Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب شریعت نے کوئی قید نہیں لگائی تو کسی اور کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کوئی قید یا حکم لگائے؛ لہٰذا سنتیں کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں مذکورہ قید درست نہیں۔ تاہم امام کے لیے مستحب ہے کہ جگہ تبدیل کرکے سنت ادا کرے۔(۲)
(۲) وفي الجوہرہ: ویکرہ للإمام التنفل في مکانہ لا للمؤتم وقیل یستحب کسر الصفوف وفي الخانیۃ یستحب للإمام التحول یمین القبلۃ یعني یسار المصلی لتنفل أو ورد وخیّرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماماً وخلفاً وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ ولو دون عشرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، قبیل باب الإمامۃ‘‘:ج ۱، ص: ۵۳۱، سعید کراچی)
وإن کانت صلاۃ بعدہا سنۃ یکرہ لہ المکث قاعداً، وکراہۃ القعود مرویۃ عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ روي عن أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما أنہما کانا اذا فرغا من الصلاۃ قاما کأنہما علی الرضف؛ و لأن المکث یوجب اشتباہ الأمر علی الداخل فلا یمکث ولکن یقوم ویتنحی عن ذلک المکان، ثم یتنفل لما روي عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم أنہ قال: أیعجز أحدکم إذا فرغ من صلاتہ أن یتقدم أو یتأخر۔ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ و لأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثارا من شہودہ علی ماروي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامیۃ۔ وأما المأمومون فبعض مشایخنا قالوا: لاحرج علیہم في ترک الانتقال لانعدام الاشتباہ علی الداخل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان ما یستحب للإمام‘‘ج۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص365
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/1057
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے لئے امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ مقتدی کے لئے اقتدا کی نیت ضروری ہے۔ اس لئے بعد میں آنے والا شخص اس منفرد کے پیچھے اقتدا کی نیت سے کھڑا ہوگیا تو اس کی نماز درست ہوجا ئے گی، امام کو اشارہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ اور امام اگر امامت کی نیت کرے تو جہری نمازوں میں جہری قرات شروع کردے اور اگر امامت کی نیت نہ کرے اور سری نماز جاری رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1681/43-1296
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کےنظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیاگیا ہے اور اب پوری دنیا میں نماز کا وقت جاننے کے لئے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں ،یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتاہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل ، اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیاجاسکتاہے جبکہ نیٹ سے مربوط ہو۔ دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتاہے، اس لئے آپ کے علاقہ میں جو جنتری ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کرلیا جائے اور اس پر اعتماد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کریں تاکہ صحیح وقت معلوم ہوسکے۔ Ref. No. 1580/43-1112 فتوی نمبر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1976/44-1918
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سفر شرعی میں مسافت کا اعتبار شہر کی آخری آبادی سے ہوگا، اور دوسرے شہر کی ابتدائی آبادی تک ہوگا، اگر اس طرح دونوں شہروں کی مسافت کم از کم سوا ستتر کلومیٹر ہے، تو آپ مسافر ہوں گے، فقہی کتب میں عبارات مصرح ہیں۔
من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ من جانب خروجہ ۔ ۔ قاصدا ۔ ۔ مسیرۃ ثلثۃ ایام ولیالیھا ۔ ۔ صلی الفرض الرباعی رکعتین ۔۔ حتی یدخل موضع مقامہ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ المسافر 2/599 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام صاحب پر وقت کی پابندی لازم ہے، تجارت میں بھی اپنی نظر کی حفاظت لازم ہے، اس کا خیال رکھا جائے۔ مقتدیوں کے ناراض ہونے کی وجہ سوال میں ذکر نہیں کی گئی ہے کمی امام کی ہو یا مقتدیوں کی تاہم دونوں کو اتحاد واتفاق سے رہنا چاہئے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمردینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا۔ (أیضًا، ج۱، ص:۲۹۹)
تجوز إمامۃ الأعربي والأعمی والعبد وولد الزنا والفاسق کذا في الخلاصۃ إلا أنہا تکرہ في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۳)
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ماینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱) وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وفي الرد: قولہ نال فضل الجماعۃ الخ، أن الصلوۃ خلفہما أولی من الإنفراد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص72
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جب امام صاحب نے قسم ہی نہیں کھائی تو حانث ہونے کا کیا مطلب ،نہ وہ حانث ہوئے اور نہ کفارہ ان پر لازم ہے ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اور مذکورہ رسوم واجب الترک ہیں امام کو بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)
(۱) وکذلک إذا ترک ما لا بأس بہ حذرا مما بہ البأس فذلک من أوصاف المتقین وکتارک المتشابہ حذراً من الوقوع في الحرام واستبراء للدین والعرض الخ۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدعۃ الترکیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص286
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگلی صف کی خالی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شامی میں ہے:
’’فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف لأنہ اسقط حرمۃ نفسہ ولا یأثم المار بین یدیہ۔‘‘(۲)
لیکن اگر صفیں زیادہ پار کرنی پڑیں تو ایسا نہ کرے۔
(۲) کرہ کقیامہ في صفٍّ خلف صفٍّ فیہ فرجۃ، قلت: وبالکراہۃ أیضًا صرّح الشافعیۃ۔ ولو وجد فرجۃً في الأوّل لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم۔ وقال ابن عابدین تحتہ: أن الکلام فیما إذا شرعوا، وفي القنیۃ: قام في آخر صفٍّ وبین الصّفوف مواضع خالیۃ، فللداخل أن یمرّ بین یدیہ لیصل الصّفوف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص:۳۱۲، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص403
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے، اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے؛ اس لیے مکروہ ہے۔(۱)
’’(و) کرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمر کم أو ذیل‘‘(۲)
(۱) ٰیبَنِيْٓ أٰدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْاوَاشْرَبُوْاوَلَاتُسْرِفُوْا ج إِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع۳۱ (الاعراف:۳۱)
(قولہ: کمشمرکم أو ذیل) أي کما لو دخل في الصلاۃ وہو مشمر کمہ أو ذیلہ وأشار بذلک إلیٰ أن الکراہۃ لا تختص بالکف وہو في الصلاۃ، کما أفادہ في شرح المنیۃ، لکن قال في القنیۃ: واخلتف فیمن صلی وقد شمر کمیہ لعمل کان یعملہ قبل الصلاۃ أو ہیئتہ ذلک اھـ، ومثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام۔ وإذا دخل في الصلاۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما؟ لم أرہ: والأظہر الأول بدلیل قولہ الأتی: ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تأمل، ہذا، وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین۔ وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلی ما دونہما: قال في البحر: والظاہر الإطلاق لصدق کف الثوب علی الکل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص:۴۰۶، زکریا،د یوبند)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص139
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شامی نے جو بات نقل کی ہے وہی صحیح معلوم ہوتی ہے مقدار ہی کو بیان کرنا مقصود ہے تعیین مقصود نہیں ہے؛ لہٰذا دوسری سورتوں کا پڑھنا بلاکراہت درست ہے۔(۱)
(۱) (۱) قولہ واختار في البدائع عدم التقدیر الخ۔ وعمل الناس الیوم علی ما اختارہ في البدائع- رملي- والظاہر أن المراد عدم التقدیر بمقدار معین لکل أحد وفي کل وقت، کما یفیدہ تمام العبارۃ، بل تارۃ یقتصر علی أدنی ما ورد کأقصر سورۃ من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورۃ من قصارہ عند ضیق وقت أو نحوہ من الأعذار، لأنہ علیہ الصلاۃ و السلام قرأ في الفجر بالمعوذتین لما سمع بکاء، صبي خشیۃ أن یشق علی أمہ۔ وتارۃ یقرأ أکثر ماورد إذا لم یمل القوم، فلیس المراد إلغاء الوارد ولو بلاعذر، لذا قال في البحر عن البدائع: والجملۃ فیہ أن ینبغی للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم ولا یثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۲،زکریا دیوبند)
ذکر الکرخي وقال: وقدر القرائۃ في الفجر للمقیم قدر ثلاثین آیۃ إلی ستین آیۃ، سوی فاتحۃ الکتاب في الرکعۃ الأولی، وفي الثانیۃ مابین عشرین إلی ثلاثین الخ … والجملۃ فیہ أنہ ینبغي للإمام أن یقرأ مقدار مایخف علی القوم، ولایثقل علیہم بعد أن یکون علی التمام لما روي عن عثمان بن أبي العاص الثقفي أنہ قال: آخر ما عہد إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أصلي بالقوم صلاۃ أضعفہم وروي عنہ علیہ السلام أنہ قال: من أم قوماً فلیصل بہم صلاۃ أضعفہم فإن فیہم الصغیر والکبیر وذا الحاجۃ۔ وروي أن قوم معاذ لما شکوا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تطویل القراء ۃ دعاہ فقال أفتان أنت یامعاذ قالہا ثلاثاً، أین أنت من والسماء والطارق، والشمس وضحاہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان القدر المستحب من القراء ۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، ۴۸۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص366
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1977/44-1919
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سوال میں مذکور عمل کثیر کی تعریف درست ہے، اس کے علاوہ عمل کثیر کی یہ تعریف بھی کی گئی ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ عمل کرنے والا نماز میں نہیں ہے، مثلا اگر کوئی ایک رکن میں تین بار اس طرح کھجائے کہ تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی، لیکن اگر رکن طویل ہو اور کھجانے کے لئے تین دفعہ ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین تسبیح کہنے کی مقدار وقت سے زیادہ ہو تو دیکھنے والے کو اس شخص کے نماز میں نہ ہونے کا یقین نہیں ہوگا، اس لئے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی تفصیلات کتب فقہ میں موجود ہیں۔
"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل۔ ۔ ۔ ۔ (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.
القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل۔ الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها. الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ. (قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد"۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 624)
"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (وعبثه به) أي بثوبه (وبجسده) للنهي إلا لحاجة۔ ۔ ۔ (قوله: وعبثه) هو فعل لغرض غير صحيح قال في النهاية: وحاصله أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به. أصله ما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا. وفي زمن الصيف كان إذا قام من السجود نفض ثوبه يمنة أو يسرة لأنه كان مفيداً كي لاتبقى صورة. فأما ما ليس بمفيد فهو العبث اهـوقوله كي لا تبقى صورة يعني حكاية صورة الألية كما في الحواشي السعدية، فليس نفضه للتراب. فلا يرد ما في البحر عن الحلية من أنه إذا كان يكره رفع الثوب كي لا يتترب، لا يكون نفضه من التراب عملا مفيدا (قوله للنهي) وهو ما أخرجه القضاعي عنه صلى الله عليه وسلم: «إن الله كره لكم ثلاثاً: العبث في الصلاة. والرفث في الصيام، والضحك في المقابر» " وهي كراهة تحريم كما في البحر (قوله: إلا لحاجة) كحك بدنه لشيء أكله وأضره وسلت عرق يؤلمه ويشغل قلبه. وهذا لو بدون عمل كثير. قال في الفيض: الحك بيد واحدة في ركن ثلاث مرات يفسد الصلاة إن رفع يده في كل مرة اهـ۔ وفي الجوهرة عن الفتاوى: اختلفوا في الحك. هل الذهاب والرجوع مرة أو الذهاب مرةً والرجوع أخرى" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 640)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند