نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: نیت کا تعلق دل سے ہے اور اگر دل میں نماز کی نیت کرلی تو نماز صحیح اور درست ہوجائے گی؛ البتہ زبان سے الفاظ بھی کہہ لے تو بہتر ہے۔ امام صاحب کی نیت یہ ہونی چاہئے، مثلاً: آج کی فجر کی دو رکعت فرض اپنی اور اپنے مقتدیوں کی طرف سے اداء کرنے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے بعد نماز شروع کردے۔(۱)

(۱) النیۃ ہي في اللغۃ مطلق القصد وفي الشریعۃ قصد کون الفعل لما شرع لہ والعبادات إنما شرعت لنیل رضاء اللّٰہ تعالیٰ ولا یکون ذلک إلا بإخلاصہا لہ فالنیۃ في العبادات قصد کون الفعل للّٰہ تعالیٰ لیس غیر۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ‘‘: ص: ۲۱۶، دار الکتاب دیوبند)
وتشترط النیۃ وہي الإرادۃ الجازمۃ لتتمیز العبادۃ عن العادۃ ویتحقق الإخلاص فیہا للّٰہ سبحانہ وتعالیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ص: ۲۱۵، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص301

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے سلام پھیرنے پر ہی اقتداء ختم ہو جاتی ہے اور اب سب کو اپنی اپنی دعا کرنی ہوتی ہے جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں لوگ خود دعا نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ امام کے انتظار میں رہتے ہیں جب امام دعاء کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو مقتدی حضرات کو اطلاع دینے کے لیے مؤذن بلند آواز سے آمین کہتا ہے اس پر سب مقتدی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور امام کے دعا ختم کرنے پر مقتدی حضرات کو اطلاع دینے کے لیے مؤذن لا الہ الا اللہ کہتا ہے بظاہر اس سے دعا کا التزام لازم آتا ہے جو مناسب نہیں ہے۔(۱)
(۱) البدعۃ أصلہا: ماأحدث علی غیر مثال سابق۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل من قام رمضان‘‘: ج ۴، ص: ۲۵۳)
عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: الفصل الأول: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰، یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا أمن القارئ فأمنوا فإن الملائکۃ تؤمن فمن وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ،’’کتاب الدعوات: باب التأمین‘‘: ج۲، ص: ۹۴۷،رقم: ۶۴۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص444

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1035/41-197

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جن لوگوں کی نماز عید امام کے پیچھے فاسد ہوگئی ان کو کسی دوسری جگہ جہاں عید کی نماز نہ ہوئی ہو وہاں عید کی نماز اداکرنی چاہئے ۔ اگر چار یا اس سے زائد افراد کی نماز فاسد ہوئی ہے اور وقت باقی ہے  تو جماعت کر لیں۔ لیکن اگر جماعت کی شرائط نہ پائی جائیں اور کسی دوسری جگہ نماز عید کی بھی گنجائش نہ ہوتو چاشت کی نیت سے چار رکعت ادا کرلے تاکہ کچھ ثواب حاصل ہوجائے۔  عید کی نماز تو نہ تنہا ادا کیجاسکتی ہے اور نہ ہی اس کی قضا ذمہ میں لازم ہوتی ہے ، اس لئے   ایسے لوگوں  کے لئے اب صرف توبہ واستغفار ہے۔

وان فسدت بخروج الوقت او فاتت عن وقتھا مع الامام سقطت ولایقضیھا عندنا  (بدائع)۔ ولکنہ یصلی اربعا مثل صلوۃ الضحی ان شائ، لانھا اذا فاتت لایمکن تدارکھا بالقضائ لفقد الشرائط، فلو صلی مثل صلوۃ الضحی لینال الثواب کان حسنا لکن لا یجب لفقد دلیل الوجوب (بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۱/۶۲۴)

نوٹ:۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2347/44-3529

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     مذکورہ صورت میں عورت کےہاتھ پاؤں کے   نماز ی کے کسی عضو سے مس ہوجانے سے نماز خراب نہیں ہوگی۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ ﷺ کے قبلہ کی جانب ہوتے تھے، پس جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دبا دیتے میں پیر سمیٹ لیتی، پھر جب آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے تو میں پیر پھیلا دیتی اور ان ایام میں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (موطا مالک باب صلوٰۃ اللیل)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات کو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا، تو میں نے ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپ ﷺ کے تلووں پر لگے، آپ ﷺ سجدہ کر رہے تھے اور آپ ﷺ کے پاؤں مبارک کھڑے تھے۔ (صحیح مسلم باب ما یقال فی الرکوع السجود)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں آپ کی امامت بلا کراہت صحیح اور درست ہے؛ اس لیے کہ آپ کی طرف سے بظاہر کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی جب کہ نماز تو فاسق کے پیچھے بھی درست ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) {إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَئِکَ أَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ} (سورۃ البقرۃ: ۱۶۰)
{إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ} (سورۃ آل عمران: ۸۹)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما   أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص42

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مؤذن صاحب کے نماز پڑھا دینے میں کوئی حرج نہیں بلا کراہت امامت درست ہے، مسجد کی صفائی کرنے سے اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا اصل بات یہ ہے کہ وہ امامت کے لائق ہو اور قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔(۲)

(۲) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدًا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (أیضًا:)۔
شروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (أیضاً)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص71

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پیشاب کے شدید تقاضے کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حکم یہی ہے کہ قضاء حاجت کے بعد میں نماز پڑھے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن أرقم أنہ خرج حاجا أو معتمرًا ومعہ الناس وہو یؤمّہم فلما کان ذات یوم اقام الصلوٰۃ، صلوٰۃ الصبح ثم قال لیتقدم أحدکم وذہب الخلاء فإني سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول إذا أراد أحدکم أن یذہب الخلاء وقامت الصلوٰۃ فلیبدأ بالخلاء‘‘(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل لرجل یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن یصلی وہو حقن حتی یتخفف‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۸۸، نعیمیۃ دیوبند
(۲) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، نعیمیۃ دیوبند
قولہ (وصلاتہ مع مدافعۃ الأخبثین الخ) أي البول والغائط: قال في الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت وإن خاف أتمہا أثم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص394

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے کہ نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے، اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔(۱)
(۱)  فلم یجعل قصدہ تشـریکاً وترکاً للإخلاص بل ہو قصد العبادۃ علی حسب وقوعہا لأن من ضرورتہا حصول الحمیۃ أو الـتـداوي۔ (شرح الحموي علی الأشباہ، ’’الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول: القاعدۃ الثانـیـۃ: الأمور بمقاصدہا‘‘: ص: ۱۴۳، دار الکتاب دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 41 و 42

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام کے لیے طریقہ نیت مقتدی جیسا ہے؛ البتہ اس کے ساتھ مقتدیوں کے لیے امامت کی نیت زیادہ ہے کہ فلاں امام کی اقتداء کی نیت کرتا ہوں امام کو یہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے کہ میں مقتدیوں کی امامت کر رہا ہوں۔(۲)

(۲) ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ، حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ، فإن اقتداء ہن بہ لا یجوز ما لم ینو أن یکون إماماً لہن أو لمن تبعہ عموماً۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ‘‘: ص: ۲۱۹، دار الکتاب دیوبند)
والخامس منہا: نیۃ المتابعۃ مع نیۃ أصل الصلاۃ للمقتدي … وقیدنا بالمقتدي لأنہ لا یشترط نیۃ الإمامۃ للرجال بل للنساء۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۱، ۲۲۲، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا مسنون اور احادیث سے ثابت ہے۔
’’حدثنا محمد بن أبي یحییٰ: قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأی رجلا رافعاً یدیہ بدعوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
’’ما من عبد مؤمن یبسط کفیہ في دبر کل صلوۃ ثم یقول: اللّٰہم إلہي وإلٰہ إبراہیم … إلا کان حقا علی اللّٰہ أن لا یرد یدیہ خائبتین‘‘(۲)
(۱) المعجم الکبیر للطبراني، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي، عن ابن الزبیر‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)
(۲) علاء الدین الہندي،کنز العمال، ’’کتاب الأذکار: قسم الأقوال، الفرع الثاني أدعیۃ بعد الصلاۃ ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، رقم: ۳۴۷۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔ عن المطلب عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الصلوٰۃ مثنی مثنیٰ أن تشہد في کل رکعتین وأن تباء س وتمسکن وتقنع بیدیک وتقول اللّٰہم اللّٰہم فمن لم یفعل ذلک فہي خداج۔ (أخرجہ أبوداود في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في صلاۃ النہار‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳، رقم: ۱۲۹۸، مکتبہ اتحاد، دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص445