نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تہجد کی نماز نفل ہے جس کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے تاہم اگر سنت کہہ کر پڑھ لی تو وہ بھی درست ہے۔ مطلق نیت ہی کافی ہے۔(۱)

(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ … لنفل وسنۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص: ۹۴)
قال الشامي: لأن السنۃ ما واظب علیہا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في محل مخصوص فإذا أوقعہا المصلي فیہ نفذ فعل الفعل المسمی سنۃ والنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن ینوی السنۃ بل الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ وتمام تحقیقہ في الفتح۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے فوراً بعد دعا ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے، چندہ کی وجہ سے اس فضیلت کو گنوانا درست نہیں ،چندہ دعا کے بعد کرنا چاہئے ہاں اتفاقاً ایسا کبھی ہوجائے تو حرج نہیں۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبات‘‘(۲)
’’حدثنا محمد بن أبي یحي قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأي رجلاً رافعاً یدیہ بد عوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا، قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹، رقم:۳۴۹۹۔
(۱)الطبراني، المعجم الکبیر، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي عن ابن الزبیر: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص447

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز درست ہو جاتی ہے، لیکن سنت طریقہ یہ ہے کامل اور صاف طور پر ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کہے ورنہ سنت کو ترک کرنے والا ہوگا، البتہ اگر وہ ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاف ہے۔(۱)

(۱) قولہ: ہو السنۃ) قال في البحر، وہو علی وجہ الأکمل أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال: السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام أجزأہ و کان تارکاً للسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱، زکریا دیوبند)
وفي القنیۃ: ہو الأصح ہکذا في شرح النقایۃ للشیخ أبي المکارم ویقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ ، و آدابھا و کیفیتھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴، زکریا دیوبند)
ثم یسلم عن یمینہ مع الإمام فیقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وعن یسارہ کذلک۔ (شیخ زادہ إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، بیروت، لبنان)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یسلم عن یمینہ وعن یسارہ: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في التسلیم في الصلاۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵، رقم۲۹۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص124

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1825/43-1625

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  محض اس خیال کے آنے سے کوئی کفر لازم نہیں آیا جب تک کہ زبان سے کچھ نہ کہاجائے۔ یہ ایک وسوسہ تھا۔ احتیاطا توبہ کرنے اور تجدید ایمان میں کوئی حرج نہیں ہے، کلمہ پڑھ لیں اور آئندہ اس طرح کا خیال آئے تو اعوذ باللہ باللہ کا ورد کرکے اپنے نفس پر مشقت ڈال کر اٹھیں اور نماز ادا کریں، آپ کو ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔

عن أبي هريرة، قال: جاءه أناس من أصحابه، فقالوا: يا رسول الله، نجد في أنفسنا الشيء نعظم أن نتكلم به -أو الكلام به- ما نحب أن لنا وأنا تكلمنا به، قال: "أوقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: "ذاك صريح الإيمان" (سنن ابی داؤد، با فی رد الوسوسۃ 7/434 الرقم 5111)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں ذکر یا برکت یا وظیفہ کے طور پر کیف مااتفق پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور التزام اس کا بدعت بن جائے گا۔(۱)

(۱) عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من قرأ آیۃ الکرسي في دبر کل صلاۃ مکتوبۃٍ لم یمنعہ من دخول الجنۃ إلا أن یموت)۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، ’’فصل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ نماز کے صحیح وفاسد ہونے کے مسائل سے واقف ہوں قرآن مجید صحیح اور تجوید کے ساتھ پڑھتے ہوں اور آپ کی دینداری پر لوگوں کو شک وشبہ نہ ہو صرف ڈاڑھی نہ نکلنے کی وجہ سے امامت کے لائق نہ سمجھتے ہوں تو ان کا خیال مناسب نہیں ہے؛ البتہ کسی کی عمر کم ہو اور خوبصورت ہو اور اس کو بد نظر لوگوں کے شہوت کے ساتھ دیکھنے کا احتمال ہو جس کی وجہ سے لوگ اس کی امامت کو ناپسند کرتے ہوں، تو اس کی امامت مکروہ ہوگی۔
’’قولہ (وکذا تکرہ خلف أمرد) الظاہر إنہا تنزیہیۃ أیضاً کما قال الرحمتي: أن المراد بہ الصبیح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ ۔۔۔۔۔: وفي حاشیۃ المدني عن الفتاویٰ العفیفیۃ سئل العلامۃ الشیخ عبدالرحمن بن عیسیٰ المرشدي عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ وتجاوز حد الإنبات ولم ینبت عذارہ فھل یخرج بذلک عن حد الأمرد  فأجاب بالجواز من غیر کراہۃ وناہیک بہ قدوۃً واللّٰہ أعلم‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۲، ۳۰۱، زکریا دیوبند۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص45

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2741/45-4264

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز درست ہوگئی،اعادہ کی ضرورت نہیں  ہے،  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اخروی ثواب کا مستحق ایمان کے ساتھ ہے بغیر ایمان قبول کیے نماز، روزہ یا روزہ داروں کو کھانا کھلانا مذکور شخص کے لیے باعث ثواب نہ ہوگا اور اگر مذکورہ شخص کی آمدنی کے حرام ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر اس کے یہاں کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن افضل یہ ہے کہ روزہ افطار کرنے میں اجتناب کرے۔(۱)

(۱)وقال الحنفیۃ: لا یمنع الذمي من دخول الحرم، ولا یتوقف جواز دخولہ علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قولہ تعالی: {اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ}  یجوز للذمي دخول سائر المساجد۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۱۷، ص: ۱۸۹، الکویت)
عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضربت لہم قبۃ في مؤخر المسجد لینظروا إلی صلاۃ المسلمین وإلی رکوعہم وسجودہم، فقیل: یا رسول اللّٰہ اللّٰہ! أتنزلہم المسجد وہم مشرکون؟ فقال: إن الأرض لا تنجس، إنما ینجس وابن آدم (مراسیل أبوداؤد: ج۱، ص: ۱۱، رقم: ۱۷)(شاملہ)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 46

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس نیت سے نماز شروع کی جائے آخر تک اس نیت کا اعتبار ہوتا ہے درمیان میں صرف نیت بدل دینے سے نہ وہ نماز ہوتی ہے اور نہ ہی دوسری نماز شروع ہوتی ہے اس لیے صرف نیت سے منتقل نہ ہوگا۔(۲)

(۲) ولا معتبر بالمتأخر منہا عنہ لأن ما مضی لایقع عبادۃ لعدم النیۃ۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج۱، ص: ۹۶، دارالکتاب دیوبند)
ولا تبطل بنیۃ القطع وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا، (قولہ مالم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ أما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لاتبطل ویبنی علیہا ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۱۲۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فرض نماز کے بعد دعاء کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور یہ دعاء کی قبولیت کا وقت ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہر فرض نمازپڑھنے والا فرض نماز پڑھ کر دعا کرے اور اس وقت یہ دعا کرنا درست ہے اور اکابر علماء کا معمول بھی ہے، البتہ جماعت ہو جانے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس لیے انفرادی طور پر بھی دعاء کی جا سکتی ہے؛ لیکن دعاء کرنے میں اگر اجتماعی ہیئت بن جائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تاہم اس کا معمول نہ بنایا جائے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہلا۷  }(۲)
’’وقال قتادۃ فإذا فرغت من صلاتک فانصب إلیٰ ربک في الدعاء‘‘(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال: أوصیک یامعاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: ’’اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)
’’وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال اللہم اغفرلي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت‘‘(۳)
(۲) سورۃ الم نشرح: ۷۔
(۱) أبوبکر  الجصاص، أحکام القرآن، ’’سورۃ القدر: ۳‘‘: ج ۳، ص: ۸۱۳۔
(۲) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۲۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود  في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقول الرجل إذا سلم‘‘ ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۰۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص448