Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ ناراضگی اگر کسی غیر شرعی عمل کی وجہ سے ہو تو امام کو چاہیے کہ اس غیر شرعی عمل کو ترک کردے اور اگر ذاتی اغراض کی بنا پر ناراضگی ہو تو ان کی ناراضگی سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے؛ تاہم نرم انداز میں، خوش اسلوبی کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے؛ تاکہ آپسی ناراضگی دور ہو جائے۔(۱)
(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داود لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملاعلي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص:۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص282
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پہلی محراب کو بند کر کے درمیان میں بنا لینا چاہئے یہ ہی طریقہ مسنون ہے اس طرح کر لینے سے تمام جماعتیں اور نمازیں مطابق سنت ہو جائیں گی جس میں مزید اجر وثواب ہوگا؛ البتہ اگر کوئی ایسی سخت مجبوری ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں نہیں بنائی جا سکتی ہے اور کوشش کے باوجود محراب درمیان میں نہ آسکتی ہو تو پھر اس صورت میں بھی امام وسطِ صف میں کھڑا ہو جائے جماعت اور نمازیںبہرصورت درست اور جائز ہوں گی۔(۱)
(۱) السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ ولو کان المسجد الصیفي بحنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص400
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے شروع کرنے سے پہلے تمام آداب و مستحبات کی تکمیل مناسب ہے کہ خداوند کریم کے روبرو اور دربار خداوندی میں بندہ ہدایت ورحمت کے لیے حاضر ہو رہا ہے تو ایک سوالی کو اپنے مالک کے حضور فرض کی ادائیگی کے لیے ہر طرح سے اپنے کو سنوار کر اور سدھار کر جانا چاہئے۔ آستین کا اتارنا بھی آداب میں سے ہے اگر جان بوجھ کر ایسا کرے گا تو کراہت تنزیہی ہوگی۔(۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوباً ولا شعراً۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب أعضاء السجود والنھي عن کف الشعر ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، رقم: ۴۹۰)
…(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶)
قولہ کمشمرکم أو ذیل أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمرکمہ أو ذیلہ، وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج۲، ص:۴۰۶)
ولو صلی رافعاً کمیہ إلیٰ المرفقین، کرہ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ الخ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، فیصل)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص135
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 943 Alif
الجواب وباللہ التوفیق:
لایجوز المرور بین یدی المصلی مطلقا ان کان المسجد صغیرا وان کان کبیرا فیجوز بشرط ان لا یقل خشوع المصلی بمرورہ۔ والمسجد ان کان اربعین ذراعا او اکثر فکبیر واِلا فصغیر ۔ قال فی الشامی ان کان اربعین ذراعا فھی کبیرۃ واِلا فصغیرۃ ھذا ھو المختار۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1601/43-1314
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد میں تکثیرجماعت مطلوب ہے۔ مدرسہ میں جو نابالغ بچے ہیں ان کو مدرسہ میں رہنے دیں، اور تمام مدرسین وبالغ طلبہ مسجد میں ہی نماز باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ مدرسہ والوں کی نماز مدرسہ میں درست ہوجاتی ہے البتہ مسجد کا ثواب نہیں ملتاہے اور بلاضرورت مسجد کی جماعت ترک کرنے کی مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی واقعی ضرورت ہے تو اس کی وضاحت کریں۔
(لقوله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق» ش: هذا من قول ابن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - ورفعه إلى النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - غير صحيح. وأخرجه مسلم عن أبي الأحوص قال: قال عبد الله بن مسعود: «لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق وإن رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علمنا سنن الهدى، وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه» .
وأخرج عنه أيضا قال: «من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم، ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم، ولقد رأيتنا وما تخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف» فدل هذا الأثر أن الجماعة سنة مؤكدة؛ لأن إلحاق الوعيد إنما يكون بترك الواجب أو بترك السنة، ودل على أن الجماعة ليست بواجبة؛ لقوله: وإن في سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه، فتكون سنة مؤكدة. (البنایۃ شرح الھدایۃ، حکم صلاۃ الجماعۃ 2/325)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں مسجد کے امام ومؤذن کی تنخواہ عموماً بقدر کفایت ہوتی ہے، رمضان اور عید کی مناسبت سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور عموماً تنخواہ ناکافی ہوتی ہے؛ اس لیے اگر باہمی مشورہ سے رمضان کی تنخواہ میں اضافہ کر دیا جائے یا بارہ مہینہ کی جگہ تیرہ مہینہ کی تنخواہ دی جائے اور اس کو ضابطہ بنا دیا جائے تو بہتر اور پسندیدہ عمل ہے۔ اسی طرح اگر باہمی مشورہ سے رمضان میں چندہ کر کے امام صاحب کو بطور تعاون کچھ دیا جائے تواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ مستحسن عمل ہے۔ ائمہ اور مؤذنین ہمارے دینی خدمت گار ہیں جو ہماری نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کا تعاون کرنا ان کے نماز میں خشوع وخضوع کا سبب ہوگا اور اس کے اثرات پوری مسجد کے لوگوں کو محسوس ہوں گے۔
’’إن اللّٰہ فيعون العبد ما کان الحرم فيعون أخیہ‘‘(۱)
’’من یسر علی معسر یسر اللّٰہ علیہ في الدنیا والآخرۃ‘‘(۲)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلمون علی شروطہم‘‘(۳)
(۱) المعجم الأوسط للطبراني، ’’من اسمہ محمد‘‘: رقم: ۵۶۶۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الصدقات، باب إنظار المعسر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۴، رقم: ۲۴۱۷۔
(۳) أخرجہ أبي داود ، في سننہ، ’’کتاب القضاء، باب في الصلح‘‘: ج۲، ص: ۵۰۵، رقم: ۳۵۹۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص283
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر صف میں جگہ خالی نہ ہو، تو پیچھے کی صف میں تنہا کھڑے ہونے میں کراہت نہیں ہے اور اگر بعد میں آنے والا خود عالم ہو اور اگلی صف میں کوئی عالم ہو، یعنی اس مسئلہ سے واقف ہو، تو ایسی صورت میں آگے سے ایک آدمی کو پیچھے کی طرف ہٹا کر اپنے ساتھ کھڑا کر لے یہ افضل ہے۔(۱)
(۱) و متی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ وإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجیٔ حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسئلۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالما یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً بغیر عذر تصح صلاتہ عندنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۱) سر پر یا شانوں پر بغیر لپیٹے ہوئے رومال ڈال کر دونوں طرف لٹکا کر نماز پڑھنا مکروہ ہے(۲) اور خارج نماز اگر تکبر کی وجہ سے ہو تو کراہت تحریمی ہے ورنہ درست ہے۔(۳)
(۱) وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶؛ حلبي کبیري: ص: ۳۲۱)
(۲) إذا أرسل طرفا منہ علی صدرہ وطرفا علی ظہرہ یکرہ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۴۰۵، زکریا)
(۳) فلو من أحد ہما لم یکرہ کحال عذر وخارج صلاتہ في الأصح أي إذا لم یکن للتکبر فالأصح أنہ لا یکرہ۔ (ابن عابدین أیضاً:ص۴۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اسی جگہ پر سنت پڑھ لی جائیں جہاں پر فرض نماز پڑھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جگہ بدلنا صرف بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی ہو تو اس استحباب پر عمل کرنا بہتر ہے، لیکن اگر جگہ خالی نہ ہو تو گردنیں پھلانگنا یا کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے ہٹا کر جگہ بدلنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ، أو عن شمالہ یعنی السبحۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، رقم: ۸۵۴؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء في صلاۃ النافلۃ حیث تصلی المکتوبۃ ‘‘رقم: ۱۴۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص364
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1114 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نماز کے جو ارکان اصل ہیئت کے مطابق ادا کرنے کی استطاعت ہو ان کو اصل طریقہ کے مطابق ہی ادا کرنا ضروری ہے، اور جو ارکان ادا کرنے پر بالکل قدرت نہ ہو، جیسے مذکورہ صورت ہے ، انہیں کرسی پر بھی ادا کیا جاسکتاہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند