نماز قضا ہو گئی، اس واقعہ میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں۔ قضاء نماز کی ادائیگی کا مسئلہ امت کے لیے اور اس کے ادا کرنے کا طریقہ اور اس کا عملی نمونہ امت کے سامنے پیش کرنا تھا، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز قضا فرمائی اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ’’یاأیہا الناس إن اللّٰہ قبض أرواحنا، ولو شاء لردہا إلینا في حین غیر ہذا‘‘ اور فرمایا(۱) کہ جب کسی کی نماز چھوٹ جائے تو سوکر اٹھتے ہی اور یاد آتے ہی فوراً نماز ادا کرے۔
(۱) سورۃ البقرہ: ۲۵۵۔
(۱) أخرجہ المالک، في الموطأ ’’کتاب الصلاۃ، باب النوم عن الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴، رقم: ۲۶۔
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، … قال من نسي الصلوٰۃ فلیصلہا إذا ذکرہا فإن اللّٰہ تعالیٰ قال: أقم الصلوٰۃ لذکري، رواہ مسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: قضاء الصلوٰۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸، رقم: ۶۸۰)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 36
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک نہیں پہنچتی تو بہتر ہے کہ اذان دی جائے۔(۱)
(۱)ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ، کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما، ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط، ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص175
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی نیت کرکے زبان سے ’’اللّٰہ أکبر‘‘ پڑھتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اس طرح کہ انگوٹے کانوں کی لو سے مل جائیں یا برابر ہوجائیں پھر ہاتھ باندھ لے۔(۲)
(۲) (وکیفیتہا) إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبیین، ولا یطأطیٔ رأسہ عند التکبیر، کذا في الخلاصۃ، قال الفقیہ أبوجعفر: یستقبل ببطون کفیہ القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما فإذا استقرتا في موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین یکبر، قال شمس الأئمۃ السرخسي، علیہ عامۃ المشایخ، کذا في المحیط، والرفع قبل التکبیر ہو الأصح، ہکذا في الہدایۃ وہکذا تکبیرات القنوت وصلاۃ العیدین ولا یرفعہا في تکبیرۃ سواہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وأدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
والأصح أنہ یرفع یدیہ أولا ثم یکبر لأن فعلہ نفي الکبریاء عن غیر اللّٰہ والنفي مقدم علی الإثبات۔ (ویرفع یدیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ) وعند الشافي رحمہ اللّٰہ: یرفع إلی منکبیہ، وعلی ہذا تکبیرۃ القنوت والأعیاد والجنازۃ، لہ حدیث أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ إلی منکبیہ، ولنا روایۃ وائل بن حجر والبراء وأنس رضي اللّٰہ عنہم، أن النبي علی الصلاۃ والسلام کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵،۲۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص298
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نمازوں میں جو جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں ان میں افضل یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا بالسر کی جائے(۱) دعاء بالجہر نہ کی جائے اور کبھی اتفاق سے ایسا ہو بھی جائے تو ممانعت نہیں ہے جائز ہے؛ البتہ دعاء بالجہر کو لازم کرلینا بدعت ہے جو قابل ترک ہے اور اس سے مسبوقین کی نماز میں خلل پیدا ہوگا۔
عیدین کی نماز کے بعد دعاء سے فراغت کرلی جائے کہ بعد نماز ہی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء منقول ہے اور بعد خطبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابۂ کرامؓ سے دعاء منقول نہیں ہے۔(۱) لہٰذا ایسا کرنا احداث فی الدین اور بدعت ہوگا جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔(۲)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۱) عن أبي أمامۃ قال: قیل یارسول اللّٰہ أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل ودبر الصلوات المکتوبۃ، رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب التحریض علی قیام اللیل، الفصل الثاني‘‘: ص: ۸۹، رقم:۹۶۸)
عن معاذ بن جبل، رضي اللّٰہ عنہ قال: لقیتُ النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال لي: یا معاذ، إني أحبک، فلا تدع أن تقول في دبر کل صلاۃ: اللّٰہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۸، رقم: ۹۴۹)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص442
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دو رکعت پر سلام پھیردے یا چار رکعت مختصر قرات پڑھ کر سنت پوری کرے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیرے؛ البتہ اگر تیسری رکعت شروع کردی ہو تو چار رکعت اختصار کے ساتھ پوری کرلے۔(۱)
(۱) قال في البحر: وما في الفتح: من أنہ لو خرج وہو في السنۃ یقطع علی رأس رکعتین ضعیف، وعزاہ قاضي خان إلی النوادر قلت: وقدمنا في باب إدراک الفریضۃ ترجیح مافي الفتح أیضا، وأن ہذا کلہ حیث لم یقم إلی الثالثۃ، وإلا فإن قیدہا بسجدۃ أثم وإلا فقیل: یتم، وقیل: یقعد ویسلم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج ۳، ص: ۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص363
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/871
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) نماز درست ہوجائے گی۔ (2) نماز درست نہیں، اگر اس طرح نماز پڑھ لی تو اعادہ واجب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2198/44-2324
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس شخص کی داڑھی نہ نکلی ہو اور بالغ ہوگیا ہو تو اس کو امام بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، مستقل امامت کے لئے بھی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ البتہ اگر فتنہ کا خوف ہے تو کراہت آئیگی۔
شروط الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء:الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار۔“ رد المحتار علی الدر المختار،ج2،ص337،مطبوعہ کوئٹہ)
وكذا تكره خلف أمرد، الظاهر أنها تنزيهية أيضاً: و الظاهر أيضاً كما قال الرحمتي: إن المراد به الصبيح الوجه ؛ لأنه محل الفتنة''. (شامی، باب الإمامة، مطلب في إمامة الأمرد، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے صحیح ہونے کے لیے طہارت ضروری ہے۔ اگر امام صاحب صرف پانی سے طہارت پر اکتفاء کرتے ہیں اور اس سے زائد احتیاط کی ضرورت نہ ہو تو ان کی اقتداء میں بلا شبہ نماز درست ہے، بظاہر اس قسم کا شبہ درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیر کشف العورۃ …یستنجي بالحجر ولا یستنجي بالماء، والأفضل أن یجمع بینہما … قیل ہو سنۃ في زماننا وقیل علی الإطلاق وعلیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ثم اعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الإقصار علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل وإن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في الماء القلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص41
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں ان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، سوال میں مذکور امام اگر جائز تعویذات کا کام کرتے ہیں اور غیر محرم عورتوں سے پردہ بھی کرتے ہیں اور دیگر اوصافِ امامت سے متصف ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اگر ناجائز تعویذات جن میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جاتے ہیں اور امام صاحب غیر محرم عورتوں سے پردہ نہیں کرتے تو ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے امام صاحب کو چاہیے کہ متہم ہونے سے بچیں اور اپنے کردار پر خاص توجہ دیں اس لیے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس اور بابرکت ہے جو تقویٰ طہارت اور اعلیٰ اخلاقی رویہ کا تقاضا کرتا ہے وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان سب چیزوں سے بچنا چاہئے جو عوام میں بحث کا موضوع بنتا ہو، تاہم ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز درست ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عوف بن مالک الأشجعي، قال: کنا نرقي في الجاہلیۃ، فقلنا: یا رسول اللّٰہ کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا علی رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدري أن رہطاً من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم انطلقوا في سفر سافروہا، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضہم: إن سیدنا لدغ، فہل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، واللہ إني لأرقی، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا لہ قطیعاً من الشاء، فأتاہ، فقرأ علیہ أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاہم جعلہم الذي صالحوہم علیہ، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنستأمرہ، فغدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکروا لہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أین علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسہم‘‘(۱)
’’قال العیني: کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم۔ فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الأئمۃ الأربعۃ، وفیہ جواز أخذ الأجرۃ۔ قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی بہ، انتہی۔ وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ، والأسماء والصفات الربانیۃ، والدعوات المأثورۃ النبویۃ، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذاً أو رقیۃً أو نشرۃً، وأما علی لغۃ العبرانیۃ ونحوہا، فیمتنع؛ لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
’’رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ، لا یکرہ‘‘(۳)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب:باب کیف الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’ کتاب الطب والرقی، الفصل الثانی‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۸۰، رقم: ۴۵۵۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص67