Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ’’من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام قرائۃ لہ‘‘(۱) اور اس پر سب کا اتفاق ہے اگر امام سے سہو ہو جائے تو مقتدی کو بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا پڑ تا ہے۔ اور اگر امام اور مقتدی کی نماز الگ الگ ہوتی ہے تو مقتدی پر سجدہ سہو واجب نہ ہوتا۔ ’’لا صلاۃ لمن یقرأ الخ‘‘ کا حکم منفرد کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔(۲) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے الإمام ضامن‘‘ اور ضمانت کی تحقیق نہیں ہوتی مگر اتحاد کی صورت میں؛ لہٰذا مقتدی کے لیے قرأۃ خلف الامام کا حکم مطلقاً نہیں خواہ فاتحہ ہو یا دوسری کوئی سورت۔’’من کان لہ إمام فقرائۃ لہ الإمام قرائۃ ومنہا ما قال علیہ الصلاۃ والسلام:۔(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵۔
(۲) وہذا إذا کان إماما أو منفرداً، فأما المقتدي فلا قرائۃ علیہ عندنا۔ (أیضا: ص: ۲۹۴)
(۱) وأما الحدیث فعندنا لا صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً، وصلاۃ المقتدي لیست صلاۃ بدون قراء ۃ أصلاً بل ہي صلاۃ بقراء ۃ، وہي قراء ۃ الإمام، علی أن قراء ۃ الإمام قراء ۃ المقتدي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ’’الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص240
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کی تلاوت کے دوران غیر قرآن سے کچھ نہ ملایا جائے؛ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے، تو درود نہ پڑھنا چاہئے، تاہم اگر تلاوت کے بعد درود شریف پڑھے، تو درست ہے، بلکہ بہتر ہے اور اگر درود بعد میں بھی نہ پڑھے، تو کوئی حرج نہیں۔
’’ولو قرأ القرآن فمر علی اسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تألیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح ورفع‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص391
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نکاح پڑھانے والے امام صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ عورت منکوحہ غیر مطلقہ ہے اور اس نے نکاح پڑھا دیا، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اس کی امامت درست ہے؛ لیکن جب اس کے علم میں آگیا تو اس پر ضروری ہے کہ اس بارے میں اعلان کر دے کہ وہ نکاح صحیح نہیں ہوا؛(۱) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان دونوں مرد وعورت کو ملنے نہ دیں اور زنا کاری سے بچائیں۔(۲)
(۱) لا یجوز لرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ و کذلک المعتدۃ، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح، القسم السادس: المحرمات التي یتعلق بھا حق الغیر‘‘: ج ۱، ص:۳۴۶؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح، باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۷۴)
(۲) من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ (أخرجہ مسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتنی چھوٹی تصویر جیسے کہ روپیہ پر ہوتی ہے، اگر الجھن کا سبب بنے، تو کراہت ہے ورنہ نہیں، چشمہ لگا کر نماز درست ہے۔(۱)
(۱) ولبس ثوب فیہ تماثیل وذي روح وأن یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنۃ أو یسرۃ أو محل سجودہ تمثال ولو في وسادۃ منصوبۃ لا مفروشۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، ۴۱۷)
وقال في الشامیۃ: قولہ ولبس ثوب فیہ تماثیل عدل عن قول غیرہ تصاویر لما في المغرب: الصورۃ عام في ذی الروح وغیرہ والتمثال خاص بمثال ذی الروح، ویأتي أن غیر ذی الروح لا یکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۶، زکریا دیوبند)
وإن کانت الصورۃ علی الإزار أو الستر فمکروہ، ویکرہ التصاویر علی الثوب صلی فیہ أو لم یصل، أما إذا کانت في یدہ وہو یصلی فلا بأس بہ لأنہ مستور بثیابہ، وکذا لو کان علی خاتمہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۳۱۲، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص131
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا ’’امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب امام ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہے، تو تم بھی ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہو اور جب قرأت کرنے لگے، تو خاموش ہوجاؤ‘‘(۱) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہے، تو ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہو اور جب قرأت کرے، تو خاموش رہو اور جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَہع ۷ } کہے، تو آمین کہو!(۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو، تو امام کی قرأت ہی اس کی قرأت ہے(۳) اس لیے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا، تو گو کراہت سے خالی نہیں، مگر نماز درست ہوجائے گی۔(۴)
(۱) وعن أبي بن کعب أنہ قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ ترکوا القراء ۃ خلف الإمام، وأمامہم کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالظاہر أنہ کان بأمرہ۔ وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم في حدیث مشہور ’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فلا تختلفوا علیہ فإذا کبر فکبروا وإذا قرأ فانصتوا‘‘، الحدیث أمر بالسکوت عند قرائۃ الإمام۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’ فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴؛ مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القرائۃ في الصلاۃ‘‘: ص: ۸۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۱)
(۳) عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال، قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قراء الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰)
(۴) والمؤتم لا یقرأ مطلقاً فإن قرأ کرہ تحریماً وتصح في الأصح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص241
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2202/44-2316
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا شوافع کے یہاں درست ہے، البتہ احناف کے یہاں بلاکسی مجبوری کے مسجد میں جنازہ کی نماز مکروہ ہے۔ نبی علیہ السلام کا معمول یہی تھا کہ آپ مسجد کے باہر کھلی جگہ میں نماز جنازہ ادافرماتے تھے، ایک بار آپﷺ اعتکاف میں تھے یا بارش کی بناء پر آپ نے مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی ہے لیکن عام معمول آپ کا یہ نہیں تھا۔ اس لئے کوشش یہی ہو کہ مسجد کے باہر کسی ہال میں یاکسی کھیل کے میدان میں یا عیدگاہ میں نماز جنازہ اداکریں ، اور اگر کوئی ایسی جگہ میسر نہیں ہے تو مسجد میں نماز جنازہ کی گنجائش ہوگی۔ تاہم آپ کے علاقہ کے علماءکا اس سلسلہ میں جو موقف ہو اسی کوترجیحا اختیار کیاجائے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225)
"(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له»
أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له في المفعول، وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد.
وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد.
وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):
"(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية."
الفتاوى الهندية (1/ 165):
"والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی مجلس کے اختتام کے وقت مذکورہ دعا کا ثبوت حدیث پاک سے ملتا ہے، امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من جلس في مجلس فکثر فیہ لغطہ، فقال: قبل أن یقوم من مجلسہ ذلک! سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک إلا غفر لہ ما کان في مجلسہ ذلک‘‘ (۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو جہاں بہت سی لغو باتیں ہوئی ہوں تو وہ شخص اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعاء پڑھ لے ’’سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک‘‘ ترجمہ: اے اللہ تو پاک ہے تیری تعریف کے ساتھ، نہیں ہے کوئی معبود بر حق مگر تو ہی، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں، تو اس مجلس میں جو بھی غلطی ہوئی ہوگی اس کو اللہ بخش دیگا۔
فضائل اعمال کی تعلیم کے بعد یا کسی بھی اس طرح کی مجلس کے اختتام کے بعد دعاء کرنے کی شریعت مطہرہ میں نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ وہ شخص مستحق ثواب ہے، اس لئے اس دعاء کو لوگوں کی وضع کردہ دعاء سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا قام من مجلسہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، رقم: ۳۴۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص392
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی تقلید ناقص اور کمزور کہلائے گی، تاہم دوسروں کو چاہیے کہ اس کو حنفی دلائل سمجھائیں تاکہ یہ کمزوری دور ہو جائے اور وہ شخص مضبوط مقلد بن جائے۔ اور خواہش نفسانی سے بچے ، اس کے پیچھے نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۳)
(۳) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ …مِنْکُمْ ج} (سورۃ النساء: ۵۹)
یکونون في وقت یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والہوی، ومثل ہذا لا یجوز باتفاق الأمۃ۔ (ابن تیمیۃ، الفتاویٰ الکبریٰ: ج ۳، ص: ۲۰۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص279
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سر چھپانا، ٹوپی اوڑھنا اسلامی لباس میں داخل ہے اور اس کی خاص فضیلت واہمیت اسلام نے بیان کی ہے اور کھلے سر سامنے آنا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے اور شرفاء وائمہ کرام وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عادت کے خلاف ہے۔(۱)
’’وتکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل در مختار وعن بعض المشائخ أنہ لأجل الحرارۃ والتخفیف مکروہ‘‘(۲)
وتکرہ الصلاۃ حاسراً رأسہ إذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلاً أو تہاوناً بالصلاۃ، ولا بأس بہ إذا فعلہ تدللاً وخشوعاً، بل ہو حسن، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مکروہات الصلاۃ و ما لا یکرہ، ومطلب في الخشوع‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،۴۰۸زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والا شخص اللہ اکبر کے بعد ثناء پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ قرأت سنے گا؛ کیوںکہ قرآن کریم کی آیت ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے، تو تم لوگ خاموش رہو اور غور سے سنو! تاکہ تم لوگوں پر رحمت نازل کی جائے؛ البتہ مقتدی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ وغیرہ میں بدستور تسبیحات پڑھے گا، جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ … وقال علي ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرء خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}‘‘
’’قولہ (وینصت إذا أسر) وکذا إذا جھر بالأولی۔ قال في البحر: وحاصل الآیۃ أن المطلوب بھا أمران: الاستماع، والسکوت فیعمل بکل منھما؛ والأول یخص الجھریۃ، والثاني لا، فیجري علی إطلاقہ فیجب السکوت عند القراء ۃ مطلقا‘‘(۳)
(۱) سورۃالأعراف: ۲۰۴۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص:۲۷۲، ۲۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۶، ۲۶۷، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص243