نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2741/45-4264

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز درست ہوگئی،اعادہ کی ضرورت نہیں  ہے،  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اخروی ثواب کا مستحق ایمان کے ساتھ ہے بغیر ایمان قبول کیے نماز، روزہ یا روزہ داروں کو کھانا کھلانا مذکور شخص کے لیے باعث ثواب نہ ہوگا اور اگر مذکورہ شخص کی آمدنی کے حرام ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر اس کے یہاں کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن افضل یہ ہے کہ روزہ افطار کرنے میں اجتناب کرے۔(۱)

(۱)وقال الحنفیۃ: لا یمنع الذمي من دخول الحرم، ولا یتوقف جواز دخولہ علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قولہ تعالی: {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ}  یجوز للذمي دخول سائر المساجد۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۱۷، ص: ۱۸۹، الکویت)
عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضربت لہم قبۃ في مؤخر المسجد لینظروا إلی صلاۃ المسلمین وإلی رکوعہم وسجودہم، فقیل: یا رسول اللّٰہ اللّٰہ! أتنزلہم المسجد وہم مشرکون؟ فقال: إن الأرض لا تنجس، إنما ینجس وابن آدم (مراسیل أبوداؤد: ج۱، ص: ۱۱، رقم: ۱۷)(شاملہ)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 46

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نیت سے نماز شروع کی جائے آخر تک اس نیت کا اعتبار ہوتا ہے درمیان میں صرف نیت بدل دینے سے نہ وہ نماز ہوتی ہے اور نہ ہی دوسری نماز شروع ہوتی ہے اس لیے صرف نیت سے منتقل نہ ہوگا۔(۲)

(۲) ولا معتبر بالمتأخر منہا عنہ لأن ما مضی لایقع عبادۃ لعدم النیۃ۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج۱، ص: ۹۶، دارالکتاب دیوبند)
ولا تبطل بنیۃ القطع وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا، (قولہ مالم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ أما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لاتبطل ویبنی علیہا ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۱۲۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فرض نماز کے بعد دعاء کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور یہ دعاء کی قبولیت کا وقت ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہر فرض نمازپڑھنے والا فرض نماز پڑھ کر دعا کرے اور اس وقت یہ دعا کرنا درست ہے اور اکابر علماء کا معمول بھی ہے، البتہ جماعت ہو جانے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس لیے انفرادی طور پر بھی دعاء کی جا سکتی ہے؛ لیکن دعاء کرنے میں اگر اجتماعی ہیئت بن جائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تاہم اس کا معمول نہ بنایا جائے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہلا۷  }(۲)
’’وقال قتادۃ فإذا فرغت من صلاتک فانصب إلیٰ ربک في الدعاء‘‘(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال: أوصیک یامعاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: ’’اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
’’وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال اللہم اغفرلي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت‘‘(۳)
(۲) سورۃ الم نشرح: ۷۔
(۱) أبوبکر  الجصاص، أحکام القرآن، ’’سورۃ القدر: ۳‘‘: ج ۳، ص: ۸۱۳۔
(۲) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۲۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقول الرجل إذا سلم‘‘ ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۰۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص448

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قبر کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے(۱) مذکورہ صورت میں قبر کا نشان مٹا دیا جائے، تو نماز بلا کراہت درست ہو جائے گی۔(۲)

(۱) عن أبي مرثد الغنوي یقول، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لا تجلسوا علی القبور، ولا تصلوا إلیہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز، باب في کراھیۃ القعود ……علی القبر‘‘: ص: ۴۶۰، رقم ۳۲۲۹)
(۲) وفي الحاوي : وإن کانت القبور ما وراء المصلی لا یکرہ فإنہ إن کان بینہ وبین القبر مقدار ما لو کان في الصلاۃ ویمر الانسان لا یکرہ فہہنا أیضاً لا یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص125

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس درود شریف میں الفاظ زیادہ ہیں ظاہر ہے کہ اس کے پڑھنے میں وقت بھی زیادہ صرف ہوگا اور مشقت بھی زیادہ ہوگی اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ تمہارے اعمال کا اجر وثواب تمہاری مشقت کے مطابق ملے گا پس زیادہ سے زیادہ الفاظ والے درود میں اجر وثواب بھی زیادہ ہوگا۔
اور جو درود شریف نماز میں پڑھا جاتا ہے اس کے پڑھنے میں بھی زیادہ ثواب ہے۔(۲)

(۲) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال لقیني کعب بن عجرۃ: فقال ألا! أُہدي لک… ہدیَّۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: بلی فأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ علیہ وسلم، فقلنا: یا رسول اللّٰہ! کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا! اللہم صل علی محمد، وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللّٰہم بارک علی محمد وعلی آلی محمد کما بارکت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان في المشي‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷، رقم: ۳۳۷۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص389

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر یہ ہے کہ امام مسائل نماز سے بخوبی واقف ہو قرآن پاک صحیح پڑھنے والا ہو، صالح اور پرہیز گار ہو اگر ان امور کے ساتھ حافظ قرآن بھی ہو تو بہت اچھا ہے۔(۱)
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ  ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہاً ثم الأشرف‘‘(۲)

(۱) (والأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات۔ والتقوی: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلاما، فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا: یقدم الأقدم ورعا۔ وفي النہر عن الزاد: وعلیہ یقاس سائر الخصال، فیقال: یقدم أقدمہم علما ونحوہ، وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ (ثم الأحسن خلقاً) بالضم ألفۃ بالناس (ثم الأحسن وجہا) أي أکثرہم تہجدا: زاد في الزاد: ثم أصبحہم: أي أسمحہم وجہا، ثم أکثرہم حسبا (ثم الأشرف نسبا) زاد في البرہان: ثم الأحسن صوتا۔ وفي الأشباہ قبیل ثمن المثل: ثم الأحسن زوجۃ۔ ثم الأکثر مالا، ثم الأکثر جاہا (ثم الأنظف ثوبا) ثم الأکبر رأسا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴ تا۲۹۶)
(۲) أیضًا: ص: ۲۹۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص46

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:رکوع کا مروجہ طریقہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے رائج ہوا جس کی قرآن کریم کے ذریعہ تعلیم دی گئی {وارکعوا مع الراکعین} اور {وارکعوا وسجدوا} (الآیت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دیگر انبیاء کرام کے یہاں بھی نمازوں میں رکوع کا ثبوت ملتا ہے؛ لیکن اس کیفیت کی تشریح نہیں کی گئی۔
{یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَہ۴۲}(۱)
{وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّیط وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵}(۲)
{اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَق وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍز وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْرَآئِ یْلَز وَمِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَاط اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّـدًا  وَّبُکِیًّا  ہاَلسَّجْدَۃ ۵۸   }(۳)
{رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ}(۱)
(۱) سورۃ آل عمران: ۴۳۔
(۲) سورۃ البقرہ: ۱۲۵۔
(۳)  سورۃ مریم: ۵۸
۔

(۱)  سورۃ ابراہیم: ۳۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 47

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے لیے نیت فرض ہے اور فرض نمازوں میں نیت کی تعیین بھی ضروری ہے کہ میں ظہر کی فرض نماز پڑھ رہاہوں یا عصر کی نماز پڑ ھ رہا ہوں، صرف نماز کی نیت کرنا کافی نہیں ہے۔ صورت مذکورہ میں اگر اس نے مثلا ظہر کی نماز کے وقت ظہر کی نیت کی تھی  اگر چہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہیں کیے تھے، جیسا کہ عام طورپر ہوتاہے اور وہ نماز کے فرض ہونے کی ہی نیت کرتاہے، یعنی وہ تمام نمازوں کے لیے فرض کی ہی نیت کرتارہا تواس کی نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں؛ لیکن اگر اس کو نماز کے فرض ہونے کا علم نہیں تھا یا وہ یہ جانتا تھا کہ بعض  نمازیں فرض ہیں اور بعض سنت ہیں پھر اس نے متعین طورپر فرض یا نفل کی نیت نہیں کی تو اس کا فریضہ ساقط نہیں ہوا۔ اس طرح بلا نیت کے یا فرض نیت کے بغیر پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ ہاں جو نمازیں امام کے پیچھے امام کی اقتدا کی نیت سے پڑھی ہے ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس لیے کہ امام نے فرض کی نیت کی ہے اور مقتدی نے اقتدا کی نیت کی ہے۔
’’ومن صلی سنین ولم یعرف النافلۃ من الفریضۃ إن ظن أن الکل فریضۃ جاز وإن لم یعلم لایجوز وإنما یفعل کما یفعلہ الناس فإنہ ینظر إلی ظنہ إن ظن الکل أي کل شیء یصلیہ فریضۃ جاز فعلہ وسقط عنہ الفرض لحصول شرائطہ کلہا وإن لم یعلم أن فیہا فریضۃ أو علم أن منہا فریضۃ ومنہا سنۃ ولم یمیز ولم ینو الفریضۃ لا یجوز وعلیہ قضاء صلوات تلک السنین إلا ما اقتدی فیہ ناویا صلاۃ الإمام‘‘(۱)
’’ولو صلی سنین ولم یعرف النافلۃ من المکتوبۃ؛ إن ظن أن الکل فریضۃ جاز ما یصلي، لأنّ النفل یتأدي بہ۔ وإن کان ما یعلم أن البعض فریضۃ والبعض سنّۃ فکل صلاۃ صلاہا خلف الإمام جاز إذا نوی صلاۃ الإمام۔ وإن کان یعلم الفرائض من النوافل، ولکن لا یعلم ما في الصلاۃ من الفریضۃ والسنّۃ، فصلی الفرائض بنیتہا فصلواتہ جائزۃ، وإذا کان لا یعلم الفرائض من النوافل، قام یوماً ونوی الفرض في الکل، فقد ذکرنا أن صلوات الأیام کلہا جائزۃ‘‘(۲)

(۱) محمود بن أحمد، غنیۃ المتملي شرح منیۃ المصلی، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس: النیۃ‘‘: ص: ۲۲۱۔
(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الخامس، الفصل الرابع في کیفیتہا‘‘: ج۱، ص: ۲۸۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص305

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ آدابِ دعاء یہ ہے کہ بوقت دعا دونوں زانوں پر بیٹھے اور دونوں ہاتھوں کو سینے کے بالمقابل اٹھا کر دونوں ہاتھوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھے (دونوں ہاتھوں کو ملانا خلاف اولیٰ ہے) اور ہتھیلی کے اندرونی حصے سے دعاء مانگے اوردعا کے بعد اپنے چہرے پر دونوں ہاتھوں کو دعا کی قبولیت اور یقین کے ساتھ پھیرلے؛ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ’’اللہ سے مانگو تو قبولیت کے یقین سے مانگو اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا ہے‘‘: جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: أدعوا اللّٰہ
وأنتم موقنون بالإجابۃ واعلموا أن اللّٰہ لا یستجیب دعاء من قلب غافل لاہ‘‘۔(۱)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدعو ہکذا بباطن کفیہ وظاہرہما‘‘۔(۲)
’’والأفضل في الدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ، وإن قلت … والمستحب أن یرفع یدیہ عند الدعاء بحذاء صدرہ، کذا في القنیۃ۔ مسح الوجہ بالیدین إذا فرغ من الدعاء … کثیر من مشایخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ اعتبروا ذلک وہو الصحیح وبہ ورد الخبر إلخ‘‘۔(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص:۱۸۰، رقم: ۳۴۷۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۷۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح الخ‘‘: ج۵، ص: ۱۸۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص449