نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 930

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  خاموش رہنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/889

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قادیانیوں کے عقائد کفریہ کی بناء پر ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اداء کی جانی چاہئے اور امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔ التحیات کے بعد درود شریف ودعاء اسی طرح رکوع وسجود میں کم از کم تین تین مرتبہ تسبیحات مسنون ہیں تمام ہی کی رعایت کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) وفی المنیۃ: ویکرہ للإمام أن یعجلہم عن إکمال السنۃ. ونقل فی الحلیۃ عن عبد اللہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبیحات لیدرک من خلفہ الثلاث۔
والحاصل: أن فی تثلیث التسبیح فی الرکوع والسجود ثلاثۃ أقوال عندنا، أرجحہا من حیث الدلیل الوجوب تخریجاً علی القواعد المذہبیۃ، فینبغی اعتمادہ کما اعتمد ابن الہمام ومن تبعہ روایۃ وجوب القومۃ والجلسۃ والطمأنینۃ فیہما کما مر. وأما من حیث الروایۃ فالأرجح السنیۃ؛ لأنہا المصرح بہا فی مشاہیر الکتب، وصرحوا بأنہ یکرہ أن ینقص عن الثلاث وأن الزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلایطول، وقدمنا فی سنن الصلاۃ عن أصول أبی الیسر أن حکم السنۃ أن یندب إلی تحصیلہا ویلام علی ترکہا مع حصول إثم یسیر وہذا یفید أن کراہۃ ترکہا فوق التنزیہ وتحت المکروہ تحریماً. وبہذا یضعف قول البحر: إن الکراہۃ ہنا للتنزیہ؛ لأنہ مستحب وإن تبعہ الشارح وغیرہ، فتدبر۔ابن عابدین؛ رد المحتار۔ج:۱،ص:۴۹۵

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص50

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام رکوع میں ہے اور اس وقت کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور اگر کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ نہ کہی اور رکوع کے مانند جھکتے ہوئے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا گیا، تو اس کی نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) فلو کبّر قائمًا فرکع ولم یقف صح، لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ، ’’قنیہ‘‘۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: بحث القیام، ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام … ولو أدرک الإمام وہو راکع فکبّر قائماً وہو یرید تکبیرۃ الرکوع جازت صلاتہ ولغت نیتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
لو أدرک الإمام راکعاً فحنی ظہرہ ثم کبّر إن کان إلی القیام أقرب صح الشروع ولو أراد بہ تکبیر الرکوع وتلغو نیتہ لأن مدرک الإمام في الرکوع لا یحتاج إلی التکبیر مرتین خلافاً لبعضہم وإن کان إلی الرکوع أقرب لا یصح الشروع۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وفروعہا‘‘: ص: ۲۱۸، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص312

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز بغیر کسی کراہت کے جائز ہے۔(۱)

(۱) ولا یکرہ (السجود علی بساط فیہ تصاویر) ذي روح (لم یسجد علیہا) لإہانتہا بالوطء علیہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل فیما لا یکرہ للمصلي‘‘: ص: ۳۶۹، شیخ الہند)
قال في الہدایۃ: لو کانت الصورۃ علی وسادۃ ملقاۃ أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادۃ منصوبۃ أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)
وفي البساط روایتان : والصحیح : أنہ لا یکرہ علی البساط إذا لم یسجد علی التصاویر، وہذا إذا کانت الصورۃ کبیرۃ تبدو للناظر من غیر تکلف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،  الفصل الثاني،  فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منفرداً نماز پڑھنے کی صورت میں مطلق قرأت فرض ہے اور سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور اگر امام کی اقتداء میں نماز پڑھے تو مقتدی پر قرأت نہیں ہے نہ سورۂ فاتحہ، نہ کوئی دوسری سورت۔(۱)

(۱) وبیان ذلک أن القراء ۃ وإن انقسمت إلی فرض و واجب وسنۃ إلا أنہ مہما أطال یقع فرضا، وکذا إذا أطال الرکوع والسجود علی ما ہو قول الأکثر والأصح، لأن قولہ تعالیٰ {فاقرؤا ما تیسر} لوجوب أحد الأمرین الآیۃ، فما فوقہا مطلقاً، لصدق ما تیسر علی کل فرض، فمہما قرأ یکون الفرض ومعنی الأقسام المذکورۃ أن جعل الفرض مقدار کذا واجب وجعلہ دون ذلک مکروہ، وجعلہ فوق ذلک سنۃ إلی حد کذا سنۃ … وقالوا: الفاتحۃ واجب، وکذا الکلام فیما بعد الواجب إلی حد السنۃ فلیتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: تحقیق مہم فیما لو تذکر في رکوعہ الخ،  فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۵)…واجبہا قراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ الخ۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، بیروت،لبنان)
وفرض القراء ۃ آیۃ وقالا: ثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ … ولا یقرأ المؤتم بل یستمع وینصت۔ (إبراھیم حلبي، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل یجہر الإمام بالقراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷- ۱۶۰، بیروت، لبنان)
وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴ (سورۃ الأعراف: ۲۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص239

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کے ذہن میں بھی آیت قرآنی کے خلاف کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ دعاء میں سب شریک ہوجائیں اور جو الفاظ خلوص کے ساتھ زبان سے نکل رہے ہیں سب اس پر آمین کہیں یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔(۱)

(۱) {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ہج ۵۵} (سورۃ الأعراف: ۵۵)
قلت ہذا الحدیث وإن کان دالاً علی أفضلیۃ الذکر الخفي لکن قولہ: ’’أربعوا علی أنفسکم‘‘ یدل علی أن النہي عن الجہر والأمر بالإخفاء إنما ہو شفقۃ لا لعدم جواز الجہر أصلاً وکذا حدیث ’’خیر الذکر الخفي‘‘ (ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۶)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریاء والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص390

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب پر لازم ہے کہ مسجد کی طرف سے جو ذمہ داری ہے اس کو پورا کریں اس کے ساتھ گھروں پر جاکر ٹیوشن پڑھانے اور اس کی اجرت لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں؛ لہٰذا اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے شرط یہ ہے کوئی غیر شرعی طریقہ نہ ہو، ایسے امام کی اقتداء میں نماز اداء کرنا درست ہے۔(۱)

(۱) قال في الہندیۃ، لو جلس المعلم في المسجد والوراق یکتب فان کان المعلم یعلّم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلا بأس بہ لأنہ قویۃ وإن کان بأجرۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التوانی في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع یضیع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب فی الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۶، ص: ۵۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص51

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہدیہ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگرہدیہ سے مراد یہ ہے کہ ختم قرآن پر تراویح سنانے والے کو کچھ رقم دی جاتی ہے تو وہ اجرت جائز نہیں ہے(۱) ، اگر منشاء سوال مطلق ہدیہ ہے، تو وہ جائز ہے۔(۲)

(۱) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأنہ فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل إلی المستاجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۶، ص: ۵۶، مکتبۃ زکریا دیوبند)
(۲) عن أبي ہریرۃ  رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وحر الصدر ولا تحقرن جارۃ لجارتہا ولو بشق فرسن شاۃ۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب الولاء والہبۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: حث النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی التہادي‘‘: ج ۲، ص: ۳۴، رقم: ۲۱۳۰)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت تو ٹوپی ہے، رنگ کی اس میں تخصیص نہیں ہے، البتہ جو رنگ دوسری قوموں کا شعار ہو اس کو اپنانا درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا، قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص130