Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱) عیدگاہ کی مسجد میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے اور احکام کے لحاظ سے عیدگاہ بھی مسجد کے حکم میں ہے۔(۱)
(۲) نماز کی جگہ اور سامنے اگر قبروں کے نشانات نہیں ہیں جگہ خالی اور برابر ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۲)
(۳) جس شخص نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔(۱)
(۱) وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علی أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق، وإن لم یستخلف فلہ ذلک۔ اہـ نوح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب العیدین‘‘: ج۳، ص: ۴۹)
الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ وإن کان یسعہم المسجد الجامع، علی ہذا عامۃ المشایخ وہو الصحیح، ہکذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)
لا تکرہ في مسجد أعد لہا وکذا في مدرسۃ ومصلی عید لأنہ لیس لہا حکم المسجد في الأصح إلا في جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ص: ۵۹۵)
و أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء لا في حق غیرہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب البدعۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
واختلفوا أیضا في مصلی العیدین أنہ ہل ہو مسجد والصحیح أنہ مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن لم تتصل الصفوف؛ لأنہ أعد للصلاۃ حقیقۃ لا في حرمۃ دخول الجنب والحائض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)
(۲) ولا بأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما في الخانیۃ ولا قبلتہ إلی قبر حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱)
ویکرہ أن تکون قبلۃ المسجد إلی المخرج أو إلی القبر لأن فیہ ترک تعظیم المسجد، وفي الخلاصۃ ہذا إذا لم یکن بین یدي المصلي وبین ہذا الموضع حائل کالحائط وإن کان حائطاً لا یکرہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ، مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۳)
(۱) (وہي فرض علی کل مسلم مات خلا) أربعۃ: (بغاۃ، وقطاع طریق) … (وکذا) أہل عصبۃ و (مکابر في مصر لیلا بسلاح وخناق) خنق غیر مرۃ فحکمہم کالبغاۃ۔ (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی وإن کان أعظم وزرا من قاتل غیرہ … (لا) یصلی علی (قاتل أحد أبویہ) إہانۃ لہٗ، وألحقہ في النہر بالبغاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنازۃ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۷ تا ۱۰۹)
وشرطہا إسلام المیت وطہارتہ ما دام الغسل ممکنا وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن إخراجہ إلا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی ہکذا في التبیین وطہارۃ مکان المیت لیست بشرط ہکذا في المضمرات ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان أو کبیرا ذکرا کان أو أنثی حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص:43 و45
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر وقت میں گنجائش ہو تو نیت توڑ کر پھر سے سنتوں کی نیت باندھ لے اور تکبیر تحریمہ دو بارہ سنت کی نیت سے کہے۔نیز فرض کی نیت سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) فیجوز بناء النفل علی النفل وعلی الفرض، وإن کرہ لا فرض علی فرض أو نفل علی الظاہر، ولاتصالہا بالأرکان روعی لہا الشروط، وقد منعہ الزیلعي ثم رجع إلیہ بقولہ: ولئن سلم: نعم في التلویح تقدیم المنع علی التسلیم أولی۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قدیطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸، ۱۲۹)
ثم أنہ إن جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ وعید وجمعۃ إجتمعت ونال ثواب الکل، وکما لو توضأ لنوم وبعد غیبۃ وأکل لحم جزور، وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد وسنۃ وضوء وضحی وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفی بالنیۃ في أولہا ولا یحتاج إلیہا فی کل جزء إکتفاء بإنسحابہا علیہا، ویشترط لہا الإسلام والتمییز والعلم بالمنوی وأن لا یأتی بمناف بین النیۃ والمنوی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶، ط: دارالکتب العلمیۃ)
وأما إذا نوی نافلتین کما إذا نوی برکعتی الفجر التحیۃ والسنۃ أجزأت عنہما، وفي حاشیتہ: لأن التحیۃ والسنۃ قریبان، إحدہما: وہي التحیۃ تحصل بلا قصد، فلا یمنع حصولہا قصد غیرہا، وکذا لو نوی الفرض والتحیۃ کما في فتح القدیر۔ قیل: ولو تعرض المصنف لنفل مختلف السبب لکان أولی کمن أخر التراویح إلی آخر اللیل، ونوی التراویح وقیام آخر اللیل لأن سبب التراویح غیر سبب قیام اللیل۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’الجمع بین عبادتین بنیۃ واحدۃ‘‘: القاعدۃ الأولی: الأمور بمقاصدہا‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر و عصر میں تو تسبیح فاطمی منقول و معمول ہے ۔ پانچوں نمازوں کے بعد اگر کوئی پڑھے تو اس پر بھی ثواب ہے شرط یہ ہے کہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے۔
’’عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال معقبات لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاث وثلاثون تسبیحۃ وثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربع وثلثون تکبیرۃ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص:۲۱۸،رقم: ۵۹۶۔
وأما ماورد من الأحادیث في الأذکار عقیب الصلاۃ فلا دلالۃ فیہ علی الإتیان بہا قبل السنۃ، بل یحمل علی الإتیان بہا بعدہا؛ لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا، فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل یفارقہ الملکان‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص446
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر وہ کبھی کبھی بطور تعلیم ایسا کرتے ہیں تاکہ جن کو یاد نہ ہو ان کو یاد ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں اور اس کا التزام کرتے ہیں، تو بدعت اور قابل ترک ہے؛ اس لئے بہتر یہ ہے کہ الگ الگ دعا کی جائے۔(۲)
(۲) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا یحیی بن سعید، حدثنا ثور بن یزید، حدثنا خالد بن معدان، عن أبي أمامۃ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا رفعت المائدۃ من بین یدیہ، یقول: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مودع ولا مستغنی عنہ ربنا، ہذا حدیث حسن صحیح۔ (رقم: ۳۴۵۶)… حدثنا أبو سعید الأشج قال: حدثنا حفص بن غیاث، وأبو خالد الأحمر، عن حجاج ابن أرطاۃ، عن رباح بن عبیدۃ قال حفص: عن ابن أخي أبي سعید، وقال أبو خالد: عن مولی لأبي سعید عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین۔ (رقم: ۳۴۵۷)
حدثنا محمد بن إسمعیل قال: حدثنا عبد اللّٰہ بن یزید المقرئ، قال: حدثنا سعید بن أبي أیوب قال: حدثني أبو مرحوم، عن سہل بن معاذ بن أنس، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما، فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول مني ولا قوۃ، غفر لہ ما تقدم من ذنبہ، ہذا حدیث حسن غریب، وأبو مرحوم اسمہ: عبد الرحیم بن میمون۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۴، رقم: ۳۴۵۸)
حدثني محمد بن المثنی العنزي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبۃ، عن یزید بن خمیر، عن عبد اللّٰہ بن بسر، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي، قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ، فأکل منہا، ثم أتي بتمر فکان یأکلہ ویلقي النوی بین إصبعیہ، ویجمع السبابۃ والوسطی، قال شعبۃ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین، ثم أتي بشراب فشربہ، ثم ناولہ الذي عن یمینہ، قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ، ادع اللّٰہ لنا، فقال: اللہم، بارک لہم في ما رزقتہم، واغفر لہم وارحمہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیہ، ’’کتاب الأشربۃ: باب الاستحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۰۴۲)
وفیہ استحباب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ واللّٰہ أعلم۔ (النووي، شرح النووي علی مسلم، ’’کتاب الأشربۃ، ’’باب استحباب وضع النوی خارج التمر‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص387
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث اور جزئیات فقہیہ میں تصریح کی گئی ہے کہ امام کو نمازیوں کی رعایت ضروری ہے(۱) اور جس امام کی وجہ سے نمازی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں، توایسا امام چوں کہ ہدایت نبوی کے خلاف کا مرتکب ہوتا ہے؛ اس لیے وہ قابل عزل ہوگا اور سوال میں لکھی ہوئی وجہ ایسی شرعی وجہ ہے کہ اس پر امام کو معزول کیا جا سکتا ہے۔(۲)
(۱) في الصحیحین إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن فیہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي‘‘: ۲، ص: ۳۰۴، زکریا دیوبند)
(۲) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔
لحدیث أبي داؤد لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص45
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2740/45-4263
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مغرب میں تین رکعتیں فرض ہیں ، جب امام نے دو ہی رکعتیں پڑھائیں تو مغرب کی فرض نماز ہوئی ہی نہیں یعنی نمازیوں کے ذمہ سے فرضیت بھی ساقط نہیں ہوئی ، اس لئے یہ نماز باطل ہوگئی ، اور دوسری نماز ہی درست ہوئی ، لہذا دوسری جماعت میں شریک ہونے والوں کی نماز درست ہوگئی، اور ان سے اعادہ کروانے کی ضرورت نہیں تھی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: زنا فحش کام ہے، ناجائز و حرام ہے، اس کو چھوڑنا اور توبہ واستغفار لازم ہے نماز وغیرہ مذکورہ شخص کی ادا ہوجاتی ہے۔(۲)
(۲) قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۷۰} (سورۃ الفرقان: ۷۰)
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنـب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰؛ و ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کـتـاب الإیمان: باب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱، رقم: ۱۵۹)
واتفقوا علی أن التوبۃ من جیمع المعاصي واجبۃ وأنہا واجبۃ علی الفور، ولا یجوز تأخیرہا، سواء کانت المعصیۃ صغیرۃ أو کبیرۃ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التحریم:۶۶‘‘: ج ۱۴، ص: ۱۵۹
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کان بني آدم خطاء، وخیر الخطائین التوابـون۔ أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 45
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تہجد کی نماز نفل ہے جس کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے تاہم اگر سنت کہہ کر پڑھ لی تو وہ بھی درست ہے۔ مطلق نیت ہی کافی ہے۔(۱)
(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ … لنفل وسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص: ۹۴)
قال الشامي: لأن السنۃ ما واظب علیہا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في محل مخصوص فإذا أوقعہا المصلي فیہ نفذ فعل الفعل المسمی سنۃ والنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن ینوی السنۃ بل الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ وتمام تحقیقہ في الفتح۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص304
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے فوراً بعد دعا ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے، چندہ کی وجہ سے اس فضیلت کو گنوانا درست نہیں ،چندہ دعا کے بعد کرنا چاہئے ہاں اتفاقاً ایسا کبھی ہوجائے تو حرج نہیں۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أي الدعاء أسمع قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبات‘‘(۲)
’’حدثنا محمد بن أبي یحي قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأي رجلاً رافعاً یدیہ بد عوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا، قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹، رقم:۳۴۹۹۔
(۱)الطبراني، المعجم الکبیر، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي عن ابن الزبیر: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص447
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز درست ہو جاتی ہے، لیکن سنت طریقہ یہ ہے کامل اور صاف طور پر ’’السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ‘‘ کہے ورنہ سنت کو ترک کرنے والا ہوگا، البتہ اگر وہ ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو تو معاف ہے۔(۱)
(۱) قولہ: ہو السنۃ) قال في البحر، وہو علی وجہ الأکمل أن یقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال: السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام أجزأہ و کان تارکاً للسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱، زکریا دیوبند)
وفي القنیۃ: ہو الأصح ہکذا في شرح النقایۃ للشیخ أبي المکارم ویقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ ، و آدابھا و کیفیتھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴، زکریا دیوبند)
ثم یسلم عن یمینہ مع الإمام فیقول: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وعن یسارہ کذلک۔ (شیخ زادہ إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، بیروت، لبنان)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ کان یسلم عن یمینہ وعن یسارہ: السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في التسلیم في الصلاۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵، رقم۲۹۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص124