نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کو ایسی فضول حرکتوں سے احتراز کرنا چاہئے ان حرکتوں سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے۔(۱)
’’ویکرہ أیضا: أن یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع من بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود‘‘(۲)

(۱) وکرہ کفہ أي رفعہ ولو لتراب، قولہ أي رفعہ أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، زکریا)
ولا یتشاغل بشيء غیر صلاتہ من عبث بثیابہ، أو بلحیتہ، لأن فیہ ترک الخشوع؛ لما روي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی رجلا یعبث بلحیتہ في الصلاۃ، فقال: أما ہذا لو خشع قلبہ لخشعت جوارحہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب في الصلاۃ و ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۳، ۵۰۴، زکریا)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۳۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص137

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مفتی بہ قول کے رو سے یہ سنتیں موکدہ ہیں اس لیے ان کو پڑھنا چاہئے؛ لیکن اگر جماعت کا وقت ہوگیا اور ان کے پڑھنے سے جماعت میں تاخیر ہوگی اور لوگ انتظار کرنے میں پریشانی محسوس کریں گے تو ان کو پڑھے بغیر نماز پڑھا سکتا ہے۔ ان سنتوں کو فرائض کے بعد پڑھ لے۔(۱)

(۱) ولا یقضیہا إلا بطریق التبعیۃ لقضاء فرضہا قبل الزوال لابعدہ في الأصح … بخلاف سنۃ الظہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، باب إدراک الفریضۃ ج ۲، ص: ۵۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1502/43-1136

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور اگر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے کوئی تشہد پڑھ لے تو اس صورت میں سجدہ سہو کے وجوب میں حضرات فقہاکا اختلاف ہے اصولی طور پر سجدہ سہو واجب ہونا چاہیے اس لیے کہ واجب میں تاخیر کی بنا پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پہلی رکعت میں تشہد یہ ثنا کی جگہ میں ہے اس لیے وہاں واجب میں تاخیر نہیں ہوئی لیکن دوسری رکعت میں واجب میں تاخیر ہوئی ہے اسی لیے بعض فقہاء نے اس صورت میں بھی سجدہ سہو کو واجب قرار دیا ہے چنانچہ طحطاوی میں ہے :
ولو قرأ التشهد مرتين في القعدة الأخيرة أو تشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه، منية المصلي۔ لكن إن قرأ في قيام الأولى قبل الفاتحة أو في الثانية بعد السورة أو في الأخيرتين مطلقاً لا سهو عليه، وإن قرأ في الأوليين بعد الفاتحة والسورة أو في الثانية قبل الفاتحة وجب عليه السجود؛ لأنه أخر واجباً(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الايضاح ص: 461)
طحطاوی کی اسی عبارت کے پیش نظر فتاوی دارالعلوم زکریا، مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند  میں 2/554 پربھی سجدہ سہو کے وجوب کا فتوی دیا گیا ہے ۔لیکن دیگر کتب کے اعتبار سے  اس سلسلے میں مفتی بہ قول عدم وجوب سجدہ سہوکا ہے اس لیے کہ حضرات فقہاء نے اس سلسلے میں اختلاف کو نقل کرنے کے بعد اصح عدم وجوب سجدہ سہو کو قرار دیا ہے چنانچہ نہر الفائق میں ہے :
وقالوا: لو أتى بالتشهد في قيامه أو قعوده أو سجوده فلا شيء عليه؛ لأنها محل الثناء، وهذا يقتضي تخصيص القيام بالأولى، ومن ثم قال في (الظهيرية): إنه في الأولى فلا شيء عليه، واختلف المشايخ في الثانية، والصحيح أنه لا يجب، وقيده الشارح بما قبل الفاتحة، أما بعدها قبل السورة فيجب على الأصح؛ لتأخير السورة(النهر الفائق شرح كنز الدقائق 1/ 324)
ومنها: لو تشهد في قيامه بعد الفاتحة لزمه السجود، وقبلها لا، على الأصح؛ لتأخير الواجب في الأول ـ وهو السورة ـ ، وفي الثاني محل الثناء وهو منه،  وفي الظهيرية: لو تشهد في القيام، إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه ،شيء وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب (.البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري 2/ 105)
ولو قرأ التشهد قائماً أو راكعاً أو ساجداً لا سهو عليه؛ لأن التشهد ثناء، والقيام موضع الثناء والقراءة.أرأيت لو افتتح فقال: السلام عليك أيها النبي إلى قوله عبده ورسوله، فإنه يكون بمنزلة الدعاء، ولا سهو عليه. وعن أبي يوسف رحمه الله: فيمن تشهد قائماً فلا سهو عليه، وإن قرأ في جلوسه فعليه السهو، أرأيت لو كبر فقرأ بعد الثناء : أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، فقال هذا أو نحوه، هل يجب عليه سجود السهو! ؛ لأنه إن كان في موضع الثناء، فموضع الثناء منه معروف، وإن قرأ في الركعتين الأخيرتين، فليس عليه سجود السهو؛ لأنه يتخير في الركعتين الآخيرتين(المحيط البرهاني في الفقه النعماني 1/ 504)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیعت کرلینا درست ہے۔(۱)

(۱) {إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْج فَمَنْ نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖج وَمَنْ أَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ أَجْرًا عَظِیْمًاہع ۱۰} (سورۃ الفتح: ۱۰)
{لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِھِمْ فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَأَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاہلا۱۸ } (سورۃ الفتح: ۱۸)
عن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: وحولہ عصابۃ من أصحابہ بایعوني علی أن لا تشرکوا باللّٰہ شیئاً ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادکم ولا تأتو ببہتان تفترونہ بین أیدیکم وأرجلکم ولا تعصوا في معروف فمن وفی منکم فأجرہ علی اللّٰہ ومن أصاب من ذلک شیئاً فعوقب بہ في الدنیا فہو کفارۃ لہ ومن أصاب ذلک شیئاً ثم سترہ اللّٰہ علیہ في الدنیا فہو إلی اللّٰہ إن شاء عفا عنہ وإن شاء عاقبہ فبایعناہ من ذلک۔ متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۳، رقم: ۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص399

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کا احترام لازم ہے جس نے ان کی شان میں گستاخی کی ہے وہ معافی مانگیں اور اللہ سے استغفار کریں، بہر صورت اس کی نماز امام کی اقتداء میں درست ہے۔(۲)

(۲) ولذا قال في العقائد النسفیۃ: والمسلمون لا بد لہم من إمام یقوم بتنفیذ أحکامہم وإقامۃ حدود ہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبری‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)
وبیان ذلک أن الإمام لا یصیر إماماً إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حیقیقۃ الإمامۃ‘‘ (أیضًا: ص: ۲۸۴)   ٔن مبني الإمامۃ علی الفضیلۃ ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ۔ (بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یصلح الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون المؤمن لعاناً وفي روایۃ لا ینبغي للمؤمن أن یکون لعاناً۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب البر والصلۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في اللعن وامطعن‘‘: ج ۲، ص: ۲۲، رقم: ۲۰۱۹)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص285

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: باہر کے دروں کا حکم محراب ہی کا حکم ہے، اس میں امام صاحب کا اس طرح کھڑا ہونا کہ باہر قدم نہ ہوں مکروہ ہے، اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) قلت: أي لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکاناً آخر، فأورث الکراہۃ، ولایخفی حسن ہذا الکلام، فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقاً، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذي یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ، تأمل۔ (ابن عابدین رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۹)
الأصح ما روی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ بخلاف عمل الأمۃ۔ اہـ۔ وفیہ أیضا: السنۃ أن یقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا تری أن المحاریب ما نصبت إلا وسط المساجد وہي قد عینت لمقام الإمام۔
(أیضًا:’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ و بدعۃ کان ترک السنۃ أولی‘‘: ج۲، ص: ۴۱۴
)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص402

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نائٹی یا اس طرح کا لباس جو آدمی بازار یا معزز محفلوں میں پہن کر نہیں جاتا ہے؛ بلکہ عام جگہوں پر اس کے پہن کر جانے کو معیوب سمجھاجاتا ہے ایسے لباس میں نماز پڑھنا خلاف ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔(۱)
’’وتکرہ الصلاۃ في ثیاب البذلۃ، کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یصلي في ثلاثۃ أثواب: إزار وقمیص وعمامۃ، والمرأۃ في قمیص وخمار ومقنعۃ، کذا في ’’المجتبی‘‘۔(۳)

(۱) والمستحب: أن یصلي الرجل في ثلاثۃ أثواب: قمیص، وإزار، وعمامۃ … وأما المرأۃ، فالمستحب لہا: أن تصلي في ثلاثۃ أثواب أیضاً‘ قمیص، وإزار، ومقنعہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، زکریا)
وأما اللبس المکروہ: فہو أن یصلي في إزار واحد، أو سراویل واحد، لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی أن یصلي الرجل في ثوب واحد لیس علی عاتقہ منہ شيء ولأن ستر العورۃ إن حصل فلم تحصل الزینۃ۔ وقد قال اللّٰہ تعالیٰ: {یَابَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} وروي أن رجلاً سأل ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن الصلاۃ في ثوب وقال: أریت لو أرسلتک في حاجۃ أکنت منطلقاً في ثوب واحد؟ فقال: لا۔ فقال اللّٰہ أحق أن تتزین لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان اللباس في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، زکریا)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، الفصل الثاني، فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل، دیوبند)
(۳) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷، نعیمیہ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص138

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب شریعت نے کوئی قید نہیں لگائی تو کسی اور کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی قید یا حکم لگائے؛ لہٰذا سنتیں کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں مذکورہ قید درست نہیں۔ تاہم امام کے لیے مستحب ہے کہ جگہ تبدیل کرکے سنت ادا کرے۔(۲)

(۲) وفي الجوہرہ: ویکرہ للإمام التنفل في مکانہ لا للمؤتم وقیل یستحب کسر الصفوف وفي الخانیۃ یستحب للإمام التحول یمین القبلۃ یعني یسار المصلی لتنفل أو ورد وخیّرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماماً وخلفاً وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ ولو دون عشرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، قبیل باب الإمامۃ‘‘:ج ۱، ص: ۵۳۱، سعید کراچی)
وإن کانت صلاۃ بعدہا سنۃ یکرہ لہ المکث قاعداً، وکراہۃ القعود مرویۃ عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ روي عن أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما أنہما کانا اذا فرغا من الصلاۃ قاما کأنہما علی الرضف؛ و لأن المکث یوجب اشتباہ الأمر علی الداخل فلا یمکث ولکن یقوم ویتنحی عن ذلک المکان، ثم یتنفل لما روي عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم أنہ قال: أیعجز أحدکم إذا فرغ من صلاتہ أن یتقدم أو یتأخر۔ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ و لأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثارا من شہودہ علی ماروي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامیۃ۔ وأما المأمومون فبعض مشایخنا قالوا: لاحرج علیہم في ترک الانتقال لانعدام الاشتباہ علی الداخل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان ما یستحب للإمام‘‘ج۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص365

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/1057

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے لئے امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ مقتدی کے لئے اقتدا کی نیت ضروری ہے۔ اس لئے بعد میں آنے والا شخص اس منفرد کے پیچھے اقتدا کی نیت سے کھڑا ہوگیا تو اس کی نماز درست ہوجا ئے گی، امام کو اشارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور امام اگر امامت کی نیت کرے تو جہری نمازوں میں جہری قرات شروع کردے  اور اگر امامت کی نیت نہ کرے اور سری نماز جاری رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1681/43-1296

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کےنظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیاگیا ہے اور  اب پوری دنیا  میں نماز کا وقت جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں ،یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتاہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل ، اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیاجاسکتاہے جبکہ نیٹ سے مربوط ہو۔  دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے  طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتاہے، اس لئے آپ کے علاقہ میں جو جنتری  ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کرلیا جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کریں تاکہ صحیح وقت معلوم ہوسکے۔  Ref. No. 1580/43-1112 فتوی نمبر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند