نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  شک اور شبہ پر کوئی حکم نہیں لگ سکتا اور شک و شبہ جائز ہی نہیں اور حلال و حرام میں تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ زنا یا تو اقرار سے ثابت ہوتا ہے یا گواہوں سے اور اس کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط ہے۔ ایک آدمی کتنا معتبر ثقہ و دیانت دار ہو اس کا قول معتبر نہیں اگر صرف ایک ہی شخص کہتا ہے یا دو ہی ہوں چوں کہ نصاب شہادت مکمل نہیں اس لیے ان دونوں کے بارے میں شرعی ضابطہ اور حکم یہ ہے کہ ان کو تہمت لگانے والا قرار دیا جائے گا۔(۱) اور شرعی سزا بحکم قاضی (اسلام) اسی کوڑے مارے جائیں(۲) لیکن چوںکہ یہ سزا دار الاسلام میں ہی دی جاسکتی ہے؛ اس لیے اس آدمی کے لیے حکم یہ ہے کہ توبہ واستغفار کرے اور زبان بند رکھے اور جو الزام لگا رہا ہے اس سے معافی طلب کرے، اور چوں کہ شرعی ضابطہ اور اصول کی رو سے امام کا جرم ثابت نہیں ہے اس لیے امامت اس کی بلا کراہت جائز ہے، شک و شبہ کرنے والے اور الزام لگانے والے سخت گنہگار ہیں۔

(۱) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورۃ النور: ۱۳)
(۲) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً} (سورۃ النور: ۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص199

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدارس اور مساجد کے ذمہ داروں پر ضروری ہے کہ امام ومدرسین کی سہولیات کے پیش نظر ان کے لیے تعطیلات اتفاقی وبیماری ضرور مقرر فرمائیں اور جو حقوق ان کے ذمہ ہیں (بیوی کے حقوق بچوں کے اور والدین کے حقوق) ان کو ادا کرنے کا موقعہ فراہم کریں تاکہ ان تعطیل کے ایام میں وہ ان کے حقوق ادا کرسکیں۔(۱)
(۱) وینبغي إلحاقہ ببطالۃ القاضي، واختلفوا فیہا والأصح أنہ یأخذ؛ لأنہا للاستراحۃ، وفي الشامي بحثاً: فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلاثاء والجمعۃ وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۸، ۵۶۷، زکریا)
ومنہا البطالۃ في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشہر رمضان في درس الفقہ لم أرہا صریحۃ في کلامہم، والمسئلۃ علی وجہین: فإن کانت مشروطۃ لم یسقط من المعلوم شیء۔ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالۃ القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب لہ … في یوم بطالۃ فقال في المحیط: إنہ یأخذ في یوم البطالۃ۔ (ابن نجیم، شرح الأشباہ والنظائر، ’’الفن الأول في القواعد، القاعدۃ السادسۃ‘‘: ص: ۲۷۲؛ وکذا في الدر المختار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۶۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص287

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر صفوں کے درمیان فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔(۱)
’’والمانع في الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ‘‘(۲)

(۱) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل مفتاح السعادۃ أو (طریق تجری فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور (أو نہر تجری فیہ السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد کبیر جدا کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقا، کأن قام في الطریق ثلاثۃ، وکذا إثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنہ لکراہۃ صلاتہ صار وجودہ کعدمہ في حق من خلفہ۔ (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، ۳۳۱)
(۲) حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ، وترتیب الصفوف: ص: ۱۱۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان و اقامت اور جماعت کے اوقات مقرر کرکے نماز ادا کرنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز بغیر اذان واقامت کے ادا کرلی گئی تو اس صورت میں بھی ادا ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ۔(۱)

(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
قال في الدر : وکرہ ترکہما معًا … بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ: ج ۲، ص: ۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص177

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی کراہت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر ظہر کی نماز سے قبل چار سنت نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے؛ لہٰذا ایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ فرض کے بعد دو سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں ادا کرے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاھن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب آخر‘‘: ج۱، ص ۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1147/42-366

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مسجد میں باضابطہ امام ومؤذن کے ذریعہ جماعت کا نظم ہو وہاں مسافرین کا اسی جگہ اپنی جماعت کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم اس سے اہل محلہ کی جماعت اصلیہ پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اہل محلہ اپنی نماز معمول کے مطابق اذان و اقامت کے ساتھ ہی ادا کریں گے۔

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1608/43-1230

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان مسبوقین کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امام کا انتظار کرنا چاہئے ، اس لئے ان کی نماز فاسد  ہوگئی۔ وہ نماز توڑ کر اپنی انفرادی نماز اداکریں ۔

 ولوقام امامہ لخامسۃ فتابعہ ان بعد القعود تفسد والا لا حتی یقید الخامسۃ بسجدۃ (شامی 1/599) ولوقام الالمام الی الخامسۃ فتابعہ المسبوق ان قعد الامام علی راس الرابعۃ تفسد صلوۃ المسبوق وان لم یقعد لم یفسد حتی یقید الخامسۃ بالسجدۃ فاذا قیدھا بالسجدۃ فسدت صلوۃ الکل (الھندیۃ 1/150 کتاب الصلوۃ ، زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1979/44-1921

بسم اللہ الرحمن الرحیم:   وہ کپڑے جن پر عربی کے مقدس کلمات لکھے  ہوئےہوں،  ان کو استعمال کرنے سے ان کلمات کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ان کو پہننا مناسب نہیں ہے۔

جائے نماز پر پھولوں سے نقش و نگار بنایاجاتاہے ، اگر بہت غور سے دیکھاجائے تو بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی جاندار کی تصویر ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں تصویر نہیں  ہوتی ہے، اس لئے اس پر شبہہ نہ کیاجائے ، ان پر نماز درست ہوجاتی ہے۔  البتہ اگر ہر ایک کو اس پر جاندار کی  یا کسی دیوی وغیرہ کی تصویر  صاف نظر آتی ہو تو پھر  تصاویر محرمہ کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے اس پر نماز درست  نہیں ہوگی۔ اور اس جائے نماز کو مسجد میں  بچھانا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:اگر وہ موچی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور قرآن پاک صحیح پڑھتا ہے تو اس کے پیچھے سب کی نماز درست ہوگی۔(۱)
مسجد محلہ جس میں کہ امام مقرر ہو محلہ کے اکثر نمازی اسی میں نماز پڑھتے ہوں تو مفتی بہ قول کی رو سے جماعت ثانیہ اس میں مکروہ ہوگی۔(۲)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ، ثم الأروع أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار) (أیضًا:)
(۲) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لافي مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن، قولہ: ویکرہ أي تحریمًا؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ الخ)۔۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعًا۔ ۱ہـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: (أیضًا: ص: ۲۸۸)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص74

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  اگر مذکورہ اشخاص کی کمائی پوری کی پوری حرام ہو، کمائی کا کوئی جائز طریقہ موجود ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ اشخاص کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ درست نہیں ہے اور اگر کوئی جائز کمائی بھی ہو تو کھانے پینے کی گنجائش ہے؛ اسی اعتبار سے امام صاحب کو بھی عمل کرنا چاہئے اس کے خلاف عمل کرنا درست نہیں اگر اس کے خلاف عمل ہو تو امامت میں بھی کراہت ہے۔ (۱)

(۱) آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا  لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۷، زکریا، دیوبند)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص200