Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک سورۂ نمل کے علاوہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ قرآن کریم کا جزو ہے کسی سورت کا جزو نہیں؛ لہٰذا پورے قرآن میں کسی ایک سورت پر ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ لینا (جہراً) کافی ہے اور ’’قل ہو اللّٰہ‘‘ کے شروع میں پڑھے یا کسی بھی سورت کے شروع میں؛ البتہ ’’قل ہو اللّٰہ‘‘ کے ساتھ پڑھنے کو لازم سمجھنا اور اس کا عقیدہ رکھنا بدعت ہے، اس کو ترک کردیں ہاں اتفاقاً ایسا کرنے میں یا بلا عقیدہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)(۱) التسمیۃ من القرآن أنزلت للفصل بین السور والبدایۃ منہا تبرکا ولیست بآیۃ من کل واحدۃ منہا ویبنی علی ہذا أن فرض القراء ۃ تتأدی بہا عند أبي حنیفۃ إذا قرأہا علی قصد القراء ۃ دون الثناء لأنہا آیۃ من القرآن۔ (بدر الدین العینی، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲)وہي من القرآن آیۃ أنزلت للفصل بین السور، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ: الثالث: في سنن الصلاۃ، وآدابہا، وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 68
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے مسلک کی وضاحت:اس مسئلہ میں امام اعظم رحمہ اللہ کا مسلک تو یہ ہے کہ امام ہو یا منفرد اگر قرآن پاک اٹھا کر یا سامنے رکھ کر اس کو دیکھ کر پڑھے گا، خواہ ایک آیت کی مقدار ہو تو نماز امام کی فاسد ہوجائے گی اور جب امام کی نماز فاسد ہوگئی تو مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر کوئی منفرد ایسا کر رہا ہے تو اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔اگر نمازی قرآن پاک دیکھ کر پڑھے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہوجائے گی امام اعظم ؒ کے نزدیک اس کی دو وجوہ ہیں، ایک تو یہ کہ قرآن پاک کا اٹھانا، اوراق کا پلٹنا اور اس میں دیکھنا یہ مجموعہ نماز کی جنس سے خارج اور عمل کثیر ہے جس کی نماز میں کوئی گنجائش نہیں ہے؛ لہٰذا اس سے نماز فاسد ہوجائے گی(۱) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نمازی قرآن پاک سے سیکھ رہا ہے؛ اس لئے کہ قرآن پاک سے پڑھنے والے کو متعلم کہا جاتا ہے تو یہ استاد سے سیکھنے کے مترادف ہوگیا اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس علت کی بنیاد پر دونوں صورتیں مفسد ہوں گی خواہ قرآن اٹھاکر اوراق پلٹتا رہے خواہ قرآن سامنے رکھ کر بغیر اوراق کے پلٹے ہوئے پڑھے۔(۲)صاحبین کا مسلک:امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا قول یہ ہے کہ نماز تام ہوجائے گی؛ لیکن بنا بر تشبہ کے مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے کہ وہ بھی نماز میں توریت اور انجیل دیکھ کر پڑھتے ہیں اور یہود کی مشابہت سے صحیح حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے۔امام ابویوسف ومحمد رحمہما اللہ کے نزدیک نماز تام ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی؛ اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے۔(۱)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بکراہت نماز درست ہوجائے گی، المغنی کی عبارت سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ نماز سے غافل کرنے والی کسی چیزکی طرف دیکھنا یا کتاب میں دیکھنا مکروہ ہے۔(۲)ایک دوسری جگہ پر ہے کہ:ترجمہ: یہ فعل مکروہ ہے کہ ایک نماز پڑھنے والا دوسری (الگ) نماز پڑھنے والے کو یا خارج از صلوٰۃ شخص نماز پڑھنے والے کو لقمہ دے۔(۳)امام شافعی رحمہ اللہ بغیر کسی کراہت کے صحت نماز کے قائل ہیں، امام شافعی اور ایک جماعت کی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ قراء ت ایک عبادت ہے اور مصحف پر نظر ڈالنا بھی عبادت ہے نماز میں دونوں کو ملا لیا تو فساد کی کوئی وجہ نہیں نیز امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ نماز میں اوراق کا پلٹنا مفسد صلوٰۃ نہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ کی مستدل یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان ماہ رمضان میں ام المؤمنین کی امامت کرتے تھے اور مصحف سے پڑھا کرتے تھے لیکن اس حدیث کی صحت متفق علیہ نہیں بلکہ محتمل ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے ۲؍ دلیلیں بیان کی گئی ہیں جو کہ فساد نماز کے قائل ہیں لیکن امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اصل میں اور ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ نے محلی میں کہا کہ یہی قول سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ کا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کی وجہ اول یہ تھی کہ مصحف کو اٹھائے رہنا، اس میں نظر ڈالنا اور اوراق الٹنا یہ مجموعہ عمل کثیر ہے اور یہ عمل بلا ضرورت ہے لیکن ’’کافی‘‘ میں ہے کہ اس تعلیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآن پاک خود اٹھائے ہوئے نہ ہو بلکہ اونچی جگہ رکھا ہوا ہو اس کو دیکھ کر پڑھتا جاوے یا محراب پر رکھا ہو اس کو دیکھ کر پڑھے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ بلا کراہت صحتِ نماز کے قائل ہیں جن کی دلیل بدائع صنائع میںبایں الفاظ ذکر کی ہے کہ:امام شافعیؒ عدم کراہت کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت فرماتے اور قرآن میں دیکھ کر پڑھتے تھے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کو دیکھنا اور پڑھنا دونوں عبادت ہیں اوردو عبادتوں کے اجتماع سے کوئی فساد لازم نہیں آتا۔(۱)امام ابویوسف وامام محمد جو کراہت کے قائل ہیں بنا بر تشبہ بالیہود۔ امام شافعی رحمہ اللہ ان کا جواب دیتے ہیں کہ: ہر قسم کی مشابہت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بدائع میں ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی مشابہت ممنوع نہیں ہے اسی لئے جو وہ کھاتے ہیں ہم بھی کھاتے ہیں۔(۲)امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے جو حدیث ذکوان استدلال میں پیش کی گئی ہے اولاً تو اس حدیث کی تصحیح ہی ثابت نہیں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا۔ دوسرے یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہؓ جو اہل فتویٰ میں سے تھے ان سے ایسا کرنا ثابت نہیں بلکہ ان کو اس کا علم ہی نہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فعل مکروہ ہی تھا اور اس کی کراہت میں اختلاف نہیں تھا اور یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ پورے مہینے ایک مکروہ فعل کیا جاتا اور صحابہؓ باوجود علم کے اس پر نکیر نہ فرماتے۔ بدائع میں ہے۔ حدیث ذکوان میں احتمال ہے کہ عائشہؓ اور دیگر صحابہؓ جو کہ اہل فتویٰ سے تھے ان کو اس کا علم نہ ہو؛ اس لئے کہ یہ باتفاق مکروہ ہے اگر ان کو اس کا علم ہوتا تو وہ پورے رمضان ذکوان کو عمل مکروہ نہ کرنے دیتے۔(۱)اس حدیث پر ایک یہ بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ راوی کا منشا دو حالتوں کا ذکر کرنا ہو کہ رمضان میں ذکوان امامت کرتے تھے اور غیر صلوٰۃ میںمصحف دیکھ کر پڑھتے تھے۔ بدائع میں ہے کہ: راوی کا جو قول ہے کہ ذکوان رمضان میں امامت فرماتے اور مصحف سے پڑھتے تھے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ دو مختلف حالتوں کے متعلق خبر دے رہے ہوں کہ وہ رمضان میںامامت فرماتے تھے اور نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں مصحف سے پڑھتے تھے۔(۲)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فسادِ نماز کے قائل ہیں اور امام ابویوسفؓ، امام محمدؓ اور امام احمد بن حنبلؓ کراہت کے قائل ہیں اور امام شافعیؒ عدم کراہت کے قائل ہیں جن کا مستدل حدیث ذکوان ہے اس پر بھی کئی اشکالات ہیں جن کی تفصیل ہم نے بدائع الصنائع کے حوالے سے ذکر کی ہے تمام تر تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمل کے مکروہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں اور پورے مہینے ایک فعل مکروہ کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ تکرار کی وجہ سے مکروہ تحریمی کے درجہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ ’’المغنی‘‘ میں ہے ’’وہذا لواجتمع کان کثیراً‘‘ کہ تھوڑا تھوڑا جمع ہوکر کثیر اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ بنا بریں مقتضائے احتیاط یہی ہے کہ اس سے نماز فاسد ہو جائے گی یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے اور ای پر احناف کے یہاں فتوی ہے۔(۱) لو قرأ المصلی من المصحف فصلاتہ فاسدۃ عند أبي حنیفۃ … ولأبي حنیفۃ طریقتان إحداہما أن ما یوجد من حمل المصحف و تقلیب الأوراق والنظر فیہ أعمال کثیرۃ لیست من أعمال الصلاۃ ولا حاجۃ إلی تحملہا في الصلاۃ فتفسد الصلاۃ … والطریقۃ الثانیۃ أن ہذا یلقن من المصحف فیکون تعلما منہ ألاتری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم وإذا یفسد الصلاۃ وہذہ الطریقۃ لا توجب الفصل بین ما إذا کان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق وبین ما إذا کان موضوعا بین یدیہ ولا یقلب الأوراق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) وذکروا لأبي حنیفۃ في علۃ الفساد وجہین إحداہما أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، والثاني أنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ وعلی الثاني لا فرق بین الموضوع والمحمول عندہ وعلی الأول افترقا وصح الثاني في الکافي تبعاً لتصحیح السرخسي وعلیہ لو لم یکن قادراً علی القراء ۃ إلا من المصحف فصلی بلا قراء ۃ ذکر الفضلی أنہا تجزیہ وصحہا في الظہیریۃ عدمہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)(۱) وعند أبي یوسف ومحمد (رحمہما اللّٰہ) تامۃ ویکرہ … وقال: إلا أنہ یکرہ عندہما لأنہ تشبہ بأہل الکتاب۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) ویکرہ أن ینظر إلی ما یلہیہ أو ینظر في کتاب۔ (ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل یکرہ أن یترک شیئاً من سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲ ، ص: ۱۹۰)(۳) یکرہ أن یفتح من ہو في الصلاۃ علی من ہو في صلاۃ أخری أو علی من لیس في الصلاۃ۔ (ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل یکرہ أن یفتح من ہو في الصلاۃ علی من ہو في صلاۃ أخریٰ، حکم من فتح علی إمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۴)(۱) وقال الشافعي لا یکرہ واحتجوا بما روي أن مولی لعائشۃ رضي اللّٰہ عنہا یقال لہ ذکوان کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف ولأن النظر في المصحف عبادۃ والقراء ۃ عبادۃ وانضمام العبادۃ إلی العبادۃ لا یوجب الفساد۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) والشافعي یقول مانہینا عن التشبہ بہم في کل شيء فإنا ناکل ما یأکلون۔ (أیضاً)(۱) وأما حدیث ذکوان یحتمل أن عائشۃ ومن کان من أہل الفتویٰ من الصحابۃ لم یعلموا بذلک وہذا ہو الظاہر بدلیل أن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ولو علموا بہ لما مکنوہ من عمل المکروہ في جمیع شہر رمضان۔ (أیضاً) (۲) ویحتمل أن یکون قول الراوی کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف اخباراً عن حالتین مختلفتین أي کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالۃ الصلاۃ الخ۔ (أیضاً)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 63
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام تراویح کو اگر قرآن کریم یاد نہ ہو تو تقلیل جماعت کاسبب بنتا ہے اس لیے منتظمہ کمیٹی ومصلیانِ مسجد باہمی مشورے سے جو طے کرلیں وہ درست ہے۔(۱)
(۱) إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ۔ (محمد بن الحسن الشیباني، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۹)وقد استدل قوم بہذا الحدیث علی أن الأفضل لکثیر الجماعۃ علی قلیلہا۔ (ابن بطال، شرح ابن بطال علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب صلاۃ الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 62
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱) حسب ضرورت رکعات کی تعداد بتلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن بغیر ضرورت بھی ہرہر مرتبہ رکعتوں کی تعداد بتانا اور اس کی عادت ڈالنا درست نہیں ہے۔ امام اور مقتدی سبھی کو رکعات یاد رکھنی چاہئے اس لیے امام کا یہ عمل بلاضرورت ہونے کی وجہ سے عبث ہے اس کو اس سے رکنا چاہئے۔(۱) (۲) نماز کے فوراً بعد دعا مسنون ہے اس لیے نماز کے بعد پہلے دعا کی جائے اس کے بعد چندہ کی ترغیب دی جائے، دعاء سے قبل چندہ کی ترغیب کی صورت میں نمازکے بعد دعاء کی فضیلت کا چھوڑنا لازم آتا ہے۔ جس کی عادت بنالینا مناسب نہیں ہے۔(۲) (۳) غیر عالم کا اپنے آپ کو عالم کہلوانا درست نہیں، ایسی چیز کو اپنے لیے ثابت کرنا جو اس میں نہ ہو اس سے بچنا ضروری ہے۔(۳)
(۱) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) (۲) عن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال: یامعاذ واللّٰہ انی لاحبک، فقال: أوصیک یا معاذ لاتدعن فی دبر کل صلاۃ تقول: اللّٰہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۲۲) (۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیس من رجل ادعی لغیر أبیہ … وہو یعلمہ إلا کفر ومن ادعی مالیس لہ فلیس منا ولیتبوأ مقعدہ من النار۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۱، دار الاشاعت، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 60
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حفاظ کی کثرت کی وجہ سے مسجد سے الگ بھی تراویح میں کوئی حرج نہیں، خواہ وہ مسجد کے قریب ہی ہو، لہٰذا مذکورہ تراویح درست ہے، لیکن بلاوجہ اختلاف سے بچنا چاہئے، بالخصوص دینی امور میں اتفاق رائے سے کام لینا ہی بہتر اور ثواب کا باعث ہے۔(۱)
(۱) وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات کما في المنیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)وإن تخلف واحد من الناس وصلاہا في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ ولا یکون مسیئاً ولا تارکاً للسنۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۵)إن أمکنہ أراؤہا في بیتہ مع مراعاۃ لسنۃ القراء ۃ وأشباہہا فلیصلہا في بیتہ، لقولہ علیہ السلام فعلیکم بالصلاۃ في بیوتکم فإن خیر صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:61
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3309/46-9075
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب کو نماز و روزوں کی سمجھ ہے؛ وہ احکام شریعت کو سمجھتے ہیں۔ البتہ احکام شریعت پر عمل کرنے میں ان سے بکثرت کوتاہی ہوتی ہے۔ نمازوں کے اوقات اور فرائض کی ادائیگی خود سے کرنے پر پورے طور سے قادر نہیں ہیں ۔ البتہ گھر والوں کے تعاون سے وہ ادا کرلیتے ہیں تو اایسی صورت میں نمازیں اور روزے ان پر فرض ہوں گے۔ اب یا تو ان کے سامنے کوئی نماز اداکرے کہ دیکھادیکھی وہ بھی ادا کرلیں یا کوئی ان کونماز کے ارکان بتاتا رہے اور وہ اداکرتے رہیں یا پھر کوئی ان کو باجماعت نماز پڑھادیاکرے۔ روزوں کی ادائیگی میں اگر خلل ہو تو فدیہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
مصل اقعد عند نفسه انسانا فيخبره اذا سھا عن ركوع او سجود یجزیہ اذالم یمکنہ الا بهذا (الھندیۃ 1/138)
وفي القنية مريض لا يمكنه الصلاة الا با صوات مثل اوه و نحوه يجب عليه ان يصلی۔ )البحر الرائق 5/24)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قبولیت کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، فقہی اور قانونی اعتبار سے نماز تراویح کو جائز کہا جائے گا؛ کیوں کہ اس کے لیے روزہ شرائط میں سے نہیں ہے۔ مگر بلا عذر رمضان کا روزہ چھوڑنا ایسا بڑا گناہ ہے کہ اس کی بنا پر تراویح کا ثواب بھی سوخت ہوجائے تو تعجب نہیں۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أفطر یوما من رمضان من غیر رخصۃ ولا مرض لم یقض عنہ صوم الدہر کلہ وإن صامہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصیام: باب التغلیظ في من أفطر عمداً‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۶، رقم: ۲۳۹۸؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’کتاب الصوم: باب ماجاء في الإفطار متعمداً‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۳؛ و ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصوم: باب تنزیہ الصوم، الفصل الثاني‘‘: ج ۴، ص: ۴۴، رقم: ۲۰۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں پہلی رکعت کو چھوٹی اور دوسری رکعت کو بڑی کرنا مکروہ ہے، لیکن سنن ونوافل میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے اس لیے تراویح میں ایسا کرنا درست ہے۔’’وفي الدرایۃ: و إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ علی الأولی بثلاث آیات فصاعداً في الفرائض مکروہ، و في السنن و النوافل لایکرہ؛ لأن أمرہا سہل‘‘(۱)’’و استظہر في النوافل عدم الکراہۃ مطلقاً‘‘’’(قولہ: مطلق) … أطلق في جامع المحبوبي عدم کراہۃ إطالۃ الأولی علی الثانیۃ في السنن و النوافل، لأن أمرہا سہل، و اختارہ أبو الیسر ومشی علیہ في خزانۃ الفتاوی، فکان الظاہر عدم الکراہۃ الخ‘‘(۲)
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ: مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے، ضروری نہیں ہے۔(۲) اگر اس کے لیے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ وعالم کو بھی سمجھ میں نہ آتا ہو، درست نہیں ہے؛(۱) بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہو جایا کرتی ہیں؛ اس کے لیے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے(۲) اور وہ بھی نہ ہوسکے، تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔ (۲) والسنۃ فیہا الختم مرۃ فلایترک لکسل القوم۔ (إبراہیم محمد الحلبي، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴؛ وابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۵؛ وعالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج۲، ص: ۳۲۴، زکریا بکڈپو، دیوبند؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)(۱) ورتل القرآن ترتیلا أي إقرأ علی تمہل فإنہ یکون عونا علی فہم القرآن وتدبرہ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المزمل‘‘: ج ۶، ص: ۳۲۹، زکریا بکڈپو، دیوبند)(۲) ولایترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلاثا قصارا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسئ فما ظنک بالتراویح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 57
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ختم قرآن کے بعد {وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۵} تک پڑھنے کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے اور یہ مستحب ہے اس کے سواء دیگر آیات کا اس وقت پڑھنا منقول نہیں اس کا ترک کر دینا مناسب ہے۔’’ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ‘‘(۲)’’قال في شرح المنیۃ وفي الولوا لجیۃ من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر الناس الحال المرتحل، أي الخاتم المفتتح‘‘(۱)(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔(۱) أیضاً:
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 56