نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جس نیت سے جو نماز شروع کی گئی ہے وہی نماز ہوگی درمیان میں صرف نیت کے بدلنے سے دوسری نماز کی طرف منتقل نہیں ہو سکتے، لہٰذا نیت کی تبدیلی سے وہ فرض اور قضاء نماز نہیں ہوئی، بلکہ جو نماز پہلی نیت سے شروع کی تھی یعنی سنت وہی ادا ہوگی؛ اس لیے کہ نماز صرف نیت سے منتقل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے تکبیر تحریمہ کہنا بھی ضروری ہے۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: یزید کے تعلق سے دو قسم کے سوالات عام طورپر پوچھے جاتے ہیں ایک یزید پر لعن طعن کرنے کا او ر دوسرے یزید کے فسق کا،یزید کے لعن طعن کے سلسلے میں علمائے دیوبند کا موقف توقف کا ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص واقعی مستحق لعن ہے تو بھی اس پر لعن طعن کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند میں یزید کے بارے میں مطلقاً علمائے دیوبند کاموقف معلوم کیا گیا ہے اس پر یزید کے لعن، طعن کرنے کے مفہوم کو سامنے رکھ کر توقف کا جواب دیا گیا ہے اور لعن طعن سے توقف کرنا یہ علمائے دیوبنداور اہل سنت و الجماعت کا موقف ہے؛ اس لیے کہ جس کے کفر کا یقین ہو اس پر لعن طعن کرنا درست ہے اور جس کے کفر پر یقینی دلائل نہ ہوں اور اس پر لعن کی صراحت نصوص میں نہ ہو اس پر لعن طعن کرنے سے پرہیز کرنا چا ہیے۔ بذل المجہود کے حاشیہ میں حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلویؒ لکھتے ہیں:
’’ہل یجوز لعن یزید حکی القاضي ثناء اللّٰہ في مکتوباتہ أن للعلماء فیہ ثلاثۃ مذاہب: الأول المنع، کما قال الإمام أبوحنیفۃ في الفقہ الأکبر‘‘(۱)
حضرت گنگوہی ؒ سے بھی جو توقف کا قول منقول ہے وہ لعن طعن کرنے کے سلسلے میں ہے: چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں لکھتے ہیں:
’’پس بدون تحقیق اس امر کے لعن طعن جائز نہیں؛ لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے پس جواز لعن وعدم جواز لعن کا مدار تاریخ پرہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے؛ کیوں کہ اگر لعن جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لعن نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت نہ مستحب محض مباح ہے او رجو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں‘‘۔ فقط واللہ اعلم بالصواب(۲)
یزید پر لعنت کے سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ امداد الفتاوی میں لکھتے ہیں:
’’یزید کے باب میں علماء قدیما و حدیثا مختلف رہے ہیں، بعض نے تو اس کو مغفور کہا ہے اور بعضوں نے اس کو ملعون کہا ہے۔مگر تحقیق یہ ہے کہ چوں کہ معنی لعنت کے ہیں خدا کی رحمت سے دور ہونا اور یہ ایک امر غیبی ہے جب تک شارع بیان نہ فرمادے کہ فلاں قسم کے لوگ یا فلاں شخص خدا کی رحمت سے دور ہے؛ کیوں کر معلوم ہوسکتاہے او رتتبع کلام شارع سے معلوم ہواکہ نوع ظالمین و قاتلین مسلم پر تو لعنت وارد ہوئی ہے۔
’’کما قال تعالٰی: ألَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ، وقال : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَائُ ہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَ غَضَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَأَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۔‘‘
 پس اس کی توہم کو بھی اجازت ہے او ریہ علم اللہ تعالی کو ہے کہ کون اس نو ع میںداخل ہے اور کون خارج او رخاص کر یزید کے باب میں کوئی اجازت منصوصہ ہے نہیں پس بلا دلیل اگر دعوی کریں کہ وہ خدا کی رحمت سے دور ہے اس میں خطر عظیم ہے؛ البتہ اگر نص ہوتی تو مثل فرعون وہامان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خلیل أحمد، سہارنپور، ہامش بذل المجہود، ’’کتاب الأدب: باب اللعن‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) رشید احمد گنگوہی، فتاوی رشیدیہ، ’’ایمان وکفر کے مسائل، یزید پر لعنت کرنا‘‘: ص: ۸۴، جسیم بک ڈپو دہلی۔
وقارون وغیرہم کے لعنت جائز ہوتی۔
’’وإذا لیس فلیس‘‘(۱)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ہمیں یزید پر لعنت کرنے نہ کرنے سے بحیثیت مسئلہ کوئی تعرض نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ مستحق لعنت اشد قسم کا فاسق ہی ہو سکتا ہے: اس لیے یہ استحقاق لعنت کا مسئلہ درحقیقت یزید کے فسق کی ایک مستقل دلیل ہے پس جو دلائل آگے آ رہے ہیں وہ لعنت کی ترغیب دینے کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ اس کے فسق کے اثبات کے سلسلے میں ہیں۔(۲)
 حضرت مولانایوسف بنوری رحمہ اللہ‘‘معارف السنن’’میں لکھتے ہیں:
’’ویزید لا ریب في کونہ فاسقاً ولعلماء السلف في یزید وقتلہ الإمام الحسین خلاف في اللعن والتوقف۔ قال ابن الصلاح: فی یزید ثلاث فرق: فرقۃ تحبہ، وفرقۃ تسبہ، وفرقۃ متوسطۃ لا تتولاہ ولا تلعنہ۔ قال: وھذہ الفرقۃ ھي المصیبۃ الخ‘‘(۳)
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی شامی میںتحریرفرماتے ہیں :
’’حقیقۃ اللعن المشھودۃ ھي الطرد عن الرحمۃ، وھي لا تکون الا لکافر، ولذا لم تجز علی معین بدلیل وإن کان فاسقا مشھورا کیزید علی المعتمد، بخلاف نحو إبلیس وأبي لھب وأبي جھل فیجوز، وبخلاف غیر المعین کالظالمین والکاذبین فیجوز أیضا‘‘(۴)
شرح العقائد اور اس کی عربی شرح نبراس میں ہے:
’’إنمااختلفوا في یزید بن معاویۃ حتی ذکر في الخلاصۃ و غیرھا أنہ لاینبغي اللعن علیہ و لا الحجاج (وقال صاحب النبراس تحت قولہ:) واعلم أنہ کثر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حضرت تھانويؒ، امداد الفتاوی مبوب، ’’کتاب العقائد والکلام‘‘: تحقیق لعن یزید، ج ۵، ص: ۴۲۵۔
(۲) حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۴۰۔
(۳) الکشمیري، معارف السنن،شرح سنن الترمذی: ج ۶، ص: ۸۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الرجعۃ، مطلب في حکم لعن العصاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۹۔
الاختلاف في ھذا المقام والذي حققہ المحققون ھو أن اللعن ثلاثۃ أقسام: أحدھا: اللعن بالوصف العام الوارد في الشرع نحو لعن اللّٰہ الکفار و الیھود و ھذا جائز۔۔۔۔ ثانیھا: اللعن علی الشخص المعین الذي صح موتہ علی الکفر باخبار الشارع کفرعون و أبي جھل و ابلیس وھو جائز۔ ثالثھا:علی شخص لم یعلم موتہ علی الکفر و ھو لایجوز سواء کان حیّا أو میتا و کان بحسب الظاہر مؤمنا أو کافرا لجواز أن یوفق اللّٰہ سبحانہ الکافر للاسلام (ھذا ما قررہ المحققون…) وبھذا ظہر أن استدلالھم علی لعن یزید بالنصوص العامۃ غیر صحیح و أن معنی اللعن فیھا ھو ذم الفعل لا تجویز لعن کل شخص بفعلہ فاحفظ ھذا التحقیق، ولاتکن من الذین لایراعون قواعد الشرع و یحکمون بأن من نھی عن لعن یزید فھو من الخوارج۔ نعم قبح أفعالہ مشھور و حب أھل البیت واجب لکن النھی عن لعنہ لیس للقصور في حبھم بل لقواعد الشرع‘‘(۱)

اس طرح کی عبارتیں کتب اہل سنت والجماعت میں کثرت سے موجود ہیں؛ اس لیے احوط قول یہی ہے کہ یزید پر لعن و طعن کے سلسلے میں توقف کیا جائے۔ جہاں تک یزید کے عادل او رفاسق ہونے کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگ اسے فاسق نہیں مانتے ہیں اور ان کے پاس بھی دلائل ہیں تاہم اہل سنت والجماعت کی اکثریت، اسی طرح اکابر علماء دیوبند کا عمومی رخ یزید کے فاسق ہونے کے سلسلے میں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒنے یزید کے فاسق ہونے پر اتفاق نقل کیا ہے۔ حجۃ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہٗ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت شیخ لاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ یوسف بنوری رحمہم اللہ اسی طرح بہت سے اکابر علماء دیوبند نے یزید کے فسق کی تصریح کی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حجۃ اللہ البالغہ میںیزید کے فسق پر اتفاق نقل کرتے ہوئے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) محمد عبد العزیز الفرہاري،  النبراس، شرح شرح العقائد النسفیۃ،ص: ۵۲۹، ۵۳۲۔
لکھتے ہیں:
’’ومن القرون الفاضلۃ اتفاقا من ہو منافق أو فاسق ومنہا الحجاج۔ ویزید بن معاویۃ۔ ومختار۔ وغلمۃ من قریش الذین یہلکون الناس وغیرہم ممن بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سوء حالہم‘‘(۱)
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
پس انکار کیا امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے؛ کیوں کہ وہ فاسق، شرابی و ظالم تھا۔ اور امام حسین مکہ تشریف لے گئے۔(۲)
حضرت قاسم العلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہادت حسین اور کردار یزید کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے۔ یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے، پروفیسر انوار الحسن خان شیرکوٹی نے اس کا ترجمہ کیا ہے، اس رسالہ میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے حالات پر تفصیلی اور علمی گفتگو کی ہے او رحضرت امیر معاویہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فسق یزید کی تصریح کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ کو اس کے فسق کا علم نہیں تھا اور جنگ میں اس کی بہادری مسلم تھی، پھر یزید کے فسق کا زیادہ ظہور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا تھا۔ چناں چہ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یزید پلید کو ولی عہد بنانے میں بھی کوئی خدشہ موجب انکار نہ نکلا۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: جس وقت کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید پلید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا تو وہ علانیہ فاسق نہ تھا اگر اس نے کچھ کیا ہوگا تو در پردہ کیا ہوگا کہ حضرت امیر معاویہ کو اس کی خبر نہ ہوگی علاوہ ازیں جہاد میں یزید کا حسن تدبر جیسا کہ اس سے دیکھا گیا مشہور ہے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: ہاں ان کے انتقال کے بعد یزید نے پر پرزے نکالنے شروع کیے اور دل کو خواہش نفس اور ہاتھ کو جام شراب پر لے گیا فسق کھلم کھلا کرنے لگا اور نماز چھوڑ دی بعض سابقہ تمہیدوں کی بناپر معزول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)شاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۲، ص: ۳۳۳۔
(۲) شاہ عبد العزیز الدہلوي، سر الشہادتین: ص: ۱۲۔

کردینے کے قابل ہوگیا۔(۱)
حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:
یزید فاسق تھا اور فاسق کی ولایت مختلف فیہ ہے دوسرے صحابہؓ نے جائز سمجھا حضرت امام نے ناجائز سمجھا اور گو اکراہ میں انقیاد جائز تھا مگر واجب نہ تھا او رمتمسک بالحق ہونے کے سبب یہ مظلوم تھے او رمقتول مظلوم شہید ہوتاہے، شہادت غزوہ کے ساتھ مخصوص نہیں بس ہم اسی بنائے مظلومیت پر ان کو شہید مانیں گے باقی یزید کو اس قتال میں اس لیے معذور نہیں کہہ سکتے کہ وہ مجتہد سے اپنی تقلید کیوں کراتا بالخصوص جب کہ حضرت امام آخر میں فرمانے بھی لگے تھے کہ میں کچھ نہیں کہتا اس کو تو عداوت ہی تھی، چناں چہ امام حسینؓ کے قتل کی بنا یہی تھی اور مسلط کی اطاعت کا جواز الگ بات ہے مگر مسلط ہونا کب جائز ہے خصوصاً نااہل کو اس پر خود واجب تھا کہ معزول ہوجاتا پھر اہل حل و عقد کسی کو خلیفہ بناتے۔(۲)
حکیم الاسلام حضر ت مولاناقاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر شہید کربلا اور یزید کے عنوان سے کتاب لکھی ہے یہ کتاب در حقیقت محمود عباس کی کتاب خلافت معاویہ ویزید کے رد میں لکھی گئی ہے، محمود عباس نے یزید کو خلیفہ برحق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خروج کنندہ اور باغی ثابت کیا ہے اس کے جواب میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا برحق ہونا اور یزید کا فاسق ہونا ثابت کیا ہے، کتاب کے آغاز میں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب جماعت علماء دیوبند کے متفقہ مسلک حق کی ترجمانی ہے، اس کتاب میں حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ یزید کے فسق کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یزید کا ذاتی فسق وفجور بھی کچھ کم نہ تھا دیانات میں اس کا قصور اور فتور حافظ ابن کثیر، فقیہ الہراس وغیرہ نے نہایت صفائی سے نقل کیا ہے جو کسی موقع پر آئے گا؛ لیکن جس فسق نے اسے مبغوض خلائق بنایا وہ اس کا اجتماعی رنگ کا فسق تھا جس نے امت میں فتور پیدا کر دیا ذاتی فسق سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱)حضرت نانوتويؒ، شہادت امام حسین وکردار یزید: ص: ۷۹۔
(۲) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ، مسائل شتی، رفع شبہ در شہادت إمام حسینؓ: ج ۴، ص: ۴۶۳۔
 تو محض ذات تباہ ہو جاتی ہے؛ لیکن اجتماعی فسق سے امت اور اجتماعیت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے؛ اس لیے علماء اور فقہاء نے زیادہ یزید کے اسی فسق کا ذکر کیا ہے اور اس پر احکام مرتب کیے ہیں پھر اس میں بھی قبیح ترین جس نے امت میں اس کی طرف ذہنی اشتغال پیدا کر دیا وہ قتل حسین جو اس کی امارت کا شاہ کار ہے۔(۱)
ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں:
اختلاف اگر ہے تو یزید کی تکفیر میںہے تفسیق نہیں اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جب کہ یزید کے کفر کے قائل ہو گئے تو فسق کے بطریق اولیٰ تسلیم کیے جائیں گے، اس لیے یزید کے فسق پر اتفاق علماء کے ساتھ امام مجتہد کی مہر بھی لگ جاتی ہے۔(۲)
 مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں:
 بعض ائمہ نے جو یزید کی نسبت کفر سے کف لسان کیا ہے وہ احتیاط ہے؛کیوں کہ قتل حسین کو حلال جاننا کفر ہے تو مگر تحقیق سے یہ ثابت نہیں کہ یزید قتل حسین کوحلال جانتا تھا؛ لہٰذا کافر کہنے سے احتیاط رکھے مگر فاسق بے شک تھا۔(۳)
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک تفصیلی مقالہ اس عنوان پر لکھاہے جو 1958 کے ماہانہ رحیق لاہو رمیںشائع ہوا اس مقالہ میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے جس میںان سے پوچھا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا تھا یا نہیںاور بنایا تو کیوں؟ اس جواب میں حضرت مدنیؒ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب پر تفصیلی کلام کیا ہے، جس سے میں ضمنی طورپر یہ ثابت ہوتاہے کہ یزید کے فسق وفجور کی اطلاع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں تھی۔ چناں چہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
کیوں نہ کہاجائے کہ خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا؛ بلکہ خود یزید او راس کے اعوان نے اس کے لیے کوشش کی (یہ لوگ متقی نہ تھے اور ملوکیت پسند تھے) عام مسلمان اور بالخصوص
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حکیم الاسلام، شہید کربلا اور یزید: ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضاً: ص: ۱۸۹۔
(۳)رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ، ’’کتاب الکفر والإیمان‘‘: یزید کو کافر کہنا: ص: ۶۳۔
اہل حجاز اس کے خلاف تھے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں: تاریخ شاہد ہے کہ معارک عظیمہ میں یزید نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے اس کے فسق و فجور کا علانیہ ظہور ان (حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ) کے سامنے نہ ہوا تھا او رخفیہ جو بد اعمالیاں وہ کرتاتھا اس کی ان کو اطلاع نہ تھی ایک وہ شخص جو کہ فقیہ فی الاسلام ہے حسب دعوات مستجابہ ہادی اور مہدی ہے کیا وہ کسی مجاہر بالفسق والعصیان کو عالم اسلامی کی رقاب او راموال وغیرہ کا ذمہ دار کرسکتا ہے۔(۱)
خلاصہ: یہ ہے کہ لعن طعن میں اختلاف ہے اور دونوں طرف دلائل ہیں، حضرات علمائے دیوبند نے لعن طعن سے توقف کو راجح قراردیا ہے جہاں تک یزید کے فاسق ہونے نہ ہونے کا معاملہ ہے اس میں بھی اختلاف ہے اور بعض حضرات اہل علم یزید کو فاسق نہیں مانتے ہیں جب کہ راجح فاسق ہونا ہے اور اکابر علماء دیوبند کا مسلک یہی معلوم ہوتا ہے۔
(۱) مضمون حضرت مولانا حسین احمد مدنی، رحیق لاہور، جون: ۱۹۵۸ء؁
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص451

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ عادت مکروہ ہے اور واجب الترک ہے، اس سے نمازیوں کو خلل ہوتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ والدعاء بما یشبہ کلامنا ہو ما لیس في القرآن ولا في السنۃ ولا یستحیل طلبہ من العباد، فإن ورد فیہما أو استحال طلبہ لم یفسد کما في البحر … قولہ: لا لذکر جنۃ أو نار؛ لأن الأنین ونحوہ إذا کان یذکرہما صار کأنہ قال: اللہم إني أسألک الجنۃ وأعوذ بک من النار، ولو صرح بہ لا تفسد صلاتہ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ صار کأنہ یقول: أنا مصاب فعزوني، ولو صرح بہ تفسد، کذا في الکافي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘ ج۲، ص: ۳۷۷، ۳۷۸، زکریا)
وإذا أخبر بما یعجبہ فقال: سبحان اللّٰہ، أو لا إلہ إلا اللّٰہ أو واللّٰہ أکبر، إن لم یرد بہ الجواب لا تفسد صلاتہ عند الکل، وإن أراد بہ الجواب فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص126

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2435/45-3685

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سجدہ کی جگہ کو عمل قلیل (ایک ہاتھ) سے صاف کرنا یا ہلکے انداز میں پھونک مار کرصاف کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر عمل کثیر ہو یا اس قدر زور سے پھونک مارے کہ اس میں آواز معلوم ہو تو یہ مفسد نماز ہے۔

عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ إِلَی الصَّلاَۃِ فَإِنَّ الرَّحَمْۃَ تُوَاجِہُہُ فَلاَ یَمْسَحِ الْحَصٰی (وَفِیْ رِوَایَۃ)ٍ فَلاَ یُحَرِّکِ الْحَصٰی، أَوْ لَا یَمَسََّ الْحَصٰی۔ (مسند احمد: ۲۱۶۵۶)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ ایک نماز سے دوسری نماز میں داخل ہونے کے لیے نیت کے ساتھ دوبارہ تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے۔ صورت مذکور میں سنت ادا کرنے کی زید نے نیت کی تھی اور اس نے دو رکعت ادا بھی کر لی تھی، لیکن وہ سلام پھیرنے کے بجائے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا اور تیسری رکعت میں اس نے وتر کی نیت کرلی، تو صورت میں وتر ادا نہیں ہوئی کیوں کہ زید کا وتر کی طرف منتقل ہونا درست نہیں ہے۔ اس لیے وتر کا اعادہ کرنا ہوگا اور چوں کہ سنت کی نیت سے نماز شروع کی ہے، اس لیے دو رکعت سنت نماز درست ہوگئی اور ایک رکعت لغو ہو جائے گی۔
’’الرابع في صفۃ المنوی من الفریضۃ والنافلۃ والأداء والقضاء، أما الصلاۃ فقال في البزازیۃ: إنہ ینوی الفریضۃ في الفرض فقال معزیاً إلی المجتبیٰ ’’لابد من نیۃ الصلاۃ ونیۃ الفرض ونیۃ التعیین الخ‘‘(۱)
’’(قولہ ولا تبطل بنیۃ القطع) وکذا بنیۃ الانتقال إلی غیرہا (قولہ ما لم یکبر بنیۃ مغایرۃ) بأن یکبر ناویا النفل بعد شروع الفرض وعکسہ، أو الفائتۃ بعد الوقتیۃ وعکسہ، أو الاقتداء بعد الإنفراد وعکسہ۔ وأما إذا کبر بنیۃ موافقۃ کأن نوی الظہر بعد رکعۃ الظہر من غیر تلفظ بالنیۃ فإن النیۃ الأولی لا تبطل ویبنی علیہا۔ ولو بنی علی الثانیۃ فسدت الصلاۃ‘‘(۲)
’’قولہ (ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ) لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا یبنی الباقي علیہ، وفي الصوم جوزت للضرورۃ۔، حتی لو نوی عند قولہ اللّٰہ قبل أکبر لا یجوز لأن الشروع یصح بقولہ اللّٰہ فکأنہ نوی بعد التکبیر حلیۃ عن البدائع‘‘(۳)

(۱) ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، القاعدۃ الثانیۃ: ص: ۱۵۔
(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج۲، ص: ۹۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص308

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قیام یا رکوع کی حالت میں گری ہوئی ٹوپی اٹھا کر سر پر رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں عمل کثیر ہو جائے گا جس سے نماز ہی ٹوٹ جائے گی، البتہ حالت سجدہ میں سر سے گری ہوئی ٹوپی عمل قلیل کے ساتھ مثلاً ایک ہاتھ سے اٹھا کر پہنی جا سکتی ہے، بلکہ ایسا کرنا افضل ہے اس سے نماز میں خرابی نہیں ہوگی۔(۱)
’’ولو سقطت قلنسوۃ فإعادتہا أفضل، إلا إذا احتاجت لتکویر أو عمل کثیر‘‘(۲)

(۱) الأول أن ما یقام بالیدین عادۃ کثیرٌ، وإن فعلہ بید واحدۃ کالتعمم… ولبس القلنسوۃ ونزعہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا‘ النوع الثاني: في الأفعال المفسدۃ للصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۰، زکریا دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص127

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر وہ نابینا شخص ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں لکھا گیا ہے تو ان کی امامت بلاشبہ درست اور جائز ہے خود اس شخص کو چاہیے کہ پاکی وناپاکی کا خوب خیال رکھے۔(۲)

(۲) والکراہۃ في حقہم لما ذکر من النقائص، فلو عدمت بأن کان الأعرابي أفضل من الحضري، والعبد من الحر  وولد الزنا من ولد الرشدۃ والأعمی من البصیر زالت الکراہۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۲۱۱)
کرہ إمامۃ … الأعمی لأنہ لا یتوقی النجاسۃ ولا یہتدی إلی القبلۃ بنفسہ ولا یقدر علی استیعاب الوضوء غالباً الخ۔ (الزیلعي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ والحدث في الصلاۃ: ج۱، ص: ۳۴۵)

…وکرہ إمامۃ العبد والأعمی لعدم اہتدائہ إلی القبلۃ وصون ثیابہ عن الدنس، إن لم یوجد، أفضل منہ فلا کراہۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص48

نماز / جمعہ و عیدین
کیا زبان سے نیت کرنی ضروری ہے؟ (۵۳)سوال: حضرت مفتی صاحب: سوال یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ادا کرنے سے پہلے قضا نماز پڑھنے کی نیت تھی، لیکن تکبیر کہتے وقت کوئی نیت زبان سے نہیں کی، تکبیر کے بعد خیال آیا کہ میں نے تو تکبیر کے وقت کسی نماز کی نیت نہیں کی ہے، تو تکبیر سے قبل نماز شروع کرنے سے پہلے کی جو نیت تھی وہ نیت معتبر ہوگی یا نہیں؟ ایسے ہی اگر کوئی شخص سنت نماز میں قضا نماز کی نیت کرے تو کیا وہ قضاء نماز کی نیت کر سکتا ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘ فقط: والسلام المستفتی: محمد شمشیر الاسلام، مراد آباد

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام یا غیر امام کو ایسی فضول حرکتوں سے اجتناب کرنا چاہیے اس سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے اور ایسا عمل کبھی عمل کثیر بن جاتا ہے اور نماز کے فساد کی نوبت آ جاتی ہے، لہٰذا ایسے عبث فعل سے امام اور مصلیوں کو بچنا چاہیے۔ تاہم اگر رکوع یا سجدے سے اٹھتے وقت بدن سے چپکے ہوئے دامن کو ایک ہاتھ سے درست کر لیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
’’ویکرہ أیضاً: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفعہ من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود أو یدہ فیہا وہو مکفوف کما إذا دخل وہو مشمر الکم أوالذیل وأن یرفعہ‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ وبجسدہ للنہي إلا لحاجۃ، قولہ وعبثہ ہو فعل لغرض غیر صحیح، قال في النہایۃ: وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلا بأس بہ۔ (الحکصفي و ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا دیوبند)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ۔ ولا بأس بأن ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و فیما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۰۳، دار الکتاب دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص128

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی امامت میں جو نماز پڑھی گئی وہ نماز ادا ہوگئی تاہم کسی اچھے دیندار، بزرگانہ لباس، وضع وقطع والے شخص کو امام بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ پورے حقوق کے ساتھ ادا کیا جاسکے۔(۱)

(۱) وعلی ہذا فما صار شعارا للعلماء یندب لہم لبسہ لیعرفوا بذلک، فیسألوا، ولیطاوعوا فیما عنہ زجروا، وعلل ذلک ابن عبد السلام بأنہ سبب لامتثال أمر اللہ تعالی والانتہاء عما نہی اللہ عنہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۶، ص: ۱۴۰)
 ذکر ما یستنبط منہ من الأحکام فیہ: جواز لبس الثوب المعلم وجواز الصلاۃ فیہ. وفیہ: أن اشتغال الفکر الیسیر في الصلاۃ غیر قادح فیہا، وہو مجمع علیہ۔ (علامہ عیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۱۳)
وعنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم، رواہ أحمد، وأبو داود۔
(وعنہ): أي عن ابن عمر (قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (من تشبہ بقوم): أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلا في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار۔ (فہو منہم): أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار،  ولما کان الشعار أظہر في التشبہ ذکر في ہذا الباب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس، الفصل الأول‘‘: ج۸، ص: ۲۲۲، رقم: ۴۳۴۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص49