نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر وہ نابینا شخص ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں لکھا گیا ہے تو ان کی امامت بلاشبہ درست اور جائز ہے خود اس شخص کو چاہیے کہ پاکی وناپاکی کا خوب خیال رکھے۔(۲)

(۲) والکراہۃ في حقہم لما ذکر من النقائص، فلو عدمت بأن کان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر  وولد الزنا من ولد الرشدۃ والأعمی من البصیر زالت الکراہۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۲۱۱)
کرہ إمامۃ … الأعمی لأنہ لا یتوقی النجاسۃ ولا یہتدی إلی القبلۃ بنفسہ ولا یقدر علی استیعاب الوضوء غالباً الخ۔ (الزیلعي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ والحدث في الصلاۃ: ج۱، ص: ۳۴۵)

…وکرہ إمامۃ العبد والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس، إن لم یوجد، أفضل منہ فلا کراہۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص48

نماز / جمعہ و عیدین
کیا زبان سے نیت کرنی ضروری ہے؟ (۵۳)سوال: حضرت مفتی صاحب: سوال یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھنے کی نیت تھی، لیکن تکبیر کہتے وقت کوئی نیت زبان سے نہیں کی، تکبیر کے بعد خیال آیا کہ میں نے تو تکبیر کے وقت کسی نماز کی نیت نہیں کی ہے، تو تکبیر سے قبل نماز شروع کرنے سے پہلے کی جو نیت تھی وہ نیت معتبر ہوگی یا نہیں؟ ایسے ہی اگر کوئی شخص سنت نماز میں قضا نماز کی نیت کرے تو کیا وہ قضاء نماز کی نیت کر سکتا ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘ فقط: والسلام المستفتی: محمد شمشیر الاسلام، مراد آباد

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام یا غیر امام کو ایسی فضول حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اس سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اور ایسا عمل کبھی عمل کثیر بن جاتا ہے اور نماز کے فساد کی نوبت آ جاتی ہے، لہٰذا ایسے عبث فعل سے امام اور مصلیوں کو بچنا چاہیے۔ تاہم اگر رکوع یا سجدے سے اٹھتے وقت بدن سے چپکے ہوئے دامن کو ایک ہاتھ سے درست کر لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
’’ویکرہ أیضاً: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود أو یدہ فیہا وہو مکفوف کما إذا دخل وہو مشمر الکم أوالذیل وأن یرفعہ‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ وبجسدہ للنہي إلا لحاجۃ، قولہ وعبثہ ہو فعل لغرض غیر صحیح، قال في النہایۃ: وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلا بأس بہ۔ (الحکصفي و ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا دیوبند)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ۔ ولا بأس بأن ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و فیما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۰۳، دار الکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص128

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی امامت میں جو نماز پڑھی گئی وہ نماز ادا ہوگئی تاہم کسی اچھے دیندار، بزرگانہ لباس، وضع وقطع والے شخص کو امام بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ پورے حقوق کے ساتھ ادا کیا جاسکے۔(۱)

(۱) وعلی ہذا فما صار شعارا للعلماء یندب لہم لبسہ لیعرفوا بذلک، فیسألوا، ولیطاوعوا فیما عنہ زجروا، وعلل ذلک ابن عبد السلام بأنہ سبب لامتثال أمر اللہ تعالی والانتہاء عما نہی اللہ عنہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۱۴۰)
 ذکر ما یستنبط منہ من الأحکام فیہ: جواز لبس الثوب المعلم وجواز الصلاۃ فیہ. وفیہ: أن اشتغال الفکر الیسیر في الصلاۃ غیر قادح فیہا، وہو مجمع علیہ۔ (علامہ عیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۱۳)
وعنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم، رواہ أحمد، وأبو داود۔
(وعنہ): أي عن ابن عمر (قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من تشبہ بقوم): أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلا في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار۔ (فہو منہم): أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار،  ولما کان الشعار أظہر في التشبہ ذکر في ہذا الباب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس، الفصل الأول‘‘: ج۸، ص: ۲۲۲، رقم: ۴۳۴۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص49


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائے جائیں کہ انگوٹھے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں۔(۳)

(۳) وکیفیتہا: إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبّر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤس الأصابح فروع أذنیہ۔ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث:  في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
(ثم رفعہما حذاء أذنیہ) حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ویجعل باطن کفیہ نحو القبلۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ ‘‘: ص: ۲۷۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص311

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسجد میں نمازوں کی ادائیگی درست ہے۔(۱) تاہم بل ادانہ کرنے کا گناہ متولی پر ہوگا۔(۲) لہٰذا اسے چاہئے کہ بل ادا کرنے میں تاخیر نہ کیا کرے۔(۳)

(۱) وعن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الأرض کلہا مسجد إلا الحمام و المقبرۃ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب في المواضع التي لا تجوز فیھا الصلاۃ، ص:۷۰، رقم:۲۹۴)
(۲) وعن خولۃ بنت قیس رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن ہذا المال خضرۃ حلوۃ، من أصابہ بحقہ بورک لہ فیہ، ورب متخوض فیما شائت بہ نفسہ من مال اللّٰہ ورسولہ لیس لہ یوم القیامۃ إلا النار (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزھد عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في أخذ المال‘‘ ج۲، ص۶۲، رقم:۳۳۷۴)
(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مطل الغني ظلم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستقراض، باب مطل الغني ظلم‘‘: ج۱ ، ص:۳۲۳ ، رقم: ۲۴۰۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص129

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک جہری نماز ہو یا سری نماز، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ یا کوئی سورت پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس کی ممانعت قرآن پاک واحادیث دونوں سے ہے۔ {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام قراء ۃ لہ‘‘(۲) امام شافعی ؒکے نزدیک بھی صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے دوسری سورت کی نہیں ہے۔

(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ: ج ۱، ص: ۲۹۵، زکریا دیوبند۔)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :   …إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا کبر فکبروا، وإذا قرأ فانصتوا، رواہ أبوداود والنسائي وابن ماجہ۔ ( خطیب تبرازي، مشکاۃ المصابیح، ’’باب القراء ۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، یاسر ندیم)
وعن أبي بن کعب رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال لما نزلت ہذہ الآیۃ ترکوا القرائۃ خلف الإمام وإمامہم کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالظاہر أنہ کان بأمرہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، باب الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰)
والمؤتم لا یقرأ مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ … تقدیرہ : لا غیر الفاتحہ ولا الفاتحۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص238

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 930

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  خاموش رہنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/889

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قادیانیوں کے عقائد کفریہ کی بناء پر ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اداء کی جانی چاہئے اور امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔ التحیات کے بعد درود شریف ودعاء اسی طرح رکوع وسجود میں کم از کم تین تین مرتبہ تسبیحات مسنون ہیں تمام ہی کی رعایت کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) وفی المنیۃ: ویکرہ للإمام أن یعجلہم عن إکمال السنۃ. ونقل فی الحلیۃ عن عبد اللہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبیحات لیدرک من خلفہ الثلاث۔
والحاصل: أن فی تثلیث التسبیح فی الرکوع والسجود ثلاثۃ أقوال عندنا، أرجحہا من حیث الدلیل الوجوب تخریجاً علی القواعد المذہبیۃ، فینبغی اعتمادہ کما اعتمد ابن الہمام ومن تبعہ روایۃ وجوب القومۃ والجلسۃ والطمأنینۃ فیہما کما مر. وأما من حیث الروایۃ فالأرجح السنیۃ؛ لأنہا المصرح بہا فی مشاہیر الکتب، وصرحوا بأنہ یکرہ أن ینقص عن الثلاث وأن الزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلایطول، وقدمنا فی سنن الصلاۃ عن أصول أبی الیسر أن حکم السنۃ أن یندب إلی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع حصول إثم یسیر وہذا یفید أن کراہۃ ترکہا فوق التنزیہ وتحت المکروہ تحریماً. وبہذا یضعف قول البحر: إن الکراہۃ ہنا للتنزیہ؛ لأنہ مستحب وإن تبعہ الشارح وغیرہ، فتدبر۔ابن عابدین؛ رد المحتار۔ج:۱،ص:۴۹۵

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص50