Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی تقلید ناقص اور کمزور کہلائے گی، تاہم دوسروں کو چاہیے کہ اس کو حنفی دلائل سمجھائیں تاکہ یہ کمزوری دور ہو جائے اور وہ شخص مضبوط مقلد بن جائے۔ اور خواہش نفسانی سے بچے ، اس کے پیچھے نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۳)
(۳) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ …مِنْکُمْ ج} (سورۃ النساء: ۵۹)
یکونون في وقت یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والہوی، ومثل ہذا لا یجوز باتفاق الأمۃ۔ (ابن تیمیۃ، الفتاویٰ الکبریٰ: ج ۳، ص: ۲۰۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص279
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سر چھپانا، ٹوپی اوڑھنا اسلامی لباس میں داخل ہے اور اس کی خاص فضیلت واہمیت اسلام نے بیان کی ہے اور کھلے سر سامنے آنا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے اور شرفاء وائمہ کرام وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عادت کے خلاف ہے۔(۱)
’’وتکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل در مختار وعن بعض المشائخ أنہ لأجل الحرارۃ والتخفیف مکروہ‘‘(۲)
وتکرہ الصلاۃ حاسراً رأسہ إذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلاً أو تہاوناً بالصلاۃ، ولا بأس بہ إذا فعلہ تدللاً وخشوعاً، بل ہو حسن، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مکروہات الصلاۃ و ما لا یکرہ، ومطلب في الخشوع‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،۴۰۸زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والا شخص اللہ اکبر کے بعد ثناء پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ قرأت سنے گا؛ کیوںکہ قرآن کریم کی آیت ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے، تو تم لوگ خاموش رہو اور غور سے سنو! تاکہ تم لوگوں پر رحمت نازل کی جائے؛ البتہ مقتدی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ وغیرہ میں بدستور تسبیحات پڑھے گا، جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ … وقال علي ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرء خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}‘‘
’’قولہ (وینصت إذا أسر) وکذا إذا جھر بالأولی۔ قال في البحر: وحاصل الآیۃ أن المطلوب بھا أمران: الاستماع، والسکوت فیعمل بکل منھما؛ والأول یخص الجھریۃ، والثاني لا، فیجري علی إطلاقہ فیجب السکوت عند القراء ۃ مطلقا‘‘(۳)
(۱) سورۃالأعراف: ۲۰۴۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص:۲۷۲، ۲۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۶، ۲۶۷، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص243
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی کتابوں میں دم کرنا ثابت ہے، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کی ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا مرض أحد من أہلہ نفث علیہ بالمعوذات فلما مرض مرضہ الذي مات فیہ جعلت انفث علیہ وأمسحہ بید نفسہ لأنہا کانت أعظم برکۃ من یدي‘‘(۱)
ہر وہ دم جس میں شرک نہ ہو تو اسے دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ہاں! جس دم یا تعویذ میں شرکیہ الفاظ ہوں، غیر اللہ کی پکار ہو ایسا دم یا تعویذ قطعاً نا جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دم یا تعویذ سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ شارح مسلم علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’المراد بہا الرقي التي ہي من کلام الکفار والرقي المجہولۃ والتي بغیر العربیۃ وما لا یعرف معناہا فہدہ مذمومۃ لاحتمال إن معناہا کفر وقریب منہ أو مکروہ‘‘(۲)
وہ دم ممنوع ہے جس میں کلام کفار سے مشابہت ہو مجہول ہو، غیر عربی میں ہو، جن کا معنیٰ نہ سمجھتا ہو ایسے دم مذموم ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کا معنیٰ کفریہ ہو یا قریب کفر کے ہو یا مکروہ ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم مجھے حکم فرماتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کروں۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمرني أن أسترقی من العین‘‘(۱)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم معوذات پڑھ کر اس پر دم کیا کرتے تھے۔
’’وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘(۲)
ان جملہ نصوص کی رو سے کلمات طیبہ اورآثار سے دم کرنا یا چھاڑ پھونک کرنا جائز اور مستحسن ہے۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب استحباب الرقیۃ من العین‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۲۱۹۵۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصل مذہب یہ ہے کہ کسی طاعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، مگر جن طاعات میں دوام یا پابندی کی ضرورت ہے اور وہ شعار دین میں سے ہیں کہ ان کے بند کرنے یا بند ہونے سے اخلال دین لازم آتا ہو اور کوئی دلجمعی سے اپنے حالات کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا تو ایسے امور کومتأخرین فقہاء نے اس کلیہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
پس امامت بھی اس میں سے ہے۔ اور امامت کی اجرت لینے پر بلاشبہ فتویٰ جواز کا ہے؛ اس لیے امام مذکورہ کا قول قابل گرفت نہیں اس کی امامت درست ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) قال في الہدایۃ: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔۔۔۔۔ وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
ویفتی الیوم بالجواز أي بجواز أخذ الأجرۃ علی الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ۔ (محمد بن سلیمان آفندي، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص280
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صرف پستان منہ میں لینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئی، البتہ اگر دودھ پیا ہو، یعنی بچہ کے منہ میں دودھ گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، عالمگیری میں ہے۔(۱)
’’صبي مص ثدي امرأۃٍ مصلیۃ، إن خرج اللبن فسدت، وإلا فلا؛ لأنہ متی خرج اللبن یکون إرضاعاً، وبدونہ لا، کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)
(۱) قولہ أو مص ثدیہا ثلاثاً ہذا التفصیل مذکور في الخانیۃ والخلاصۃ، وہو مبنی علی تفسیر الکثیر بما اشتمل علی الثلاث المتوالیات، ولیس الاعتماد علیہ۔ وفي المحیط: إن خرج اللبن فسدت لأنہ یکون إرضاعاً، وإلا فلا، ولم یقیدہ بعدد، وصححہ في المعراج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۹۰،زکریا)
فروع مہمۃ: أرضعتہ أو أرضعتہا ہو فنزل لبنہا فسدت ولو مص مصہ أو مصتین ولم ینزل لا تفسد ولو ثلاثاً فسدت وإن لم ینزل۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک میں امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازیں خواہ جہری یعنی بلند آواز سے قرأت ہو یاسری یعنی آہستہ آواز سے قرأت ہو، تمام نمازوں میں خاموش رہے گا اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت (فاستمعوا) سے جہری نمازوں کے اندر اور (وأنصتوا) سے سری نمازوں میں قرأت نہ کرنا مفسرین کے نزدیک مسلم ہے، تفسیر کبیر میں حضرت امام رازیؒ اور روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ کی تصریح مذکور ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ} یہ آیت نماز سے متعلق آئی ہے اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
’’الآیۃ نزلت في ترک الجہر بالقراء ۃ وراء الإمام … وہو قول أبي حنیفۃ‘‘(۱)
روح المعانی میں علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
’’عن مجاہد قال: قرأ رجل من الأنصار خلف رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في الصلاۃ، فنزلت وإذا قرئ القراٰن الآیۃ‘‘(۱)
اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲)
یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس مقتدی کی قرأت ہے تفسیری عبارات اور مذکورہ حدیث کی روشنی اور آئندہ آنے والی فقہی عبارات بھی اس جانب مشیر ہیں کہ مقتدی امام کے پیچھے قراء ت نہیں کرے گا؛ بلکہ صرف خاموش رہے گا۔ ’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…… وقال علی ابن طلحۃ: عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلوۃ المفروضۃ ‘‘(۳)
(۱) إمام رازي، مفاتیح الغیب، ’’سورۃ الأعراف، قولہ تعالیٰ : و إذا قریٔ القرآن الخ ‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۷(الشاملہ)۔
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: تحت لعلکم ترحمون: ج ۹، ص: ۱۵۰۔)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳، ط:دارالاشاعت، دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص244
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2634/45-4432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تسبیح فاطمی ان نمازوں کے بعد مسنون ہے جن کے بعد سنت نماز نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی دیگر نمازوں میں پڑھنا چاہے تو سنن کے بعد پڑھے۔
(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ومؤذن کو اس طرح فی سبیل اللہ نماز پڑھانا جائز اور باعث اجر وثواب ہے؛ مگر اس صورت میں وہ کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ وہ تنخواہ دار نہیں ہیں (تنخواہ نقد ہو یا بطور مصلانہ ہو) بعض دفعہ بوقت مصلانہ نزاع پیدا ہوتا ہے؛ لہٰذا ایسا اجارہ فاسد ہے، جائز نہیں ہے؛ پس مذکورہ امام اگر نماز فی سبیل اللہ پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کی شرطوں کے شرعاً پابند نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ان سے کوئی کمی بھی ہوجائے تو شرعاً ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) ہذا وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعا أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع۔ اہـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوما بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ‘‘: ج ۶، ص:۶۳۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص281
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں کبھی ایک پاؤں کبھی دوسرے پاؤں پر وزن ڈال کر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ درست ہے؛ البتہ ایک پیر پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پیر کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر کھڑے ہونے میں ایک طرف کو جھکاؤ معلوم ہونے لگے جس طرح گھوڑا ایک پاؤں پر پورا وزن ڈال کر دوسرے پاؤں کو ٹیڑھا کر کے کھڑا ہوتا ہے اور کوئی عذر بھی نہ ہو، تو یہ مکروہ ہے۔(۱)
’’ویکرہ القیام علی أحد القدمین في الصلاۃ بلا عذر‘‘(۲)
(۱) ویکرہ التراوح بین القدمین في الصلاۃ إلا بعذر، و کذا القیام بإحدی القدمین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیہا، الفصل الثاني: فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، فیصل، دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص133