نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک نہیں پہنچتی تو بہتر ہے کہ اذان دی جائے۔(۱)

(۱)ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ، کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما، ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط، ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص175

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی نیت کرکے زبان سے ’’اللّٰہ أکبر‘‘ پڑھتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اس طرح کہ انگوٹے کانوں کی لو سے مل جائیں یا برابر ہوجائیں پھر ہاتھ باندھ لے۔(۲)

(۲) (وکیفیتہا) إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ  شحمتي أذنیہ وبرؤس  الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبیین، ولا یطأطیٔ رأسہ عند التکبیر، کذا في الخلاصۃ، قال الفقیہ أبوجعفر: یستقبل ببطون کفیہ القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما فإذا استقرتا في موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین یکبر، قال شمس الأئمۃ السرخسي، علیہ عامۃ المشایخ، کذا في المحیط، والرفع قبل التکبیر ہو الأصح، ہکذا في الہدایۃ وہکذا تکبیرات القنوت وصلاۃ العیدین ولا یرفعہا في تکبیرۃ سواہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وأدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
والأصح أنہ یرفع یدیہ أولا ثم یکبر لأن فعلہ نفي الکبریاء عن غیر اللّٰہ والنفي مقدم علی الإثبات۔ (ویرفع یدیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ) وعند الشافي رحمہ اللّٰہ: یرفع إلی منکبیہ، وعلی ہذا تکبیرۃ القنوت والأعیاد والجنازۃ، لہ حدیث أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ إلی منکبیہ، ولنا روایۃ وائل بن حجر والبراء وأنس رضي اللّٰہ عنہم، أن النبي علی الصلاۃ والسلام کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵،۲۸۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص298

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نمازوں میں جو جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں ان میں افضل یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا بالسر کی جائے(۱) دعاء بالجہر نہ کی جائے اور کبھی اتفاق سے ایسا ہو بھی جائے تو ممانعت نہیں ہے جائز ہے؛ البتہ دعاء بالجہر کو لازم کرلینا بدعت ہے جو قابل ترک ہے اور اس سے مسبوقین کی نماز میں خلل پیدا ہوگا۔
عیدین کی نماز کے بعد دعاء سے فراغت کرلی جائے کہ بعد نماز ہی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء منقول ہے اور بعد خطبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابۂ کرامؓ سے دعاء منقول نہیں ہے۔(۱) لہٰذا ایسا کرنا احداث فی الدین اور بدعت ہوگا جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔(۲)
واختار مشایخنا بما وراء النہر الإخفاء في دعاء القنوت في حق الإمام والقوم جمیعا لقولہ تعالی {ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ} (الأعراف: ۵۵)، وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیر الدعاء الخفي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴؛و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
(۱) عن أبي أمامۃ قال: قیل یارسول اللّٰہ أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل ودبر الصلوات المکتوبۃ، رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب التحریض علی قیام اللیل، الفصل الثاني‘‘: ص: ۸۹، رقم:۹۶۸)
عن معاذ بن جبل، رضي اللّٰہ عنہ قال: لقیتُ النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال لي: یا معاذ، إني أحبک، فلا تدع أن تقول في دبر کل صلاۃ: اللّٰہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۸، رقم: ۹۴۹)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص442

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دو رکعت پر سلام پھیردے یا چار رکعت مختصر قرات پڑھ کر سنت پوری کرے دونوں صورتیں جائز ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیرے؛ البتہ اگر تیسری رکعت شروع کردی ہو تو چار رکعت اختصار کے ساتھ پوری کرلے۔(۱)

(۱) قال في البحر: وما في الفتح: من أنہ لو خرج وہو في السنۃ یقطع علی رأس رکعتین ضعیف، وعزاہ قاضي خان إلی النوادر قلت: وقدمنا في باب إدراک الفریضۃ ترجیح مافي الفتح أیضا، وأن ہذا کلہ حیث لم یقم إلی الثالثۃ، وإلا فإن قیدہا بسجدۃ أثم وإلا فقیل: یتم، وقیل: یقعد ویسلم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع  الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج ۳، ص: ۳۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص363

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/871

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1)  نماز درست ہوجائے گی۔ (2) نماز درست نہیں، اگر اس طرح نماز پڑھ لی تو اعادہ واجب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2198/44-2324

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس شخص کی  داڑھی نہ نکلی ہو اور بالغ ہوگیا ہو تو اس کو امام بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، مستقل امامت کے لئے بھی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نماز میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔  البتہ اگر فتنہ کا خوف ہے تو کراہت آئیگی۔

شروط الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء:الاسلام  والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار۔“ رد المحتار علی الدر المختار،ج2،ص337،مطبوعہ کوئٹہ)

وكذا تكره خلف أمرد، الظاهر أنها تنزيهية أيضاً: و الظاهر أيضاً كما قال الرحمتي: إن المراد به الصبيح الوجه ؛ لأنه محل الفتنة''. (شامی، باب الإمامة، مطلب في إمامة الأمرد، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے صحیح ہونے کے لیے طہارت ضروری ہے۔ اگر امام صاحب صرف پانی سے طہارت پر اکتفاء کرتے ہیں اور اس سے زائد احتیاط کی ضرورت نہ ہو تو ان کی اقتداء میں بلا شبہ نماز درست ہے، بظاہر اس قسم کا شبہ درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) والاستنجاء بالماء أفضل إن أمکنہ ذلک من غیر کشف العورۃ      …یستنجي بالحجر ولا یستنجي بالماء، والأفضل أن یجمع بینہما … قیل ہو سنۃ في زماننا وقیل علی الإطلاق وعلیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ، ص: ۱۰۴، زکریا دیوبند)
ثم اعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الإقصار علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل وإن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في الماء القلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص41

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں ان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، سوال میں مذکور امام اگر جائز تعویذات کا کام کرتے ہیں اور غیر محرم عورتوں سے پردہ بھی کرتے ہیں اور دیگر اوصافِ امامت سے متصف ہیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اور اگر ناجائز تعویذات جن میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر لکھے جاتے ہیں اور امام صاحب غیر محرم عورتوں سے پردہ نہیں کرتے تو ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ہے امام صاحب کو چاہیے کہ متہم ہونے سے بچیں اور اپنے کردار پر خاص توجہ دیں اس لیے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس اور بابرکت ہے جو تقویٰ طہارت اور اعلیٰ اخلاقی رویہ کا تقاضا کرتا ہے وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان سب چیزوں سے بچنا چاہئے جو عوام میں بحث کا موضوع بنتا ہو، تاہم ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز درست ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’عن عوف بن مالک الأشجعي، قال: کنا نرقي في الجاہلیۃ، فقلنا: یا رسول اللّٰہ کیف تری في ذلک؟ فقال: اعرضوا علی رقاکم، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک‘‘(۱)
’’عن أبي سعید الخدري أن رہطاً من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم انطلقوا في سفر سافروہا، فنزلوا بحي من أحیاء العرب، فقال بعضہم: إن سیدنا لدغ، فہل عند أحد منکم شيء ینفع صاحبنا؟ فقال رجل من القوم: نعم، واللہ إني لأرقی، ولکن استضفناکم، فأبیتم أن تضیفونا، ما أنا براق حتی تجعلولي جعلاً، فجعلوا لہ قطیعاً من الشاء، فأتاہ، فقرأ علیہ أم الکتاب ویتفل حتی برأ کأنما نشط من عقال، قال: فأوفاہم جعلہم الذي صالحوہم علیہ، فقالوا: اقتسموا، فقال الذي رقی: لاتفعلوا حتی نأتي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنستأمرہ، فغدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکروا لہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من أین علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربوا لي معکم بسہم‘‘(۱)
’’قال العیني: کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم۔ فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الأئمۃ الأربعۃ، وفیہ جواز أخذ الأجرۃ۔ قال محمد في الموطأ: لابأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالی، فأما ماکان لایعرف من الکلام فلاینبغي أن یرقی بہ، انتہی۔ وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ، والأسماء والصفات الربانیۃ، والدعوات المأثورۃ النبویۃ، فلا بأس، بل یستحب سواء کان تعویذاً أو رقیۃً أو نشرۃً، وأما علی لغۃ العبرانیۃ ونحوہا، فیمتنع؛ لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
’’رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ، لا یکرہ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب:باب کیف الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’ کتاب الطب والرقی، الفصل الثانی‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۸۰، رقم: ۴۵۵۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص67

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نے اپنی رضا مندی سے نسبندی کرائی ہو اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کے پیچھے نماز کراہت ِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔(۱)
جس نے عذر اور مجبوری کی بنا پر کرائی ہو (چونکہ معذور و مجبور کے احکام جدا ہیں) اس کی امامت بلاکراہت درست ہے۔

(۱) ومنہا أي من صفات المؤذن أن یکون تقیًا؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لایؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالمًا بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، ویؤذن لکم خیارکم، وخیار الناس العلماء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان سنن الأذان وصفات المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۳۷۲، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحًا تقیًا عالمًا بالسنۃ، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰)
خصاء بني آدم حرام بالاتفاق۔ (أیضاً: ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق‘‘:  ج۵، ص: ۴۱۲)    کذا أجذم ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۳)
قولہ: وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق … أما الکراہۃ فمبنیۃ علی قلۃ الناس في رغبۃ الناس في ہؤلاء فیؤدي إلی تقلیل الجماعۃ المطلوب تکثیرہا تکثیرا للآخر … والفاسق لایہتم لأمر دینہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص197

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مفلوج ہوجانا، پاؤں سے معذور ہوجانا، مسلسل بارش ہوتے رہنا، راستہ کا غیر مامون ہونا وغیرہ، ایسے اعذار میں جن کی وجہ سے جماعت ترک کرنے کی گنجائش ہے، اور اس پر مواخذہ نہیں ہوگا؛ بلکہ بعض صورتوں میں جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔ (۱)

(۱) في نور الایضاح: وإذا انقطع عن الجماعۃ لعذر من أعذار وکانت نیتہ حضورہا لولا العذر یحصل لہ ثوابہا اہـ والظاہر أن المراد بہ العذر المانع کالمرض والشیخوخۃ والفلج بخلاف نحو المطر والطین وأبرد والعمی۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۱، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص392