نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی درستگی کے لیے صفوں کی درستگی کا خاص اہتمام کرنے کی تاکید آئی ہے،اور صفیں مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ لیکن اگر مذکورہ مصلحت کے تحت صفوں کے دونوں کناروں پر ایک گز جگہ چھوڑ دی جائے اور کسی مخصوص علامت کے ذریعہ اس جگہ کو صف سے نکال دیا جائے، تو اس کی بھی گنجائش ہوگی تاکہ تخطی رقاب اور مرور بین المصلی لازم نہ آئے۔(۱) بعض علماء نے بڑی مسجدوں میں عام نماز وں کے اندر صف کے دونوں کناروں کو چھوڑ کر بیچ میں صف لگانے کی اجازت دی ہے۔ البتہ اس کا خیال رہے کہ صفوں کی دونوں جانب برابر ہوں امام صفوں کے درمیان کھڑا ہو۔(۲)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب مقام الإمام من الصف، دار السلام‘‘: ج۱، ص:۹۹، رقم: ۶۸۱)
لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لا یقطع الصلاۃ مرور شيء إلا أن المار آثم  لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لو علم المار بین یدي المصلي ماذا علیہ من الوزر لوقف أربعین وإنما یأثم إذا مر في موضع سجودہ علی ما قیل ولا یکون بینہما حائل وتحاذی أعضاء المار أعضائہ لو کان یصلی علی الدکان۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۴)
(۲) لأن التخطي حال الخطبۃ عمل، وہو حرام وکذا الإیذاء والدنو مستحب وترک الحرام مقدم علی فعل المستحب ولذا قال علیہ الصلاۃ والسلام للذي رآہ یتخطي الناس ویقول افسحوا اجلس فقد آذیت وہو محمل ما روي الترمذي عن معاذ بن أنس الجہني قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم، شرح المنیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص404

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر دوران نماز سترکا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ کھل جائے اور ایک رکن ادا کرنے یعنی تین تسبیح کے بقدر کھلا رہے، تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ناف سے لے کر گھٹنے تک پورا ستر ہے، جس کا چھپانا فرض ہے، اس کا خیال رکھنا نماز کی صحت اور بقاء کے لیے ضروری ہے۔(۱) تاہم پچھلی صف والے کی اس کے ستر پر نظر پڑنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔(۲)

(۱) ویمنع حتی انعقادھا کشف ربع عضوٍ قدر أداء رکن بلا صنعہ من عورۃ غلیظۃ أو خفیفۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۱، ۸۲، زکریا)
(۲) وإن انکشف عضو ہو عورۃ في الصلاۃ فستر من غیر لبث لا یضرہ ذلک الانکشاف لا یفسد صلاتہ؛ لأن الانکشاف الکثیر فی الزمان القلیل عفو کالانکشاف القلیل في الزمن الکثیر وإن أدّی معہ أي مع الانکشاف رکنا کالقیام إن کان فیہ أو الرکوع أو غیرہما یفسد ذلک الانکشاف صلاتہ وإن لم یؤد مع الانکشاف رکنا ولکن مکث مقدار ما أي زمن یؤدي فیہ رکنا بسنتہ وذلک مقدار ثلث تسبیحات فلم یستر ذلک العضو فسدت صلاتہ۔ (إبرہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’فروع شتی‘‘: ص: ۱۸۹،دارالکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعد فرائض عشاء دو رکعت سنت مؤکدہ اور اس کے بعد دو رکعتیں نفل ہیں۔(۱)

(۱) وعن أم حبیبۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال من صلی في یوم ولیلۃ ثنتي عشرۃ رکعۃ سوی المکتوبۃ بني لہ بیت في الجنۃ، رواہ الجماعۃ إلا البخاري وزاد الترمذي أربعاً قبل الظہر ورکعتین بعدہا ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل الفجر وأصحابنا اعتمدوا علی مافي ہذین الحدیثین فجعلوہ مؤکداً دون غیرہ … وأربع قبل العشاء وأربع بعدہا وإن شاء رکعتین۔ (إبراھیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۳۴،۳ ۳۳، دارالکتاب دیوبند)
ومنہا رکعتان بعد العشاء و أربع قبلہا … وندب أربع بعدہ أي بعد العشاء۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۹۰، ۳۸۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص367

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر بیڑی سگریٹ پینے کے فوراً بعد نماز پڑھاتے ہیں تو نماز میں کراہت آئے گی۔(۱)

(۱) عن جابر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أکل من ہذہ، قال: أول مرۃ الثوم، ثم قال: الثوم والبصل والکراث فلا یقربنا في مساجدنا۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ماجاء في کراہۃ أکل الثوم والبصلۃ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج۲، ص: ۳، رقم: ۱۸۰۴)
ویکرہ لمن أراد حضور الجماعۃ ویلحق بہ کل مالہ رائحۃ کریہۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأطعمۃ‘‘: ج۸، ص: ۱۰۷، رقم: ۴۱۹۶)
قال العلماء: ویلحق بالثوم کل مالہ رائحۃ کریہۃ من المأکولات وغیرہا۔ (الطیبي، شرح الطیبي، ’’کتاب الصلوۃ: باب المساجد‘‘: ج۲، ص: ۲۳۳، رقم: ۷۰۷)
تفسیر السراج المنیر ج۱، ص: ۴۱۔
وأما الفاسق في الشرع فہو الخارج عن أمر اللّٰہ بارتکاب کبیرۃ أو إصرار علی صغیرۃ ولم تغلب طاعاتہ علی معاصیہ ولایخرجہ ذلک عن الإیمان، إلا إذا اعتقد حل المعصیۃ سواء أکانت کبیرۃ أم صغیرۃ۔(مفردات القرآن للراغب، ج۱، ص: ۶۳۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  شک اور شبہ پر کوئی حکم نہیں لگ سکتا اور شک و شبہ جائز ہی نہیں اور حلال و حرام میں تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ زنا یا تو اقرار سے ثابت ہوتا ہے یا گواہوں سے اور اس کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ ایک آدمی کتنا معتبر ثقہ و دیانت دار ہو اس کا قول معتبر نہیں اگر صرف ایک ہی شخص کہتا ہے یا دو ہی ہوں چوں کہ نصاب شہادت مکمل نہیں اس لیے ان دونوں کے بارے میں شرعی ضابطہ اور حکم یہ ہے کہ ان کو تہمت لگانے والا قرار دیا جائے گا۔(۱) اور شرعی سزا بحکم قاضی (اسلام) اسی کوڑے مارے جائیں(۲) لیکن چوںکہ یہ سزا دار الاسلام میں ہی دی جاسکتی ہے؛ اس لیے اس آدمی کے لیے حکم یہ ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور زبان بند رکھے اور جو الزام لگا رہا ہے اس سے معافی طلب کرے، اور چوں کہ شرعی ضابطہ اور اصول کی رو سے امام کا جرم ثابت نہیں ہے اس لیے امامت اس کی بلا کراہت جائز ہے، شک و شبہ کرنے والے اور الزام لگانے والے سخت گنہگار ہیں۔

(۱) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورۃ النور: ۱۳)
(۲) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً} (سورۃ النور: ۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص199

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدارس اور مساجد کے ذمہ داروں پر ضروری ہے کہ امام ومدرسین کی سہولیات کے پیش نظر ان کے لیے تعطیلات اتفاقی وبیماری ضرور مقرر فرمائیں اور جو حقوق ان کے ذمہ ہیں (بیوی کے حقوق بچوں کے اور والدین کے حقوق) ان کو ادا کرنے کا موقعہ فراہم کریں تاکہ ان تعطیل کے ایام میں وہ ان کے حقوق ادا کرسکیں۔(۱)
(۱) وینبغي إلحاقہ ببطالۃ القاضي، واختلفوا فیہا والأصح أنہ یأخذ؛ لأنہا للاستراحۃ، وفي الشامي بحثاً: فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلاثاء والجمعۃ وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۸، ۵۶۷، زکریا)
ومنہا البطالۃ في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشہر رمضان في درس الفقہ لم أرہا صریحۃ في کلامہم، والمسئلۃ علی وجہین: فإن کانت مشروطۃ لم یسقط من المعلوم شیء۔ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالۃ القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب لہ … في یوم بطالۃ فقال في المحیط: إنہ یأخذ في یوم البطالۃ۔ (ابن نجیم، شرح الأشباہ والنظائر، ’’الفن الأول في القواعد، القاعدۃ السادسۃ‘‘: ص: ۲۷۲؛ وکذا في الدر المختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص287

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر صفوں کے درمیان فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔(۱)
’’والمانع في الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ‘‘(۲)

(۱) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل مفتاح السعادۃ أو (طریق تجری فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور (أو نہر تجری فیہ السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد کبیر جدا کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقا، کأن قام في الطریق ثلاثۃ، وکذا إثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنہ لکراہۃ صلاتہ صار وجودہ کعدمہ في حق من خلفہ۔ (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، ۳۳۱)
(۲) حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ، وترتیب الصفوف: ص: ۱۱۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان و اقامت اور جماعت کے اوقات مقرر کرکے نماز ادا کرنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز بغیر اذان واقامت کے ادا کرلی گئی تو اس صورت میں بھی ادا ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ۔(۱)

(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
قال في الدر : وکرہ ترکہما معًا … بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ: ج ۲، ص: ۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص177

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی کراہت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر ظہر کی نماز سے قبل چار سنت نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے؛ لہٰذا ایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ فرض کے بعد دو سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں ادا کرے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاھن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب آخر‘‘: ج۱، ص ۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1147/42-366

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مسجد میں باضابطہ امام ومؤذن کے ذریعہ جماعت کا نظم ہو وہاں مسافرین کا اسی جگہ اپنی جماعت کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم اس سے اہل محلہ کی جماعت اصلیہ پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اہل محلہ اپنی نماز معمول کے مطابق اذان و اقامت کے ساتھ ہی ادا کریں گے۔

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند