نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے تلاوت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا مذکورہ شخص پر ضروری نہیں ہے۔
تاہم ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ مزید فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ… وقال علی ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۳)
’’والمؤتم لا یقرأ  مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ …… تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ)  یعلم  منہ  نفي  في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)

(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ج ۱، ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔)
(۳) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص: ۳۷۲، ۳۷۳ ، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۱) الحصکفي ،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص246

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کو امامت پر نہ رکھنا چاہیے ایسے شخص کو ایسے عہدوں پر فائز رکھنا بھی جائز نہیں ہے ، فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے اس کی مدد ’’اعانت علی المعصیۃ‘‘ ہے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع  إلخ) قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضاً)
(ویکرہ) (إمامۃ عبد) (وأعرابي) (وفاسق وأعمی) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ … وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں امام کے لیے بہتر تھا کہ رکوع کر دیتا یا دوسری جگہ سے پڑھ دیتا؛ لیکن اگر لقمہ لے لیا، تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئی، البتہ مقتدیوں کو چاہئے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو امام کو لقمہ نہ دیں۔
’’والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القرائۃ قالوا: إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الخ ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۷فیصل۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص134

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ ناراضگی اگر کسی غیر شرعی عمل کی وجہ سے ہو تو امام کو چاہیے کہ اس غیر شرعی عمل کو ترک کردے اور اگر ذاتی اغراض کی بنا پر ناراضگی ہو تو ان کی ناراضگی سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ تاہم نرم انداز میں، خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے؛ تاکہ آپسی ناراضگی دور ہو جائے۔(۱)

(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داود لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملاعلي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص:۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلی محراب کو بند کر کے درمیان میں بنا لینا چاہئے یہ ہی طریقہ مسنون ہے اس طرح کر لینے سے تمام جماعتیں اور نمازیں مطابق سنت ہو جائیں گی جس میں مزید اجر وثواب ہوگا؛ البتہ اگر کوئی ایسی سخت مجبوری ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں نہیں بنائی جا سکتی ہے اور کوشش کے باوجود محراب درمیان میں نہ آسکتی ہو تو پھر اس صورت میں بھی امام وسطِ صف میں کھڑا ہو جائے جماعت اور نمازیںبہرصورت درست اور جائز ہوں گی۔(۱)

(۱) السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ ولو کان المسجد الصیفي بحنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے شروع کرنے سے پہلے تمام آداب و مستحبات کی تکمیل مناسب ہے کہ خداوند کریم کے روبرو اور دربار خداوندی میں بندہ ہدایت ورحمت کے لیے حاضر ہو رہا ہے تو ایک سوالی کو اپنے مالک کے حضور فرض کی ادائیگی کے لیے ہر طرح سے اپنے کو سنوار کر اور سدھار کر جانا چاہئے۔ آستین کا اتارنا بھی آداب میں سے ہے اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو کراہت تنزیہی ہوگی۔(۲)

(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب أعضاء السجود والنھي عن کف الشعر ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، رقم: ۴۹۰)
…(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶)
قولہ کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمرکمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۶)
ولو صلی رافعاً کمیہ إلیٰ المرفقین، کرہ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ الخ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص135

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 943 Alif

الجواب وباللہ التوفیق:

لایجوز المرور بین یدی المصلی مطلقا ان کان المسجد صغیرا وان کان کبیرا فیجوز بشرط ان لا یقل خشوع المصلی بمرورہ۔ والمسجد ان کان اربعین ذراعا او اکثر فکبیر واِلا فصغیر ۔ قال فی الشامی ان کان اربعین ذراعا فھی کبیرۃ واِلا فصغیرۃ ھذا ھو المختار۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1601/43-1314

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں تکثیرجماعت مطلوب ہے۔ مدرسہ میں جو نابالغ بچے ہیں  ان کو مدرسہ میں رہنے دیں، اور تمام مدرسین وبالغ طلبہ مسجد میں ہی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ مدرسہ والوں کی نماز مدرسہ میں درست ہوجاتی ہے  البتہ مسجد کا ثواب نہیں ملتاہے اور بلاضرورت مسجد کی جماعت ترک کرنے کی  مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی واقعی ضرورت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔

 (لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق» ش: هذا من قول ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ورفعه إلى النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غير صحيح. وأخرجه مسلم عن أبي الأحوص قال: قال عبد الله بن مسعود: «لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق وإن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه» .

وأخرج عنه أيضا قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما تخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف» فدل هذا الأثر أن الجماعة سنة مؤكدة؛ لأن إلحاق الوعيد إنما يكون بترك الواجب أو بترك السنة، ودل على أن الجماعة ليست بواجبة؛ لقوله: وإن في سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه، فتكون سنة مؤكدة. (البنایۃ شرح الھدایۃ، حکم صلاۃ الجماعۃ 2/325)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ عموماً بقدر کفایت ہوتی ہے، رمضان اور عید کی مناسبت سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور عموماً تنخواہ ناکافی ہوتی ہے؛ اس لیے اگر باہمی مشورہ سے رمضان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا بارہ مہینہ کی جگہ تیرہ مہینہ کی تنخواہ دی جائے اور اس کو ضابطہ بنا دیا جائے تو بہتر اور پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر باہمی مشورہ سے رمضان میں چندہ کر کے امام صاحب کو بطور تعاون کچھ دیا جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحسن عمل ہے۔ ائمہ اور مؤذنین ہمارے دینی خدمت گار ہیں جو ہماری نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا ان کے نماز میں خشوع وخضوع کا سبب ہوگا اور اس کے اثرات پوری مسجد کے لوگوں کو محسوس ہوں گے۔
’’إن اللّٰہ فيعون العبد ما کان الحرم فيعون أخیہ‘‘(۱)
’’من یسر علی معسر یسر اللّٰہ علیہ في الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلمون علی شروطہم‘‘(۳)

(۱) المعجم الأوسط للطبراني، ’’من اسمہ محمد‘‘: رقم: ۵۶۶۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’أبواب الصدقات، باب إنظار المعسر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۴، رقم: ۲۴۱۷۔
(۳) أخرجہ أبي داود ،  في سننہ، ’’کتاب القضاء، باب في الصلح‘‘: ج۲، ص: ۵۰۵، رقم: ۳۵۹۴۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص283

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو، تو پیچھے کی صف میں تنہا کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے اور اگر بعد میں آنے والا خود عالم ہو اور اگلی صف میں کوئی عالم ہو، یعنی اس مسئلہ سے واقف ہو، تو ایسی صورت میں آگے سے ایک آدمی کو پیچھے کی طرف ہٹا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے یہ افضل ہے۔(۱)
(۱) و متی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ وإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجیٔ حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسئلۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالما یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً بغیر عذر تصح صلاتہ عندنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401