نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 943 Alif

الجواب وباللہ التوفیق:

لایجوز المرور بین یدی المصلی مطلقا ان کان المسجد صغیرا وان کان کبیرا فیجوز بشرط ان لا یقل خشوع المصلی بمرورہ۔ والمسجد ان کان اربعین ذراعا او اکثر فکبیر واِلا فصغیر ۔ قال فی الشامی ان کان اربعین ذراعا فھی کبیرۃ واِلا فصغیرۃ ھذا ھو المختار۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1601/43-1314

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں تکثیرجماعت مطلوب ہے۔ مدرسہ میں جو نابالغ بچے ہیں  ان کو مدرسہ میں رہنے دیں، اور تمام مدرسین وبالغ طلبہ مسجد میں ہی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ مدرسہ والوں کی نماز مدرسہ میں درست ہوجاتی ہے  البتہ مسجد کا ثواب نہیں ملتاہے اور بلاضرورت مسجد کی جماعت ترک کرنے کی  مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی واقعی ضرورت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔

 (لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق» ش: هذا من قول ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ورفعه إلى النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غير صحيح. وأخرجه مسلم عن أبي الأحوص قال: قال عبد الله بن مسعود: «لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق وإن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه» .

وأخرج عنه أيضا قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما تخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف» فدل هذا الأثر أن الجماعة سنة مؤكدة؛ لأن إلحاق الوعيد إنما يكون بترك الواجب أو بترك السنة، ودل على أن الجماعة ليست بواجبة؛ لقوله: وإن في سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه، فتكون سنة مؤكدة. (البنایۃ شرح الھدایۃ، حکم صلاۃ الجماعۃ 2/325)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ عموماً بقدر کفایت ہوتی ہے، رمضان اور عید کی مناسبت سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور عموماً تنخواہ ناکافی ہوتی ہے؛ اس لیے اگر باہمی مشورہ سے رمضان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا بارہ مہینہ کی جگہ تیرہ مہینہ کی تنخواہ دی جائے اور اس کو ضابطہ بنا دیا جائے تو بہتر اور پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر باہمی مشورہ سے رمضان میں چندہ کر کے امام صاحب کو بطور تعاون کچھ دیا جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحسن عمل ہے۔ ائمہ اور مؤذنین ہمارے دینی خدمت گار ہیں جو ہماری نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا ان کے نماز میں خشوع وخضوع کا سبب ہوگا اور اس کے اثرات پوری مسجد کے لوگوں کو محسوس ہوں گے۔
’’إن اللّٰہ فيعون العبد ما کان الحرم فيعون أخیہ‘‘(۱)
’’من یسر علی معسر یسر اللّٰہ علیہ في الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلمون علی شروطہم‘‘(۳)

(۱) المعجم الأوسط للطبراني، ’’من اسمہ محمد‘‘: رقم: ۵۶۶۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’أبواب الصدقات، باب إنظار المعسر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۴، رقم: ۲۴۱۷۔
(۳) أخرجہ أبي داود ،  في سننہ، ’’کتاب القضاء، باب في الصلح‘‘: ج۲، ص: ۵۰۵، رقم: ۳۵۹۴۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص283

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو، تو پیچھے کی صف میں تنہا کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے اور اگر بعد میں آنے والا خود عالم ہو اور اگلی صف میں کوئی عالم ہو، یعنی اس مسئلہ سے واقف ہو، تو ایسی صورت میں آگے سے ایک آدمی کو پیچھے کی طرف ہٹا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے یہ افضل ہے۔(۱)
(۱) و متی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ وإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجیٔ حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسئلۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالما یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً بغیر عذر تصح صلاتہ عندنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۱) سر پر یا شانوں پر بغیر لپیٹے ہوئے رومال ڈال کر دونوں طرف لٹکا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے(۲) اور خارج نماز اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو کراہت تحریمی ہے ورنہ درست ہے۔(۳)

(۱) وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶؛ حلبي کبیري: ص: ۳۲۱)
(۲) إذا أرسل طرفا منہ علی صدرہ وطرفا علی ظہرہ یکرہ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۴۰۵، زکریا)
(۳) فلو من أحد ہما لم یکرہ کحال عذر وخارج صلاتہ في الأصح أي إذا لم یکن للتکبر فالأصح أنہ لا یکرہ۔ (ابن عابدین أیضاً:ص۴۰۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص136

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اسی جگہ پر سنت پڑھ لی جائیں جہاں پر فرض نماز پڑھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جگہ بدلنا صرف بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی ہو تو اس استحباب پر عمل کرنا بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی نہ ہو تو گردنیں پھلانگنا یا کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے ہٹا کر جگہ بدلنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ، أو عن شمالہ یعنی السبحۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، رقم: ۸۵۴؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء في صلاۃ النافلۃ حیث تصلی المکتوبۃ ‘‘رقم: ۱۴۱۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1114 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  نماز کے جو ارکان اصل ہیئت کے مطابق ادا کرنے کی استطاعت ہو ان کو اصل طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنا ضروری ہے، اور جو ارکان ادا کرنے پر بالکل قدرت نہ ہو، جیسے مذکورہ صورت ہے ، انہیں کرسی پر بھی ادا کیا جاسکتاہے۔   واللہ تعالی اعلم  

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے کے بعد صاحب خانہ کے گھر کے لئے خیر وبرکت کی دعاء مقصود ہو تو عمومی یا انفرادی طور پر دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اس کا التزام درست نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صاحب خانہ کے لئے ضیافت کے موقع پر دعاء کا ثبوت ملتا ہے جس کو امام مسلم نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن بسر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أبي قال: فقربنا إلیہ طعاما ووطبۃ فأکل منہا ثم أتی بتمر فکان یأکلہ ویلقی النوی بین إصبعیہ ویجمع السبابۃ والوسطیٰ، قال شعبتہ: ہو ظني وہو فیہ إن شاء اللّٰہ إلقاء النوی بین الإصبعین ثم أتی بشراب فشربہ ثم ناولہ الذي عن یمینہ قال: فقال أبي: وأخذ بلجام دابتہ أدع اللّٰہ لنا فقال: اللہم بارک لہم في ما رزقتہم واغفرلہم وارحمہم‘‘(۱)
امام نوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’وفیہ استحاب طلب الدعاء من الفاضل ودعاء الضیف بتوسعۃ الرزق والمغفرۃ والرحمۃ وقد جمع صلی اللّٰہ علیہ وسلم في ہذا الدعاء خیرات الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
کھانے کے بعد سنت طریقہ یہ ہے کہ: اللہ بتارک وتعالیٰ کی حمد وثناء کرے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت میں نقل کی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل طعاما فقال: الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘(۳) ’’وأیضاً: عن أبي سعید قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین‘‘(۱)

مذکورہ احادیث اور وضاحت سے ثابت ہوا کہ کھانے کے بعد بطور شکر دعاء مانگنا مندوب ومستحب ہے اور اگر کوئی ساتھی اور رفقاء کھانے سے فارغ نہیں ہوئے تو دعاء میں اپنی آواز کو پست رکھنا مسنون ہے کہ کہیں دوسرے حضرات آواز سن کر کھانے سے رک نہ جائیں؛ اس لیے انتظار کر لے یا آہستہ سے دعاء پڑھ لے۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص395
 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہے اور اس کے مذکورہ حالات ہیں، تو وہ مرتکب گناہ کبیرہ ہوکر فاسق ہوگیا اور امامت فاسق کی مکروہ تحریمی ہے، دیندار شخص کوامام بنانا چاہیے۔(۱)

(۱) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لا یہتم لأمر دینہ، ش: فیردد فیہ الناس وفیہ تقلیل الجماعۃ … وفي المحیط: لو صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(قولہ وفاسق) من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ المراد من یرتکب الکبائر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص284

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ ملاکر بچھانا ضروری ہے نہ علا حدہ کر کے بچھانا ضروری ہے، بلکہ ایسے طریقہ پر مصلی بچھایا جائے کہ پیچھے کے مقتدی کو رکوع وسجود میں اور اٹھنے میں دقت نہ ہو۔(۱)
(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان، درروبحر وغیرہما، وأقرہ المصنف لکن تعقبہ في الشرنبلالیۃ ونقل عن البرہان وغیرہ أن الصحیح اعتبار الاشتباہ فقط. قلت: وفي الأشباہ وزواہر الجواہر ومفتاح السعادۃ أنہ الأصح. وفي النہر عن الزاد أنہ اختیار جماعۃ من المتأخرین۔ (قولہ: ولم یختلف المکان) أی مکان المقتدي والإمام. وحاصلہ أنہ اشترط عدم الاشتباہ وعدم اختلاف المکان، ومفہومہ أنہ لو وجد کل من الاشتباہ والاختلاف أو أحدہما فقط منع الاقتداء، لکن المنع باختلاف المکان فقط فیہ کلام یأتي (قولہ: کمسجد وبیت) فإن المسجد مکان واحد، ولذا لم یعتبر فیہ الفصل بالخلاء إلا إذا کان المسجد کبیرا جدا وکذا البیت حکمہ حکم المسجد في ذلک لا حکم الصحراء کما قدمناہ عن القہستاني۔ وفي التتارخانیۃ عن المحیط: ذکر السرخسي إذا لم یکن علی الحائط العریض باب ولا ثقب؛ ففي روایۃ یمنع لاشتباہ حال الإمام، وفي روایۃ لا یمنع وعلیہ عمل الناس بمکۃ، فإن الإمام یقف في مقام إبراہیم، وبعض الناس وراء الکعبۃ من الجانب الآخر وبینہم وبین الإمام الکعبۃ ولم یمنعہم أحد من ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳، ۳۳۶)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401