نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت عبادت ہے اور عبادت پر اجرت فقہاء مقتدمین کے نزدیک ناجائز ہے؛ اس لیے کہ طاعت پر اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن حضرات متاخرین نے طاعت پر اجرت کو ضرورتاً جائز قرار دیا ہے، کیوں کہ پہلے بیت المال سے دینی خدمت گاروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا، اب بیت المال اور اوقاف کے نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے وظیفہ نہیں دیا جاتا ہے اب اگر دینی خدمت گاروں کو تنخواہ نہیں دی گئی تو جمعہ وجماعت کا نظام متاثر ہو جائے گا، اس لیے امام کی تنخواہ مقرر کرنا درست ہے، دین کی بقاء اور آبیاری اس سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تنخواہ لینے کی وجہ ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
’’إن المتقدمین منعوا أخذ الأجرۃ علی الطاعات وأفتی المتأخرون بجواز التعلیم والإمامۃ کان مذہب المتأخرین ہو المفتی بہ‘‘(۱)
’’ویفتی الیوم بصحتہا أي الإجارۃ علی تعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص:۵۶۸۔

(۲) أیضًا:۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص288

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف اول میں جگہ خالی چھوڑ کر دوسری صف بنانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر صف اول میں جگہ نہ ہو تو آنے والا دوسری صف میں کھڑا ہو جائے، اور ممکن ہو تو کسی ایک مقتدی کو صف اول سے کھینچ کر اپنے ساتھ دوسری صف میں کھڑا کر لے، لیکن آج کل لوگوں میں جہالت غالب ہے، اگلی صف سے کھینچنے میں نماز کے فساد کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے تھوڑا انتظار کرے کہ کوئی مصلی آجائے تو اس کو ساتھ لے لے اور اگر کوئی ساتھ میں کھڑا ہونے والا نہ ہو تو تنہا دوسری صف بنا لے۔ اگر کوئی شخص دوسری صف میں تنہا کھڑا ہو جب کہ پہلی صف میں ایک آدمی کی جگہ باقی ہو تو آنے والے کو چاہئے کہ دوسری صف میں کھڑے ہونے والے کے ساتھ کھڑا ہو جائے، اور اگر دوسری صف میں دو لوگ ہوں اور پہلی صف میں ایک آدمی کی گنجائش ہے تو آنے والے کو چاہئے کہ صف اول کو پُر کرے، اور اس کے لیے اگر نمازی کے سامنے سے گزر کر جانا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۱)
(۱) کرہ کقیامۃ في صف خلف صف فیہ فرجۃ … ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم، وفي الحدیث من سد فرجۃ غفر لہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ، وبہذا یعلم جہل من یستمسک عند دخول داخل بجنبہ في الصف، ویظن أنہ ریاء کما بسط في البحر (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)

وقدمنا کراہۃ القیام في صف خلف صف فیہ فرجۃ للنہی، وکذا القیام منفردا وإن لم یجد فرجۃ بل یجذب أحدا من الصف ذکرہ ابن الکمال، لکن قالوا في زماننا ترکہ أولٰی، فلذا قال في البحر: یکرہ وحدہ إلا إذا لم یجد فرجۃ۔ (أیضًا:)
والأولٰی في زماننا عدم الجذب والقیام وحدہ وفي الخلاصۃ إن صلی خلف الصف منفردا مختارا من غیر ضرورۃ یجوز وتکرہ، ولو کبر خلف الصف وأراد أن یلحق بالصف یکرہ، وفي الفتح عن الدرایۃ لو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف یکرہ إجماعا، والأفضل أن یقوم في الصف الأخیر إذا خاف إیذاء أحد وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکان الوقوف فیہ اختلاف۔ وفي الشرح إذا تکامل الصف الأول لا ینبغي أن یتزاحم علیہ لما فیہ من الإیذاء (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروھات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص407

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بلا ثبوت شرعی کسی کو عیب لگانا سخت گناہ ہے۔ قرآن کریم میںارشاد خداوندی ہے۔{اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط}(۱)  لیکن اگر صورت مذکورہ واقعی صحیح ہے، جیسا کہ بتایا گیا ہے، تو ایسے شخص کو مؤذن نہ بنانا چاہئے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی دیندار پرہیزگار شخص کو مؤذن بنایا جائے۔(۲)

(۱) سورۃ الحجرات: ۱۲۔
(۲) وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
ویکرہ أذان الفاسق ولایعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضًا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰،مختار اینڈ کمپنی دیوبند)؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہ، باب فضل الأذان وثواب المؤذنین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۷۲۶)
ومنہا: (أي من سنن الأذان) أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل بیان سنن الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۲)
و منہا: أي من صفات المؤذن أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، و الأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالما بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، و یؤذن لکم خیارکم، و خیار الناس العلماء۔ (أیضًا)
و ینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
و یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضاً)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص178

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز فجر میں جماعت کھڑی ہوگئی ہو تو مسجد سے باہر سنت فجر پہلے پڑھے ۔ اگر یہ امید ہے کہ ایک رکعت امام کے ساتھ مل سکتی ہے تو سنت پہلے پڑھے اس کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوکر فرض کی تکمیل کرے اور اگر ایک رکعت بھی امام کے ساتھ ملنے کی امید نہ ہو؛ بلکہ اندیشہ ہو کہ دونوں رکعتیں چھوٹ جائیں گی تو جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت فجر چھوڑ دے۔
’’إلا رکعتي الفجر، فإنہ یصلیہما خارج المسجد، وإن فاتتہ رکعۃ من الفجر، فإن خاف أن تفوتہ الفجر ترکہما‘‘(۱) صرف قاعدہ ٔاخیرہ کے مل جانے کی امید پر سنتیں نہ پڑھی جائیں۔
جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد کوئی بھی سنت یا نفل مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے اس سے بظاہر جماعت سے انحراف معلوم ہوتا ہے اس لیے خواہ سنت فجر ہو خارج از مسجد پڑھی جائیں مسجد کی سہ دری وغیرہ میں یا اگر خارج از مسجد کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد کے فرش پر آخری صف میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
’’یکرہ لہ التطوع في المسجد۔ سواء کان رکعتي الفجر أو غیرہما من التطوعات لأنہ یتہم بأنہ لا یری صلاۃ الجماعۃ‘‘(۲)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل الصلاۃ المسنونۃ و بیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۹، زکریا دیوبند۔)
(۲) أیضاً:۶۳۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 978

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  اتنی بڑی آبادی کا گاؤں قریہ کبیرہ میں آتا ہے اور اس میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست ہے۔ تاہم علاقہ کے علماء سے معائنہ کرالیں تاکہ تسلی رہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: (۱) شدید ضرورت میں لون لینے کی گنجائش ہے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلاکراہت جائز ہے، اگر شدید مجبوری نہ ہو تو امامت مکروہ ہے۔(۱)
(۲) مقتدیوں کی ناراضگی اگر شرعی وجہ سے ہو مثلاً امام احکام شرعیہ کے خلاف کرتا ہو اور ایسا کرنا شرعاً ثابت بھی ہو تو اس صورت میں فتویٰ یہی ہوگا کہ اس امام کو معزول کردیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے؛ بلکہ ناراضگی کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہو تو امام کی امامت پروہ ناراضگی بالکل اثر انداز نہیں ہوگی اور امامت اس کی بلاشبہ جائز و درست ہوگی۔(۲)
(۳) امام پر ضروری ہے کہ وہ فوٹو ہٹادے اگر قدرت کے باوجود وہ نہیں ہٹائے گا تو نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی لیکن بکراہت ہوگی۔(۳)

(۱) وفي القنیۃ والبغیۃ یجوز للمحتاج الاستقراض الربح انتہی۔ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ‘‘: ص: ۹۳ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریمًا لحدیث أبي داؤد، لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قومًا وہم لہ کارہون، وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)

(۳) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔۔۔۔ وقال في مجمع الروایات۔ وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزًا ثواب الجماعۃ؛ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳،  شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص76

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے اگر سچی توبہ کریں اور اس کا اعلان کریں تو پھر ان کی امامت بلا کراہت درست ہوگی نیز امامت پر باقی رکھنے یا علاحدہ کرنے کا اختیار مسجد کی کمیٹی، متولی اور مصلیان مسجد کو ہے۔(۱)

(۱) کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الاستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد۔ وشرعًا: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالٰی بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ (فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: امام کو مقررہ وقت پر حاضر رہنا ضروری ہے، منٹ، دو منٹ انتظار کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے زائد کی تاخیر کرے، تو دوسرا شخص نماز پڑھادے اور امام تاخیر کی وجہ سے قصور وار ٹھرایا جائے گا، لیکن اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے، تو قصور وار نہیں ہوگا۔(۳)

(۳) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الفاسق الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ ولفظہ لا بأس تقید في الغالب أن ترکہ أفضل فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص289

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محراب میں امام صاحب اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں قدم داخل محراب ہوں، تو مکروہ ہے، البتہ قدمین خارج محراب ہوں، تو مکروہ نہیں ہے  نمازیوں کے ازدحام اور جگہ کی تنگی کے سبب مجبوراً اندرون محراب تنہا امام کے قیام کی نوبت آجائے تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’ویکرہ قیام الإمام بجملتہ في المحراب لا قیامہ خارجہ وسجودہ فیہ (إلی قولہ) وإذا ضاق المکان فلا کراہۃ‘‘(۲)
(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ  إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین، وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق، کذا في الفتاویٰ البرہانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ،  فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قبل الزوال اذان جمعہ بالکل درست نہیں تاہم اگرزوال کے فوراً بعد سنت اداکرلی جائے اور پھر فوراً اذان خطبہ و خطبہ کے بعد نماز فرض ادا کرلی جائے تو درست اور جائز ہے۔
’’لقولہ علیہ السلام إذا مالت الشمس فصل بالناس الجمعہ‘‘۔(۱)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ ’’فصل في قیام شہر رمضان ‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔ لایسن لغیرہا کعید، فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر … قولہ وقع بعضہ وکذا کلہ بالأولی ولو لم یذکر البعض لتوہم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص۔ (ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰، ط: زکریا۔
لوقت أي وقت المکتوبۃ واعتقاد دخولہ أو ما یقوم مقام الاعتقاد من غلبۃ الظن، فلو شرع شاکاً فیہ لاتجزیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ ’’مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘:ج ۱، ص: ۴۵۲۔
تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصبح لایجوز اتفاقا وکذا في الصبح  … عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک، وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الحجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص179