Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام موصوف کا اپنی امامت میں یہ شرط لگانا کہ جب تک میں امام رہوں گا، میرا بھتیجہ قرآن پاک سنائے گا خلاف شریعت اور ناجائز ہے، ایسی صورت میں مسجد کی منتظمہ کمیٹی کو اختیار ہے کہ جس کو چاہے قرآن پاک سنانے کے لیے مقرر کریں؛ کیوں کہ ان کی یہ شرط فرائض امامت کے خلاف ہے تاہم کمیٹی والوں کو چاہیے کہ امام صاحب کے بھتیجے لائق وفائق ہیں، تو دوسروں کے مقابلہ میں ان ترجیح دی جائے کہ اس میں امام صاحب کہ ساتھ حسن معاملہ بھی ہے، اور رفع نزاع بھی ہے۔(۱)(۱) ومن حکمہا نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم قال الشامي نظام الألفۃ بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریماً۔ (أیضاً: ’’مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷)وأما الراتب فہو أحق من غیرہ وإن کان غیرہ أفقہ منہ۔ (عبد الرحمن بن الشیخ محمد، مجمع الانہر: ج۲، ص: ۱۶۲؛ والحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴)ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ) لہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 96
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: آن لائن تراویح کی نماز درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ علامہ شامی نے اقتداء کی دس شرطیں ذکر کی ہیں۔ (۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں۔ (۲) دونوں کی نماز ایک ہو، اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نفل کی نیت کرے اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی۔ (۳) مکان متحد ہو۔ (۴) امام کی نماز صحیح ہو۔ (۵) عورت، مرد کے محاذات میں نہ ہو۔ (۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی۔ (۷) مقتدی کو امام کے حرکات وانتقالات کا علم ہو۔ (۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو۔ (۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہو، اگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی۔ (۱۰) مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نماز درست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔(۱)آن لائن تراویح میں یہ شرطیں نہیں پائی جاتی ہیں:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’إذا کان بینہ و بین الإمام طریق أو نہر أو حائط فلیس معہ‘‘(۲)’’فقد تحرر بما تقرر ان اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و ان اتحد المکان ثم رأیت الرحمتی قد قرر ذلک فاغتنم ذلک‘‘(۳) اگر امام مسجد میں تراویح پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے؛ لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ، اسی طرح ،ایک گھر میں تراویح ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے ،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔ اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاوہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں، مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیںکہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوںکے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں ،پھر اگر موجودہ ضرورت کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی جائے گی تو کل جب یہ ضرورت ختم ہوگی تو بھی لوگ مسجد میں آنے کے بجائے آن لائن نماز ہی پڑھنا چاہیں گے جو کہ جماعت کے مقصد کے بالکل خلاف ہے اس لیے کہ جماعت کا مقصد اجتماعیت اور مسجدوں کو آباد کرنا ہے آن لائن سسٹم اس اجتماعیت کو ختم کردے گا؛ اس لیے اسکائپ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔موجودہ حالات میں بھی یہی ضروری ہے کہ امام اور مقتدی ایک ساتھ نماز تروایح پڑھیں اگر حافظ امام مل جائے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ سورہ تراویح کے ذریعہ تراویح کا اہتمام کریں ، ایسا نہ ہو کہ حافظ امام نہ ملنے کی صورت میں تراویح ترک کردی جائے ،بلکہ اگر جماعت کے ساتھ تراویح کا نظم نہ ہو سکے تو لوگ انفرادی طور پر سورہ تراویح کا نظم کرلیں لیکن ہمیشہ کی طرح تراویح کا اہتمام ضرور کریں۔(۱) صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ: نیۃ المؤتم و الاقتداء، واتحاد مکانہما وصلاتہما، وصحۃ صلاۃ إمامۃ، وعدم محاذاۃ امرأۃ وعدم تقدمہ علیہ بعقبہ، وعلمہ فانتقالاتہ وبحالہ من إقامۃ وسفر، ومشارکۃ في الأرکان، وکونہ مثلہ أو دونونہ فیہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: شروط الإمامۃ الکبری‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴، ۲۸۵، ۲۸۶)(۲) ابن بطال، شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب صلاۃ الجماعۃ الإمامۃ، باب إذا کان بین الإمام وبین القوم حائط أو سترۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ التي ہي ظاہر الروایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 93
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد نماز ہے جن لوگوں نے اس کا مشورہ دیا ہے وہ غلط مشورہ دیا ممکن ہے کہ کسی دوسرے امام کی پیروی میں انہوں نے ایسا مشورہ دیا ہو؛ لیکن احناف کے یہاں یہ عمل درست نہیں ہے اور اس کی احناف کے یہاں دو علتیں ہیں؛ ایک علت یہ ہے کہ قرآن میں دیکھنا،اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدہ میں جاتے وقت قرآن کو رکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے۔دوسری علت یہ ہے کہ قرآن دیکھ کرپڑھنا یہ درحقیقت تعلیم حاصل کرنا ہے،جس طرح نماز میں کسی زندہ آدمی سے اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ اسی طرح مصحف کے ذریعہ بھی اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ علامہ ابن ہمام نے اس کی صراحت کی ہے وہ لکھتے ہیں:’’و تحقیقہ أنہ قیاس قراء ۃ ما تعلمہ في الصلاۃ من غیر معلم حی علیہا من معلم حي بجامع أنہ تلقن من خارج وہو المناط في الأصل فقط‘‘(۱)’’ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجہان: حمل المصحف وتقلیب الأوراق، والنظر فیہ عمل کثیر والصلاۃ منہ بد فتفسد الصلاۃ، فعلی ہذا الوجہ نقول: إن کان المصحف بین یدیہ علی رجل وہو لا یحمل، ولا یقلب الأوراق تصح صلاتہ، وکذلک لو قراء آیۃ مکتوبۃ علی المحراب تصح صلاتہ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ علی قیاس ہذا التعلیل والوجہ الثاني: أن ہذا تعلم من المصحف في الصلاۃ، والتعلم في الصلاۃ، مفسد للصلاۃ کما لو تعلّم من معلم؛ وہذا لأن التعلم نوعان: تعلم من الکتاب، وہما علم الصحیفتین، وتعلم من معلم، ثم التعلم من المعلم یفسد الصلاۃ، فکذا من الکتاب، فعلی ہذا الوجہ نقول: وإن کان المصحف بین یدیہ، وہو لا یحملہ ولا یقلب الأوراق تفسد صلاتہ عن أبي حنیفۃ‘‘(۱)(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۲۔(۱) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس في کیفیتہا، باب في القراء ۃ بالفارسیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 92
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شریعت میں قمری تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے اور بالغ لڑکے کی امامت درست ہے۔ لڑکا پندرہ سال سے پہلے علامات بلوغ کے پائے جانے سے بالغ ہوسکتا ہے اور اگر کوئی علامت نہ ہو تو پندرہ سال میں بالغ ہوجاتا ہے، لہٰذا مذکورہ شخص کا تراویح میں امام بننا بلا کراہت درست ہے۔’’عن ابن عمر، قال: عرضني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم أحد في القتال، وأنا ابن أربع عشرۃ سنۃ، فلم یجزنی، وعرضنی یوم الخندق، وأنا ابن خمس عشرۃ سنۃ، فأجازني، قال نافع: فقدمت علی عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ خلیفۃ، فحدثتہ ہذا الحدیث، فقال: إن ہذا الحد بین الصغیر والکبیر، فکتب إلی عمالہ أن یفرضوا لمن کان ابن خمس عشرۃ سنۃ، ومن کان دون ذلک فاجعلوہ في العیال‘‘(۱)’’و السن الذي یحکم ببلوغ الغلام و الجاریۃ إذا انتہیا إلیہ خمس عشرۃ سنۃ عند أبي یوسف و محمد، وہو روایۃ عن أبي حنیفہ و علیہ الفتوی‘‘(۲)(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب سن البلوغ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، رقم: ۱۸۶۸۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الحجر: الفصل الثاني في معرفۃ حد البلوغ‘‘: ج ۵، ص: ۶۱۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: فرض نماز جان بوجھ کر ترک کرنے والا شخص فاسق ہے، اسی طرح داڑھی کاٹنے والا شخص فاسق ہے اس کے پیچھے جس طرح عام نماز یں مکروہ ہیں، اسی طرح تراویح کی نماز بھی مکروہ ہے۔ غیر شرعی بال اور غیر شرعی لباس کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت کریں، لباس اگر ساتر ہو جسم کے اعضا نظر نہ آتے ہوں تو وہ لباس درست ہے غیر شرعی لباس سے مراد اگر پینٹ شرٹ پہننا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔’’وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا‘‘(۱)’’ویکرہ تقدیم العبد؛ لأنہ لا یتفرغ للتعلم، والأعرابي؛ لأن الغالب فیہم الجہل والفاسق؛ لأنہ لا یہتم لامر دینہ‘‘(۲)’’إن الأخذ من اللحیۃ وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود والہنود ومجوس الأعاجم اہـ۔ فحیث أدمن علی فعل ہذا المحرم یفسق وإن لم یکن ممن یستخفونہ ولا یعدونہ قادحا للعدالۃ والمروئۃ‘‘(۳)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ، شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: إمامۃ العبد والفاسق‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳۔(۳) ابن عابدین، العقود الدریۃ، في تنقیح الفتاوی الحامدیۃ: ج ۱، ص: ۳۲۹، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 89
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر کوئی شخص تراویح کی نماز نہ پڑھے اور روزہ رکھنے کااہتمام کرے تو روزہ کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا؛ لیکن تراویح کے اجر و ثواب سے محروم رہے گا۔ تراویح کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے سنتِ مؤکدہ ہے، بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:’’(التراویح سنۃ) مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین (للرجال والنساء) إجماعا‘‘’’(قولہ سنۃ مؤکدۃ) صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن أبي حنیفۃ۔ وذکر في الاختیار أن أبا یوسف سأل أبا حنیفۃ عنہا وما فعلہ عمر، فقال: التراویح سنۃ مؤکدۃ، ولم یتخرجہ عمر من تلقاء نفسہ، ولم یکن فیہ مبتدعا؛ ولم یأمر بہ إلا عن أصل لدیہ وعہد من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۱)نیز مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے محروم رہے گا اور عورتوں کے لیے جماعت سنتِ مؤکدہ کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔’’قولہ: والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ إلخ) أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین، فلو ترکہا واحد کرہ، بخلاف صلاتہا بالجماعۃ فإنہا سنۃ کفایۃ، فلو ترکہا الکل أسائوا؛ أما لو تخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ، وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات، کما في المنیۃ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ؟ ظاہر کلام الشارح الأول۔ واستظہر ط الثاني۔ ویظہر لي الثالث، لقول المنیۃ: حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأسائوا‘‘(۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں ضرورت سے زائد روشنی کرنا مناسب نہیں ہے، خواہ کسی ایک شخص کی طرف سے ہو یا بہت سے لوگوں کی طرف سے ہو، مسلمان کی کمائی ایسی چیزوں میں صرف ہونی چاہئے جو کہ کار خیر اور قرب الی اللہ کے قبیل سے ہو۔ فضول خرچی سے حتی الامکان مسلمان کو پرہیز لازم ہے۔{وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاہ۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاہ۲۷}(۱)’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳)(۱) سورۃ الاسراء: ۲۶، ۲۷۔(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 86
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے کیوں کہ اس میں جماعت خانہ اور صحن مسجد کا خالی رہنا لازم آتا ہے جو کراہت سے خالی نہیں ہے۔ البتہ اگر جگہ نہ رہے اور پھر کچھ حضرات اوپر چھت پر جاکر جماعت میں شریک ہوجائیں تو بلاکراہت درست ہے۔(۱)(۱) الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب السجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 86
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح سنت مؤکدہ ہے(۱) بعض فقہاء نے کہا کہ صرف سنت ہے جماعت بھی سنت کفایہ ہے۔ علامہ قدوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا مستحب ہے لیکن قول اول صحیح ہے ختم قرآن تراویح میں سنت ہے(۲) لیکن سنت مؤکدہ نہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ پورے رمضان تراویح کا مکمل اہتمام کرے تاکہ ترتیب کے ساتھ قرآن کریم مکمل ہو، تاہم عذر کی وجہ سے مذکورہ صورت میں بھی قرآن مکمل ہو جائے گا۔ نیز فقہاء متاخرین نے الم ترکیف سے پڑھنے کو بھی کافی کہا ہے۔ جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن سننا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔(۱) التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً۔…(الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۳)(۲) والسنۃ في التراویح إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 85
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شبینہ میں ایک رات میں قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے اکابر و اسلاف کا معمول بھی رہا ہے؛ اس لیے نفس شبینہ کو تو ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا؛ لیکن اس میں جو غیر شرعی امور رائج ہوگئے ہیں جن کا سوال میں آپ نے ذکر کیا ہے ان سے احتراز لازم ہے۔(۱)(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُہلا ۱ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاًہلا ۲ نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاًہلا ۳ اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًہط ۴ } (سورۃ المزمل: ۱، ۴)قام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی تورمت قدماہ فقیل لہ غفر اللّٰہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر قال: أفلا أکون عبدا شکوراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ الفتح، باب قولہ: لیغفرلک اللّٰہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۶، رقم: ۴۸۳۶)حدثنا عبد اللّٰہ بن مسلمۃ، عن مالک، عن زید بن أسلم، عن عطاء بن یسار، … …عن عبد اللّٰہ بن عباس، قال: انخسفت الشمس علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقام قیاما طویلا نحوا من قراء ۃ سورۃ البقرۃ، ثم رکع رکوعا طویلا، ثم رفع فقام قیاما طویلا: وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم سجد ثم قام قیاما طویلا وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم رفع فقام قیاما طویلا وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب صلاۃ الکسوف جماعۃً‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، رقم: ۱۰۵۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 84