Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائے جائیں کہ انگوٹھے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں۔(۳)
(۳) وکیفیتہا: إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبّر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤس الأصابح فروع أذنیہ۔ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
(ثم رفعہما حذاء أذنیہ) حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ویجعل باطن کفیہ نحو القبلۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ ‘‘: ص: ۲۷۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسجد میں نمازوں کی ادائیگی درست ہے۔(۱) تاہم بل ادانہ کرنے کا گناہ متولی پر ہوگا۔(۲) لہٰذا اسے چاہئے کہ بل ادا کرنے میں تاخیر نہ کیا کرے۔(۳)
(۱) وعن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الأرض کلہا مسجد إلا الحمام و المقبرۃ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب في المواضع التي لا تجوز فیھا الصلاۃ، ص:۷۰، رقم:۲۹۴)
(۲) وعن خولۃ بنت قیس رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن ہذا المال خضرۃ حلوۃ، من أصابہ بحقہ بورک لہ فیہ، ورب متخوض فیما شائت بہ نفسہ من مال اللّٰہ ورسولہ لیس لہ یوم القیامۃ إلا النار (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزھد عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في أخذ المال‘‘ ج۲، ص۶۲، رقم:۳۳۷۴)
(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مطل الغني ظلم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستقراض، باب مطل الغني ظلم‘‘: ج۱ ، ص:۳۲۳ ، رقم: ۲۴۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص129
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک جہری نماز ہو یا سری نماز، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ یا کوئی سورت پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اس کی ممانعت قرآن پاک واحادیث دونوں سے ہے۔ {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام قراء ۃ لہ‘‘(۲) امام شافعی ؒکے نزدیک بھی صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے دوسری سورت کی نہیں ہے۔
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ: ج ۱، ص: ۲۹۵، زکریا دیوبند۔)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : …إنما جعل الإمام لیؤتم بہ، فإذا کبر فکبروا، وإذا قرأ فانصتوا، رواہ أبوداود والنسائي وابن ماجہ۔ ( خطیب تبرازي، مشکاۃ المصابیح، ’’باب القراء ۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، یاسر ندیم)
وعن أبي بن کعب رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال لما نزلت ہذہ الآیۃ ترکوا القرائۃ خلف الإمام وإمامہم کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فالظاہر أنہ کان بأمرہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، باب الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰)
والمؤتم لا یقرأ مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ … تقدیرہ : لا غیر الفاتحہ ولا الفاتحۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص238
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 930
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: خاموش رہنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/889
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قادیانیوں کے عقائد کفریہ کی بناء پر ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اداء کی جانی چاہئے اور امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔ التحیات کے بعد درود شریف ودعاء اسی طرح رکوع وسجود میں کم از کم تین تین مرتبہ تسبیحات مسنون ہیں تمام ہی کی رعایت کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) وفی المنیۃ: ویکرہ للإمام أن یعجلہم عن إکمال السنۃ. ونقل فی الحلیۃ عن عبد اللہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبیحات لیدرک من خلفہ الثلاث۔
والحاصل: أن فی تثلیث التسبیح فی الرکوع والسجود ثلاثۃ أقوال عندنا، أرجحہا من حیث الدلیل الوجوب تخریجاً علی القواعد المذہبیۃ، فینبغی اعتمادہ کما اعتمد ابن الہمام ومن تبعہ روایۃ وجوب القومۃ والجلسۃ والطمأنینۃ فیہما کما مر. وأما من حیث الروایۃ فالأرجح السنیۃ؛ لأنہا المصرح بہا فی مشاہیر الکتب، وصرحوا بأنہ یکرہ أن ینقص عن الثلاث وأن الزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلایطول، وقدمنا فی سنن الصلاۃ عن أصول أبی الیسر أن حکم السنۃ أن یندب إلی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع حصول إثم یسیر وہذا یفید أن کراہۃ ترکہا فوق التنزیہ وتحت المکروہ تحریماً. وبہذا یضعف قول البحر: إن الکراہۃ ہنا للتنزیہ؛ لأنہ مستحب وإن تبعہ الشارح وغیرہ، فتدبر۔ابن عابدین؛ رد المحتار۔ج:۱،ص:۴۹۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص50
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام رکوع میں ہے اور اس وقت کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور اگر کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ نہ کہی اور رکوع کے مانند جھکتے ہوئے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا گیا، تو اس کی نماز نہ ہوگی۔(۱)
(۱) فلو کبّر قائمًا فرکع ولم یقف صح، لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ، ’’قنیہ‘‘۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: بحث القیام، ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام … ولو أدرک الإمام وہو راکع فکبّر قائماً وہو یرید تکبیرۃ الرکوع جازت صلاتہ ولغت نیتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
لو أدرک الإمام راکعاً فحنی ظہرہ ثم کبّر إن کان إلی القیام أقرب صح الشروع ولو أراد بہ تکبیر الرکوع وتلغو نیتہ لأن مدرک الإمام في الرکوع لا یحتاج إلی التکبیر مرتین خلافاً لبعضہم وإن کان إلی الرکوع أقرب لا یصح الشروع۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وفروعہا‘‘: ص: ۲۱۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔(۱)
(۱) ولا یکرہ (السجود علی بساط فیہ تصاویر) ذي روح (لم یسجد علیہا) لإہانتہا بالوطء علیہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل فیما لا یکرہ للمصلي‘‘: ص: ۳۶۹، شیخ الہند)
قال في الہدایۃ: لو کانت الصورۃ علی وسادۃ ملقاۃ أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادۃ منصوبۃ أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)
وفي البساط روایتان : والصحیح : أنہ لا یکرہ علی البساط إذا لم یسجد علی التصاویر، وہذا إذا کانت الصورۃ کبیرۃ تبدو للناظر من غیر تکلف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني، فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:منفرداً نماز پڑھنے کی صورت میں مطلق قرأت فرض ہے اور سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور اگر امام کی اقتداء میں نماز پڑھے تو مقتدی پر قرأت نہیں ہے نہ سورۂ فاتحہ، نہ کوئی دوسری سورت۔(۱)
(۱) وبیان ذلک أن القراء ۃ وإن انقسمت إلی فرض و واجب وسنۃ إلا أنہ مہما أطال یقع فرضا، وکذا إذا أطال الرکوع والسجود علی ما ہو قول الأکثر والأصح، لأن قولہ تعالیٰ {فاقرؤا ما تیسر} لوجوب أحد الأمرین الآیۃ، فما فوقہا مطلقاً، لصدق ما تیسر علی کل فرض، فمہما قرأ یکون الفرض ومعنی الأقسام المذکورۃ أن جعل الفرض مقدار کذا واجب وجعلہ دون ذلک مکروہ، وجعلہ فوق ذلک سنۃ إلی حد کذا سنۃ … وقالوا: الفاتحۃ واجب، وکذا الکلام فیما بعد الواجب إلی حد السنۃ فلیتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: تحقیق مہم فیما لو تذکر في رکوعہ الخ، فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۵)…واجبہا قراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ الخ۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، بیروت،لبنان)
وفرض القراء ۃ آیۃ وقالا: ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ … ولا یقرأ المؤتم بل یستمع وینصت۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل یجہر الإمام بالقراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷- ۱۶۰، بیروت، لبنان)
وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴ (سورۃ الأعراف: ۲۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص239
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کے ذہن میں بھی آیت قرآنی کے خلاف کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ دعاء میں سب شریک ہوجائیں اور جو الفاظ خلوص کے ساتھ زبان سے نکل رہے ہیں سب اس پر آمین کہیں یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔(۱)
(۱) {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہج ۵۵} (سورۃ الأعراف: ۵۵)
قلت ہذا الحدیث وإن کان دالاً علی أفضلیۃ الذکر الخفي لکن قولہ: ’’أربعوا علی أنفسکم‘‘ یدل علی أن النہي عن الجہر والأمر بالإخفاء إنما ہو شفقۃ لا لعدم جواز الجہر أصلاً وکذا حدیث ’’خیر الذکر الخفي‘‘ (ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۶)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریاء والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص390