Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اگر اذان میں ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ اذان ہی نہ ہو پائے تو روکنا ضروری ہے، ورنہ شدت نہ برتی جائے ان کو سمجھاتے رہنا چاہئے تاکہ اختلاف بھی نہ ہو اور اذان بھی اچھے انداز پر پڑھی جا سکے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم‘‘(۱)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۸۷، رقم: ۵۹۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص172
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا نیت ہی نماز شروع کردی، پھر یاد آیا کہ نیت نہیں کی یا غلط نیت کر لی، مثلاً: عصر کی جگہ ظہر کی نیت کرلی، تو اب نیت کا وقت ختم ہوگیا؛ اس لیے نماز کے اندر نیت کر لینے کا اعتبار نہیں ہوگا، پھر از سر نو نیت کرے، تکبیر تحریمہ کہے۔(۱)
(۱) قولہ: ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا ینبني الباقي علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص: ۹۴)
إنما الأعمال بالنیات۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب کیف کان بدء الوحي‘‘: ج ۱، ص: ۲، رقم : ۱)
(النیۃ) بالإجماع (وہي الإرادۃ المرجحۃ) المرجحۃ لأحد المتساویین أي إرادۃ الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ علی الخلوص۔۔۔۔ (المعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبیٰ (وہو) أی عمل القلب (أن یعمل) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۱،۹۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص294
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد آپ جو عمل ’’نصر من اللّٰہ وفتح قریب‘‘ وغیرہ پڑھتے ہیں اس کا پڑھنا درست اور جائز ہے؛ لیکن مناسب یہ ہے کہ سنتوں کے بعد پڑھیں، عذر معقول کے بغیر فرض اور سنت میں زیادہ فصل مناسب نہیں۔(۱)
(۱) الأولیٰ أن لا یقرأ الأوراد قبل السنۃ، ولو فعل لابأس بہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۴۴۱)
فروع: قراء ۃ الأوراد بین الفرض والسنۃ لابأس بہا، قالہ الحلواني : ولو قام في مصلاہ إن شاء قرأ جالسا وإن شاء قرأ قائما، وفي شرح الشہید القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون، وفي الثاني کان النبي علیہ السلام، إذا سلم یمکث قدر ما یقول اللّٰہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والإکرام، ولو تکلم بعد السنۃ قبل الفریضۃ ہل تسقط السنۃ، قیل: تسقط، وقیل: لا (تسقط)، ولکن ثوابہ أفضل من ثوابہ قبل التکلم۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، عدد رکعات التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۰؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الصلاۃ المسنونۃ کل یوم‘‘: ج۲، ص: ۵۲)
فصل (الأذکار الواردۃ بعد الفرض) القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون وعن شمس الأئمۃ الحلواني لابأس بقراء ۃ الأوراد بین الفریضۃ والسنۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج۱، ص: ۳۱۲؛ و حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ج۱، ص: ۱۱۸)
لکنہ إن کانت الصلاۃ مما بعدہا سنۃ فالسنۃ وصلہا بالفرض ورجح کراہۃ الفصل بینہا وبین الفرض بالأذکار والأوراد والأدعیۃ ومقابل ما رجح أنہ لابأس بأن یقرأ بینہما الأوراد کما في شرح المنظومۃ لابن الشحنۃ۔ (علي حیدر، درر الحکام، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الإمامۃ ‘‘ ج۱، ص: ۸۰) (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص439
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ الموفق: اصل نماز دو رکعت ہی فرض ہوئی ہے باقی دو رکعتوں کا بعد میںاضافہ ہوا ہے ا س لیے نفس قرأت کو پہلی دو رکعتوں میںہی فرض قرار دیا گیا ہے باقی دو رکعتوں میںقرأت فرض نہیںہے فاتحہ بھی ضروری نہیںہے اگر کوئی ذکر کرلے یا کچھ بھی نہ کرے تو بھی جائز ہے۔
’’وأما بیان محل القراء ۃ المفروضۃ فمحلہا الرکعتان الأولیان عینا في الصلاۃ الرباعیۃ ہو الصحیح من مذہب أصحابنا‘‘(۱)
’’بخلاف الشفع الثاني؛ لأنہ لیس بتکرار الشفع الأول بل ہو زیادۃ علیہ، قالت عائشۃ رضي اللہ عنہا: الصلاۃ في الأصل رکعتان، زیدت في الحضر وأقرت في السفر، والزیادۃ علی الشيء لا یقتضي أن یکون مثلہ۔ ولہذا اختلف الشفعان في وصف القراء ۃ من حیث الجہر والإخفاء، وفي قدرہا، وہو قراء ۃ السورۃ، فلم یصح الاستدلال، علی أن في الکتاب والسنۃ بیان فرضیۃ القراء ۃ؛ ولیس فیہما بیان قدر القراء ۃ المفروضۃ‘‘(۲)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع فيترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، دارالکتاب ،دیوبند۔)
(۲) أیضاً، ص:۲۹۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص236
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ چار سنت قبل العشاء غیر مؤکدہ ہیں اس لیے ان کو مستحب کہا جائے گا(۱) مظاہر حق میں ہے، آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شخص عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے اس رات میں تہجد کی نماز پڑھی۔ اور جو کوئی عشاء کے بعد چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے چار رکعت شب قدر میں پڑھی۔(۲)
(۱)إن التی قبل العشاء مندوبۃ فلا مانع من قضائہا بعد التي تلي العشاء۔ الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
(۲) رجح في الفتح تقدیم الرکعتین۔ قال في الإمداد: وفي فتاویٰ العتابي أنہ المختار۔ وفي مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح، لحدیث عائشۃ: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان قال الترمذي: حسن غریب، فتح (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص362
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/873
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جماعت کی اہمیت کی وجہ سے احناف کے نزدیک ایک مسجد میں ایک ہی جماعت افضل ہے، جبکہ دیگر ائمہ کرام کے نزدیک متعدد جماعتیں ہوسکتی ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی امام کسی دنیاوی رئیس یا کسی ذی جاہ آدمی کا انتظار کرنے میں جماعت میں تاخیر کرتا ہے تو وہ شخص گناہگار ہے مگر نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) رئیس المحلۃ لا ینتظر ما لم یکن شریراً والوقت متسع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان لنفسہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائی، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص40
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سرکاری ملازم نیک ہو۔ نمازی ہو نماز پڑھانی جانتا ہے تو بلاشبہ اس کی امامت درست ہے اس کے پیچھے نماز جمعہ درست و صحیح ہوجائے گی۔(۲)
(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ماتقوم بہ سنۃ القراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص64
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: غیر شرعی وضع اختیار کرنا، داڑھی کٹوانا، گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص فاسق ہے، (۱) جس سے اجتناب ضروری ہے، تاہم ایسے شخص کی امامت کراہت ِ تحریمی کے ساتھ درست ہے۔(۲)
(۱) انہکوا الشوارب وأعفوا اللحي۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب إعفاء اللحي‘‘: ج ۴، ص: ۱۴۵، رقم : ۵۸۹۳)
(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص195
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:شریعت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے ارشاد خداوندی ہے۔ وارکعو مع الراکعین(۱)۔ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو یعنی جماعت سے نماز ادا کرو بغیر کسی شرعی عذر کے امام کے بارے میں کینہ کپٹ رکھنا اور اس کو بدنام کرنے کے لیے لوگوں میں نفرت دلانے کی ناکام کوشش کرنا اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا۔ یہ جائز نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صلو خلف کل بر وفاجر‘‘ اور صاحب بدائع الصنائع نے تو جماعت سے نماز کو واجب فرمایا ہے ’’فالجماعۃ إنما تجب علی الرجل العاقلین الاحرار القادرین علیہا من غیر حرج‘‘ (۲) نماز باجماعت کے وجوب پر صاحب کبیری نے بہت سارے دلائل نقلیہ پیش کئے ہیں، اتنا ہی نہیں؛ بلکہ نماز باجماعت عظیم الشان اسلامی شعار ہے اور دین اسلامی کی بڑی علامات میں سے ہے ترک جماعت کی عادت بنالینے والا سخت گنہگار اور فاسق اور مردود الشہادۃ ہے،(۳) اگر کسی جگہ کے مسلمان اپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر اکتفاء کریں جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں تو ان سے بذریعہ اسلحہ جہاد کرنا واجب ہے۔ گفتگو کا حاصل یہ نکلا کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اگر کسی شرعی عذر کے بغیر جماعت ترک کرے گا تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر بغیر عذر کے چھوڑ نے والا سخت گنہگار ہوگا خدائے پاک ہر مسلمان کو باجماعت نماز کی توفیق عطا فرمائے۔
(۱) سورۃ البقرہ: رکوع ۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴، زکریا دیوبند۔
(۳) إن تارکہا من غیر عذر یعزر و ترد شہادتہ ویأثم الجیران بالسکوت عنہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۴۳۹، دارالکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص390