نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کی نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی، لیکن اس کی سب سے پہلے ادائیگی مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابی رسول اسعد بن زرارہ نے فرمائی اس موقع پر چالیس لوگ جمعہ میں شریک تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلا جمعہ محلہ بنو سالم بنی عوف میں ادا فرمایا۔’’وہي أول جمعۃ في الإسلام وأما أول جمعۃ جمعہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکانت في مسجد بني سالم بن عوف فخطب وصلی فیہ قولہ: ’’بالکتاب‘‘ ہو قولہ تعالی: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ} (سورۃ الجمعۃ: ۹)(۱)’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع في أول جمعۃ حین قدم المدینۃ في مسجد بني سالم في مسجد عاتکۃ‘‘(۲)’’کنت قائد أبي بعدما ذہب بصرہ، وکان لا یسمع الأذان بالجمعۃ إلا قال: رحمۃ اللہ علی أسعد بن زرارۃ، قال: قلت: یا أبت، إنہ لتعجبني صلاتک علی أبي أمامۃ کلما سمعت بالأذان بالجمعۃ، فقال: أي بني، کان أول من جمع الجمعۃ بالمدینۃ في حرۃ بني بیاضۃ، في نقیع یقال لہ: الخضمات، قلت: وکم أنتم یومئذ؟ قال: أربعون رجلا‘‘(۱)

(۱) أحمد بن اسماعیل،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۲۔(۲) تاریخ المدینۃ، لابن شیبۃ، ’’ذکر المساجد والمواضع النبي صلی اللّٰہ فیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 41

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ہر نماز کا حکم مستقل ہے، اس لیے اگر کوئی شخص صرف جمعہ کی نماز پڑھتا ہے اور ہفتہ بھر کوئی نماز نہیں پڑھتا تو اس کی جمعہ کی نماز درست ہوجائے گی لیکن ہفتہ بھر فرائض کو ترک کرنا کبیرہ گناہ اور سخت وبال کی چیز ہے ایک مسلمان کو نماز جیسے اہم فریضے سے اس درجہ غافل نہیں ہونا چاہیے اور حتی الامکان نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے حدیث میں آتاہے کہ ایمان کی علامت نماز ہے اور مومن اور کفر کے درمیان ترک نماز کا فاصلہ ہے اور حدیث میں ہے جو شخص جان بوجھ کر نماز ترک کرتاہے وہ کافر ہو جاتا ہے یعنی کفر کے قریب پہونچ جاتا ہے۔’’إن بین الرجل وبین الشرک والکفر ترک الصلاۃ‘‘(۲)’’العہد الذي بیننا وبینہم الصلاۃ، فمن ترکہا فقد کفر‘‘(۳)(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم:۸۲۔(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في من ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۵، رقم: ۱۰۷۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 41

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عورت کے اوپر جمعہ فرض نہیں ہے جمعہ کی شرطوں میں مذکر ہونا ہے لیکن اگر عورت، مرد امام کے پیچھے پردہ میں رہ کر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کا فریضہ ادا ہوجائے گا اور ظہر اس سے ساقط ہوجائے گی یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ مسافر پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے لیکن اگر مسافر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس سے فریضہ ساقط ہو جاتا ہے۔’’(قولہ وشرط وجوبہا: الإقامۃ والذکورۃ والصحۃ والحریۃ وسلامۃ العینین والرجلین) فلا تجب علی مسافر، ولا علی امرأۃ، ولا مریض، ولا عبد ولا أعمی، ولا مقعد ولہ، ومن لا جمعۃ علیہ إن أداہا جاز عن فرض الوقت)؛ لأنہم تحملوہ فصاروا کالمسافر إذا صام‘‘(۱)’’ومن لا جمعۃ علیہ کمریض ومسافر ورقیق وامرأۃ وأعمی ومقعد إن أداہا جاز عن فرض الوقت لأن سقوط الجمعۃ عنہ للتخفیف علیہ فإذا تحمل ما لم یکلف بہ وہو الجمعۃ جاز عن ظہرہ کالمسافر إذا صام‘‘(۲) ’’ومن لا جمعۃ علیہ إن أداہا جاز عن فرض الوقت، کذا في الکنز‘‘(۱)(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۴۔(۲) احمد بن المعین، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر … فيصلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 41

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص کسی عذر شرعی کے بغیر معمولی سمجھ کر تین جمعہ چھوڑدے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگادیتے ہیں اور بعض روایات میں ہے: اللہ تعالی اسے منافق لکھ دیتے ہیں؛ لیکن آدمی اسلام سے خارج نہیں ہوتا؛ لہٰذا زید اگر صدقِ دل سے توبہ کرلے اور چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرلے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ کو معاف کردے گا۔ اور نہ پڑھنے کی وجہ سے ظہر کی قضاء اس پر لازم ہوگی۔’’عن أبي جعد الضمري قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’من ترک ثلاث جمع تھاوناً بھا طبع اللہ علی قلبہ‘‘ رواہ أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجۃ والدارمي ورواہ مالک عن صفوان بن سلیم وأحمد عن أبي قتادۃ‘‘(۱)’’(طبع اللّٰہ) أي: ختم (علی قلبہ) بمنع إیصال الخیر إلیہ، وقیل: کتبہ منافقاً (رواہ أبو داود والترمذي) قال میرک: وحسنہ (والنسائي) قال ابن الھمام: وحسنہ (وابن ماجۃ والدارمي) قال میرک: والحاکم وقال: صحیح علی شرط مسلم وابن خزیمۃ وابن حبان في صحیحھما ولفظھما: من ترک الجمعۃ ثلاثاً من غیر عذر فھو منافق‘‘(۲)(۱) خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب الجمعۃ، الفصل الثاني‘‘:

ص: ۱۲۱، رقم: ۱۳۷۱۔(۲) ملا علي قاری، قاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب الجمعۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۰، رقم: ۱۳۷۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 38

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ جمعہ کا دن مومنوں کے لیے عید کی حیثیت رکھتا ہے، اس بابرکت اجتماع کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اپنے دوست واحباب سے ملاقات وتعارف ہوتا ہے، نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے نماز جمعہ کے وقت اپنے تمام کاروبار بند کر کے اپنی عبادت کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: کہ جب جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، اور خرید وفروخت کو چھوڑدو یہ تمہارے حق میں بہتر  ہوگا اگر تم کچھ جانتے ہو۔ ایسے ہی حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر جمعہ کے لیے آئے اور خاموش رہے تو اس کے وہ تمام گناہ جو گزشتہ جمعہ سے اس جمعہ تک ہوئے معاف کردئے جاتے ہیں؛بل کہ تین دن آگے تک کے گناہ بھی معاف کردئے جاتے ہیں مزید ایک روایت میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جمعہ کے دن دو رکعتیں ہیں اور یہ مستقل فرض ہیں، یہ ظہر کے بدلہ میںنہیں ہیں، لیکن جس شخص کی جمعہ کی نماز چھوٹ جائے تو اس پر ظہر کی چار رکعت فرض ہوں گی۔خلاصہ: یہ ہے کہ اس دن کی خصوصیت قرآن وحدیث میں اہمیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اس لیے آپ کے دو ستوں کو چاہئے کہ بلا عذر شرعی جمعہ کی نماز کو ترک نہ کریں، البتہ کسی شدید مجبوری سے نماز چھوٹ جائے تو اس پر ظہر کی چار رکعت پڑھنا فرض ہے۔{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَہ۹  فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَہ۱۰}(۱)’’عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرک رکعۃ من الجمعۃ فلیصل إلیھا أخری ومن فاتتہ الرکعتان فلیصل أربعا‘‘(۲)’’من توضا فأحسن الوضوء ثم أتی الجمعۃ فاستمع و انصت، غفر لہ ما بینہ و بین الجمعۃ وزیادۃ ثلاثۃ أیام ومن مس الحصی فقد لغا‘‘(۳) (۱) سورۃ جمعہ: ۹، ۱۰۔(۲) أخرجہ الدار قطني في سننہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب فیمن یدرک من الجمعۃ رکعۃ أو لم یدرکہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۱، رقم: ۱۵۸۳۔(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: فصل من اغتسل أو توضأ أو أتی الجمعۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۳، رقم: ۸۵۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 37

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)صورت مسؤلہ میں وہ جگہ مسجدشرعی نہیں ہے؛ اس لیے کہ مسجد شرعی کے لیے وقف تام اور مکمل طور پر انخلاء اور مسجد کے نام قبضہ ضروری ہے جو یہاں نہیں پایا جاتاہے اس لیے اس کو جماعت خانہ سے تعبیر کیا جائے گا مسجد شرعی سے نہیں۔’’(لو جعل وسط دارہ مسجدا و أذن للصلاۃ فیہ) حیث لا یکون مسجدا‘‘(۱)’’في القہستاني ولا بدمن افرازہ: أي تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ فلو کان العلو مسجدا و السفل حوانیت أو بالعکس لا یزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ کما في الکافي‘‘(۲)(۲) اس جگہ اگر ضرورت ہو تو جمعہ کی نماز قائم کی جاسکتی ہے اس لیے کہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد شرعی ہونا ضروری نہیں ہے ،کھلے میدان میں بھی جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے ، اور ایک شہر میں اگر ضرورت ہو تو متعدد جمعہ قائم کرنا جائزہے۔’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأصح‘‘(۳)’’(وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقا، قولہ: (مطلقا) … و سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۴)’’و لابأس بالجمعۃ في موضعین أو ثلاثۃ في مصر واحد … الصحیح عند  أبي حنیفۃ ومحمد یجوز‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب: في أحکام المساجد‘‘: ج ۶، ص: ۵۴۷۔(۲) اأیضاً: ج ۶، ص: ۵۴۵۔(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵۔(۴) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔

(۱) ابن العلاء الأنصاري،الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس والعشرون: في صلاۃ الجمعۃ، باب شرائط الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 36

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھوٹی بستیوں کے باشندوں پر جمعہ و عیدین واجب نہیں ہیں خواہ بڑی بستی جہاں جمعہ واجب ہوتا ہے کسی چھوٹی بستی سے قریب ہو یا دور ہو جمعہ وعیدین ایسی  بڑی بستی میں درست ہے جس کی آبادی تقریباً تین چار ہزار ہو اور وہاں کے رہنے والے اپنی عام ضروریات کا سامان وہاں سے حاصل کرتے ہوں، کفن کے لئے کپڑا ملتا ہو اور دکانیں وغیرہ اس طرح ہوں کہ وہ بستی دیکھنے میں قصبہ کے مانند معلوم ہو آبادی میں مسلم وغیر مسلم، عورتوں، مردوں سب ہی کا اعتبار ہے تمام کو شمار کرلیا جاتا ہے بستی کا معائنہ کسی ماہر مفتی سے کرا دینا زیادہ بہتر ہے۔(۱)(۱) (ویشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء: الأول: المصر، الثاني: … (السلطان) والثالث: وقت الظہر، والرابع: الخطبۃ فیہ، والخامس: (کونہا قبلہا)، والسادس: (الجماعۃ)، والسابع: (الإذن العام) (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵، تا ۲۵)عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر جامع وکان یعد الأمصار: البصرۃ والکوفۃ المدینۃ والبحرین۔ (المصنف لعبد الرزاق، ’’کتاب الصلاۃ، کتاب الجمعۃ: باب القری الصغار‘‘، ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراچی، ج ۳، ص: ۱۶۸، رقم: ۵۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور آیت فرضیت جمعہ قطعی ہے اور ظنیت شرائط جمعہ میں ہے نہ کہ اصل نماز جمعہ میں۔’’(ہي فرض عین یکفر جاحدہا) لثبوتہا بالدلیل القطعي کما حققہ الکمال وہي فرض مستقل آکد من الظہر … قولہ: (بالدلیل القطعي) وہو قولہ تعالیٰ: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا} (سورۃ الجمعۃ: ۹) وبالسنۃ والإجماع … قولہ: (آکد من الظہر) … قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الجمعۃ ثلاث مرات من غیر ضرورۃ طبع اللّٰہ علی قلبہ رواہ أحمد والحاکم وصححہ‘‘(۱)(۱) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعہ‘‘: ج۳، ص: ۴،۳۔(صلاۃ الجمعۃ فرض عین) بالکتاب والسنۃ والإجماع ونوع من المعنی یکفر جاحدہا لذلک وقال علیہ السلام في حدیث: واعلموا أن اللّٰہ تعالیٰ فرض علیکم الجمعۃ في یومي ہذا، في شہري ہذا، في مقامي ہذا، فمن ترکہا تہاونا بہا واستخفافاً بحقہا ولہ إمام عادل أو جائر فلا جمع اللّٰہ شملہ ولا بارک لہ في أمرہ، ألا فلا صلاۃ لہ، ألا فلا زکاۃ لہ، ألا فلا صوم لہ إلا أن یتوب، فمن تاب تاب اللّٰہ علیہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۲، ۵۰۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ بستی میں اگر جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں تو دیوبندی حضرات دوسری مسجد میں جمعہ قائم کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی مجبوری ہے تو بریلوی امام کے عقائد اگر شرکیہ نہ ہوں جیسے قبروں کو سجدہ کرنا وغیرہ تو ایسے امام کے پیچھے جمعہ اداء کرنا ضروری ہے۔ جمعہ کے بجائے ظہر کی جماعت کرنا درست نہیں ہے۔’’ویکرہ إمامۃ عبد … (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا … وإن کفر بہا … فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً‘‘(۱)’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ: (نال فضل الجماعۃ) أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع، لحدیث … من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي … أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ: مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸تا ۳۰۱۔(۲) أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱۔وتؤدّي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۵)إقامۃ الجمعۃ في مصر واحد في موضعین الأصح أنہ یجوز۔ (سراج الدین، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: مکتبہ زکریا دیوبند،ج ۱، ص: ۱۷۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ بستی میں واقعۃً جمعہ درست ہے تو سب کو جمعہ ہی پڑھنا چاہئے جمعہ چھوڑ کر ظہر پڑھنا درست نہیں، جمعہ کی درستگی سے مراد یہ ہے کہ کسی ماہر مفتی نے تحقیق کے بعد جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو کسی ماہر مفتی سے بستی کا معائنہ کرالیا جائے  اور اس کے فتویٰ پر عمل کیا جائے جو نمازیں پڑھی گئیں ان کا اعادہ بہر صورت لازم نہیں ہے۔(۱)(۱) ثم في کل موضع وقع الشک في جواز الجمعۃ لوقوع الشک في المصر، أو غیرہ، وأقام أہلہ الجمعۃ ینبغي أن یصلوا بعد الجمعۃ أربع رکعات وینووا بہا الظہر، حتی لو لم تقع الجمعۃ موقعہا یخرج عن عہدۃ فرض الوقت بیقین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶)وکرہ للمعذور والمسجون أداء الظہر بجماعۃ في المصر یومہا، قولہ: (أداء الظہر بجماعۃ)، سواء کان قبل الجمعۃ أو بعدہا، وإنما قید بالمعذور لیعلم حکم غیرہ بالأولی ووجہ الکراہۃ أنہا تفضي إلی تقلیل جماعۃ الجمعۃ لأنہ ربما تطرق غیر المعذور للاقتداء بالمعذور ولأن فیہ صورۃ المعارضۃ بإقامۃ غیرہا۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،  ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۲۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 31