نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مرد و عورت کی نماز میں درج ذیل اعمال میں فرق ہے:
(۱) مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے گا اور عورت سینے تک ہاتھوں کو اٹھائے گی۔(۲)
(۲) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے گا اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی۔(۳)

(۳) عورت رکوع میں کم جھکے گی اور رکوع میں عورت انگلیاں مرد کی طرح کشادہ نہیں رکھے گی۔(۱)
(۴) مرد سجدے کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے اور بازو کو بغل سے جُدا رکھے گا اورکہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے گا، جب کہ عورت پیٹ کو رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملائے رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا کر سجدہ کرے گی۔(۲)
(۵) مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا دایاں پیر کھڑا کرکے بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھ جائے گا جب کہ عورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے گی۔(۳)

(۲) وروي ابن مقاتل أنہا ترفع حذاء منکبیہا: لأنہ أستر لھا وصححہ في الہدایۃ ولا فرق بین الحرۃ والأمۃ علی الروایتین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل إذا أراد الدخول في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۲)
عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا۔ (للطبراني، المعجم الکبیر: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ مجمع الزوائد: ج ۹، ص: ۶۲۴، رقم: ۱۶۰۵؛ البدر المنیر لابن الملقن: ج ۳، ص: ۴۶۳) (شاملہ)
(۳)  بخلاف المرأۃ فإنہا تضع علی صدرہا؛ لأنہ أستر لہا فیکون في حقہا أولی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۹)

(۱) والمرأۃ تنحني في الرکوع یسیرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعہا ولکن تضم یدیہا وتضع علی رکبتیہا وضعاً وتحني رکبتیہا ولا تجافي عضدیہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوٰۃ وآدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲)
ویکون الرجل مفرجا أصابعہ، ناصباً ساقیہ وإحناؤہما شبہ القوس مکروہ، والمرأۃ لا تفرج أصابعہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴)
(۲) والمرأۃ تنخفض في سجودہا وتلزق بطنہا) ش: أي تلصق بطنہا (بفخذیہا لأن ذلک) ش: أي الانخفاض والإلزاق (أستر لہا) ش: أي لأن منبی حالہا علی الستر۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب قول سبحان ربي الأعلی في السجود: ج ۲، ص: ۲۴۹)
(۳) عن نافع عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، أنہ سئل: کیف کن النساء یصلین علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ کن یتربعن، ثم أمرن أن یحتفزن۔ (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمي، ’’مسند أبي حنیفۃ روایۃ الحصکفي‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۰،  رقم: ۱۱۴(شاملہ)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 42

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: دیکھنا یہ ہے کہ وتر نماز کا وقت کون سا ہے، ظاہر ہے کہ عشاء کے فرض اور سنت کے بعد وتر پڑھی جاتی ہے جو مستقل ہے تو معلوم ہوا کہ ان کی ادائیگی کا وقت وہ ہے جو عشاء کا ہے تو اب نیت باندھتے وقت اگر عشاء کا وقت زبان پر لائیں اس سے بھی کوئی خرابی نہیں ۔ اور زبان سے یہ لفظ ادا نہ کریں جب بھی درست ہے۔(۱)

(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح کذا في الکافي ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: ج ۱، ص: ۱۰۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص302

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی بھی دعاء حسب ضرورت پڑھ سکتے ہیں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قضی صلاتہ مسح جبہتہ بیدہ الیمنی ثم قال اشہد أن لا إلہ اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ الہم اذہب عني اللہم والحزن۔ (أخرجہ الطبراني، جامع أبواب القول إدبار الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 880

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم:جنازہ کی نماز میں دعا آہستہ پڑھنے کا ہی معمول رہا ہے،تاہم  اگر کوئی زور سے پڑھ لے تو اس کی نماز درست ہوگی؛ نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کبھی تعلیم کی غرض سے زور سے پڑھنا اس بات  کی دلیل نہیں ہے کہ آہستہ پڑھنے سے نماز نہیں ہوگی جبکہ صحابہ کا عمل آہستہ ہی پڑھنے کا رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1871/43-1721

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شافعی امام  کے پیچھے حنفی شخص کی نماز درست ہوجاتی ہے، البتہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے یا داڑھی مونڈانے والے  کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ تاہم جب یہاں کوئی دوسرا انتظام نہیں ہے تو بہتر ہے کہ اسی امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں، تنہا نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ شوافع کے یہاں  بدن سے خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لئے اگر کسی وقت آپ نے جان لیا کہ شافعی امام نے خون نکلنے کے بعد وضو نہیں کیا اور نماز پڑھائی تو آپ اس نماز میں شریک نہ ہوں اور اگر شریک ہوگئے اور بعد میں معلوم ہوا تو نماز دوہرالیں۔ اور جب تک ان کے بارے میں ایسی  کوئی بات معلوم نہ ہو ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہیں۔  

فإن أمکن الصلاة خلف غیرہم فہو أفضل وإلا فالاقتداء أولی من الانفراد․ (البحر الرائق: ۱/۶۱۱ مکتبہ زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:طریقت وشریعت دو متضاد چیزیں نہیں ہیں شریعت ہی کا جز طریقت ہے، تزکیہ نفس اور اخلاق کی درستگی کے لئے مشائخ طریقت اور حضرات صوفیاء نے مختلف ضابطے مقرر کئے ہیں ہر ایک کے خیال میں اپنا اپنا طریقہ واصل الی اللہ ہونے تک رہنمائی کرتا ہے منجملہ ان کے ذکر خفی کا مذکورہ طریقہ بھی ہے اور یہ طریقہ کامیاب بھی ہے۔ اور شرعاً ناجائز بھی نہیں ہے۔(۱)

(۱) ولا یخفیٰ أن اتباع المأثور عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ أفضل وأولیٰ و إن کان ذکر اللّٰہ یجوز بکل لسان ولغۃ بکل صفۃ وہیئۃ کما ہو ظاہر۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’باب الذکر والدعاء‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۵)
وقصاری بغیتہم دعاء الناس إلی ذکر اللّٰہ عز وجل وطاعتہ والمختلق بإخلاق حبیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واتباع سننہ۔ (’’أیضاً‘‘:  ج ۱۸، ۴۶۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص386

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درج ذیل ترتیب کے مطابق کوئی بھی شخص امام بن سکتا ہے:
(۱) مسائل نماز سے واقف ہو۔ (۲) قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔ (۳) صالح پرہیز گار ہو۔ (۴) اگر حافظ قرآن بھی ہو، تو بہت ہی اچھا ہے زیادہ عمر والا، عمدہ اخلاق والا، نورانی چہرہ، اچھے خاندان اور نسب والا ہو، تو سونے پر سہا گہ۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند؛ وابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص44

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) عیدگاہ کی مسجد میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے اور احکام کے لحاظ سے عیدگاہ بھی مسجد کے حکم میں ہے۔(۱)
(۲) نماز کی جگہ اور سامنے اگر قبروں کے نشانات نہیں ہیں جگہ خالی اور برابر ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۲)
(۳) جس شخص نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔(۱)
(۱)  وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علی أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق، وإن لم یستخلف فلہ ذلک۔ اہـ نوح۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب العیدین‘‘: ج۳، ص: ۴۹)
الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ وإن کان یسعہم المسجد الجامع، علی ہذا عامۃ المشایخ وہو الصحیح، ہکذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)
لا تکرہ في مسجد أعد لہا وکذا في مدرسۃ ومصلی عید لأنہ لیس لہا حکم المسجد في الأصح إلا في جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ص: ۵۹۵)
و أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء لا في حق غیرہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب البدعۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
واختلفوا أیضا في مصلی العیدین أنہ ہل ہو مسجد والصحیح أنہ مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن لم تتصل الصفوف؛ لأنہ أعد للصلاۃ حقیقۃ لا في حرمۃ دخول الجنب والحائض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)
(۲)   ولا بأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما في الخانیۃ ولا قبلتہ إلی قبر حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱)
ویکرہ أن تکون قبلۃ المسجد إلی المخرج أو إلی القبر لأن فیہ ترک تعظیم المسجد، وفي الخلاصۃ ہذا إذا لم یکن بین یدي المصلي وبین ہذا الموضع حائل کالحائط وإن کان حائطاً لا یکرہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ، مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۳)
(۱) (وہي فرض علی کل مسلم مات خلا) أربعۃ: (بغاۃ، وقطاع طریق) … (وکذا) أہل عصبۃ و (مکابر في مصر لیلا بسلاح وخناق) خنق غیر مرۃ فحکمہم کالبغاۃ۔ (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی وإن کان أعظم وزرا من قاتل غیرہ … (لا) یصلی علی (قاتل أحد أبویہ) إہانۃ لہٗ، وألحقہ في النہر بالبغاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنازۃ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۷ تا ۱۰۹)
وشرطہا إسلام  المیت وطہارتہ ما دام الغسل ممکنا وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن إخراجہ إلا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی ہکذا في التبیین وطہارۃ مکان المیت لیست بشرط ہکذا في المضمرات ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان أو کبیرا ذکرا کان أو أنثی حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص:43 و45

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر وقت میں گنجائش ہو تو نیت توڑ کر پھر سے سنتوں کی نیت باندھ لے اور تکبیر تحریمہ دو بارہ سنت کی نیت سے کہے۔نیز فرض کی نیت سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) فیجوز بناء النفل علی النفل وعلی الفرض، وإن کرہ لا فرض علی فرض أو نفل علی الظاہر، ولاتصالہا بالأرکان روعی لہا الشروط، وقد منعہ الزیلعي ثم رجع إلیہ بقولہ: ولئن سلم: نعم في التلویح تقدیم المنع علی التسلیم أولی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قدیطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸، ۱۲۹)
ثم أنہ إن جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ وعید وجمعۃ إجتمعت ونال ثواب الکل، وکما لو توضأ لنوم وبعد غیبۃ وأکل لحم جزور، وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد وسنۃ وضوء وضحی وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفی بالنیۃ في أولہا ولا یحتاج إلیہا فی کل جزء إکتفاء بإنسحابہا علیہا، ویشترط لہا الإسلام والتمییز والعلم بالمنوی وأن لا یأتی بمناف بین النیۃ والمنوی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتی الفجر التحیۃ والسنۃ أجزأت عنہما، وفي حاشیتہ: لأن التحیۃ والسنۃ قریبان، إحدہما: وہي التحیۃ تحصل بلا قصد، فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا، وکذا لو نوی الفرض والتحیۃ کما في فتح القدیر۔ قیل: ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل، ونوی التراویح وقیام آخر اللیل لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’الجمع بین عبادتین بنیۃ واحدۃ‘‘: القاعدۃ الأولی: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص303

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر و عصر میں تو تسبیح فاطمی منقول و معمول ہے ۔ پانچوں نمازوں کے بعد اگر کوئی پڑھے تو اس پر بھی ثواب ہے شرط یہ ہے کہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے۔
’’عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال معقبات لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاث وثلاثون تسبیحۃ وثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربع وثلثون تکبیرۃ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص:۲۱۸،رقم: ۵۹۶۔
وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446