Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نے اپنی رضا مندی سے نسبندی کرائی ہو اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کے پیچھے نماز کراہت ِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔(۱)
جس نے عذر اور مجبوری کی بنا پر کرائی ہو (چونکہ معذور و مجبور کے احکام جدا ہیں) اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔
(۱) ومنہا أي من صفات المؤذن أن یکون تقیًا؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لایؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالمًا بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، ویؤذن لکم خیارکم، وخیار الناس العلماء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۳۷۲، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحًا تقیًا عالمًا بالسنۃ، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰)
خصاء بني آدم حرام بالاتفاق۔ (أیضاً: ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق‘‘: ج۵، ص: ۴۱۲) کذا أجذم ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۳)
قولہ: وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق … أما الکراہۃ فمبنیۃ علی قلۃ الناس في رغبۃ الناس في ہؤلاء فیؤدي إلی تقلیل الجماعۃ المطلوب تکثیرہا تکثیرا للآخر … والفاسق لایہتم لأمر دینہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص197
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مفلوج ہوجانا، پاؤں سے معذور ہوجانا، مسلسل بارش ہوتے رہنا، راستہ کا غیر مامون ہونا وغیرہ، ایسے اعذار میں جن کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی گنجائش ہے، اور اس پر مواخذہ نہیں ہوگا؛ بلکہ بعض صورتوں میں جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔ (۱)
(۱) في نور الایضاح: وإذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من أعذار وکانت نیتہ حضورہا لولا العذر یحصل لہ ثوابہا اہـ والظاہر أن المراد بہ العذر المانع کالمرض والشیخوخۃ والفلج بخلاف نحو المطر والطین وأبرد والعمی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص392
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:جو سب سے پہلے آئے گا سب سے زیادہ ثواب کا مستحق ہوگا، جیسا کہ یوم جمعہ میں نماز جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والے کا ثواب حدیث میں ہے۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من اغتسل یوم الجمعۃ غسل الجنابۃ ثم راح فکأنما قرّب بدنۃً ومن راح في الساعۃ الثانیۃ فکأنما قرّب بقرۃ ومن راح في الساعۃ الثالثۃ فکأنما قرّب کبشا أقرن ومن راح في الساعۃ الرابعۃ فکأنما قرب دجاجۃ ومن راح في الساعۃ الخامسۃ فکأنما قرّب بیضۃ فإذا خرج الإمام حضرت الملائکۃ یستمعون الذکر‘‘(۲)
(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الغسل للجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۱، ط: نعیمیہ دیوبند
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کان یوم الجمعۃ وقفت الملائکۃ علی باب المسجد یکتبون الأول فالأول الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الاستماع إلی الخطبۃ‘‘: ج۱ ، ص:۱۲۷ ، رقم:۸۸۷)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 37
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں راء کو کھینچ کر پڑھنا غلطی ہے اس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ تاہم اذان واقامت ادا ہوجائیں گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ (۲)
(۲)وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: الأذان جزم أي مقطوع المد، فلا تقول: آللہ أکبر؛ لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف، فلایقف بالرفع؛ لأنہ لحن لغوي فتاوی الصیرفیۃ من الباب السادس والثلاثین۔…(قولہ: وبفتح راء أکبر إلی قولہ ولا ترجیع) نقل أنہ ملحق بخط الشارح علی ہامش نسخۃ الأولی، وفي مجموعۃ الحفید الہروي ما نصہ: فائدۃ: في روضۃ العلماء قال ابن الأنباري: عوام الناس یضمون الراء في أکبر، وکان المبرد یقول الأذان سمع موقوفا في مقاطیعہ، والأصل في أکبر تسکین الراء فحولت حرکۃ ألف اسم اللّٰہ إلي الراء کما في {الم، اللّٰہ} (آل عمران: ۱، ۲) وفي المغني: حرکۃ الراء فتحۃ وإن وصل بنیۃ الوقف، ثم قیل ہي حرکۃ الساکنین ولم یکسر حفظا لتفخیم اللّٰہ، وقیل نقلت حرکۃ الہمزۃ وکل ہذا خروج عن الظاہر؛ والصواب أن حرکۃ الراء ضمۃ إعراب، ولیس لہمزۃ الوصل ثبوت في الدرج فتنقل حرکتہا، وبالجملۃ الفرق بین الأذان۔ وبین الم اللّٰہ ظاہر فإنہ لیس لـ - الم اللّٰہ، حرکۃ إعراب أصلاً، وقد کانت لکلمات الأذان إعرابا إلا أنہ سمعت موقوفۃ۔ اہـ۔
وفي الإمداد: ویجزم الراء أي یسکنہا في التکبیر قال الزیلعي، یعني علی الوقف، لکن في الأذان حقیقۃ، وفي الإقامۃ ینوی الوقف اہـ أي للحدر، وروي ذلک عن النخعي موقوفا علیہ، ومرفوعا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأذان جزم، والإقامۃ جزم، والتکبیر جزم)۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لھا الأذان في غیر الصلاۃ و في الکلام علی حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۲، ص: ۵۱، ۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص175
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں نیت کرنا فرض ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوگی؛ لیکن امامت کی علاحدہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ بغیر امامت کی نیت کے بھی مقتدیوں کی نماز درست ہوگی؛ البتہ نیت کرنے پر اس کو امامت کا ثواب بھی ملے گا ہاں اگر عورت بھی اقتدا کررہی ہو تو عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے اگر امام نے عورتوں کی امامت کی نیت نہیں کی تو عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی۔
’’والإمام ینوی صلاتہ فقط، ولا یشترط لصحۃ الاقتداء نیۃ إمامۃ المقتدی بل لنیل الثواب عند اقتداء أحد بہ الخ‘‘(۱)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ فإن اقتدائہن بہ لایجوز مالم ینو أن یکون إماما لہن أو لمن تبعہ عموما‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳، ۱۰۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، شرح منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ ‘‘: ص:۲۱۹۔
وإن أم نساء فإن اقتدت بہ المرأۃ محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ فلا بد لصحۃ صلاتہا من نیۃ إمامتہا … وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ فقیل یشترط وقیل لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب مضیٰ علیہ سنوات وہو یصلي الظہر قبل وقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ولا یصیر إماماً للنساء إلا بالنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فوراً دعا کرنا بھی درست ہے اور اگر آیۃ الکرسی یا کوئی دعا پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۳)
(۳) وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔
وقول عائشۃ بمقدار لایفید أنہ کان یقول ذلک بعینہ، بل کان یقعد بقدر مایسعہ ونحوہ من القول تقریبا، فلا ینافي مافي الصحیحین من أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ، لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، اللّٰہم لامانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد، وتمامہ في شرح المنیۃ، وکذا في الفتح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص443
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی حالت میں امام صاحب کا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر کسی عذر اور ضرورت کی وجہ سے کپڑے درست کرنا پڑے تو اس صورت میں مکروہ نہیں ہے؛ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے۔
’’کل عمل ہو مفید لا بأس بہ للمصلي‘‘ کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو اس کے کرنے میں نمازی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے اور جو مفید نہ ہو وہ کام کرنا مکروہ ہے ’’وما لیس بمفید یکرہ‘‘(۱)
اور اگر کپڑے سیدھے کرتے کرتے عملِ کثیر پایا گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا سجدۂ سہو سے بھی فساد کی تلافی نہ ہوگی۔
نیز عملِ کثیر یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے یا جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عملِ کثیر شمار ہوتے ہیں ایسے ہی تین حرکاتِ متوالیہ یعنی تین بار ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عملِ کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
’’(قولہ: أي رفعہ) أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ۔ بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود، بحر۔ وحرر الخیر الرملي ما یفید أن الکراہۃ فیہ تحریمیۃ‘‘(۱)
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل، (قولہ: لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعًا أو سجودًا مثلًا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد؛ لکونہ منہا غیر أنہ یرفض؛ لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف، تأمل۔ (قولہ: ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنہما لایفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد ولا فعل لعذر احترازًا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتي، إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا؛ لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا، تأمل (قولہ: وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لایشک إلخ) صحّحہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي، وفي المحیط: أنہ الأحسن، وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ، وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا، حلیۃ۔ القول الثاني: إن ما یعمل عادۃً بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمیم وشدّ السراویل وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحلّ السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثًا متوالیۃً، وضعّفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لایعمل بالید کالمضغ والتقبیل۔ الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ الرابع: ما یکون مقصودًا للفاعل بأن یفرد لہ مجلسًا علی حدۃ۔ قال في التتارخانیۃ: وہذا القائل: یستدل بامرأۃ صلت فلمسہا زوجہا أو قبلہا بشہوۃ أو مص صبي ثدیہا وخرج اللبن: تفسد صلاتہا، الخامس: التفویض إلی رأی المصلي، فإن استکثرہ فکثیر وإلا فقلیل‘‘(۲)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔
(۲) أیضًا: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص69
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہر عاقل، بالغ مرد پر جسے مسجد تک جانے میں مشقت نہ ہو جماعت سے نماز پڑھنا سنت مؤکدہ یعنی واجب کے قریب ہے۔ اگر دو آدمی بھی ہوں تو بھی جماعت قائم کی جائے۔ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی روایت اور علامہ حصکفیؒ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور جماعت کے لیے دو یا دو سے زائد پر جماعت کا اطلاق ہوتا ہے:‘‘
’’إثنان فما فوقہما جماعۃ‘‘(۱)
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا إثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۲)
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۳)
بعض احادیث میں بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ، لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثمّ آمر رجلا فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، والذي نفسي بیدہ، لو یعلم أحدہم: أنہ یجد عرقا سمینا، أو مرماتین حسنتین، لشہد العشاء‘‘(۱)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب الإثنان جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲، رقم: ۹۷۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجماعۃ والإمامۃ: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۸۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے اور اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کا حکم ابتدائِ اسلام میں آگیا تھا، تاہم پنج وقتہ نماز کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی، قرآن وسنت اور اجماع امت کی رو سے نماز کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں، واقعہ معراج سے قبل بعض حضرات کا قول ہے کہ صبح وشام دو وقت اور دو رکعت والی نمازیں تھیں۔
رہی بات کہ ابتداء اسلام سے قبل نماز کا طریقہ کیا تھا؟ اس حوالے سے جمہور کی رائے یہی ہے کہ موجودہ نماز کا ہی طریقہ تھا، تاہم رکعات کی تعداد میں فرق تھا، اور پانچ نمازوں کے بجائے ایک صبح کی نماز (جو طلوعِ شمس سے قبل ادا کی جاتی تھی) اور دوسری شام کی نماز جو غروب کے آس پاس ادا کی جاتی تھی۔ بعض اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ معراج سے قبل نماز کا مروجہ طریقہ نہیں تھا، بلکہ دعا کی ایک شکل تھی، جسے صلاۃ کا نام دیا گیا تھا، تاہم اس رائے کو جمہور محققین نے احادیثِ کثیرہ کی بنا پر رد کیا ہے؛ راجح وہی ہے جو جمہور کی رائے ہے۔
مزید تفصلات ابن رجب کی فتح الباری شرح البخاری میں دیکھی جا سکتی ہیں:
’’وقال قتادۃ: کان بدء الصلاۃ رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشی۔ وإنما أراد ہؤلاء: أن ذلک کان فرضا قبل افتراض الصلوات الخمس لیلۃ الإسراء الخ‘‘(۱)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کا آغاز جس روایت سے کیا ہے، جو حدیث ِ ہرقل کے نام سے مشہور ہے، اس میں ہے کہ جب ہرقل بادشاہ نے ابو سفیان (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں جواب میں جو امور بتلا ئے ان میں سے ایک نماز کا بھی تذکرہ تھا:
فقال لہ: (ماذا یأمرکم؟) قلت: یقول: اعبدوا اللّٰہ وحدہ ولاتشرکوا بہ شیئا واترکوا ما یقول آباؤکم؛ ویأمرنا بالصلاۃ والصدق والعفاف والصلۃ۔(۲)
’’قال الحافظ ابن رجب رحمہ اللّٰہ: وہو یدل علی أن النبي کان أہم ما یأمر بہ أمتہ الصلاۃ، کما یأمرہم بالصدق والعفاف، واشتُہر ذلک حتی شاع بین الملل المخالفین لہ في دینہ، فإن أبا سفیان کان حین قال ذلک مشرکاً، وکان ہرقل نصرانیاً۔ ولم یزل منذ بُعث یأمر بالصدق والعفاف، ولم یزل یصلي أیضاً قبل أن تفرض الصلاۃ۔ انتہی‘‘(۳)
’’قال الحافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ: ذہب جماعۃ إلی أنہ لم یکن قبل الإسراء صلاۃ مفروضۃ، إلا ما وقع الأمر بہ من صلاۃ اللیل من غیر تحدید، وذہب الحربي إلی أن الصلاۃ کانت مفروضۃً رکعتین بالغداۃ ورکعتین بالعشي، وذکر الشافعي عن بعض أہل العلم أن صلاۃ اللیل کانت مفروضۃً، ثم نسخت بقولہ تعالی: {فَاقْرَأُوا مَا تَیَسَّرَ مِنہَ} (سورۃ المزمل: ۲۰) فصار الفرض قیام بعض اللیل، ثم نسخ ذلک بالصلوات الخمس)۔ انتہی‘‘(۴)
’’أصل وجوب الصلاۃ کان في مکۃ في أول الإسلام؛ لوجود الآیات المکیۃ التي نـزلت في بدایۃ الرسالۃ تحث علیہا۔ وأما الصلوات الخمس بالصورۃ المعہودۃ فإنہا فرضت لیلۃ الإسراء والمعراج۔ قال الإمام الشافعي رحمہ اللّٰہ: سمعت من أثق بخبرہ وعلمہ یذکر أن اللّٰہ أنزل فرضا في الصلاۃ، ثم نسخہ بفرض غیرہ، ثم نسخ الثاني بالفرض في الصلوات الخمس۔ قال الشافعي: کأنہ یعني قول اللّٰہ عز وجل: {ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُہلا ۱ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً ہلا ۲ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاًہلا ۳ } (المزمل:۱-۳) ثم نسخہا في السورۃ معہ بقول اللّٰہ جل ثناؤہ: {إنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُومُ أَدْنَی من ثُلُثَیْ اللَّیْلِ وَنِصْفَہُ} (المزمل:۲۰) إلَی قَوْلِہِ: {فَاقْرَئُ وا ما تَیَسَّرَ من الْقُرْآنِ}، فنسخ قیام اللیل أو نصفہ أو أقل أو أکثر بما تیسر۔ وما أشبہ ما قال بما قال۔ انتہی‘‘(۱)
اسی طرح پنج گانہ نماز کی فضیلت کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فضائل ومحامد کو بیان کرتے ہوئے اسے برائیوں اور صغیرہ گناہوں سے رہائی حاصل کرنے کا انتہائی موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر نماز کی افادیت ایک بلیغ تمثیل کے ذریعے واضح کردی جسے حدیث مبارکہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
کیا تم دیکھتے ہو کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے سامنے نہر (بہہ رہی) ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کچھ میل کچیل باقی رہ جائے گا انہوں نے عرض کیا اس پر کچھ میل باقی نہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
’’أرأیتم لو أن نہراً بباب أحدکم یغتسل فیہ کل یوم خمساً ما تقول ذلک یبقی من درنہ قالوا لا یبقی من درنہ شیئاً قال فذلک مثل الصلوات الخمس یمحوا اللّٰہ بہا الخطایا‘‘(۲)
قرآنِ کریم میں ہے:
{وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَيِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِط}(۱)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم گناہ کرتے رہتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ ظہر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ عصر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو اور جب نمازِ مغرب پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے، پھر گناہ کرتے رہتے ہو جب نمازِ عشاء پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو ڈالتی ہے، پھر تم سو جاتے ہو اور بیدار ہونے تک تمہارا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الفجر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون، فإذا صلیتم الظہر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العصر غسلتہا، ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم المغرب غسلتہا ثم تحترقون تحترقون فإذا صلیتم العشاء غسلتہا، ثم تنامون، فلا یکتب علیکم شيء حتی تستیقظوا، لم یروہ عن حماد بن سلمۃ مرفوعا إلا اللاحقي‘‘(۲)
(۱) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۴، رقم: ۷۔
(۳) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ لیلۃ الإسراء‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۱۔(شاملہ)
(۴) ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري،’’کتاب الصلوۃ: باب وجوب الصلاۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۴، رقم: ۳۵۰۔(شاملہ)
(۱) الإمام الشافعي، الأم‘: ج ۱، ص:۱۵۵؛ وأیضاً:الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۲۷، ص: ۵۲، کویت
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: بــاب الصلوٰۃ الخمـس کفارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، رقم: ۵۰۵؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب المشي إلی الصلوٰۃ تمحی بہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۶۶۷۔
(۱) سورۂ ہود: ۱۱۴۔
(۲) أخرجہ الطبراني، في المعجم الصغیر، ’’من اسمہ أحمد‘‘: ج۱، ص: ۹۱، رقم:۱۲۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 38 تا 41
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مخنث یعنی ہیجڑے کی اذان واقامت مکروہ ہے اور لوٹانا بہتر ہے لازم نہیں ہے۔
’’یکرہ أذان جنب (الخ) وخنثی وفاسق۔ فیعاد أذان الکل ندباً‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲ ، ص: ۶۰۔
(ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ) علی المذہب(و) أذان (امرأۃ) وخنثی۔ (أیضًا)
(وأما) الذي یرجع إلی صفات المؤذن فأنواع أیضا: (منہا) أن یکون رجلا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص176