نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک میں امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں خواہ جہری یعنی بلند آواز سے قرأت ہو یاسری یعنی آہستہ آواز سے قرأت ہو، تمام نمازوں میں خاموش رہے گا اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت (فاستمعوا) سے جہری نمازوں کے اندر اور (وأنصتوا) سے سری نمازوں میں قرأت نہ کرنا مفسرین کے نزدیک مسلم ہے، تفسیر کبیر میں حضرت امام رازیؒ اور روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ کی تصریح مذکور ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ} یہ آیت نماز سے متعلق آئی ہے اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’الآیۃ نزلت في ترک الجہر بالقراء ۃ وراء الإمام … وہو قول أبي حنیفۃ‘‘(۱)
روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
’’عن مجاہد قال: قرأ رجل من الأنصار خلف رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في الصلاۃ، فنزلت وإذا قرئ القراٰن الآیۃ‘‘(۱)
اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲)
یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس مقتدی کی قرأت ہے تفسیری عبارات اور مذکورہ حدیث کی روشنی اور آئندہ آنے والی فقہی عبارات بھی اس جانب مشیر ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراء ت نہیں کرے گا؛ بلکہ صرف خاموش رہے گا۔ ’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…… وقال علی ابن طلحۃ: عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلوۃ المفروضۃ ‘‘(۳)

(۱) إمام رازي، مفاتیح الغیب، ’’سورۃ الأعراف، قولہ تعالیٰ : و إذا قریٔ القرآن الخ ‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۷(الشاملہ)۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: تحت لعلکم ترحمون: ج ۹، ص: ۱۵۰۔)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳)  ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳، ط:دارالاشاعت، دیوبند۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص244

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2634/45-4432

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تسبیح فاطمی ان نمازوں کے بعد مسنون ہے جن کے بعد سنت نماز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی دیگر نمازوں میں پڑھنا چاہے تو سنن کے بعد پڑھے۔

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ومؤذن کو اس طرح فی سبیل اللہ نماز پڑھانا جائز اور باعث اجر وثواب ہے؛ مگر اس صورت میں وہ کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ وہ تنخواہ دار نہیں ہیں (تنخواہ نقد ہو یا بطور مصلانہ ہو) بعض دفعہ بوقت مصلانہ نزاع پیدا ہوتا ہے؛ لہٰذا ایسا اجارہ فاسد ہے، جائز نہیں ہے؛ پس مذکورہ امام اگر نماز فی سبیل اللہ پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کی شرطوں کے شرعاً پابند نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ان سے کوئی کمی بھی ہوجائے تو شرعاً ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) ہذا وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعا أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع۔ اہـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوما بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الوقف، فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ‘‘: ج ۶، ص:۶۳۰)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص281

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں کبھی ایک پاؤں کبھی دوسرے پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ درست ہے؛ البتہ ایک پیر پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پیر کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر کھڑے ہونے میں ایک طرف کو جھکاؤ معلوم ہونے لگے جس طرح گھوڑا ایک پاؤں پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پاؤں کو ٹیڑھا کر کے کھڑا ہوتا ہے اور کوئی عذر بھی نہ ہو، تو یہ مکروہ ہے۔(۱)
 ’’ویکرہ القیام علی أحد القدمین في الصلاۃ بلا عذر‘‘(۲)

(۱) ویکرہ التراوح بین القدمین في الصلاۃ إلا بعذر، و کذا القیام بإحدی القدمین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، فیصل، دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے تلاوت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا مذکورہ شخص پر ضروری نہیں ہے۔
تاہم ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ مزید فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ… وقال علی ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۳)
’’والمؤتم لا یقرأ  مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ …… تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ)  یعلم  منہ  نفي  في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)

(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳ ، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۱) الحصکفي ،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص246

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کو امامت پر نہ رکھنا چاہیے ایسے شخص کو ایسے عہدوں پر فائز رکھنا بھی جائز نہیں ہے ، فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کی مدد ’’اعانت علی المعصیۃ‘‘ ہے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع  إلخ) قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضاً)
(ویکرہ) (إمامۃ عبد) (وأعرابي) (وفاسق وأعمی) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ … وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں امام کے لیے بہتر تھا کہ رکوع کر دیتا یا دوسری جگہ سے پڑھ دیتا؛ لیکن اگر لقمہ لے لیا، تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی، البتہ مقتدیوں کو چاہئے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو امام کو لقمہ نہ دیں۔
’’والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القرائۃ قالوا: إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الخ ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۷فیصل۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص134

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ ناراضگی اگر کسی غیر شرعی عمل کی وجہ سے ہو تو امام کو چاہیے کہ اس غیر شرعی عمل کو ترک کردے اور اگر ذاتی اغراض کی بنا پر ناراضگی ہو تو ان کی ناراضگی سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ تاہم نرم انداز میں، خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے؛ تاکہ آپسی ناراضگی دور ہو جائے۔(۱)

(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داود لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملاعلي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص:۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلی محراب کو بند کر کے درمیان میں بنا لینا چاہئے یہ ہی طریقہ مسنون ہے اس طرح کر لینے سے تمام جماعتیں اور نمازیں مطابق سنت ہو جائیں گی جس میں مزید اجر وثواب ہوگا؛ البتہ اگر کوئی ایسی سخت مجبوری ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں نہیں بنائی جا سکتی ہے اور کوشش کے باوجود محراب درمیان میں نہ آسکتی ہو تو پھر اس صورت میں بھی امام وسطِ صف میں کھڑا ہو جائے جماعت اور نمازیںبہرصورت درست اور جائز ہوں گی۔(۱)

(۱) السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ ولو کان المسجد الصیفي بحنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے شروع کرنے سے پہلے تمام آداب و مستحبات کی تکمیل مناسب ہے کہ خداوند کریم کے روبرو اور دربار خداوندی میں بندہ ہدایت ورحمت کے لیے حاضر ہو رہا ہے تو ایک سوالی کو اپنے مالک کے حضور فرض کی ادائیگی کے لیے ہر طرح سے اپنے کو سنوار کر اور سدھار کر جانا چاہئے۔ آستین کا اتارنا بھی آداب میں سے ہے اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو کراہت تنزیہی ہوگی۔(۲)

(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب أعضاء السجود والنھي عن کف الشعر ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، رقم: ۴۹۰)
…(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶)
قولہ کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمرکمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۶)
ولو صلی رافعاً کمیہ إلیٰ المرفقین، کرہ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ الخ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص135