Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: پنجاب سے جب تک آپ اپنے اصلی وطن پھوگانہ میں داخل نہ ہوں (دوسرے دیہاتوں میں پھرتے رہیں) تو آپ برابر قصر کرتے رہیں گے اور وطن اصلی میں داخل ہوتے ہی قصر ختم ہوکر پوری نماز لازم ہوگی۔(۱)
(۱) وإذا دخل المسافر مصرہ أتم الصلاۃ، وإن لم ینو الإقامۃ فیہ سواء دخلہ بنیۃ الاختیار أو دخلہ لقضاء الحاجۃ، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲، مکتبہ فیصل، دیوبند)
(من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ) قاصداً (مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا) … (صلی الفرض الرباعي رکعتین) … (حتی یدخل موضع مقامہ) أو ینوي إقامۃ نصف شھر) بموضع صالح لھا (فیقصر إن نوی في أقل منہ) أو … (بموضعین مستقلین)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ - ۶۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:399
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:مسافت سفر کی مقدار ظاہر الروایت کے مطابق درمیانی رفتار سے تین دن چلنا ہے۔ احناف کی متعدد کتابوں میں اس کی صراحت ہے۔
’’من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۱)
’’السفر الذي یتغیر بہ الأحکام أن یقصد مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا‘‘(۲)
قدیم زمانوںمیں جب کہ عام طور پر لوگ پیدل یا اونٹوں کی سواری کیا کرتے تھے یہ اندازہ آسان تھا؛ لیکن اس زمانے میں جب کہ تین دن کا سفر تین گھنٹے؛ بلکہ اس سے بھی کم وقت میں طے کیا جاسکتا ہے تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مسافت سفر کو موجودہ حالات میں کلو میٹر کے اعتبار سے طے کیا جائے اس لیے علمائے متاخرین نے فرسخ کے ذریعہ سے اس کی تعیین کی۔ یہ تعیین بھی اس زمانے میں کی گئی جب کہ گو سواری کی سہولت ہوگئی تھی لیکن آج کے حساب سے پھر بھی نہیں تھی؛ اس لیے جگہوں کے اختلاف کے ساتھ مختلف فرسخ سے تعیین کی گئی چناں چہ ۱۵؍ ۱۶؍ ۱۸؍ اور ۲۱؍ فرسخ کے اقوال پائے جاتے ہیں۔
’’قیل یقدر بواحد وعشرین فرسخا وقیل بثمانیۃ عشر وقیل بخمسۃ عشر وکل من قدر منہا اعتقد أنہ مسیرۃ ثلاثۃ أیام۔ أي بناء علی اختلاف البلدان فکل قائل قدر ما في بلدہ من أقصر الأیام أو بناء علی اعتبار أقصر الأیام أو أطولہا أو المعتدل منہا وعلی کل فہو صریح بأن المراد بالأیام ما تقطع فیہا المراحل المعتادۃ فأفہم‘‘(۳)
(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳۔
(۲) المرغیناني الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۲۔
اب ضرورت ہوئی کہ ان میں سے کسی ایک کو متعین کیا جائے تو اس میں بھی اختلاف ہوگیا اور بعض نے ۱۸؍ فرسخ پر اور بعض نے ۱۵؍ فرسخ پر فتوی دیا۔’’واختلفوا في التقدیر قال أصحابنا: مسیر ثلاثۃ أیام سیر الإبل ومشی الأقدام وہو المذکور في ظاہر الروایات، وروي عن أبي یوسف یومان وأکثر الثالث، وکذا روي الحسن عن أبي حنیفۃ وابن سماعۃ عن محمد ومن مشایخنا من قدرہ بخمسۃ عشر فرسخا وجعل لکل یوم خمس فراسخ، ومنہم من قدرہ بثلاث مراحل‘‘(۱) زیادہ تر حضرات نے ائمہ خوارزم کے مفتی بہ قول ۱۵؍ فرسخ کو اختیار کیا ہے۔’’وفي النہایۃ الفتوی علی اعتبار ثمانیۃ عشر فرسخا، وفي المجتبی فتوی أکثر أئمۃ خوارزم علی خمسۃ عشر فرسخا‘‘(۲)پندرہ فرسخ کے اعتبار سے ۴۵؍ میل ہوتاہے اس لیے کہ تین میل کا ایک فرسخ ہوتا ہے۔یہاں تک کوئی اختلاف نہیں ہے۔’’وقیل: عشرۃ أیام بینہ وبین المدینۃ فرسخان ستۃ أمیال، ہذا ہو الصواب، والمیل ثلث فرسخ، والفرسخ اثنتی عشرۃ ألف خطوۃ، وقال السروجي: المیل أربعۃ آلاف ذراع بذراع محمد بن فرح الشاشي، قلت: العوام یسمون ذا الحلیفۃ آبار علی رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۳)جن لوگوں نے ۴۸؍ میل نقل کیا ہے ممکن ہے کہ انہوں نے ۱۶؍ فرسخ والے قول کو درمیانی قول ہونے کی بناپر اختیار کیا ہو اس لیے انہوںنے ۴۸؍ میل کا قول نقل کیا ہے۔ ۴۸؍ میل شرعی کے اعتبار سے ۸۷؍ کلومیٹر ۷۸۲؍ میٹر ۴۰؍ سینٹی میٹر ہوتاہے اسی لیے بعض کتابوں میں یہ مسافت منقول ہے۔(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان مایصیر بہ المقیم مسافراً‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۸۔(۳) العیني، البنایۃ، ’’کتاب الحج: فصل المواقیت اللتي لا یجوز أن یجاورہا دخول الأفاقي مکۃ بدون أحرام‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۷۔ایک مسئلہ جو ہمارے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہے وہ میل شرعی اور میل انگریزی کا اعتبار کرنے کی بنا پر ہے۔ میل اور فرسخ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جیسا کہ سوال میں دکھایا گیا ہے بلکہ میل سے انگریزی میل مراد ہے یا میل شرعی مراد ہے اس میں اختلاف ہے؟ بعض حضرات مفتیان کرام نے لکھاہے کہ اکابر علماء دیوبند نے میل انگریزی مراد لیا ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب کی تحقیق کے مطابق جو انہوں نے اپنی کتاب اوزان شرعیہ میں ذکر کیا ہے یہ ہے:راجح اور صحیح مذہب امام اعظم کایہ ہے کہ کسی خاص مقدار کی تحدید میلوں وغیرہ سے نہ کی جائے بلکہ تین دن اور تین رات میں جس قدر مسافت انسان چل کر بآسانی طے کرسکے یا اونٹ کی سواری پر بآسانی طے کرے وہ مقدار مرادہے اس کے خلاف بعض فقہا نے فراسخ یا میلوں کی تعیین بھی فرمائی ہے حضرت امام مالک کا مذہب ہے کہ ۴۸؍ میل سے کم میں قصر نہ کرے اور یہی امام احمد کا مذہب ہے اور امام شافعی کی ایک روایت یہی ہے اور مشائخ متاخرین حنفیہ میں سے بعض نے اکیس فرسخ جس کے تریسٹھ میل ہوتے ہیںاور بعض نے ا ٹھارہ فرسخ جس کے چون میل ہوتے ہیں اور بعض نے پندرہ فرسخ جس کے پینتالیس میل ہوتے مسافت قصر قرار دی ہے۔ عمدۃ القاری میں اٹھارہ فرسخ پر فتوی نقل کیا ہے اور شامی، بحر نے بحوالہ مجتبی ائمہ خوارزم کا فتوی پندرہ فرسخ کی روایت ذکر کیا ہے۔ہندوستان کے عام بلاد چوں کہ تقریبا مساوی ہیں پہاڑی یا دشوار گزار نہیں ہیں؛ اس لیے علمائے ہندوستان نے میلوں کے ساتھ تعیین کردی ہے نیز محققین علمائے ہندوستان نے ۴۸؍ میل انگریزی کو مسافت قصر قرار دیا ہے جو اقوال فقہاء مذکورین کے قریب قریب ہے اور اصل مدار اس پر ہے کہ اتنی ہی مسافت تین دن تین رات میں پیادہ مسافر بآسانی طے کرسکتاہے اور فقہاء حنفیہ کے مفتی بہ اقوال میں سے جو فتوی ائمہ خوارزم کا پندرہ فرسخ کا نقل کیا گیا ہے وہ تقریبا اس کے بالکل مطابق ہے کیوں کہ پندرہ فرسخ کے ۴۵؍ میل شرعی اور ۴۸؍ میل انگریزی سے کچھ زیادہ متفاوت نہیں رہتے ہیں۔(۱)حضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق سامنے آجانے کے بعد دو چیزیں طے ہوجاتی ہیں کہ ۱۵؍ فرسخ پر ہندوستان کے علماء نے فتوی دیا ہے؛ اس لیے دیگر اقوال غیر مفتی بہ ہوں گے۔ اور ۱۵؍ فرسخ کے ۴۵؍ میل ہوتے ہیں اس حد تک تقریبا اتفاق ہے۔ اب میل کی انگریزی اورشرعی تعیین میں اختلاف ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ پینتالیس میل سے یہاں پر میل شرعی مراد ہے۔ حضرت مفتی شفیع صاحب نے ۴۵؍ میل شرعی اور ۴۸؍ میل انگریزی کو قریب قریب بتایا ہے جس کی کلومیٹر 77.24.8512 یعنی سوا ستتر کلومیٹر ہے جسے آسانی کے لیے ۷۸؍ کلومیٹر لکھ دیا جاتا ہے۔ لیکن قابل تحقیق امر یہ ہے کہ حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے ۴۵؍ میل شرعی او ر ۴۸؍ میل انگریزی کو قریب قریب قرار دیا ہے جب کہ دونوں میں پانچ کلو میٹر کا فرق ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے اس لیے کہ ۴۸؍ میل انگریزی کے سوا بیالیس میل شرعی بنتے ہیں جو ۴۵؍ میل شرعی سے پونے تین میل کم ہے اور کلو میٹر کے اعتبار سے یہ فرق تقریبا پانچ کلومیٹر کا بن رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فرق معمولی نہیں ہے جسے نظر انداز کردیا جائے۔ ۴۵؍ میل شرعی کے انگریزی کے اعتبار سے، ہوتاہے ا س اعتبار سے ۸۲؍ کلو میٹر ۲۹۶؍ میٹر ہوتاہے؛ اس لیے محقق قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۸۲؍ کلو میٹر پر عمل کیا جائے۔ فتاوی دار العلوم زکریا اور کتاب النوازل میں اسی قول پر فتوی دیا گیا ہے۔ مفتی شبیر صاحب نے بھی ۸۲؍ میل کا قول نقل کیا ہے چناں چہ وہ لکھتے ہیں: کہ عامۃ المشائخ کے اقوال میں سے کم از کم آخری قول اختیار کیا جائے یعنی ۱۵؍ فرسخ جس میں ۴۵؍ میل شرعی ہوتے ہیں جو ۸۲؍ کلو میٹر ۲۹۶؍ میٹر ہوتے ہیں اور ہم لوگ اسی مقدار پر فتوی لکھتے ہیں۔(۱) آپ نے ان کا قول ۸۷؍ کلو میٹر کا نقل کیا ہے جو درست نہیں ہے۔غور کریںتو بہت زیادہ اختلاف اب نہیں رہ گیا ہے ۷۸؍ کلو میٹر اور ۸۲؍ کلو میٹر دو قول ہے اس میں احو ط ۸۲؍ والے کو اختیار کرنا ہے اس لیے کہ اگر مسافت سفر اور مسئلہ قصر میں اختلاف ہوجائے تو اتمام کرنا بہتر ہے اس لیے زیادہ والے قول پر عمل کرنا بہتر ہے تاہم اگر کوئی ۷۸؍ والے قول پر عمل کرلے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی اس لیے کہ وہ بھی محققین علماء کا متعین کیا ہوا ہے۔(۱) محمد شفیع العثمانی جواہر الفقہ اوزان شرعیۃ، ج۱، ص: ۴۳۵۔(۱) مفتی محمد شبیر احمد، فتاویٰ القاسمیۃ، ج۴، ص: ۶۰۷۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:394
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ شخص جب کہ دیوبند (وطن اصلی) سے دہلی کا عزم کرکے سفر میں نکلا اور مظفرنگر (اپنے سسرال) ایک دو دن ٹھہر گیا اور پھر وہاں سے چلا گیا، تو اس دوران مظفرنگر میں بھی قصر کرے گا جب کہ دیوبند کی آبادی سے باہر ہوتے ہی قصر شروع کردے گا اور پھر واپس دیوبند پہونچنے تک قصر ہی کرے گا۔(۲)
(۲) (أو دخل بلدۃ ولم ینوہا) أي مدۃ الإقامۃ (بل ترقب السفر) غداً أو بعدہ۔(الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۷)وقید بنیۃ الإقامۃ لأنہ لو دخل بلدا ولم ینو أنہ یقیم فیہا خمسۃ عشر یوماً وإنما یقول: غدا أخرج أو بعد غد أخرج حتی بقي علی ذلک سنین قصر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۱)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں زید مسافر رہے گا اگر برنام بٹ اور مدراس میں ۴۸ میل یا اس سے زیادہ کی مسافت ہے (سوا ۷۷؍ کلو میٹر) چوں کہ مدراس میں صرف آٹھ یوم یا اس سے کم رہتا ہے اور شرعی اعتبار سے مقیم وہ شخص ہے کہ جو پندرہ یوم یا اس سے زیادہ کی اقامت کی نیت کرے لہٰذا مذکورہ صورت میں چوں کہ پندرہ یوم سے کم کی اقامت کی نیت پائی جا رہی ہے، لہٰذا وہ مسافر ہوگا اور دوران قیام مدراس وہ نماز میں قصر ہی کرے گا۔(۱)
(۱) لا یزال علی حکم السفر حتی ینوي الإقامۃ في بلدۃ أو قریۃ خمس عشر یوماً أو أکثر وإن نوی أقل من ذلک قصر۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶)أو ینوي إقامۃ نصف شہر بموضع صالح لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:392
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تین منزل یعنی ۴۸؍ میل مسافت کا ارادہ ہو، تو شہر سے باہر نکلتے ہی قصر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ ہی مطلب اس حدیث کا ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلہ پر قصر کیا ہے۔(۱)
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)قال علماؤنا: أدنا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا مع الإسترحات التي تکون في خلال ذلک بسیر الإبل ومشي الأقدام وہو سیر الوسط والمعتاد الغالب۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني والعشرون: في صلاۃ السفر‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:391
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر گھر سے سفر کرتے وقت اس نے نیت کی تھی کہ اس دورہ میں جو منتھائے سفر ہے وہ فلان مقام ہے جو کہ ۴۸؍ میل یا اس سے زیادہ سے ہے، تو قصر لازم ہے ورنہ قصر نہیں ہے۔(۱)
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)قال علماؤنا: أدنا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا مع الإسترحات التي تکون في خلال ذلک بسیر الإبل ومشي الأقدام وہو سیر الوسط والمعتاد الغالب۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني والعشرون: في صلاۃ السفر‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:391
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: زید اپنے مقام برنام بٹ سے مدراس یا بنگلور کے لیے صبح سویرے نکلتا ہے جس کا فاصلہ تقریباً سو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ اور وہ اسی دن شام تک اپنے وطن آتا ہے؛ لہٰذا وہ مسافر کے حکم میں ہے۔ اور جو بحالت سفر نماز قضا ہوئی جیسے کہ صورت مسئولہ میں ظہر و عصر کا ذکر ہے تو وطن واپسی پر قضا میں قصر ہی کرے گا جیسے عالمگیری میں ہے۔(۲)
(۲) ومن حکمہ أن الفائتۃ تقضیٰ علی الصفۃ التي فاتت عنہ إلالعذر وضرورۃ فیقضي مسافر في السفر ما فاتہ في الحضر من الرباعي أربعاً والمقیم في الإقامۃ ما فاتہ في السفر منہارکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر: في قضاء الفوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰)قولہ: (سفراً و حضراً) أي فاتتہ صلاۃ السفر وقضاہا في الحضر یقضیہا مقصورۃ کما لو أداہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:390
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ستر کلو میٹر شرعی مسافت نہیں ہے اور زید شرعاً مسافر نہیں ہے؛ اس لیے نماز پوری پڑھے گا۔(۱)
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:389
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وطن اصلی سے نکلتے ہی وہ شخص مسافر بن گیا، اس حالت میں وہ شخص نماز میں قصر کرے گا، جب تک دوسری جگہ پہونچ کر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ نہ کرے اور صورت مسئولہ میں اگر دوسری جگہ پہونچ کر اس نے ایک مہینہ رہنے کی نیت کر لی تھی تو پھر وہاں قصر جائز نہیں، اس کے بعد اڑتالیس میل سے کم کے سفر پر وہ مسافر نہیں کہلائے گا؛ اس لیے پوری نماز پڑھے گا، قصر کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:388
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بڑے شہروںمیں سیکٹر علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کالونیاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں ضرورۃً بڑے شہر جو تیس چالیس یا اس سے بھی زیادہ میلوں میں آباد ہوں سیکٹر کو اصل شہر قرار دیا جانا چاہیے۔
اس صورت میں جس سیکٹر اور کالونی میں وہ رہتا ہے اس سے باہر ہوتے ہی وہ مسافر شرعی شمار کیا جائے گا۔ اگر سیکٹر سے نکلنے کے بعد اس کو۸ ۴؍ میل سے آگے جانا ہے تو وہ مسافر ہوگا۔
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)
من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:388