نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریل گاڑی میں سجدہ کی آیت پڑھی گئی مگر سجدہ نہیں کیا گیا اس لیے بہت سے سجدہ تلاوت رہ گئے ان سب کو موقع مل جانے پر فوراً کرلینا ضروری ہے اور تاخیر کے لیے توبہ استغفار ضروری ہے اور اب جب کہ سجدہ کرنے سے معذوری ہے تو جس طرح نماز کا سجدہ اشارہ کرکے کرتے ہیں اسی طرح تلاوۃ کے سجدے کی ادائے گی بھی اشارہ سے کر سکتے ہیں۔(۱)

(۱) (وہي علی التراخي) علی المختار ویکرہ تأخیرہا تنزیہا ویکفیہ أن یسجد عدد ما علیہ بلا تعیین ویکون مؤدیاً وتسقط بالحیض والردۃ (إن لم تکن صلاتہ) فعلی الفور لصیرورتہا جزء اً منہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۳، ۵۸۴)وصفتہا الوجوب علی الفور في الصلاۃ، وعلی التراخي إن کانت غیر صلاتیۃ قولہ: (وعلی التراخي إن کانت غیر صلاتیۃ) لکن یکرہ تاخیرہا تنزیہاً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۷۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 298

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نابالغ پر نماز، روزہ فرض نہیں، اس لیے کہ وہ معصوم ہے احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہوتا؛ اس لیے اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔(۱)(۱) والأصل في وجوب السجدۃ أن کل من کان من أہل وجوب الصلاۃ إما أدا أو قضائً کان أہلاً لو جوب سجدۃ التلاوۃ ومن لا فلا، کذا في الخلاصۃ، حتی لو کان التالي کافراً أو مجنوناً أو صبیاً أو حائضاً أو نفساء أو عقیب الطہر دون العشرۃ والأربعین لم یلزمہم وکذا السامع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)فکل من کان أہلاً لوجوب الصلاۃ علیہ إما أداء أو قضاء فہو من أہل وجوب السجدۃ علیہ ومن لا فلا لأن السجدۃ جزء من أجزاء الصلاۃ فیشترط لوجوبہا أہلیۃ وجوب الصلاۃ من الإسلام والعقل والبلوغ والطہارۃ من الحیض والنفاس۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب شرائط جواز السجدۃ ومحل أدائہا‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۹، ۴۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 298

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سجدہ سہو کا محل تو تشہد کے فوراً بعد ہے لیکن اگر کسی نے اس وقت نہیں کیا او ر درود شریف پڑھنے یا دعا پڑھنے کے دوران یاد آیا تو اسی وقت سجدہ کرلے حتی کہ سلام پھیرنے کے فورا بعد جب کہ کوئی نماز کے منافی عمل نہ کیا ہو توسجدہ سہو کرکے پھر التحیات، درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیرکر نماز مکمل کرلے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔’’ویأتي بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في القعود الأخیر في المختار، وقیل: فیھما احتیاطاً‘‘(۱)’’ولم یذکر حکم الصلاۃ علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدتین والأدعیۃ للاختلاف، فصحح في البدائع والھدایۃ أنہ یأتي بالصلاۃ والدعاء في قعدۃ السھو؛ لأن الدعاء موضعہ آخر الصلاۃ، ونسبۃ الأول إلی عامۃ المشایخ بما وراء النھر وقال: فخر الإسلام: إنہ اختیار عامۃ أھل النظر من مشایخنا وھو المختار عندنا، واختار الطحاوی أنہ یأتی بھما فیھما،وذکر قاضي خان وظھیر الدین أنہ الأحوط وجزم بہ في منیۃ المصلی في الصلاۃ ونقل الاختلاف في الدعاء، وقیل: إنہ یأتي بھما في الأول فقط وصححہ الشارح معزیا إلی المفید؛ لأنھا للختم‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 296

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن نمازوںمیںقرأت سری ہے اگر کوئی اس میںاتنی دیرجہری قرأت کرتاہے جس میںنماز درست ہوجاتی ہے یعنی تین چھوٹی آیت یا ایک بڑی آیت کے بقدر جہری کرتاہے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔ سورۃ فاتحہ میںمالک یوم الدین تک قرأت کرنے سے سجدہ سہو وا جب ہوگا۔’’(والجہر فیما یخافت فیہ) للإمام، (وعکسہ) لکل مصل في الأصح، والأصح تقدیرہ (بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ في الفصلین۔ وقیل: قائلہ قاضي خان، یجب السہو (بہما) أي بالجہر والمخافتۃ (مطلقاً) أي قل أو کثر‘‘(۱)’’(ومنہا الجہر والإخفاء) حتی لوجہر فیما یخافت أو خافت فیما یجہر وجب علیہ سجود السہو واختلفوا في مقدار ما یجب بہ السہو منہما قیل: یعتبر في الفصلین بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ وہو الأصح ولا فرق بین الفاتحۃ وغیرہا، والمنفرد لا یجب علیہ السہو بالجہر والإخفاء؛ لأنہما من خصائص الجماعۃ، ہکذا في التبیین‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: قرأت کی غلطی کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہو سکتی ہے؛ اس لیے کہ سجدہ سہو کسی فرض کو مؤخر کرنے یا کسی واجب کے بھول سے چھوٹ جانے سے واجب ہوتا ہے؛ اگر قرأت میں غلطی کی اور صحیح پڑھ لیا تو نماز درست ہوگئی سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔(۱)(۱) ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ أو تاخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بان یجہر فیما یخافت، وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب کذا في الکافي، ولا یجب بترک التعوذ والبسملۃ في الأول والثناء وتکبیرات الانتقالات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ایک آیت کو دو یا تین مرتبہ لوٹانے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا ہے، لیکن اخیر میں امام صاحب نے لازم سمجھ کر سجدہ سہو کر لیا ہے اس صورت میں بھی نماز ادا ہوگئی اس نماز کو اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم امام صاحب کو چاہئے کہ آئندہ محض شک وشبہ کی بنا پر سجدہ سہو نہ کیا کریں اس لیے کہ سجدہ سہو کسی فرض کو اس کے وقت سے بھول کر مؤخر کرنے یا کسی واجب کے نسیاناً فوت ہونے سے لازم آتا ہے، قرأت کی غلطیوں کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا بلکہ اگر دوبارہ صحیح پڑھ لیا گیا تو نماز درست ہو جاتی ہے۔’’إذا کرر آیۃ واحدۃ مرارًا إن کان في التطوع الذي یصلیہ وحدہ فذلک غیر مکروہ، وإن کان في الفریضۃ فہو مکروہ، وھذا في حالۃ الاختیار أما في حالۃ العذر والنسیان فلا بأس بہ، تتمات فیما یکرہ من القراء ۃ في الصلاۃ‘‘(۱)’’ذکر في الفوائد لوقرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحیحا قال عندي صلاتہ جائزۃ وکذلک الإعراب‘‘(۲)’’إذا ظن الإمام أنہ علیہ سہواً فسجد للسہو وتابعہ المسبوق في ذلک ثم علم أن الإمام لم یکن علیہ سہو فیہ روایتان … وقال الإمام أبو حفص الکبیر: لایفسد، والصدر الشہید أخذ بہ في واقعاتہ، وإن لم یعلم الإمام أن لیس علیہ سہو لم یفسد صلاۃ المسبوق عندہم جمیعاً‘‘(۳)’’قولہ: (مع کونہا صحیحۃ) لإستجماع شرائطہا کذا في الشرح قولہ: (لترک واجب وجوبا) في الوقت وبعدہ ندبًا، کذا في الدر أول قضاء الفوائت‘‘(۴)(۱) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ج ۱، ص: ۴۶۲۔  (۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: فيصفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس: في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰۔(۳) طاہر بن عبد الرشید البخاري، خلاصۃ الفتاوی: ج ۱، ص: ۱۶۳۔(۴) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کوئی شخص سورۃ فاتحہ پڑھا اور قرأت کرنا (کوئی سورۃ یا آیات کریمہ پڑھنا) بھول گیا اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لیا اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورۃ فاتحہ یا سورہ نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد دو سورتیں پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصدا سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں  سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولی، وکان یطول في الرکعۃ الأولی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱) وفي الفقہ علی مذاہب الأربعۃ:’’ضم سورۃ إلی تحتہ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو بماثاہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵، رقم: ۷۵۹۔(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی مذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 292

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک سجدہ کی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھیر کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔’’(ویسجد لہ بعد السلام سجدتین ثم یتشہد ویسلم) قال علیہ الصلاۃ والسلام: لکل سہو سجدتان بعد السلام، وروي عمران بن حصین وجماعۃ من الصحابۃ: أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سجد سجدتی السہو بعد السلام، ثم قیل یسلم تسلیمتین، وقیل تسلیمۃ واحدۃ وہو الأحسن، ثم یکبر ویخر ساجدا ویسبح، ثم   یرفع رأسہ، ویفعل ذلک ثانیا، ثم یتشہد ویأتي بالدعاء؛ لأن موضع الدعاء آخر الصلاۃ، وہذا آخرہا‘‘(۱)’’وإذا عرف أن محلہ المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشہد الثاني یسلم ثم یکبر ویعود إلی سجود السہو، ثم یرفع رأسہ مکبرا، ثم یتشہد ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویأتي بالدعوات، وہو اختیار الکرخي واختیار عامۃ مشایخنا بما وراء النہر‘‘(۲)امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورت کی گنجائش ہے۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہود کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ دوردہ اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھی دونوں سلام ثابت ہے۔’’ویأتي بالصلاۃ علی النبي علیہ الصلاۃ والسلام، والدعاء في قعدۃ السہو ہو الصحیح لأن الدعاء موضعہ آخر الصلاۃ، (قولہ ہو الصحیح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتین لأن کلا منہما آخر۔ وقیل قبل السجود عندہما وعند   محمد بعدہ‘‘(۱)’’وإذا عرف أن محلہ المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشہد الثانی یسلم ثم یکبر ویعود إلی سجود السہو، ثم یرفع رأسہ مکبرا، ثم یتشہد ویصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویأتي بالدعوات، وہو اختیار الکرخي واختیار عامۃ مشایخنا بما وراء النہر، وذکر الطحاوي أنہ یأتي بالدعاء قبل السلام وبعدہ وہو اختیار بعض مشایخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذکار الموضوعۃ في الصلاۃ‘‘(۲)جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔’’عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم‘‘(۳)’’(یجب … سجدتان، و) یجب أیضاً (تشہد وسلام) لأن سجود السہو یرفع التشہد‘‘(۴)(۱) الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو، فصل: بیان محل سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۷۔(۱) کمال الدین ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۸۔(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو، فصل: بیان محل سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۷۔(۳) أخرجہ سحنون في المدونۃ الکبری لہ: ج ۱، ص: ۸۲۱۔(۴) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، ۵۴۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 289

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں اگر امام صاحب تیسری رکعت میں بیٹھنے کے بعد فوراً کھڑے ہوگئے اتنا بھی وقت نہیں گزرا کہ تین مرتبہ ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہا جائے تو سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر تین مرتبہ ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہنے کے بقدر تاخیر ہو گئی اس کے بعد امام صاحب کھڑے ہوئے تو اس صورت میں چوتھی رکعت میں سجدہ سہو کرنا لازم تھا اگر امام صاحب نے سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے رہتے ہوئے نماز کا لوٹانا لازم تھا۔ البتہ وقت کے گزر نے کے بعد اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم لوٹا لینا چاہئے تاکہ نماز کسی کوتاہی کے بغیر صحیح ادا ہو جائے۔’’وکذا القعدۃ في آخر الرکعۃ الأولٰی أو الثالثۃ فیجب ترکہا، ویلزم من فعلہا أیضا تأخیر القیام إلی الثانیۃ أو الرابعۃ عن محلہ، وہذا إذا کانت القعدۃ طویلۃ، أما الجلسۃ الخفیفۃ التي استحبہا الشافعي فترکہا غیر واجب عندنا، بل ہو الأفضل کما سیأتي وہکذا کل زیادۃ بین فرضین یکون فیہا ترک واجب بسبب تلک الزیادۃ؛ ویلزم منہا ترک واجب آخر وہو تأخیر الفرض الثاني عن محلہ‘‘(۱)’’وإعادتہا بترکہ عمداً أي ما دام الوقت باقیاً وکذا في السہو إن لم یسجد لہ، وإن لم یعدہا حتی  خرج الوقت تسقط مع النقصان وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقاً آثماً، وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم، والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولٰی؛ لأن الفرض لایتکرر، کما في الدر وغیرہ۔ ویندب إعادتہا لترک السنۃ‘‘(۲)(۱) الحکصفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،…مطلب: لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴۔(۲) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷، ۲۴۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 287

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: التحیات کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کردیا تو اگر اس نے جملہ مکمل کردیا ہے تو سجدہ سہو لازم ہوگا ورنہ نہیں ہوگا مثلاً ’’الحمد للّٰہ‘‘ پڑھ دیا،یا قعدہ اولی میں ’’اللہم صل علی محمد‘‘ پڑھ دیا تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوگا۔ اسی طرح کسی غیر محل میں’’التحیات للّٰہ‘‘ پڑھ دیا تو ان تمام صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوگا۔ اور اگر ابھی صرف ’’الحمد‘‘ یا ’’التحیات‘‘ یا  ’’اللہم صلی علی محمد‘‘ کہا تھا اور یاد آنے پر خاموش ہوگیا تو ان صورتوں میں جملہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہ ہوگا۔’’(ولا یزید) في الفرض (علی التشہد في القعدۃ الأولیٰ) إجماعا (فإن زاد عامدا کرہ) فتجب الإعادۃ (أو ساہیا وجب علیہ سجود السہو إذا قال: اللہم صل علی محمد) فقط‘‘(۱)’’وفي الزیلعي: الأصح وجوبہ باللہم صل علی محمد‘‘(۲)’’قال أبو شجاع: إذا قال في القعدۃ الأولی: اللہم صل علی محمد یلزمہ السہو، وعن أبي حنیفۃ إذا زاد حرفا یجب سجود السہو، وقال الإمام أبو منصور الماتریدی: لا یجب ما لم یقل وعلی آل محمد وعن الصفار: لا سہو علیہ في ہذا، وعن محمد أنہ استقبح إن أوجب سجود السہو بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ   علیہ وسلم، ولو قرأ فاتحۃ الکتاب قبل التشہد یلزمہ السہو وبعدہ لا‘‘(۱)’’والمختار کما صرح بہ في الخلاصۃ أنہ یجب السجود للسہو إذا قال اللہم صل علی محمد لا لأجل خصوص الصلاۃ بل لتأخیر القیام المفروض واختارہ قاضي خان وبہذا ظہر ضعف ما في منیۃ المصلي من أنہ إذا زاد حرفا واحدا وجب علیہ سجود السہو علی قول أکثر المشایخ؛ لأن الحرف أو الکلمۃ یسیر یعسر التحرز عنہ وما ذکرہ القاضی الإمام من أن السجود لا یجب حتی یقول وعلی آل محمد؛ لأن التأخیر حاصل بما ذکرناہ وما في الذخیرۃ من أنہ لا یجب حتی یؤخر مقدر ما یؤدی رکنا فیہ؛ لأنہ لا دلیل علیہ‘‘(۲)’’ومنہا لو تشہد في قیامہ بعد الفاتحۃ لزمہ السجود وقبلہا لا علی الأصح لتأخیر الواجب في الأول وہو السورۃ‘‘(۳)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في مہم عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰۔(۲) أیضاً: ’’باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴۔(۱) العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو، حکم الشک في عدد رکعات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۴۔(۲) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۸۔(۳) أیضاً: ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۲۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 286