Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کا احترام لازم ہے جس نے ان کی شان میں گستاخی کی ہے وہ معافی مانگیں اور اللہ سے استغفار کریں، بہر صورت اس کی نماز امام کی اقتداء میں درست ہے۔(۲)
(۲) ولذا قال في العقائد النسفیۃ: والمسلمون لا بد لہم من إمام یقوم بتنفیذ أحکامہم وإقامۃ حدود ہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب شروط الإمامۃ الکبری‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)
وبیان ذلک أن الإمام لا یصیر إماماً إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حیقیقۃ الإمامۃ‘‘ (أیضًا: ص: ۲۸۴) ٔن مبني الإمامۃ علی الفضیلۃ ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ۔ (بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یصلح الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المؤمن فسوق وقتالہ کفر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، مسند عبد اللّٰہ بن مسعود: ج ۷، ص: ۲۳، رقم: ۴۱۷۸)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون المؤمن لعاناً وفي روایۃ لا ینبغي للمؤمن أن یکون لعاناً۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب البر والصلۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في اللعن وامطعن‘‘: ج ۲، ص: ۲۲، رقم: ۲۰۱۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص285
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: باہر کے دروں کا حکم محراب ہی کا حکم ہے، اس میں امام صاحب کا اس طرح کھڑا ہونا کہ باہر قدم نہ ہوں مکروہ ہے، اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) قلت: أي لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکاناً آخر، فأورث الکراہۃ، ولایخفی حسن ہذا الکلام، فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقاً، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذي یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ، تأمل۔ (ابن عابدین رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۹)
الأصح ما روی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ بخلاف عمل الأمۃ۔ اہـ۔ وفیہ أیضا: السنۃ أن یقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا تری أن المحاریب ما نصبت إلا وسط المساجد وہي قد عینت لمقام الإمام۔
(أیضًا:’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ و بدعۃ کان ترک السنۃ أولی‘‘: ج۲، ص: ۴۱۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص402
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نائٹی یا اس طرح کا لباس جو آدمی بازار یا معزز محفلوں میں پہن کر نہیں جاتا ہے؛ بلکہ عام جگہوں پر اس کے پہن کر جانے کو معیوب سمجھاجاتا ہے ایسے لباس میں نماز پڑھنا خلاف ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔(۱)
’’وتکرہ الصلاۃ في ثیاب البذلۃ، کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یصلي في ثلاثۃ أثواب: إزار وقمیص وعمامۃ، والمرأۃ في قمیص وخمار ومقنعۃ، کذا في ’’المجتبی‘‘۔(۳)
(۱) والمستحب: أن یصلي الرجل في ثلاثۃ أثواب: قمیص، وإزار، وعمامۃ … وأما المرأۃ، فالمستحب لہا: أن تصلي في ثلاثۃ أثواب أیضاً‘ قمیص، وإزار، ومقنعہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، زکریا)
وأما اللبس المکروہ: فہو أن یصلي في إزار واحد، أو سراویل واحد، لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی أن یصلي الرجل في ثوب واحد لیس علی عاتقہ منہ شيء ولأن ستر العورۃ إن حصل فلم تحصل الزینۃ۔ وقد قال اللّٰہ تعالیٰ: {یَابَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} وروي أن رجلاً سأل ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن الصلاۃ في ثوب وقال: أریت لو أرسلتک في حاجۃ أکنت منطلقاً في ثوب واحد؟ فقال: لا۔ فقال اللّٰہ أحق أن تتزین لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان اللباس في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، زکریا)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، الفصل الثاني، فیما یکرہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل، دیوبند)
(۳) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷، نعیمیہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص138
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب شریعت نے کوئی قید نہیں لگائی تو کسی اور کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی قید یا حکم لگائے؛ لہٰذا سنتیں کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں مذکورہ قید درست نہیں۔ تاہم امام کے لیے مستحب ہے کہ جگہ تبدیل کرکے سنت ادا کرے۔(۲)
(۲) وفي الجوہرہ: ویکرہ للإمام التنفل في مکانہ لا للمؤتم وقیل یستحب کسر الصفوف وفي الخانیۃ یستحب للإمام التحول یمین القبلۃ یعني یسار المصلی لتنفل أو ورد وخیّرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماماً وخلفاً وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ ولو دون عشرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، قبیل باب الإمامۃ‘‘:ج ۱، ص: ۵۳۱، سعید کراچی)
وإن کانت صلاۃ بعدہا سنۃ یکرہ لہ المکث قاعداً، وکراہۃ القعود مرویۃ عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ روي عن أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما أنہما کانا اذا فرغا من الصلاۃ قاما کأنہما علی الرضف؛ و لأن المکث یوجب اشتباہ الأمر علی الداخل فلا یمکث ولکن یقوم ویتنحی عن ذلک المکان، ثم یتنفل لما روي عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم أنہ قال: أیعجز أحدکم إذا فرغ من صلاتہ أن یتقدم أو یتأخر۔ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ و لأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثارا من شہودہ علی ماروي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامیۃ۔ وأما المأمومون فبعض مشایخنا قالوا: لاحرج علیہم في ترک الانتقال لانعدام الاشتباہ علی الداخل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان ما یستحب للإمام‘‘ج۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص365
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/1057
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے لئے امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ مقتدی کے لئے اقتدا کی نیت ضروری ہے۔ اس لئے بعد میں آنے والا شخص اس منفرد کے پیچھے اقتدا کی نیت سے کھڑا ہوگیا تو اس کی نماز درست ہوجا ئے گی، امام کو اشارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور امام اگر امامت کی نیت کرے تو جہری نمازوں میں جہری قرات شروع کردے اور اگر امامت کی نیت نہ کرے اور سری نماز جاری رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1681/43-1296
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کےنظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیاگیا ہے اور اب پوری دنیا میں نماز کا وقت جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں ،یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتاہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل ، اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیاجاسکتاہے جبکہ نیٹ سے مربوط ہو۔ دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتاہے، اس لئے آپ کے علاقہ میں جو جنتری ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کرلیا جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کریں تاکہ صحیح وقت معلوم ہوسکے۔ Ref. No. 1580/43-1112 فتوی نمبر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1976/44-1918
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سفر شرعی میں مسافت کا اعتبار شہر کی آخری آبادی سے ہوگا، اور دوسرے شہر کی ابتدائی آبادی تک ہوگا، اگر اس طرح دونوں شہروں کی مسافت کم از کم سوا ستتر کلومیٹر ہے، تو آپ مسافر ہوں گے، فقہی کتب میں عبارات مصرح ہیں۔
من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ من جانب خروجہ ۔ ۔ قاصدا ۔ ۔ مسیرۃ ثلثۃ ایام ولیالیھا ۔ ۔ صلی الفرض الرباعی رکعتین ۔۔ حتی یدخل موضع مقامہ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر 2/599 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام صاحب پر وقت کی پابندی لازم ہے، تجارت میں بھی اپنی نظر کی حفاظت لازم ہے، اس کا خیال رکھا جائے۔ مقتدیوں کے ناراض ہونے کی وجہ سوال میں ذکر نہیں کی گئی ہے کمی امام کی ہو یا مقتدیوں کی تاہم دونوں کو اتحاد واتفاق سے رہنا چاہئے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا، ج۱، ص:۲۹۹)
تجوز إمامۃ الأعربي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ إلا أنہا تکرہ في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۳)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱) وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ، أن الصلوۃ خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص72
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جب امام صاحب نے قسم ہی نہیں کھائی تو حانث ہونے کا کیا مطلب ،نہ وہ حانث ہوئے اور نہ کفارہ ان پر لازم ہے ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اور مذکورہ رسوم واجب الترک ہیں امام کو بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)
(۱) وکذلک إذا ترک ما لا بأس بہ حذرا مما بہ البأس فذلک من أوصاف المتقین وکتارک المتشابہ حذراً من الوقوع في الحرام واستبراء للدین والعرض الخ۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدعۃ الترکیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص286
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگلی صف کی خالی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شامی میں ہے:
’’فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف لأنہ اسقط حرمۃ نفسہ ولا یأثم المار بین یدیہ۔‘‘(۲)
لیکن اگر صفیں زیادہ پار کرنی پڑیں تو ایسا نہ کرے۔
(۲) کرہ کقیامہ في صفٍّ خلف صفٍّ فیہ فرجۃ، قلت: وبالکراہۃ أیضًا صرّح الشافعیۃ۔ ولو وجد فرجۃً في الأوّل لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم۔ وقال ابن عابدین تحتہ: أن الکلام فیما إذا شرعوا، وفي القنیۃ: قام في آخر صفٍّ وبین الصّفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمرّ بین یدیہ لیصل الصّفوف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص:۳۱۲، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص403