Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے مسجد شرط نہیں ہے؛ بلکہ شہر وفناء شہر یا قصبہ یا بڑے گاؤں میں کہیں پر بھی نماز جمعہ پڑ سکتے ہیں اور ایسے ہی کھلے میدان میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ امام کے علاوہ کم ازکم تین مقتدی ہوں اور خطبہ جمعہ بھی ہو اور وہاں پر آنے کے لیے عام لوگوں کو اجازت ہو اگر آپ کے کارخانہ میں یہ تینوں باتیں ہیں تو نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے۔(۱)(۱) والمسجد الجامع لیس بشرط، لہذا أجمعو علی جوازہا بالمصلیٰ في فناء المصر۔ (إبراہیم الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۵۱)(و) الخامس من شروط صحۃ الجمعۃ (الإذن العام) الخ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۱۰)(و) السادس (الجماعۃ) وأقلہا ثلاثۃ رجال (ولو غیر الثلاثۃ الذین حضروا الخطبۃ (سوی الإمام) بالنص؛ لأنہ لا بد من الذاکر، وہو الخطیب وثلاثۃ سواہ بنص، {فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ} (سورۃ الجمعۃ: ۹)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 60
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ جیل شہر یا فنائے شہر میں واقع ہے اور اس جیل کے تمام مسلمان کو اس جگہ آکر جمعہ پڑھنے کی اجازت ہو تو وہاں جمعہ کی نماز با جماعت پڑھنا جائز ہے۔(۲)
(۲) ثم لو جوبہا شرائط في المصلي، وہي الحریۃ، والذکورۃ والإقامۃ، والصحۃ، کذا في الکافي، والقدرۃ علی المشي، کذا في البحر الرائق والبصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)وشرط لا فتراضہا إقامۃ بمصر … وحریۃ … وذکورۃ … وعدم حبس۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۶ تا ۲۹)وکرہ للمعذور والمسجون أداء الظہر بجماعۃ في المصر یومہا۔ (نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۱۱۸، مکتبہ الاسعدی، سہارنپور)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 60
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قریہ کبیرہ جس میں بازار ہوں وہ مثل قصبہ کے ہے اور مصر کی شان اس میں پائی جاتی ہے۔ پس جو بستی پہلے بڑا شہر ہو اور اب اس میں دو ڈیڑھ ہزار لوگ ہی رہ گئے ہوں اور بازار کی حالت پہلے جیسی ہی ہو، تو اس بستی میں جمعہ واجب ہے وہ در حقیقت قصبہ ہے نماز جمعہ وہاں پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس میں شک نہ کریں۔(۱)(۱) قولہ: (وفي القہستاني الخ) … وعبارۃ القہستاني تقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)(ویشترط لصحتہا)، أي صلاۃ الجمعۃ (ستۃ أشیاء) الأول: (المصر أو فناء ہ) الخ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر شہر کے حدود میں جمعہ پڑھیں تو صحیح ہے شہر کے متصل جو دیہات ہیں ان میں درست نہیں حدود شہر سے مراد فناء شہر ہے کہ فناء شہر جہاں پر شہر کے کاروبار وغیرہ ہوتے ہوں وہاں پر بھی جمعہ جائز ہے اس لیے کہ عرف میں اس کو شہر یا شہر کا ایک محلہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔(۱)(۱) (ویشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء الأول: (المصر) … (أو فناء ہ) وہو ما حولہ اتصل بہ) أولا کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ)، کدفن الموتی رکض الخیل، والمختار للفتوی تقدیرہ بفرسخ، ذکرہ الولو الجی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵ تا ۷)(ویشترط لصحتہا) أي صلاۃ الجمعۃ (ستۃ أشیاء) الأول: (المصر) أو فناء ہ) سواء مصلی العید وغیرہ؛ لأنہ بمنزلۃ المصر في حق حوائج أہلہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شہر سے باہرایسی جگہ جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں ہے۔ کالج کے طلبہ کے لیے اگر ممکن ہو تو شہر جاکر جمعہ کی نماز ادا کرلیں، اور اگر شہر جانا ممکن نہ ہو تو کالج کے اسی کمرہ میں جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے وہیں نمازِ ظہر ادا کرلیں؛ ایسے لوگوں پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے۔ نماز جمعہ کے لیے شہر، قصبہ یا بڑے گاؤں کا ہونا ضروری ہے، چھوٹے گاؤں یا جنگل میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں۔ ’’ویشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء:الأول: (المصر وہو ما لایسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا) وعلیہ فتوی أکثر الفقہاء، مجتبی؛ لظہور التواني في الأحکام، وظاہر المذہب أنہ کل موضع لہ أمیر وقاض یقدر علی إقامۃ الحدود کما حررناہ فیما علقناہ علی الملتقی۔ وفي القہستاني: إذن الحاکم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسي وإذا اتصل بہ الحکم صار مجمعاً علیہ فلیحفظ‘‘(۱)’’وروي عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: أنہ بلدۃ کبیرۃ فیہا سکک وأسواق ولہا رساتیق، وفیہا والٍ یقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحکمہ وعلمہ أو علم غیرہ، والناس یرجعون إلیہ في الحوادث، و ہو الأصح‘‘(۲)’’قولہ: (وفي القہستانيالخ) تقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق، … وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہا لاتجوز في الصغیرۃ‘‘(۳)’’لاتجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کما في المضمرات‘‘(۴)’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر‘‘(۵)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵ ، ۶، ۷۔(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان شرائط الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۸۵، دار الکتاب، دیوبند۔(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘:ج ۳، ص: ۶، ۷۔(۴) أیضاً:۔(۵) ظفر أحمد عثماني التھانوي، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۳۸۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شرائط پائی جائیں اور جمعہ واجب ہو تو جمعہ کی نماز بلا کسی عذر شرعی کے ترک کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر کسی نے ظہر کی نماز پڑھی تو ظہر کی نماز ادا ہوجائے گی، اور جمعہ ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔ ’’قولہ: (کما حققہ الکمال) … ومن صلی الظہر یوم الجمعۃ في منزلہ ولا عذر لہ کرہ، وجازت صلاتہ وإنما أراد حرم علیہ وصحت الظہر لما سیأتي قولہ: (آکد من الظہر) أي لأنہ ورد فیہا من التہدید ما لم یرد في الظہر، من ذلک قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الجمعۃ ثلاث مرات من غیر ضرورۃ طبع اللّٰہ علی قلبہ رواہ أحمد والحاکم وصححہ، فیعاقب علی ترکہا أشد من الظہر‘‘(۱)’’(وکرہ) تحریمًا (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظہر بجماعۃ في مصر) قبل الجمعۃ وبعدہا لتقلیل الجماعۃ وصورۃ المعارضۃ، وأفاد أن المساجد تغلق یوم الجمعۃ إلا الجامع، (وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۔(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۲، ۳۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 55
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ گاؤں والوں پر شہر میں آکر نماز جمعہ پڑھنا ضروری نہیں ہے اور نہ آنے سے وہ گناہ گار نہیں ہوں گے۔ بلکہ وہ اپنے ہی گاؤں میں رہتے ہوئے نماز ظہر باجماعت ادا کریں البتہ اگر کسی کام سے شہر میں آجائیں اور نماز جمعہ پڑھ لیں تو بہتر ہے۔(۱)(۱) قولہ: (وفي القہستاني الخ) … وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب کما في المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷)ومن لا تجب علیہم الجمعۃ من أہل القری والبوادي لہم أن یصلوا الظہر بجماعۃ یوم الجمعۃ بأذان وإقامۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)قولہ: (في مصر) بخلاف القری لأنہ لا جمعۃ علیہم، … وفي المعراج عن المجتبی: من لا تجب علیہم الجمعۃ لبعد الموضع صلوا الظہر بجماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳، ۳۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حالات و کیفیات مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ گاؤں قریہ کبیرہ ہے جس کی آبادی بارہ ہزار ہے پس ایسے گاؤں میں نماز جمعہ واجب ہے گاؤں کے لوگوں کو چاہئے کہ مسجد بننے تک کسی خاص جگہ کا انتظام کرکے اپنی تمام نمازیں اور جمعہ ادا کرنے کا اہتمام کریں۔’’وتقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق‘‘(۲)(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۔وأن تکون الإقامۃ (بمصر) خرج بہ المقیم بقریۃ لقولہ علیہ السلام: الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم في جماعۃ؛ إلا أربعۃ مملوک أو امرأۃ أو صبي أو مریض وفي البخاري: إلا علی صبي أو مملوک أو مسافر ولقولہ علیہ السلام: لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلاۃ فطر ولا أضحی إلا في مصر جامع أو مدنیۃ عظیمۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۴)عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر۔ (ظفر أحمد العثماني التھانوي، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۵۹)قولہ: (وفي القہستاني الخ) … وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کذا في المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 53
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال علماء کرام کے معائنہ کی روشنی میں مذکورہ بستی میں نماز جمعہ و عیدین کا قیام درست ہے۔(۱)(۱) تقع فرضاً في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق۔ رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر۔ (ظفر أحمد العثماني التھانوي، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۸، ص: ۵۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 52
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ ۲۵؍ گھروں کا گاؤں بہت چھوٹا گاؤں ہے نماز جمعہ اس میں جائز نہیں ہے وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر با جماعت ادا کریں ورنہ تو نماز ظہر ان کے ذمہ پر واجب رہے گی۔’’تقع فرضا في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۔قولہ: (وفي القہستاني الخ) … وفیما ذکرنا إشارۃ إلی أنہ لا تجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاض ومنبر وخطیب، کما في المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷)عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر۔ (ظفر أحمد العثماني التھانوي، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘ مکتبہ اشرفیہ، دیوبند: ج ۸، ص: ۵۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 51