نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ اس نے لوٹ کر اور بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے پھر سلام پھیرا اس کی نماز تراویح دو رکعت ادا ہوگئی۔(۱)(۱) عن أبي بکر الإسکاف أنہ سئل عن رجل قام إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال: إن تذکر في القیام ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد الثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخری کانت ہذہ الأربعۃ عن تسلیمۃ واحدۃ وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد اختلفوا فیہ فعلی قول العامۃ یجوز عن تسلیمتین وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸) أما في النفل إذا قام إلی الثالثۃ من غیر قعدۃ فإنہ یعود ولو استقام قائما ما لم یقیدہا بسجدۃ، کذا في السراج الوہاج … وقیل یعود ما لم یقید ہا بالسجدۃ لأن کل شفع صلاۃ علی حدۃ في حق القراء ۃ فأمرنا بالعود إلی القعدہ احتیاطاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج۲، ص: ۱۷۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 126

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام صاحب روز کتنا قرآن پاک تراویح میں پڑھ رہے ہیں اس اعتبار سے چار پانچ دن پہلے کون سا پارہ پڑھا تھا اور پندرہویں رکعت میں کون سا رکوع تھا اسی حساب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اور اگر اندازہ نہ ہوسکے تو غور کریں اور سوچیں اور جس پارہ اور رکوع پر غلبہ ظن ہو تو اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسی کو اس کی رکعت میں دوبارہ پڑھ لیں۔(۲)(۲) وإذا غلط في القراء ۃ في التراویح فترک سورۃ أو آیۃ وقرأ ما بعدہا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکۃ ثم المقرء وۃ لیکون علی الترتیب وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ، وقال بعضہم: یعید بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 125

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں تراویح کی دو رکعت شمار نہیں ہوں گی اس کو اسی دن دو رکعتیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے، دوسرے دن قضا لازم نہیں البتہ تکمیل قرآن کے لئے  ان رکعات میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ ضروری ہے۔(۱)(۱) وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ وقال بعضہم: یعتد بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)…وأما إذا صلی ثلاثا بتسلیمۃ واحدۃ إن قعدہ علی رأس الرکعتین، یجزیہ عن تسلیمۃ واحدۃ … وإن لم یقعد علی رأس الثانیۃ ساہیاً أو عامداً لا شک إن صلاتہ باطلۃ … وفي الخانیۃ ہو الصحیح۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، رقم: ۲۵۷۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 124

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی شبہ نہ کیا جائے اور اس صورت میں سجدۂ سہو کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے لیے اسی دن یا اگلے دن اس آیت کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔(۱)(۱) وکذا الکلام في الخطأ یذکر کلمۃ أو آیۃ مکان آیۃ إلا أنہ إذا وقف وقفاً تاماً وکان الآیۃ أو الکلمۃ في القرآن لا تفسد ولو کان مما یکفر معتقدہ علی تقدیرہ الوصل لزوال ذلک بالفصل وہذا ملخص قاعدۃ المتقدمین وہو الذي صححہ المحققون من أہل الفتویٰ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۲۵)لو ذکر آیۃ مکان آیۃ إن وقف وقفاً تاما ثم ابتدأ بآیۃ أخریٰ أو ببعض آیۃ لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 123

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: پہلی دو رکعت فاسد ہوگئی، آخری دو رکعت درست ہو گئیں، پہلی دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآن کریم اس دن یا اگلے دن کی تراویح میں لوٹا لیں۔(۱)(۱) سہا عن القعود الأول من الفرض، ولو عملیاً، أما النفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) وتشہد، ولا سہو علیہ في الأصح (مالم یستقم قائماً) في ظاہر المذہب، وہو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض، وصححہ الزیلعي (وقیل: لا) تفسد، لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب (وہو الأشبہ)، کما حققہ الکمال، وہو الحق، بحر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۹)وإن سہا عن العقود الأول وہو إلیہ أقرب عاد وإلا لا ویسجد للسہو وإن سہا عن الأخیر عاد مالم یسجد وسجد للسہو۔ (ابن نجیم، البحرا الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 123

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن پاک سنانے کی ذمہ داری شرعاً امام کی نہیں ہے، اگر وہ ایسا کردے، تو اس کی طرف سے تبرع ہے، البتہ اگر مقتدیوں کو شوق ہے اور جذبہ ہے، تو حافظ کا انتظام الگ سے کریں، اگر بلا اجرت حافظ نہ ملتا ہو، تو حافظ کو بلا کر اس کو نائب امام بنا دیں اور ایک دو وقت کی امامت اس کے ذمہ کر دیں اور اجرت بھی متعین کردیں اور نائب امام بن کر وہ تراویح میںقرآن پاک بھی سنا دیں اس طرح اجرت بھی جائز ہو جائے گی اور مسجد میں رمضان کے مہینہ میں پورا قرآن کا سنانا اور سننا جو کہ سنت ہے، وہ بھی ادا ہو جائے گی، اگر ایسا بھی نہ ہوسکے تو امام ہی الم ترکیف سے تراویح پڑھادے۔(۱)

(۱) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہمفي عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۶) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثاً أفضل۔ (أیضاً، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، محبث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 122

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں قرآن سنانے والے کو سمجھایا جائے اگر وہ صحیح قرآن پڑھنے لگے تو اس سے تراویح پڑھوائی جائے ورنہ کسی دوسرے حافظ سے جو صحیح قرآن پڑھے تراویح پڑھوائی جائے اور اگر کوئی حافظ صحیح قرآن پڑھنے والا نہ ملے تو الم تر کیف سے تراویح پڑھ لی جائے، صحیح قرآن پڑھنے والا سورہ تراویح پڑھائے۔(۱)(۱) إن کان الحذف علی سبیل الإیجاز والترخیم: فإن وجد شرائطہ نحو أن قرأ (ونادوا یٰمٰلک، لاتفسد صلاتہ وإن لم یکن علی وجہ الإیجاز والترخیم، فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري، ومنہا حذف دف‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷) (قولہ: أي نقص حرفا) کما إذا قال فجاء ہم بدل فجاء تہم لم تفسد إلا ان یکون الحرف من أصل الکلمۃ کقولہ في عربیا دیبا أو عریا فتفسد أي إذا غیر المعنی إلا أن یکون آخرا یصح حذفہ ترخیماً نحو یامال في یامالک۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 121

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چندہ دینے والے بخوشی رضامندی کے ساتھ دیں تو درست ہے، لیکن لوگوں کو مجبور کرکے چندہ لینا اور اس سے مٹھائی تقسیم کرنا ناجائز اور حرام ہے۔(۲)(۲) عن علی بن زید عن أبي حرۃ الرقاشي رضی اللّٰہ عنہ عن عمہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ألا! لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ۔ (أخرجہ البیہقي في شعب الإیمان، ’’باب في قبض الید عن الأموال المحرمۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۸۷، رقم: ۵۴۹۲)أطلق أصحاب الاتجاہ الأول البدعۃ علی کل حادث لم یوجد في الکتاب والسنۃ، سواء ا کان في العبادات أم العادات، وسواء ا کان مذموما أم غیرہ مذموم۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’بدعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۲۱، وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ، الکویت)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 119

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر کوئی شخص اجرت طے کرکے قرآن سنائے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کے پیچھے تراویح پڑھے جو اجرت نہ لے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے(۱) لیکن یہ خیال غلط ہے کہ سب ہی اجرت لیتے ہیں نیز اگر پہلے سے اجرت طے نہ کی جائے اور نہ ہی عرفاً شرط ہو اور پھر بھی کوئی ہدیہ و تحفہ کے طور پر کچھ دیدے تو اس کو اجرت نہ سمجھا جائے وہ درست ہے۔

(۱) عن بریدۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قرأ القرآن یتأکل بہ الناس جاء یوم القیامۃ ووجہہ عظم لیس علیہ لحم۔ رواہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفضائل القرآن: باب اختلاف القراء ات وجمع القرآن، الفصل الثالث‘‘: ج ۵، ص: ۹۸، رقم: ۲۲۱۷)الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستئجار علیہا عندنا لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام {اقرؤوا القرآن ولا تأکلوا بہ}۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 118

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرآن کریم سنانے پر اُجرت لینا و دینا ناجائز وحرام ہے(۱) البتہ اگر صرف ہدیہ کے طور پر رقم دی گئی تو لینی درست ہے،(۲) پنج وقتہ نمازوں کی امامت کی صورت میں اگر اُجرت طے کی تھی تو درست ہے ورنہ نہیں، ہدیہ کے لیے چندہ دینے پر لوگوں کو مجبور نہ کیا جائے۔(۱) وقال تعالیٰ: {وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ز} (سورۃ البقرۃ: ۴۱)قال أبو العالیۃ: لا تأخذوا علیہ أجرا۔ (ابن کثیر: ج ۱، ص: ۲۲۲، زکریا دیوبند)(۲) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الإستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 118