نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آیت سجدہ کی تلاوت کے بعد فوراً یا دو تین آیت پڑھ کر رکوع کیا اور اس میں سجدۂ تلاوت کی نیت کرلی تو سجدۂ تلاوت ادا ہوجائے گا۔ اور مقتدی بھی نیت  کریں اگر مقتدیوں نے نیت نہیں کی تو ان کا سجدہ ادا نہ ہوگا؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ امام رکوع میں سجدہ کی نیت نہ کرے تاکہ مقتدیوں کی بھی نماز درست ہو جائے، نیز تین آیات سے زیادہ (سجدہ کی آیت کے بعد) پڑھ لیں، تو اب یہ صورت نہ ہوسکے گی اور رکوع میں نیت سے سجدہ ادا نہ ہوگا۔(۱)(۱) ولو نواہا في الرکوع عقیب التلاوۃ ولم ینوہا المقتدي لا ینوب عنہ ویسجد إذا سلم إمامہ ویعید القعدۃ ولو ترکہا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)وفي الدر ولو نواہا في رکوعہ ولم ینوہا المؤتم لم یجزہ ویسجد إذا سلم مع الإمام ویعید القعدۃ ولو ترکہا فسدت صلاتہ، کذا في القنیۃ وینبغي حملہ علی الجہریۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریڈیو پر تلاوت کبھی براہِ راست نشر کی جاتی ہے اور کبھی تلاوت کو ٹیپ کرکے پھر ٹیپ کو مشین پر چڑھا کر اس کو پھیلایا جاتا ہے اگر پڑھنے والے کی آواز کو براہِ  راست نشر کیا جائے، تو آیت سجدہ سننے والوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے اور ٹیپ میں بھر کر پھر ٹیپ کو مشین میں لگا کر سنوایا جائے، تو آیت سجدہ پڑھنے پر کوئی سجدہ سننے والوں پر واجب نہیں ہوگا تاہم چوں کہ معلوم نہیں ہوتا؛ اس لیے احتیاط یہ ہے کہ سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے۔(۱)(۱) وکذا تجب علی السامع بتلاوۃ ہٰؤلاء إلا المجنون؛ لأن التلاوۃ منہم صحیحۃ کتلاوۃ المؤمن والبالغ وغیر الحائض والمتطہر لأن تعلق السجدۃ بقلیل القراء ۃ وہو ما دون آیۃ فلم یتعلق بہ النھي فینظر إلی أہلیۃ التالي وأہلیتہ بالتمییز وقد وجد، فوجد سماع تلاوۃ صحیحۃ فتجب السجدۃ، بخلاف السماع من الببغاء، والصدي، فإن ذلک لیس بتلاوۃ، وکذا إذا سمع من المجنون لأن ذلک لیس بتلاوۃ صحیحۃ لعدم أہلیتہ لإنعدام التمییز۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: شرائط جواز السجدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۰)والأصل في وجوب السجدۃ: أن کل من کان من أہل وجوب الصلاۃ أما أداً أو قضاء اً وکان أہلاً لوجوب سجدۃ التلاوۃ ومن لا فلا … ولو سمع منہم مسلمٌ عاقل بالغ تجب علیہ لسماعہ … ولا تجب إذا سمعہا من طیر ہو المختار … ومن النائم، الصحیح أنہا تجب، وإن سمعہا من الصدي لا تجب علیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 300

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آیت سجدہ اگر ایک ہی مجلس میں مکرر پڑھی جائے تب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہوتا ہے پس صورت مسئولہ میں ایک ہی سجدہ کافی ہے کیوں کہ آیت بھی ایک ہی ہے اور مجلس بھی ایک ہی ہے۔(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰، ۵۹۱؛ وابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰۔(وہو) أي سجود التلاوۃ (واجب علی التراخي) عند محمد رحمہ اللّٰہ وروایۃ عن الإمام و ہو المختار۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۷۹)(ولو کرر رہا في مجلسین تکررت وفي مجلس) واحد لا تتکر بل کفتہ واحدۃ وفعلہا بعد الأولیٰ أو لیٰ قنیۃ، وفي البحر: التاخیر أحوط والأصل أن مبناہا علی التداخل دفعاً للحرج بشرط اتحاد الآیۃ، والمجلس (وہو تداخل في السبب) بأن یجعل الکل کتلاۃ واحدۃ فتکون الواحدۃ سبباً والباقي تبعاً لہا۔قولہ: (بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس) أي بأن یکون المکرر آیۃ واحدۃ في مجلس واحد فلو تلا آئتین في مجلس واحد أو آیۃ واحدۃ في مجلسین فلا تداخل الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۰، ۵۹۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 299

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریل گاڑی میں سجدہ کی آیت پڑھی گئی مگر سجدہ نہیں کیا گیا اس لیے بہت سے سجدہ تلاوت رہ گئے ان سب کو موقع مل جانے پر فوراً کرلینا ضروری ہے اور تاخیر کے لیے توبہ استغفار ضروری ہے اور اب جب کہ سجدہ کرنے سے معذوری ہے تو جس طرح نماز کا سجدہ اشارہ کرکے کرتے ہیں اسی طرح تلاوۃ کے سجدے کی ادائے گی بھی اشارہ سے کر سکتے ہیں۔(۱)

(۱) (وہي علی التراخي) علی المختار ویکرہ تأخیرہا تنزیہا ویکفیہ أن یسجد عدد ما علیہ بلا تعیین ویکون مؤدیاً وتسقط بالحیض والردۃ (إن لم تکن صلاتہ) فعلی الفور لصیرورتہا جزء اً منہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۳، ۵۸۴)وصفتہا الوجوب علی الفور في الصلاۃ، وعلی التراخي إن کانت غیر صلاتیۃ قولہ: (وعلی التراخي إن کانت غیر صلاتیۃ) لکن یکرہ تاخیرہا تنزیہاً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ص: ۴۷۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 298

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نابالغ پر نماز، روزہ فرض نہیں، اس لیے کہ وہ معصوم ہے احکام شرعیہ کا مکلف نہیں ہوتا؛ اس لیے اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔(۱)(۱) والأصل في وجوب السجدۃ أن کل من کان من أہل وجوب الصلاۃ إما أدا أو قضائً کان أہلاً لو جوب سجدۃ التلاوۃ ومن لا فلا، کذا في الخلاصۃ، حتی لو کان التالي کافراً أو مجنوناً أو صبیاً أو حائضاً أو نفساء أو عقیب الطہر دون العشرۃ والأربعین لم یلزمہم وکذا السامع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر: في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۲)فکل من کان أہلاً لوجوب الصلاۃ علیہ إما أداء أو قضاء فہو من أہل وجوب السجدۃ علیہ ومن لا فلا لأن السجدۃ جزء من أجزاء الصلاۃ فیشترط لوجوبہا أہلیۃ وجوب الصلاۃ من الإسلام والعقل والبلوغ والطہارۃ من الحیض والنفاس۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب شرائط جواز السجدۃ ومحل أدائہا‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۹، ۴۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 298

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سجدہ سہو کا محل تو تشہد کے فوراً بعد ہے لیکن اگر کسی نے اس وقت نہیں کیا او ر درود شریف پڑھنے یا دعا پڑھنے کے دوران یاد آیا تو اسی وقت سجدہ کرلے حتی کہ سلام پھیرنے کے فورا بعد جب کہ کوئی نماز کے منافی عمل نہ کیا ہو توسجدہ سہو کرکے پھر التحیات، درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیرکر نماز مکمل کرلے تو نماز درست ہو جاتی ہے۔’’ویأتي بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في القعود الأخیر في المختار، وقیل: فیھما احتیاطاً‘‘(۱)’’ولم یذکر حکم الصلاۃ علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدتین والأدعیۃ للاختلاف، فصحح في البدائع والھدایۃ أنہ یأتي بالصلاۃ والدعاء في قعدۃ السھو؛ لأن الدعاء موضعہ آخر الصلاۃ، ونسبۃ الأول إلی عامۃ المشایخ بما وراء النھر وقال: فخر الإسلام: إنہ اختیار عامۃ أھل النظر من مشایخنا وھو المختار عندنا، واختار الطحاوی أنہ یأتی بھما فیھما،وذکر قاضي خان وظھیر الدین أنہ الأحوط وجزم بہ في منیۃ المصلی في الصلاۃ ونقل الاختلاف في الدعاء، وقیل: إنہ یأتي بھما في الأول فقط وصححہ الشارح معزیا إلی المفید؛ لأنھا للختم‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲۔(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 296

