نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے جو ار کان اصل ہیئت کے مطابق ادا کرنے کی استطاعت ہو ان کو اصل طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنا ضروری ہے اور جوار کان ادا کرنے پر بالکل قدرت نہ ہو جیسے مذکورہ صورت ہے انہیں کرسی پر بھی ادا کیا جاسکتا ہے، تاہم رکوع کے مقابلہ سجدہ کے لیے زیادہ جھکے اتنا کافی ہے، دوسری کرسی پر سجدہ کرنا غیر ضروری اور خلاف سنت ہے اس سے پرہیز کرے۔(۱)

(۱) (وإن تعذرا) لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود کاف (لا القیام أومأ) بالہمز (قاعدا)؛ قولہ: (أومأ قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃالمریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸)وإذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئا أو مستندا إلی حائط أو إنسان یجب أن یصلی متکئا أو مستندا، کذا في الذخیرۃ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعا علی المختار، کذا في التبیین۔ وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلی قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق، وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا فی فتاوی قاضي خان۔ والمومئی یسجد للسہو بالإیماء، کذا في المحیط ویکرہ للمومئی أن یرفع إلیہ عودا أو وسادۃ لیسجد علیہ فإن فعل ذلک ینظر إن کان یخفض رأسہ للرکوع ثم للسجود أخفض من الرکوع جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ ویکون مسیئا ہکذا فی المضمرات، وإن کان لا یخفض رأسہ؛ لکن یوضع العود علی جبہتہ لم یجز ہو الأصح، فإن کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الأرض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، ۱۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: معذور مسجد میں آگیا تو جماعت کے ساتھ کیوں نماز نہیں پڑھ سکتا اس کی وضاحت کی جائے تاہم جماعت کے بعد نماز پڑھنی چاہئے جماعت ہوتے ہوئے معذور کا الگ نماز پڑھنا عذر کی وجہ سے بھی مناسب نہیں لیکن اگر پڑھ لی گئی تو نماز ہو جائے گی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ، عذر، قالوا: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض، لم تقبل منہ الصلاۃ التي صلی۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في التشدید في ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۱، رقم: ۲۶۶)

والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

قال في شرح المنیۃ: وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکہا من غیر عذر یعزر، وترد شہادتہ، ویأثم الجیران بالسکوت عنہ۔ (حلبی کبیر: ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۰۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جو شخص رکوع و سجدہ پر قادر نہ ہو اس پر قیام فرض نہیں ہے تاہم اگر قیام کرے اور رکوع و سجود اشارہ سے ادا کرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جب دونوں صورتیں درست ہیں تو اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔(۱)

(۱) وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)

(وإن تعذر) لیس تعذرہما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أما قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:407

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسی صورت میں مذکورہ شخص کو جس میں زیادہ سہولت ہو وہ افضل ہے البتہ اگر دونوں حالتیں برابر ہوں تو قعدہ افضل ہوگا جیسا کہ عام کتب فقہ میں اس کی صراحت ملتی ہے۔(۱)

(۱) وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلي قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)

(وإن تعذر) لیس تعذرہما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أما قاعداً) لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:406

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جس رکن کی مکمل ادائیگی پر قدرت ہو اس رکن کو مکمل طور پر ادا کرنا ضروری ہے لہٰذا مذکورہ شخص قیام پر قدرت رکھتا ہے تو قیام ضروری ہے سجدہ پر قدرت ہے، سجدہ ضروری ہے رہا بیٹھنے کا مسئلہ وہ مشکل اور تکلیف دہ ہے تو ماثور و منقول طریقے کے برخلاف جس طرح ممکن ہو پیر پھیلا کر یا چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھ سکے تو بیٹھ جائے یہ ضروری ہے اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو کرسی پر بیٹھ جائے اور سجدہ کے لیے تختہ کی ضرورت نہیں بلکہ اشارہ سے سجدہ کرے۔(۱)

(۱) (وإن تعذرا) لیس تعذرہما شرطًا؛ بل تعذر السجود کافٍ (لا القیام أومأ)بالہمز (قاعدًا)، قولہ: (أومأ قاعدًا) لأن رکنیّۃ القیام للتوصّل إلی السجود فلا یجب دونہ وہو أفضل من الإیماء قائماً لقربہ من الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸)

وإذا لم یقدر علی القعود مستویا وقدر متکئا أو مستندا إلی حائط أو إنسان یجب أن یصلي متکئا أو مستندا، کذا في الذخیرۃ ولا یجوز لہ أن یصلي مضطجعا علی المختار، کذا في التبیین۔ وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان حتی لو سوی لم یصح، کذا في البحر الرائق۔ وکذا لو عجز عن الرکوع والسجود وقدر علی القیام فالمستحب أن یصلی قاعدا بإیماء وإن صلی قائما بإیماء جاز عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ والمومئی یسجد للسہو بالإیماء، کذا في المحیط ویکرہ للمومئی أن یرفع إلیہ عودا أو وسادۃ لیسجد علیہ فإن فعل ذلک ینظر إن کان یخفض رأسہ للرکوع ثم للسجود أخفض من الرکوع جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ ویکون مسیئا، ہکذا في المضمرات، وإن کان لا یخفض رأسہ لکن یوضع العود علی جبہتہ لم یجز ہو الأصح فإن کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الأرض وکان یسجد علیہا جازت صلاتہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، ۱۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسی عورت جس کو ہر وقت پیشاب کے قطرے آتے ہیں تو وہ معذور ہے مگر نماز معاف نہیں ہے اس کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ جب نماز کا وقت شروع ہوجائے تو وضو بناکر اور کپڑے بدل کر فرض، واجب، سنت اور نفل جتنی چاہئے نمازیں پڑھتی رہے خواہ نماز کی حالت میں پیشاب کے قطرے کیوں نہ نکلتے رہیں اور کپڑے پر بھی لگتے رہیں جب تک نماز کا وقت باقی رہے گا اس عورت کا وضو بھی باقی رہے گا اور جب وقت ختم ہوجائے گااس وقت وضو بھی ختم ہوجائے گا، اسی طرح جب دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تب بھی ایسا ہی کرے۔(۱)

(۱) (وصاحب عذر من بہ سلس) بول لا یمکنہ إمساکہ (أو استطلاق بطن أو انفلات ریح أو استحاضۃ) أو بعینہ رمد أو عمش أو غرب، وکذا کل ما یخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرۃ (إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ)۔ بأن لا یجد فی جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلی فیہ خالیا عن الحدث (ولو حکما) لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم (وہذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت) ولو مرۃ (وفي) حق الزوال یشترط (استیعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقیقۃ) لأنہ الانقطاع الکامل۔ (وحکمہ الوضوء) لا غسل ثوبہ ونحوہ (لکل فرض) اللام للوقت کما في {لدلوک الشمس} (سورۃ الإسراء: ۷۸) (ثم یصلی) بہ (فیہ فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولی (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظہر حدثہ السابق، حتی لو توضأ علی الانقطاع ودام إلی خروجہ لم یبطل بالخروج ما لم یطرأ حدث آخر أو یسیل کمسألۃ مسح خفہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب: في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴ تا ۵۰۶)شرط ثبوت العذر ابتدائً أن یستوعب استمرارہ وقت الصلاۃ کاملا وہو الأظہر کالانقطاع لا یثبت ما لم یستوعب الوقت کلہ … المستحاضۃ ومن بہ سلسل البول … یتوضئون لوقت کل صلاۃ ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاؤوا من الفرائض والنوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضۃ بالحدث السابق … إذا کان بہ جرح سائل وقد شد علیہ خرقۃ فأصابہا الدم أکثر من قدر الدم أو أصاب ثوبہ إن کان بحال لو غسلہ یتنجس ثانیا قبل الفراغ من الصلاۃ جاز أن لا یغسلہ وصلی قبل أن یغسلہ وإلا فلا ہذا ہو المختار۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، ۹۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:404

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جہاں تک پٹی ہے اس پر مسح کر لیں باقی حصے کو دھو لیں اگر سجدہ کرنا دشوار ہو، تو جھک کر اشارہ سے سجدہ کر لیں۔(۳)

(۳) و إنما یمسح إذا لم یقدر علی غسل ماتحتہا ومسحہ، بأن تضرر بإصابۃ الماء أو حلہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الخامس: في المسح علی الخفین، الفصل الثاني: في نواقض المسح‘‘: ج ۱، ص: ۸۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:403

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے یہ اتنا مؤکد فرض ہے کہ کسی صورت میں معاف نہیں ہے(۱) اگر کوئی کھڑا ہوکر نماز پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو بیٹھ کر پڑھے اور بیٹھ کر پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو لیٹ کر پڑھے، نماز پڑھنی لازمی ہے، اگر کوئی بے ہوش ہوجائے اور پھر تھوڑی دیر بعد ہوش آجائے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، تو اس صورت میں بھی نماز معاف نہیں ہے اگر ایک دو وقت نماز کے گذر جائیں اور وہ شخص بے ہوشی میں رہے تب بھی قضا لازم ہے۔

پس زید کے اس قول کا کوئی اعتبار نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نماز معاف کردی ہے یہ قول سراسر غلط ہے۔ ممکن ہو تو اپنی طاقت سے اس کو نماز پڑھنے کو کہا جائے نرمی کے ساتھ ورنہ اس کو نماز کی فرضیت واہمیت اور اس کے مفادات سے مطلع کردیا جائے اور اس کے ترک پر جو وعیدیں ہیں ان سے بھی باخبر کردیا جائے تبلیغ برابر کرتے رہنا چاہئے اس کو ہدایت ہوجائے تو بہتر ہے اور اگر اس کو ہدایت بھی نہ ہو، تو تبلیغ کرنے والوں کو اس کا اجر ضرور ملے گا (ان شاء اللہ)۔(۲)

زید اگر ایسا کہتا ہے اور نماز ترک کرتا ہے، تو سخت گناہگار ہے اور اس پر اندیشہ کفر کا ہے؛(۱) اس لیے زید کو چاہئے کہ فوراً استغفار کرے اور پابندی اوقات کے ساتھ نماز کا اہتمام کرے چھوٹی ہوئی نمازوں کی بھی قضا کرے اور اگر زید بے ہوشی کی حالت میں ایسے الفاظ کہتا ہے، تو عنداللہ کوئی گناہ نہیں۔(۲)

(۱) {إِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتَابًا مَوْقُوتًاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)

(۲) {وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ} (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)

(۱) من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر جہارا۔ (سلیمان بن أحمد، معجم الأوسط: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۸۸)

(۲) {وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ} (سورۃ ہود: ۱۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:402

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جو مریض قیام سے عاجز ہے یعنی اگر قیام کرے تو گرجانے یا مرض بڑھ جانے کا یا جلد اچھا نہ ہونے کا اندیشہ ہے یا بے حد تکلیف قیام میں ہوتی ہے تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن اگر کھڑے ہونے کی استطاعت ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اگر تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی طاقت ہے تو تھوڑی دیر کھڑا رہے پھر بیٹھ جائے۔(۱)

(۱) (وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئاً علی عصا أو حائط (قام) لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل۔ قولہ: (علی المذہب) في شرح الحلواني نقلا عن الہند واني لو قدر علی بعض القیام دون تمامہ أو کان یقدر علی القیام الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص ۵۶۸)قید بتعذر القیام أي جمعیہ لأنہ لو قدر علیہ متکئاً أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما … قال الہندواني: إذا قدر علی بعض القیام یقوم ذلک ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ ثم یقعد وإن لم یفعل ذلک خفت أن تفسد صلاتہ، ہذا ہو المذہب ولا یروي عن أصحابنا خلافہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:401

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قصر نماز کے لیے مسافت سفر کا ہونا لازم ہے، محض سفر کی نیت کرنا کافی نہیں ہے چوں کہ جس جگہ کا ارادہ تھاوہ جگہ مسافت قصر پر نہیں ہے اس لیے قصر کرنا جائز نہیں تھا اس لیے پڑھی گئی ظہر کی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ علامہ کاسانی نے لکھاہے کہ مسافر ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ سفر کی نیت ہو اگر سفر کی نیت نہ ہو اور پوری دنیا کا چکر لگالے تو مسافر نہیں ہوگا دوسری شرط یہ ہے کہ مسافت سفر ہو اگر سفر کی نیت ہو لیکن مسافت سفر مکمل نہیں ہے تو وہ مسافر نہیں ہوگا، تیسری شرط ہے کہ اپنی آبادی سے نکل جائے محض ارادہ سفر قصر کے لیے کافی نہیں ہے۔

’’الحکم معلق بالسفر فکان المعتبر مسیرۃ ثلاثۃ أیام علی قصد السفر وقد وجد والثاني: نیۃ مدۃ السفر لأن السیر قد یکون سفرا وقد لا یکون؛ لأن الإنسان قد یخرج من مصرہ إلی موضع لإصلاح الضیعۃ ثم تبدو لہ حاجۃ أخری إلی المجاوزۃ عنہ إلی موضع آخر لیس بینہما مدۃ سفر ثم وثم إلی أن یقطع مسافۃ بعیدۃ أکثر من مدۃ السفر لا لقصد السفر فلا بد من النیۃ للتمییز۔ والثالث: الخروج من عمران المصر فلا یصیر مسافرا بمجرد نیۃ السفر ما لم یخرج من عمران المصر‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: نیۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۳۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:399