نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اگر امام سجدہ تلاوت نہ کیا تو مقتدی بھی سجدہ نہ کریں تاکہ امام کی اتباع جو لازم ہے وہ پوری ہوجائے۔(۲)

(۲) ویأثم بتأخیرہا ویقضیہا ما دام في حرمۃ الصلاۃ ولو بعد السلام، (قولہ ویأثم بتأخیرہا إلخ) لأنہا وجبت بما ہو من أفعال الصلاۃ۔ وہو القراء ۃ وصارت من أجزائہا فوجب أداؤہا مضیقا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴)والسجدۃ التي وجبت في الصلاۃ لو تؤدي خارج الصلاۃ، کذا في السراجیۃ، وہکذا في الکافي، ویکون آثما بترکہا، ہکذا في البحر الرائق، ہذا إذا لم یفسدہا قبل السجود، فإن أفسدہا قضاہا خارجہا ولو یعد ما سجدہا، لا یعیدہا، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴، ۱۹۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرات مفتیان نے سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی تین صورتیں ذکر کی ہیں۔ اول: یہ کہ تلاوت کے بعد مستقل طور پر سجدۂ تلاوت ادا کیا جائے۔ دوم: یہ کہ نماز کے سجدہ میں ہی سجدۂ تلاوت کی نیت کرلی جائے۔ سوم: اگر نماز میں آیت سجدہ پڑھ کر فوراً یا تین یا اس سے زیادہ آیات کی تلاوت سے پہلے رکوع کر لیا جائے اور رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلی جائے تو سجدہ تلاوت ادا ہو جائے گا؛ البتہ امام کو مستقل سجدہ تلاوت کرنا چاہئے، نماز کے رکوع میں سجدے کی نیت کرکے سجدہ تلاوت نہیں کرنا چاہئے؛ کیوں کہ رکوع میں سجدہ کی نیت کرنے سے امام کے ساتھ ہر مقتدی کا نیت کرنا بھی ضروری ہوگا ورنہ مقتدی کا سجدہ تلاوت اداء نہ ہوگا۔

’’(و) تؤدي (برکوع صلاۃ) إذا کان الرکوع (علی الفور من قراء ۃ آیۃ) أو آیتین إن نواہ أي کون الرکوع (لسجود) التلاوۃ علی الراجح (و) تؤدي (بسجودہا کذالک) أي علی الفور (وإن لم ینو) بالإجماع ولو نواہا في رکوعہ ولم ینوہا المؤتم لم تجزہ، ویسجد إذا سلم الإمام ویعید القعدۃ ولو ترکہا فسدت صلاتہ، کذا في القنیۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۶، ۵۸۷، زکریا۔

ولو قرأ آیۃ السجدۃ في الصلاۃ، فأراد أن یرکع بہا، یحتاج إلی النیۃ عند الرکوع،فإن لم یوجد منہ النیۃ عند الرکوع لا یجز بہ عن السجدۃ … ولو نواہا في الرکوع عقیب التلاوۃ ولم ینوہا المقتدي لا ینوب عنہ، ویسجد إذا سلم إمامہ ویعید القعدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، ۱۹۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:306

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس منفرد نے امام تراویح سے آیت سجدہ سنی اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔(۱)(۱) (ولو سمع المصلي) السجدۃ (من غیرہ لم یسجد فیہا) لأنہا غیر صلاتیۃ (بل) یسجد (بعدہا) لسماعہا من غیر محجور (ولو) (سجد فیہا لم تجزہ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۸، ۵۸۹)قال الحصکفي: (ومن سمعہا من إمام) ولو باقتدائہ بہ (فائتم بہ قبل أن یسجد الإمام لہا سجد معہ) ولو ائتم (بعدہ لا) یسجد أصلا کذا أطلق في الکنز تبعا للأصل (وإن لم یقتد بہ) أصلا (سجدہا) وکذا لو اقتدی بہ في رکعۃ أخریٰ علی ما اختارہ البزدوي وغیرہ وہو ظاہر الہدایۃ، قال ابن عابدین: (قولہ لا یسجد أصلا) أي لا في الصلاۃ ولا بعدہا فافہم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 305

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مقتدی بھی سجدہ تلاوت نہ کریں، کیوں کہ امام کی اتباع ضروری ہے تو جب کہ امام نے نہیں کیا تو مقتدی بھی سجدہ تلاوت نہیں کریں گے۔(۱) (۱) المصلي إذا نسي سجدۃ التلاوۃ في موضعہا ثم ذکرہا في الرکوع، أو السجود، أو في القعود فإنہ یخر لہا ساجدا ثم یعود إلی ما کان فیہ ویعیدہ استحسانا وإن لم یعد جازت صلاتہ، کذا في الظہیریۃ في فصل السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)قولہ: (ویأثم بتأخیرہا الخ) لأنہا وجبت بما ہو من أفعال الصلاۃ وہو القراء ۃ وصارت من أجزائہا فوجب أداؤہا مضیقا کما في البدائع، ولذا کان المختار وجوب سجود السہو لو تذکرہا بعد محلہا کما قدمناہ في بابہ عند قولہ: (بترک واجب) فصارت کما لو أخر السجدۃ الصلبیۃ عن محلہا فإنہا تکون قضائً۔ (حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴)وظاہر کلامہم أنہ إذا لم یسجد فإنہ یأثم بترک الواجب ولترک سجود السہو، ثم اعلم أن الوجوب مقید بما إذا کان الوقت صالحا حتی أن من علیہ السہو في صلاۃ الصبح إذا لم یسجد حتی طلعت الشمس بعد السلام الأول سقط عنہ السجود۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے آیت سجدہ کی تلاوت کرتے وقت جو لوگ جماعت میںشریک نہیں رہے اور انہوں نے آیت سجدہ سنی ان پر نماز سے فارغ ہوکر سجدہ تلاوت کی ادائیگی جماعت سے الگ ہی واجب ہے، اگر سجدہ تلاوت نہ کرے گا، تو گنہگار ہوگا، بہر حال نماز بلا شبہ درست ہو جائے گی۔(۱)(۱) ولو سمعہا من الإمام أجنبی لیس معہم في الصلاۃ ولم یدخل معہم في الصلاۃ لزمہ السجود، کذا في الجوہرۃ النیرۃ، وہو الصحیح، کذا في الہدایۃ۔ سمع من إمام فدخل معہ قبل أن یسجد، سجد معہ، وإن دخل في صلاۃ الإمام بعد ماسجدہا الإمام لایسجدہا، وہذا إذا أدرکہ في آخر تلک الرکعۃ، أما لو أدرکہ في الرکعۃ الأخری یسجدہا بعد الفراغ، کذا في الکافي، وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳)قال الحصکفی: (ومن سمعہا من إمام) ولو بإقتدائہ بہ (فائتم بہ قبل أن یسجد الإمام لہا سجد معہ) ولو ائتم (بعدہ لا) یسجد أصلا کذا أطلق في الکنز تبعا للأصل (وإن لم یقتد بہ) أصلا (سجدہا) وکذا لو اقتدی بہ في رکعۃ أخری علی ما اختارہ البزدوي وغیرہ وہو ظاہر الہدایۃ۔ قال ابن عابدین: قولہ: (لا یسجد أصلا) أي لا في الصلاۃ ولا بعدہا فافہم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 303

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں پہلا سجدہ کافی ہو گیا دوسرا سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔’’وأما إذا کرر التلاوۃ في رکعتین فالقیاس أن یکفیہ سجدۃ واحدۃ، وہو قول أبو یوسف: الأخیر وفي الإستحسان یلزمہ؛ لکل تلاوۃ سجدۃ وہو قول أبي یوسف الأول وہو قول محمد: وہذا من المسائل الثلاث التي رجع فیہا أبویوسف عن الإستحسان إلی القیاس الخ‘‘(۱)(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في سبب وجوب التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۴۔قولہ: (ولو کررھا في مجلسین تکررت): الأصل أنہ لا یتکرر الوجوب إلا بأحد أمور ثلاثۃ: اختلاف التلاوۃ أو السماع أو المجلس الخ ملخصاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 303

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ تلاوت کے لیے قیام ضروری نہیں ہے بیٹھے ہی بیٹھے ایک ہی نشست میں جتنے چاہے سجدے کر سکتا ہے شرعاً جائز ہے البتہ وضو ہونا شرط ہے۔(۲)(۲) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقراء علینا القرآن فإذا مر بالسجدۃ کبر وسجد وسجدنا معہ، رواہ أبوداود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب سجود القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)وسنتہا: التکبیر إبتداء اً وانتہاء اً … فإذا أراد السجود کبر ولا یرفع یدیہ وسجد ثم کبر ورفع رأسہ ولا تشہد علیہ لا وسلام … والمستحب أنہ إذا أراد أن یسجد وإذا رفع رأسہ من السجود یقوم ثم یقعد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 302

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آیت سجدہ کی تلاوت کے بعد فوراً یا دو تین آیت پڑھ کر رکوع کیا اور اس میں سجدۂ تلاوت کی نیت کرلی تو سجدۂ تلاوت ادا ہوجائے گا۔ اور مقتدی بھی نیت  کریں اگر مقتدیوں نے نیت نہیں کی تو ان کا سجدہ ادا نہ ہوگا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ امام رکوع میں سجدہ کی نیت نہ کرے تاکہ مقتدیوں کی بھی نماز درست ہو جائے، نیز تین آیات سے زیادہ (سجدہ کی آیت کے بعد) پڑھ لیں، تو اب یہ صورت نہ ہوسکے گی اور رکوع میں نیت سے سجدہ ادا نہ ہوگا۔(۱)(۱) ولو نواہا في الرکوع عقیب التلاوۃ ولم ینوہا المقتدي لا ینوب عنہ ویسجد إذا سلم إمامہ ویعید القعدۃ ولو ترکہا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)وفي الدر ولو نواہا في رکوعہ ولم ینوہا المؤتم لم یجزہ ویسجد إذا سلم مع الإمام ویعید القعدۃ ولو ترکہا فسدت صلاتہ، کذا في القنیۃ وینبغي حملہ علی الجہریۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریڈیو پر تلاوت کبھی براہِ راست نشر کی جاتی ہے اور کبھی تلاوت کو ٹیپ کرکے پھر ٹیپ کو مشین پر چڑھا کر اس کو پھیلایا جاتا ہے اگر پڑھنے والے کی آواز کو براہِ  راست نشر کیا جائے، تو آیت سجدہ سننے والوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے اور ٹیپ میں بھر کر پھر ٹیپ کو مشین میں لگا کر سنوایا جائے، تو آیت سجدہ پڑھنے پر کوئی سجدہ سننے والوں پر واجب نہیں ہوگا تاہم چوں کہ معلوم نہیں ہوتا؛ اس لیے احتیاط یہ ہے کہ سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے۔(۱)(۱) وکذا تجب علی السامع بتلاوۃ ہٰؤلاء إلا المجنون؛ لأن التلاوۃ منہم صحیحۃ کتلاوۃ المؤمن والبالغ وغیر الحائض والمتطہر لأن تعلق السجدۃ بقلیل القراء ۃ وہو ما دون آیۃ فلم یتعلق بہ النھي فینظر إلی أہلیۃ التالي وأہلیتہ بالتمییز وقد وجد، فوجد سماع تلاوۃ صحیحۃ فتجب السجدۃ، بخلاف السماع من الببغاء، والصدي، فإن ذلک لیس بتلاوۃ، وکذا إذا سمع من المجنون لأن ذلک لیس بتلاوۃ صحیحۃ لعدم أہلیتہ لإنعدام التمییز۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: شرائط جواز السجدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۰)والأصل في وجوب السجدۃ: أن کل من کان من أہل وجوب الصلاۃ أما أداً أو قضاء اً وکان أہلاً لوجوب سجدۃ التلاوۃ ومن لا فلا … ولو سمع منہم مسلمٌ عاقل بالغ تجب علیہ لسماعہ … ولا تجب إذا سمعہا من طیر ہو المختار … ومن النائم، الصحیح أنہا تجب، وإن سمعہا من الصدي لا تجب علیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 300

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آیت سجدہ اگر ایک ہی مجلس میں مکرر پڑھی جائے تب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہوتا ہے پس صورت مسئولہ میں ایک ہی سجدہ کافی ہے کیوں کہ آیت بھی ایک ہی ہے اور مجلس بھی ایک ہی ہے۔(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰، ۵۹۱؛ وابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰۔(وہو) أي سجود التلاوۃ (واجب علی التراخي) عند محمد رحمہ اللّٰہ وروایۃ عن الإمام و ہو المختار۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۷۹)(ولو کرر رہا في مجلسین تکررت وفي مجلس) واحد لا تتکر بل کفتہ واحدۃ وفعلہا بعد الأولیٰ أو لیٰ قنیۃ، وفي البحر: التاخیر أحوط والأصل أن مبناہا علی التداخل دفعاً للحرج بشرط اتحاد الآیۃ، والمجلس (وہو تداخل في السبب) بأن یجعل الکل کتلاۃ واحدۃ فتکون الواحدۃ سبباً والباقي تبعاً لہا۔قولہ: (بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس) أي بأن یکون المکرر آیۃ واحدۃ في مجلس واحد فلو تلا آئتین في مجلس واحد أو آیۃ واحدۃ في مجلسین فلا تداخل الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰، ۵۹۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 299