نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام رکوع میں ہے اور اس وقت کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور اگر کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ نہ کہی اور رکوع کے مانند جھکتے ہوئے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا گیا، تو اس کی نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) فلو کبّر قائمًا فرکع ولم یقف صح، لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ، ’’قنیہ‘‘۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: بحث القیام، ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام … ولو أدرک الإمام وہو راکع فکبّر قائماً وہو یرید تکبیرۃ الرکوع جازت صلاتہ ولغت نیتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
لو أدرک الإمام راکعاً فحنی ظہرہ ثم کبّر إن کان إلی القیام أقرب صح الشروع ولو أراد بہ تکبیر الرکوع وتلغو نیتہ لأن مدرک الإمام في الرکوع لا یحتاج إلی التکبیر مرتین خلافاً لبعضہم وإن کان إلی الرکوع أقرب لا یصح الشروع۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وفروعہا‘‘: ص: ۲۱۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص312

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔(۱)

(۱) ولا یکرہ (السجود علی بساط فیہ تصاویر) ذي روح (لم یسجد علیہا) لإہانتہا بالوطء علیہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل فیما لا یکرہ للمصلي‘‘: ص: ۳۶۹، شیخ الہند)
قال في الہدایۃ: لو کانت الصورۃ علی وسادۃ ملقاۃ أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادۃ منصوبۃ أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)
وفي البساط روایتان : والصحیح : أنہ لا یکرہ علی البساط إذا لم یسجد علی التصاویر، وہذا إذا کانت الصورۃ کبیرۃ تبدو للناظر من غیر تکلف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،  الفصل الثاني،  فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منفرداً نماز پڑھنے کی صورت میں مطلق قرأت فرض ہے اور سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور اگر امام کی اقتداء میں نماز پڑھے تو مقتدی پر قرأت نہیں ہے نہ سورۂ فاتحہ، نہ کوئی دوسری سورت۔(۱)

(۱) وبیان ذلک أن القراء ۃ وإن انقسمت إلی فرض و واجب وسنۃ إلا أنہ مہما أطال یقع فرضا، وکذا إذا أطال الرکوع والسجود علی ما ہو قول الأکثر والأصح، لأن قولہ تعالیٰ {فاقرؤا ما تیسر} لوجوب أحد الأمرین الآیۃ، فما فوقہا مطلقاً، لصدق ما تیسر علی کل فرض، فمہما قرأ یکون الفرض ومعنی الأقسام المذکورۃ أن جعل الفرض مقدار کذا واجب وجعلہ دون ذلک مکروہ، وجعلہ فوق ذلک سنۃ إلی حد کذا سنۃ … وقالوا: الفاتحۃ واجب، وکذا الکلام فیما بعد الواجب إلی حد السنۃ فلیتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: تحقیق مہم فیما لو تذکر في رکوعہ الخ،  فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۵)…واجبہا قراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ الخ۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، بیروت،لبنان)
وفرض القراء ۃ آیۃ وقالا: ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ … ولا یقرأ المؤتم بل یستمع وینصت۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل یجہر الإمام بالقراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷- ۱۶۰، بیروت، لبنان)
وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴ (سورۃ الأعراف: ۲۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص239

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کے ذہن میں بھی آیت قرآنی کے خلاف کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ دعاء میں سب شریک ہوجائیں اور جو الفاظ خلوص کے ساتھ زبان سے نکل رہے ہیں سب اس پر آمین کہیں یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔(۱)

(۱) {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہج ۵۵} (سورۃ الأعراف: ۵۵)
قلت ہذا الحدیث وإن کان دالاً علی أفضلیۃ الذکر الخفي لکن قولہ: ’’أربعوا علی أنفسکم‘‘ یدل علی أن النہي عن الجہر والأمر بالإخفاء إنما ہو شفقۃ لا لعدم جواز الجہر أصلاً وکذا حدیث ’’خیر الذکر الخفي‘‘ (ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۶)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریاء والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص390

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب پر لازم ہے کہ مسجد کی طرف سے جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کریں اس کے ساتھ گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھانے اور اس کی اجرت لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں؛ لہٰذا اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے شرط یہ ہے کوئی غیر شرعی طریقہ نہ ہو، ایسے امام کی اقتداء میں نماز اداء کرنا درست ہے۔(۱)

(۱) قال في الہندیۃ، لو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فان کان المعلم یعلّم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قویۃ وإن کان بأجرۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التوانی في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب فی الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۶، ص: ۵۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص51

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہدیہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگرہدیہ سے مراد یہ ہے کہ ختم قرآن پر تراویح سنانے والے کو کچھ رقم دی جاتی ہے تو وہ اجرت جائز نہیں ہے(۱) ، اگر منشاء سوال مطلق ہدیہ ہے، تو وہ جائز ہے۔(۲)

(۱) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأنہ فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل إلی المستاجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲) عن أبي ہریرۃ  رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وحر الصدر ولا تحقرن جارۃ لجارتہا ولو بشق فرسن شاۃ۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب الولاء والہبۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: حث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی التہادي‘‘: ج ۲، ص: ۳۴، رقم: ۲۱۳۰)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت تو ٹوپی ہے، رنگ کی اس میں تخصیص نہیں ہے، البتہ جو رنگ دوسری قوموں کا شعار ہو اس کو اپنانا درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا، قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ’’من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام قرائۃ لہ‘‘(۱) اور اس پر سب کا اتفاق ہے اگر امام سے سہو ہو جائے تو مقتدی کو بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا پڑ تا ہے۔ اور اگر امام اور مقتدی کی نماز الگ الگ ہوتی ہے تو مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہ ہوتا۔ ’’لا صلاۃ لمن یقرأ الخ‘‘ کا حکم منفرد کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔(۲) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الإمام ضامن‘‘ اور ضمانت کی تحقیق نہیں ہوتی مگر اتحاد کی صورت میں؛ لہٰذا مقتدی کے لیے قرأۃ خلف  الامام کا حکم مطلقاً نہیں خواہ فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورت۔’’من کان لہ إمام فقرائۃ لہ الإمام قرائۃ ومنہا ما قال علیہ الصلاۃ والسلام:۔(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵۔
(۲) وہذا إذا کان إماما أو منفرداً، فأما المقتدي فلا قرائۃ علیہ عندنا۔ (أیضا: ص: ۲۹۴)
(۱) وأما الحدیث فعندنا لا صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً، وصلاۃ المقتدي لیست صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً بل ہي صلاۃ بقراء ۃ، وہي قراء ۃ الإمام، علی أن قراء ۃ الإمام قراء ۃ المقتدي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص240


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کی تلاوت کے دوران غیر قرآن سے کچھ نہ ملایا جائے؛ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے، تو درود نہ پڑھنا چاہئے، تاہم اگر تلاوت کے بعد درود شریف پڑھے، تو درست ہے، بلکہ بہتر ہے اور اگر درود بعد میں بھی نہ پڑھے، تو کوئی حرج نہیں۔
’’ولو قرأ القرآن فمر علی اسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تألیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح ورفع‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۶۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص391

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نکاح پڑھانے والے امام صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ عورت منکوحہ غیر مطلقہ ہے اور اس نے نکاح پڑھا دیا، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اس کی امامت درست ہے؛ لیکن جب اس کے علم میں آگیا تو اس پر ضروری ہے کہ اس بارے میں اعلان کر دے کہ وہ نکاح صحیح نہیں ہوا؛(۱) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان دونوں مرد وعورت کو ملنے نہ دیں اور زنا کاری سے بچائیں۔(۲)

(۱) لا یجوز لرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ و کذلک المعتدۃ، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح، القسم السادس: المحرمات التي یتعلق بھا حق الغیر‘‘: ج ۱، ص:۳۴۶؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح، باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۷۴)
(۲) من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ (أخرجہ مسلم  في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278