Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح و وتر پڑھانے والا ایک ہی شخص ہو یہ ضروری نہیں اگر ایک آدمی نے تراویح پڑھائی اور وتر دوسرے نے پڑھا دئیے تو درست ہے۔(۱)
(۱) ولو لم یصلہا أي التراویح بالإمام أو صلاہا مع غیرہ لہ أن یصلي الوتر معہ وفي الشامیۃ أیضا أما لو صلاہا جماعۃ مع غیرہ ثم صلی الوتر معہ لاکراہۃ۔ (الحصکفي، رد المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰ - ۴۹۹)جاز أن یصلي الفریضۃ أحدہما ویصلي التراویح الآخر، وقد کان عمر رضي اللّٰہ عنہ یؤمہم في الفریضۃ والوتر وکان أبي یؤمہم في التراویح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: 7، ص: 37نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز مسجد میں ادا کرنی چاہئے یہی سنت ہے۔
’’وظاہر کلامہم ہنا أن المسنون کفایۃ إقامتہا بالجماعۃ في المسجد حتی لو أقاموہا جماعۃ في بیوتہم ولم تقع في المسجد أثم الکل‘‘(۱)
لیکن اگر صورت یہ ہو کہ مسجد میں بھی جماعت نماز تراویح ہو رہی ہو اور چند لوگ گھر میں بھی جماعت کرلیں مسجد کی جماعت بند نہ ہو تو درست ہے مگر ان لوگوں کو بھی مسجد کی فضیلت کے ثواب سے محرومی رہے گی۔
’’وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵۔
(۲) أیضا:۔
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 36
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سورہ تراویح ہی بہتر ہے، معاوضہ دے کر قرآن نہ سنا جائے اور نہ سنوایا جائے(۲) ہاں اگر معاوضہ طے نہ ہو اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو، بلکہ ختم کے بعد اپنے طور پر کوئی ہدیہ و تحفہ سننے یا سنانے والے کو دیدے تو اس میں مضائقہ نہیں اس لیے کہ وہ معاوضہ نہیں ہے۔(۳)
(۲) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقرائۃ لأجل المال۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۳) کفایت المفتی میں ہے: اسی طرح اگر بلا تعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطور اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور جواز میں داخل ہو سکتی ہے۔ (کفایت المفتی: ج ۳، ص: ۳۹۵، ۴۱۰، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 35
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3219/46-7078
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بالوں کی کٹنگ اس طور پر کرنا کہ کچھ حصہ کے بال بڑے ہوں اور کچھ حصہ کے چھوٹے ہوں، خلاف سنت اور مکروہ ہے، ایسا کرنے سے احتراز کرنا چاہئے اور بالوں کو ہرچہار جانب سے برابر کٹوانا چاہئے۔ البتہ اگرسر کے بالوں کو کنارے سے مونڈدیاجائے یا انتہائی باریک کردیاجائے اور بیچ میں بال رکھے جائیں، یا بیچ سے مونڈ کر کنارے کے بال باقی رکھے جائیں تو ایسا کرنا 'قزع' کے تحت ناجائز اور سخت گناہ ہوگاجس کی حدیث میں ممانعت ہے ۔
جو امام فساق اور فجار والی ہیئت پر سر کے بال رکھتا ہو جیسا کہ آپ کی بھیجی ہوئی تصاویر میں ہے تو ایسے شخص کو مستقل امام بنانا مکروہِ تحریمی ہو گا۔ مسجد کمیٹی کو چاہئے کہ امام مقرر کرنے سے پہلے ان سب چیزوں پر نظر کرلیں۔ تاہم اگر امام کو تنبیہ کردی جائے اور وہ اپنے بال صحیح کرالے تو اس کو امامت پر باقی رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
القزع أربعة انواع: أحدہا: أن یحلق من رأسہ مواضع من ھاھنا و ھاھنا ․․․․․․․․ الثانی: أن یحلق وسطہ ویترک جوانبہ ․․․․․․․․ الثالث: أن یحلق جوانبہ ویترک وسطہ ․․․․․․․․ الرابع: أن یحلق مقدمہ ویترک موٴخرہ وہذا کلہ من القزع ۔ (تحفة المودود بأحکام المولود: ۱۴۷-۱۴۸، الباب السابع، ط: دار علم الفوائد بیروت)۔
ویکرہ القزع:وہوأن یحلق البعض ویترک البعض۔(ردالمختار:۹/۵۹۴،کتاب الحظروالاباحة،باب الاستبراءوغیرہ،ط:زکریا دیوبند)
عن ابن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن القزع۔ فتح الباری: ۱۰/۳۷۶، کتاب اللباس، باب القزع حدیث نمبر ۵۷۱۰، ص:۵۹۲۰، ط: علی نفقة صاحب السمو الملکی الأمیر سلطان بن عبد العزیز آل سعود۔ وعنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب في لبس الشہوة، رقم الحدیث: ۴۰۳۱۔)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: چھ دن یا اس سے کم یا اس سے زیادہ ایام میں تراویح میں قرآن پورا کرنے میں کوئی قباحت وکراہت نہیں ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی درست ہے بس یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ مقتدیوں کو پریشانی نہ ہو اور اس کے بعد بھی تراویح کا پورا اہتمام کیا جائے بعد میں تراویح کا نہ پڑھنا غلط اور سنت کا ترک ہے۔(۱)
(۱) الختم مرّۃً سنۃٌ ومرّتین فضیلۃ وثلاثا أفضل، ولایترک الختم لکسل القوم؛ لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)السنۃ في التراویح: إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم … والختم مرتین فضیلۃ والختم ثلاث مرات أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 34نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مروجہ شبینہ میں بالعموم ایک رات میں کلام پاک پورا ہوتا ہے جوکہ خلاف سنت ہے، کم ازم تین دن میں کلام پاک کو ختم کیا جاسکتا ہے، اس سے کم میں خلاف سنت ہوگا الایہ کہ لوگ رغبت سے سنیںاور کسی کو شکایت نہ ہواور یہ طریقہ تو بالکل درست نہیں کہ چھوٹی مسجد میں بیک وقت تین یا چار جگہ شبینہ پڑھا جائے اور آوازوں کا ٹکراؤ نماز میں خلل انداز ہوتا رہے۔(۱)
(۱) والأفضل في زماننا: أن یقرأ بما لایؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)والأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 34نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خارج از نماز کا لقمہ امام کو نہ لینا چاہئے اور جب کہ امام کو معلوم بھی ہو، تو اگر ایسے شخص کا لقمہ لے لیا تو امام اور مقتدیوں سبھی کی نماز فاسد ہو جائے گی اور نماز کا لوٹانا ضروری ہوگا۔(۱)
(۱) وإن فتح غیر المصلي علی المصلي فأخذ بفتحہ تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)ولو سمعہ المؤتم ممن لیس في الصلاۃ ففتح بہ علی إمامہ یجب أن تبطل صلاۃ الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۲)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 33نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے، سفر میں اگر موقع ہو تو پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر موقع نہ ہو تو چھوڑ دینا بھی جائز ہے، اور سفر کی وجہ سے اگر نماز چھوٹ گئی تو پھر سنتوں کی قضا کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) وبعضہم جوزوا للمسافر ترک السنن والمختار أنہ لا یأتي بہا في حال الخوف ویأتي بہا في حال القرار والأمن، ہکذا فيالوجیز الکردي۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)وقال الہندواني: الفعل حال النزول والترک وحال المیسر وفي التنجیس، والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار یأتي بہا، لأنہا شرعت مکملات والمسافر إلیہ محتاج۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۰، دار الکتاب، دیوبند)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 32نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: دوبارہ جماعت خواہ وہ کسی بھی نماز کی ہو اس مسجد میں نہ کریں کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب تراویح پڑھنے والوں کو (جو الگ الگ مسجد میں تراویح پڑھتے تھے) ایک امام کے پیچھے جمع کیا تھا۔ اس لیے مذکورہ عمل سنت طریقہ کے خلاف ہے۔ ہاں مسجدسے ہٹ کر اگر جماعت کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۲) لو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 31نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن کریم سننا اور سنانا سنت ہے۔ اور یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ حتی الامکان مساجد میں قرآن پاک سننے سنانے کا اہتمام کرنا چاہئے خلاف ورزی درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) قولہ: التراویح سنۃ بإجماع الصحابۃ ومن بعدہم من الأمۃ منکرہا مبتدع ضال مردود الشہادۃ کما في المضمرات۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۱)(ذکر لفظ الاستحباب والأصح أنہا سنۃ) یعني في حق الرجال والنساء، وفیہ نظر؛ لأنہ قال: یستحب أن یجتمع الناس، وہذا یدل علی أن اجتماع الناس مستحب، ولیس فیہ دلالۃ علی أن التراویح مستحبۃ، وإلی ہذا ذہب بعضہم فقال: التراویح سنۃ والاجتماع مستحب، وقولہ: (لأنہ واظب علیہا الخلفاء الراشدون) إنما یدل علی سنیتہا لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي۔ (بدر الدین العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل، فصل في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30