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن نمازوںمیںقرأت سری ہے اگر کوئی اس میںاتنی دیرجہری قرأت کرتاہے جس میںنماز درست ہوجاتی ہے یعنی تین چھوٹی آیت یا ایک بڑی آیت کے بقدر جہری کرتاہے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوجائے گا۔ سورۃ فاتحہ میںمالک یوم الدین تک قرأت کرنے سے سجدہ سہو وا جب ہوگا۔’’(والجہر فیما یخافت فیہ) للإمام، (وعکسہ) لکل مصل في الأصح، والأصح تقدیرہ (بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ في الفصلین۔ وقیل: قائلہ قاضي خان، یجب السہو (بہما) أي بالجہر والمخافتۃ (مطلقاً) أي قل أو کثر‘‘(۱)’’(ومنہا الجہر والإخفاء) حتی لوجہر فیما یخافت أو خافت فیما یجہر وجب علیہ سجود السہو واختلفوا في مقدار ما یجب بہ السہو منہما قیل: یعتبر في الفصلین بقدر ما تجوز بہ الصلاۃ وہو الأصح ولا فرق بین الفاتحۃ وغیرہا، والمنفرد لا یجب علیہ السہو بالجہر والإخفاء؛ لأنہما من خصائص الجماعۃ، ہکذا في التبیین‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: قرأت کی غلطی کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہو سکتی ہے؛ اس لیے کہ سجدہ سہو کسی فرض کو مؤخر کرنے یا کسی واجب کے بھول سے چھوٹ جانے سے واجب ہوتا ہے؛ اگر قرأت میں غلطی کی اور صحیح پڑھ لیا تو نماز درست ہوگئی سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔(۱)(۱) ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ أو تاخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بان یجہر فیما یخافت، وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب کذا في الکافي، ولا یجب بترک التعوذ والبسملۃ في الأول والثناء وتکبیرات الانتقالات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ایک آیت کو دو یا تین مرتبہ لوٹانے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا ہے، لیکن اخیر میں امام صاحب نے لازم سمجھ کر سجدہ سہو کر لیا ہے اس صورت میں بھی نماز ادا ہوگئی اس نماز کو اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم امام صاحب کو چاہئے کہ آئندہ محض شک وشبہ کی بنا پر سجدہ سہو نہ کیا کریں اس لیے کہ سجدہ سہو کسی فرض کو اس کے وقت سے بھول کر مؤخر کرنے یا کسی واجب کے نسیاناً فوت ہونے سے لازم آتا ہے، قرأت کی غلطیوں کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا بلکہ اگر دوبارہ صحیح پڑھ لیا گیا تو نماز درست ہو جاتی ہے۔’’إذا کرر آیۃ واحدۃ مرارًا إن کان في التطوع الذي یصلیہ وحدہ فذلک غیر مکروہ، وإن کان في الفریضۃ فہو مکروہ، وھذا في حالۃ الاختیار أما في حالۃ العذر والنسیان فلا بأس بہ، تتمات فیما یکرہ من القراء ۃ في الصلاۃ‘‘(۱)’’ذکر في الفوائد لوقرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحیحا قال عندي صلاتہ جائزۃ وکذلک الإعراب‘‘(۲)’’إذا ظن الإمام أنہ علیہ سہواً فسجد للسہو وتابعہ المسبوق في ذلک ثم علم أن الإمام لم یکن علیہ سہو فیہ روایتان … وقال الإمام أبو حفص الکبیر: لایفسد، والصدر الشہید أخذ بہ في واقعاتہ، وإن لم یعلم الإمام أن لیس علیہ سہو لم یفسد صلاۃ المسبوق عندہم جمیعاً‘‘(۳)’’قولہ: (مع کونہا صحیحۃ) لإستجماع شرائطہا کذا في الشرح قولہ: (لترک واجب وجوبا) في الوقت وبعدہ ندبًا، کذا في الدر أول قضاء الفوائت‘‘(۴)(۱) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ج ۱، ص: ۴۶۲۔  (۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: فيصفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس: في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰۔(۳) طاہر بن عبد الرشید البخاري، خلاصۃ الفتاوی: ج ۱، ص: ۱۶۳۔(۴) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کوئی شخص سورۃ فاتحہ پڑھا اور قرأت کرنا (کوئی سورۃ یا آیات کریمہ پڑھنا) بھول گیا اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لیا اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورۃ فاتحہ یا سورہ نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد دو سورتیں پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصدا سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں  سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولی، وکان یطول في الرکعۃ الأولی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱) وفي الفقہ علی مذاہب الأربعۃ:’’ضم سورۃ إلی تحتہ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو بماثاہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵، رقم: ۷۵۹۔(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی مذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 292