نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  ان مسبوقین کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے؛ بلکہ امام کا انتظار کرنا چاہئے، اس لیے ان کی نماز فاسد ہوگئی۔ وہ نماز توڑ کر اپنی انفرادی نماز اداکریں۔’’ولوقام إمامہ لخامسۃ فتابعہ إن بعد القعود تفسد وإلا لا حتی یقید الخامسۃ بسجدۃ‘‘(۱)’’ولوقام الإمام إلی الخامسۃ فتابعہ المسبوق إن قعد الإمام علی رأس الرابعۃ تفسد صلاۃ المسبوق وإن لم یقعد لم تفسد حتی یقید الخامسۃ بالسجدۃ فإذا قیدھا بالسجدۃ فسدت صلاۃ الکل‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 285

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دو رکعت نفل نماز کی نیت کی اور دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا اور چار رکعت  پڑھ کر قعدہ کرکے سجدہ سہو کے ساتھ سلام پھیرا تو استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔’’وأصل المسألۃ یصلی التطوع أربع رکعات إذا لم یقعد في الثانیۃ قدر التشہد وقام وأتم صلاتہ أنہ یجوز استحسانا عندہما، ولا یجوز عند محمد قیاسا‘‘(۱)’’ولو لم یقعد علی رأس الشفع الأول القیاس أنہ لا یجوز وبہ أخذ محمد وزفر وروایۃ عن أبی حنیفۃ، وفي الاستحسان: یجوز وہو ظاہر الروایۃ عن أبي حنیفۃ وہو قول أبي یوسف‘‘(۲)(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل:…  في سنن صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۷۔(۲) العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في قیام شہر رمضان صلاۃ الوتر جماعۃ في غیر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جب کہ امام صاحب بیٹھنے کے قریب تھے، ان پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا، ان کو سجدہ سہو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاہم اگر سجدہ سہو کرلیا تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوگئی۔ البتہ سجدہ سہو کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے، سجدہ سہو کے لیے التحیات ضروری ہے، احناف کے یہاں سجدہ سہو، التحیات دو سجدے اور سلام کے مجموعہ کا نام ہے۔’’وإن قعد الأخیر ثم قام عاد وسلم من غیر إعادۃ التشہد۔ فإن سجد لم یبطل فرضہ وضم إلیہا أخری لتصیر الزائدتان لہ نافلۃ وسجد للسہو‘‘(۲)’’ثم في القیام إلی الخامسۃ إن کان قعد علی الرابعۃ ینتظرہ المقتدی قاعدا،   فإن سلم من غیر إعادۃ التشہد سلم المقتدی معہ‘‘(۱)’’ولو ظن الإمام السہو فسجد لہ فتابعہ فبان أن لا سہو فالأشبہ الفساد لاقتدائہ في موضع الانفراد‘‘(۲)’’ولو ظن الإمام أن علیہ سہوا فسجد للسہو فتابعہ المسبوق فیہ ثم علم أنہ لم یکن علیہ سہو فأشہر الروایتین أن صلاۃ المسبوق تفسد؛ لأنہ اقتدی في موضع الانفراد قال الفقیہ أبو اللیث: في زماننا لا تفسد، ہکذا في الظہیریۃ‘‘(۳)’’ومن سہا عن القعدۃ الأولیٰ ثم تذکر وہو إلی حالۃ القعود أقرب عاد وقعد وتشہد لأن ما یقرب من الشيء یأخذ حکمہ، ثم قیل یسجد للسہو للتأخیر، والأصح أنہ لا یسجد کما إذا لم یقم ولو کان إلی القیام أقرب لم یعد لأنہ کالقائم معنی،ویسجد للسہو لأنہ ترک الواجب‘‘(۴)’’إذا ظن الإمام أنہ علیہ سہواً فسجد للسہو وتابعہ المسبوق في ذلک ثم علم أن الامام لم یکن علیہ سہو فیہ روایتان … وقال الإمام أبو حفص الکبیر: لایفسد، والصدر الشہید أخذ بہ في واقعاتہ، وإن لم یعلم الإمام أن لیس علیہ سہو لم یفسد صلاۃ المسبوق عندہم جمیعاً‘‘(۵)’’ویجب (سجدتان) (بتشھد و تسلیم) قولہ: (بتشہد وتسلیم) … ھما واجبان بعد سجود السھو لأن الأولین ارتفعا بالسجود‘‘(۶)(۲) نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰۔(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۰۔ (۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتي بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰۔(۴) المرغیناني، الہدایۃ شرح البدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹۔(۵) خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۳، امجد اکیڈمی انڈیا۔(۶) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 282

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے بعد اگر کوئی منافئ صلوۃ کام نہیں کیا بلکہ اسی جگہ نماز کی ہیئت پر رہتے ہوئے استغفراللہ پڑھتے ہوئے یاد آیا اور سجدہ سہو کرلیا تو سجدہ سہو معتبر ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی؛ لیکن اگر کوئی عمل کثیر کرلیا تھا یا اور کوئی منافئ نماز کام کرلیا تو پھر سجدہ سہو کی بناء درست نہیں ہوگی اور وقت کے اندرنماز لوٹانی ہوگی۔’’(ویسجد للسہو ولو مع سلامہ) ناویا (للقطع) لأن نیۃ تغییر المشروع لغو (ما لم یتحول عن القبلۃ أو یتکلم)‘‘(۲)’’(ویسجد للسہو) وجوبا (وإن سلم عامدا) مریدا (للقطع) لأن مجرد نیۃ تغییر المشروع لا تبطلہ ولا تعتبر مع سلام غیر مستحق وہو ذکر فیسجد للسہو لبقاء حرمۃ الصلاۃ (ما لم یتحول عن القبلۃ أو یتکلم) لإبطالہما التحریمۃ وقیل  التحول لا یضرہ ما لم یخرج من المسجد أو یتکلم‘‘(۱)

(۱) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۲۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 281

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز درست ہے سجدہ سہو لازم نہیں۔’’ولو کررہا (أي الفاتحۃ) في الأولیین یجب علیہ سجود السہو بخلاف ما لو اعادہا بعد السورۃ أو کررہا في الأخریین، وکذا في التبیین‘‘(۲)’’ولو قرأ الحمد في الأخریین مرتین لا سہو علیہ‘‘(۳)’’وینبغي أن یفید ذلک بالفرائض لأن تکرار الفاتحۃ في النوافل لم یکرہ، کما في القہستاني‘‘(۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 280

نماز / جمعہ و عیدین

الجــواب وباللّٰہ التــوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو کرلیا گیا تو نماز درست ہوگئی۔(۱)(۱) ولو شک في الوتر وہو قائم أنہا ثانیۃ یتم تلک الرکعۃ ویقنت فیہا ویقعد ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقنت فیہا أیضا ہو المختار إلی ہنا عبارۃ الخلاصۃ۔ ومما لا ینبغي إغفالہ أنہ یجب سجود السہو في جمیع صور الشک سواء عمل بالتحری أو بنی علی الأقل، کذا في البحر الرائق ناقلا عن فتح القدیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰، ۱۹۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 279

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی اگرچہ صرف شک کی بنیاد پر سجدہ سہو واجب نہیں تھا، لیکن اگر سجدہ سہو کرلیا تو نماز فاسد نہیں ہوئی۔(۱)

(۱) ولو ظن الإمام السہو فسجد لہ فتابعہ فبان أن لا سہو فالأشبہ الفساد لاقتدائہ في موضع الإنفراد۔قولہ: (فالأشبہ الفساد) وفي الفیض: وقیل لا تفسد وبہ یفتی، وفي البحر عن الظہیریۃ قال الفقیہ أبو اللیث: في زماننا لاتفسد لأن الجہل في القراء غالب۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں جو سجدہ تلاوت واجب ہوا اس کو نماز ہی میں کرنا چاہئے تھا لیکن اگر بھول گیا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوا اس لئے سجدہ سہو نمازکے کسی واجب کے ترک کی بنا پر لازم ہوتا ہے اور سجدہ تلاوت نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے؛ بلکہ تلاوت کا ہے اس لئے نماز درست ہوگئی۔ ’’(ولو تلاہا في الصلاۃ سجدہا فیہا لا خارجہا) لما مر وفي البدائع: وإذا لم یسجد أثم فتلزمہ التوبۃ، قال ابن عابدین: وکل سجدۃ وجبت في الصلاۃ ولم تؤد فیہا سقطت أي لم یبق السجود لہا مشروعاً لفوات محلہ‘‘(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵۔(۱)والسجدۃ التي وجبت في الصلاۃ لاتؤدي خارج الصلاۃ، کذا في السراجیۃ، وہکذا في الکافي، ویکون آثماً بترکہا ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام پہلی یا تیسری رکعت میں تین تسبیح پڑھنے کی مقدار نہیں بیٹھا بلکہ فوراً ہی کھڑا ہوگیا خواہ خود بخود یا دوسرے مقتدیوں کے لقمہ دینے سے تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوا۔ نماز درست اور صحیح ہوگئی ہے۔ صورت مذکورہ میں امام کا قول معتبر ہوگا مقتدیوں کا قول اس بارے میں معتبر نہ ہوگا۔ کہ امام جماعت میں اصل ہوتا ہے اور مقتدی حضرات اس کے تابع ہوتے ہیں۔(۱)نوٹ: تسبیح کی مقدار ٹھیرنا مراد ہوگا نہ کہ تسبیح پڑھنا۔(۱) وکذا القعدۃ في آخر الرکعۃ الأولیٰ أو الثالثۃ فیجب ترکہا، ویلزم من فعلہا أیضاً تأخیر القیام إلی الثانیۃ أو الرابعۃ عن محلہ، وہذا إذا کانت القعدۃ طویلۃ، أما الجلسۃ الخفیفۃ التي استحبہا الشافعي فترکہا غیر واجب عندنا، بل ہو الأفضل کما سیأتي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 277

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں گمان غالب کا اعتبار ہوگا آپ کے گمان کے مطابق جو مقدار رکعتوں کی یا سجدے کی غالب ہو جائے اسی کا اعتبار کرکے نماز پوری کریں۔(۱)

(۱) وإذا شک) في صلاتہ (من لم یکن ذلک) أي الشک (عادۃ لہ)، وقیل: من لم یشک في صلاۃ قط بعد بلوغہ، وعلیہ أکثر المشایخ، بحر عن الخلاصۃ، (کما صلی استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولی؛ لأنہ المحل (وإن کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ إن کان) لہ ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتیقنہ۔ قولہ: (من لم یکن ذلک عادۃ لہ) ہذا قول شمس الأئمۃ السرخسي واختارہ في البدائع، ونص في الذخیرۃ علی أنہ الأشبہ۔ قال في الحلیۃ: وہو کذلک۔ وقال فخر الإسلام: من لم یقع لہ في ہذہ الصلاۃ واختارہ ابن الفضل۔قولہ: (استأنف بعمل مناف إلخ) فلا یخرج بمجرد النیۃ، کذا قالوا۔ وظاہرہ أنہ لا بد من العمل، فلو لم یأت بمناف وأکملہا علی غالب ظنہ لم تبطل إلا أنہا تکون نفلاً ویلزمہ أداء الفرض، ولو کانت نفلاً ینبغي أن یلزمہ قضاؤہ وإن أکملہا؛ لوجوب الاستئناف علیہ، بحر، وأقرہ في النہر والمقدسي۔قولہ: (وإن کثر شکہ) بأن عرض لہ مرتین في عمرہ علی ماعلیہ أکثرہم، أو في صلاتہ علی ما اختارہ فخر الإسلام۔ وفي المجتبی: وقیل: مرتین في سنۃ، ولعلہ علی قول السرخسي، بحر ونہر۔قولہ: (للحرج) أي في تکلیفہ بالعمل بالیقین قولہ: (وإلا) أي وإن لم یغلب علی ظنہ شيء، فلو شک أنہا أولی الظہر أو ثانیتہ یجعلہا الأولی ثم یقعد لاحتمال أنہا الثانیۃ ثم یصلي رکعۃ ثم یقعد لما قلنا، ثم یصلي رکعۃً ویقعد لاحتمال أنہا الرابعۃ، ثم یصلي أخری ویقعد لما قلنا، فیأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وہما الثالثۃ والرابعۃ، وقعدتان واجبتان؛ ولو شک أنہا الثانیۃ أو الثالثۃ أتمہا وقعد ثم صلی أخری وقعد ثم الرابعۃ وقعد، وتمامہ في البحر وسیذکر عن السراج أنہ یسجد للسہو۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰، ۵۶۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 276