Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بقیہ نماز امام کے ساتھ پوری کی تو مذکورہ صورت میں نماز سبھی مقتدیوں کی ادا ہو گئی اور جن لوگوں نے امام کے ساتھ سجدہ تلاوت نہیں کیا اب وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سجدہ نہ کریں چوں کہ ترک مقام کی وجہ سے سجدہ ساقط ہوگیا۔(۱)
(۱) (ومقتد بسہو إمامہ إن سجد إمامہ) لوجوب المتابعۃ (لا بسہوہ) أصلا۔ قولہ: (لا بسہوہ أصلا) …… بل الأولی التمسک بما روي ابن عمر عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’لیس علی من خلف علی الإمام سہوا‘‘۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶)(ولو تلاہا في الصلاۃ سجدہا فیہا لا خارجہا) لما مر۔ وفي البدائع: وإذا لم یسجد أثم فتلزمہ التوبۃ۔ (قولہ وإذا لم یسجد أثم إلخ) أفاد أنہ لا یقضیہا۔ قال في شرح المنیۃ وکل سجدۃ وجبت في الصلاۃ ولم تؤد فیہا سقطت أي لم یبق السجود لہا مشروعا لفوات محلہ۔ أقول: وہذا إذا لم یرکع بعدہا علی الفور وإلا دخلت في السجود وإن لم ینوہا کما سیأتي وہو مقید أیضا بما إذا ترکہا عمدا حتی سلم وخرج من حرمۃ الصلاۃ۔ أما لو سہوا وتذکرہا ولو بعد السلام قبل أن یفعل منافیا یأتي بہا ویسجد للسہو کما قدمناہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زبان سے آیت سجدہ تلاوت کئے بغیر سجدہ تلاوت لازم نہیں آتا ہے؛ لہٰذااس صورت میں چوں کہ زبان سے نہیں پڑھا اس لیے سجدہ تلاوت لازم نہیں ہے۔(۱)
(۱) رجل قراء آیۃ السجدۃ لا یلزمہ السجدۃ بتحریک الشفتین وإنما تجب إذا صحح الحروف وحصل بہ صوت سمع ہو أو غیرہ إذا قرب أذنہ إلی فمہ کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)(ویجب) السجود (علی من تلا آیۃ) مکلفا بالصلاۃ … قولہ: (و في مختصر البحر الخ) قد علمت أن ہذا أحد أقوال، ولا تجب بکتابۃ، ولا تظر من غیر تلفظ لأنہ لم یقرأ ولم یسمع وکذا التہجي فلا تجب علیہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۸۰، ۴۸۱)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:309
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے سے پہلے سجدہ تلاوت کرنا جائز ہے۔(۱)
(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما فی معناہا لا الفرائض ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ، کذا في فتاوی قاضي خان، منہا ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر … ومنہا ما بعد صلاۃ الفجر قبل طلوع الشمس، ہکذا في النہایۃ والکفایۃ … ومنہا بعد صلاۃ العصر قبل التغیر، ہکذا في النہایۃ والکفایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸)(لا) یکرہ (قضاء فائتۃ و) لو وترا أو (سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ وکذا) الحکم من کراہۃ نفل وواجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ (بعد طلوع فجر سوی سنتہ) لشغل الوقت بہ۔ (قولہ: أو سجدۃ تلاوۃ) لوجوبہا بإیجابہ تعالی لا بفعل العبد کما علمتہ فلم تکن في معنی النفل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص:فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:308
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اگر امام سجدہ تلاوت نہ کیا تو مقتدی بھی سجدہ نہ کریں تاکہ امام کی اتباع جو لازم ہے وہ پوری ہوجائے۔(۲)
(۲) ویأثم بتأخیرہا ویقضیہا ما دام في حرمۃ الصلاۃ ولو بعد السلام، (قولہ ویأثم بتأخیرہا إلخ) لأنہا وجبت بما ہو من أفعال الصلاۃ۔ وہو القراء ۃ وصارت من أجزائہا فوجب أداؤہا مضیقا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴)والسجدۃ التي وجبت في الصلاۃ لو تؤدي خارج الصلاۃ، کذا في السراجیۃ، وہکذا في الکافي، ویکون آثما بترکہا، ہکذا في البحر الرائق، ہذا إذا لم یفسدہا قبل السجود، فإن أفسدہا قضاہا خارجہا ولو یعد ما سجدہا، لا یعیدہا، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴، ۱۹۵)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:307
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرات مفتیان نے سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی تین صورتیں ذکر کی ہیں۔ اول: یہ کہ تلاوت کے بعد مستقل طور پر سجدۂ تلاوت ادا کیا جائے۔ دوم: یہ کہ نماز کے سجدہ میں ہی سجدۂ تلاوت کی نیت کرلی جائے۔ سوم: اگر نماز میں آیت سجدہ پڑھ کر فوراً یا تین یا اس سے زیادہ آیات کی تلاوت سے پہلے رکوع کر لیا جائے اور رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرلی جائے تو سجدہ تلاوت ادا ہو جائے گا؛ البتہ امام کو مستقل سجدہ تلاوت کرنا چاہئے، نماز کے رکوع میں سجدے کی نیت کرکے سجدہ تلاوت نہیں کرنا چاہئے؛ کیوں کہ رکوع میں سجدہ کی نیت کرنے سے امام کے ساتھ ہر مقتدی کا نیت کرنا بھی ضروری ہوگا ورنہ مقتدی کا سجدہ تلاوت اداء نہ ہوگا۔
’’(و) تؤدي (برکوع صلاۃ) إذا کان الرکوع (علی الفور من قراء ۃ آیۃ) أو آیتین إن نواہ أي کون الرکوع (لسجود) التلاوۃ علی الراجح (و) تؤدي (بسجودہا کذالک) أي علی الفور (وإن لم ینو) بالإجماع ولو نواہا في رکوعہ ولم ینوہا المؤتم لم تجزہ، ویسجد إذا سلم الإمام ویعید القعدۃ ولو ترکہا فسدت صلاتہ، کذا في القنیۃ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۶، ۵۸۷، زکریا۔
ولو قرأ آیۃ السجدۃ في الصلاۃ، فأراد أن یرکع بہا، یحتاج إلی النیۃ عند الرکوع،فإن لم یوجد منہ النیۃ عند الرکوع لا یجز بہ عن السجدۃ … ولو نواہا في الرکوع عقیب التلاوۃ ولم ینوہا المقتدي لا ینوب عنہ، ویسجد إذا سلم إمامہ ویعید القعدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳، ۱۹۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس منفرد نے امام تراویح سے آیت سجدہ سنی اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔(۱)(۱) (ولو سمع المصلي) السجدۃ (من غیرہ لم یسجد فیہا) لأنہا غیر صلاتیۃ (بل) یسجد (بعدہا) لسماعہا من غیر محجور (ولو) (سجد فیہا لم تجزہ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۸، ۵۸۹)قال الحصکفي: (ومن سمعہا من إمام) ولو باقتدائہ بہ (فائتم بہ قبل أن یسجد الإمام لہا سجد معہ) ولو ائتم (بعدہ لا) یسجد أصلا کذا أطلق في الکنز تبعا للأصل (وإن لم یقتد بہ) أصلا (سجدہا) وکذا لو اقتدی بہ في رکعۃ أخریٰ علی ما اختارہ البزدوي وغیرہ وہو ظاہر الہدایۃ، قال ابن عابدین: (قولہ لا یسجد أصلا) أي لا في الصلاۃ ولا بعدہا فافہم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 305
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مقتدی بھی سجدہ تلاوت نہ کریں، کیوں کہ امام کی اتباع ضروری ہے تو جب کہ امام نے نہیں کیا تو مقتدی بھی سجدہ تلاوت نہیں کریں گے۔(۱) (۱) المصلي إذا نسي سجدۃ التلاوۃ في موضعہا ثم ذکرہا في الرکوع، أو السجود، أو في القعود فإنہ یخر لہا ساجدا ثم یعود إلی ما کان فیہ ویعیدہ استحسانا وإن لم یعد جازت صلاتہ، کذا في الظہیریۃ في فصل السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)قولہ: (ویأثم بتأخیرہا الخ) لأنہا وجبت بما ہو من أفعال الصلاۃ وہو القراء ۃ وصارت من أجزائہا فوجب أداؤہا مضیقا کما في البدائع، ولذا کان المختار وجوب سجود السہو لو تذکرہا بعد محلہا کما قدمناہ في بابہ عند قولہ: (بترک واجب) فصارت کما لو أخر السجدۃ الصلبیۃ عن محلہا فإنہا تکون قضائً۔ (حاشیۃ رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴)وظاہر کلامہم أنہ إذا لم یسجد فإنہ یأثم بترک الواجب ولترک سجود السہو، ثم اعلم أن الوجوب مقید بما إذا کان الوقت صالحا حتی أن من علیہ السہو في صلاۃ الصبح إذا لم یسجد حتی طلعت الشمس بعد السلام الأول سقط عنہ السجود۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 304
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے آیت سجدہ کی تلاوت کرتے وقت جو لوگ جماعت میںشریک نہیں رہے اور انہوں نے آیت سجدہ سنی ان پر نماز سے فارغ ہوکر سجدہ تلاوت کی ادائیگی جماعت سے الگ ہی واجب ہے، اگر سجدہ تلاوت نہ کرے گا، تو گنہگار ہوگا، بہر حال نماز بلا شبہ درست ہو جائے گی۔(۱)(۱) ولو سمعہا من الإمام أجنبی لیس معہم في الصلاۃ ولم یدخل معہم في الصلاۃ لزمہ السجود، کذا في الجوہرۃ النیرۃ، وہو الصحیح، کذا في الہدایۃ۔ سمع من إمام فدخل معہ قبل أن یسجد، سجد معہ، وإن دخل في صلاۃ الإمام بعد ماسجدہا الإمام لایسجدہا، وہذا إذا أدرکہ في آخر تلک الرکعۃ، أما لو أدرکہ في الرکعۃ الأخری یسجدہا بعد الفراغ، کذا في الکافي، وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۳)قال الحصکفی: (ومن سمعہا من إمام) ولو بإقتدائہ بہ (فائتم بہ قبل أن یسجد الإمام لہا سجد معہ) ولو ائتم (بعدہ لا) یسجد أصلا کذا أطلق في الکنز تبعا للأصل (وإن لم یقتد بہ) أصلا (سجدہا) وکذا لو اقتدی بہ في رکعۃ أخری علی ما اختارہ البزدوي وغیرہ وہو ظاہر الہدایۃ۔ قال ابن عابدین: قولہ: (لا یسجد أصلا) أي لا في الصلاۃ ولا بعدہا فافہم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں پہلا سجدہ کافی ہو گیا دوسرا سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔’’وأما إذا کرر التلاوۃ في رکعتین فالقیاس أن یکفیہ سجدۃ واحدۃ، وہو قول أبو یوسف: الأخیر وفي الإستحسان یلزمہ؛ لکل تلاوۃ سجدۃ وہو قول أبي یوسف الأول وہو قول محمد: وہذا من المسائل الثلاث التي رجع فیہا أبویوسف عن الإستحسان إلی القیاس الخ‘‘(۱)(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في سبب وجوب التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۴۔قولہ: (ولو کررھا في مجلسین تکررت): الأصل أنہ لا یتکرر الوجوب إلا بأحد أمور ثلاثۃ: اختلاف التلاوۃ أو السماع أو المجلس الخ ملخصاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 303
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ تلاوت کے لیے قیام ضروری نہیں ہے بیٹھے ہی بیٹھے ایک ہی نشست میں جتنے چاہے سجدے کر سکتا ہے شرعاً جائز ہے البتہ وضو ہونا شرط ہے۔(۲)(۲) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقراء علینا القرآن فإذا مر بالسجدۃ کبر وسجد وسجدنا معہ، رواہ أبوداود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب سجود القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)وسنتہا: التکبیر إبتداء اً وانتہاء اً … فإذا أراد السجود کبر ولا یرفع یدیہ وسجد ثم کبر ورفع رأسہ ولا تشہد علیہ لا وسلام … والمستحب أنہ إذا أراد أن یسجد وإذا رفع رأسہ من السجود یقوم ثم یقعد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 302