نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سایہدو مثل ہونے کے بعد (مفتی بہ قول کی رو سے) عصر کی نماز پڑھی جائے تو غروب شمس تک ایک گھنٹہ اور چند منٹ کا وقفہ رہتا ہے دو گھنٹہ کا نہیں۔(۱)
(۱) (وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین) لما قدمناہ من الخلاف (إلی غروب الشمس) علی المشہور لقولہ علیہ السلام: من أدرک رکعۃ من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر، وقال الحسن بن زیاد: إذا اصفرت الشمس خرج وقت العصر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر اذان دی گئی تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اس اذان کا لوٹانا مستحب ہے، جیسا کہ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے میں لکھا ہے:
’’(ویکرہ أذان جنب (إلی قولہ) وقاعد: في الشامیۃ (قولہ: ویعاد أذان جنب إلخ) زاد القہستاني: والفاجر والراکب والقاعد والماشي، والمنحرف عن القبلۃ۔ وعلل الوجوب في الکل بأنہ غیر معتد بہ والندب بأنہ معتد بہ إلا أنہ ناقص، قال وہو الأصح کما في التمرتاشي‘‘(۱)
اذان سے قبل یا بعد میں درود پڑھنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: درود شریف پڑھنا بلا شک وشبہ افضل ترین عبادت ہے؛ لیکن اذان سے قبل یا بعد میں درود شریف پڑھنے کا جو طریقہ اور انداز آج کل اپنایا گیا ہے یا جو رواج لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ متعارف ہے یہ بلا شک وشبہ بدعت ہے، اس طرح پڑھنے کا حکم نہ قرآن وحدیث میں ہے اور نہ ہی فقہ اسلامی میں اگر درود پڑھنا ہی ہے تو مسجد یا گھر میں بیٹھ کر نہایت خشوع اور ادب کے ساتھ پڑھیں مذکورہ طریقہ جو لاؤڈ اسپیکر میں زور وشور سے درود ودعاء پڑھی جاتی ہے یہ بظاہر محض ریا کاری پر مبنی ہے اس سے بچنا ضروری ہے، جیسا کہ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے الاعتصام میں لکھا ہے۔
’’فإذا ندب الشرع مثلا إلی ذکر اللّٰہ، فالتزم قوم الاجتماع علیہ علی لسان واحد وصوت، أو في وقت معلوم مخصوص عن سائر الأوقات لم یکن في ندب الشرع ما یدل علی ہذا التخصیص الملتزم، بل فیہ ما یدل علی خلافہ، لأن التزام الأمور غیر اللازمۃ شرعاً شأنہا أن تفہم التشریع، وخصوصا مع من یقتدی بہ في مجامع الناس کالمساجد‘‘(۱)
’’وکذا في الشامي: ہل یکرہ رفع الصوت بالذکر والدعاء؟ قیل نعم‘‘(۲)
’’کما في روایۃ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳)

نیز اذان کے کلمات میں اضافہ کے بارے میں یاد رکھیں کہ شرعی اذان تو وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس میں مزید کلمات کا اضافہ جائز نہیں ہے اور اگر اضافہ کردیا گیا تو وہ شرعی اذان نہیں رہے گی، اس لیے حدیث پاک سے جو اذان کے کلمات منقول ہیں ان ہی کواختیار دیا جائے۔ اپنی جانب اذان کے کلمات نہ بڑھائے جائیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن محیریز، عن أبي محذورۃ، أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
علمہ ہذا الأذان: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، ثم یعود فیقول، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہُ، أشھد أن محمدا رسول اللّٰہ، أشھد أن محمدا رسول اللّٰہ، حی علی الصلاۃ مرتین، حی علی الفلاح مرتین زاد إسحاق: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اللّٰہ۔‘‘(۴)
’’الأذان خمس عشرۃ کلمۃً و آخرہ عندنا لا إلہ إلا اللّٰہ، کذا فی فتاوی قاضی خان۔ و ہي: اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ، أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ، حي علی الصلاۃ، حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح، حي علی الفلاح، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اللّٰہ، ہکذا في الزاہدي‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر مجنب في أذان، ج ۲، ص: ۶۰، ۶۱۔
(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام: الباب الرابع: في مأخذ أہل البدع بالاستدلال، فصل من صور ابتاع الزائغین للمتشبہات، ومنہا: تحریف الأدلۃ عن مواضعہا‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴)
(۲) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۷۰)
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵ رقم: ۳۷۹)
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ، ج ۱، ص: ۱۱۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص180

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’ض‘‘ کو مشابہ بالغین پڑھنا درست نہیں ہے، ایسی کوئی قرأت نہیں ہے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ کسی مجوّد سے اپنی اصلاح کرلیں، تاہم نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’إلا بما یشق الخ: قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء، قال أکثرہم: لا تفسد۔اھـ۔ وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلک تفسد، وإن جری علی لسانہ أو لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو المختار۔ حلیۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک۔ بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص248

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہوا ہے تو بنیت تہجد پڑھی گئیں دو نفل جو بوقت صبح صادق پڑھی گئی بعد میں معلوم ہوا کہ وقت تہجد نہیںتھا؛ بلکہ طلوع صبح ہوچکی تھی تو وہ سنت فجر کے قائم مقام ہوں گی سنت فجر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) لو صلی تطوعا في آخر اللیل فلما صلی رکعۃ طلع الفجر فإن الأفضل إتمامہا؛ لأن وقوعہ في التطوع بعد الفجر لا عن قصد ولا ینوبان عن سنۃ الفجر علی الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار،  : ج۱، ص: ۳۷۴، دار الفکر)
ولو صلی رکعتین وہو یظن أن اللیل باق، فإذا تبین أن الفجر قد کان طلع … وقال المتأخرون یجزیہ عن رکعتي الفجر وذکر الشیخ الإمام الأجل شمس الأئمۃ الحلواني في شرح کتاب الصلاۃ ظاہر الجواب، أنہ یجزیہ عن رکعتي الفجر؛ لأن الأداء حصل في الوقت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ  : ج ۱، ص: ۱۷۱، فیصل،دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بیماری کا علاج مجبوری ہے اس لیے حسب ضرورت آپریشن کرنا درست ہے اور اس کی وجہ سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امامت درست ہے، لیکن بوقت ضرورت قدر ضرورت سے تجاوز ہر گز نہ کیا جائے آپریشن میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) و الأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ و فسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، و قبل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدا (للقراء ۃ، ثم الأروع) أی: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:  صورت مذکور ہ میں اگر واقعی طور پر نکاح سے پہلے اس شخص نے آئندہ ہونے والی بیوی سے زنا کرلیا ہے جیسا کہ اس کا اقرار بھی ہے تو وہ شخص گناہگار ہے
اور فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے(۱) البتہ اگر وہ شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو توبہ سے اس کا گناہ معاف ہوجائے گا اور اس کی امامت بھی درست اور صحیح ہوجائے گی کہ کفر و شرک کے علاوہ سبھی گناہ سچی پکی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں ۔ (۲)
’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۱)


(۱) یکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق: فاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۸)
(۲) {وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج} (سورۃ النساء: ۴۸)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ  في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب جس نے چالیس سال خدمت انجام دی ہے اور بظاہر لوگوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک دھوکہ بازکمپنی کا ساتھ دیا تھا امامت سے برطرف کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اولاً امام صاحب پر الزام ثابت نہیں ہے اور اگر الزام ثابت ہوجائے، تو امام صاحب نے دھوکہ باز کمپنی کا ساتھ جان بوجھ کر نہیں دیا ہوگا وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ کمپنی صحیح ہے؛ اس لیے اس کا ساتھ دیا ہوگا؛ اس لیے امام صاحب امامت وخطابت کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶  } (سورۃ الحجرات: ۶)

قولہ تعالیٰ: {{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا} لدلائل قد قامت علیہ فثبت أن مراد الآیۃ في الشہادات والزام الحقوق أو إتیان أحکام الدین والفسق السني لیست من جہۃ الدین والاعتقاد۔ (أحمد بن علی ابوبکر الرازی الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ج۲، ص: ۲۷۹)
قال في البحر: واستفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلا جنحۃ عدمہا لصاحب وظیفۃ في وقف بغیر جنحۃ وعدم أہلیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الوقف، مطلب لایصح عزل صاحب وظیفۃ بلاجنحۃ أو عدم أہلیۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۸۱)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف بندی کی ترتیب اس طرح حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ پہلے مردوں کی صف بندی کی جائے، اس کے بعد والی صف میں بچوں کو کھڑا کیا جائے،(۱) البتہ اگر ایک ہی بچہ ہے تو اس کو بڑوں کی صف میں شامل کر لیا جائے الگ سے نہ کھڑا ہو۔(۲)
(۱) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ السلام: لیلیني منکم أولا الأحلام والنہي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۷)
(۲) ویقتضي أیضاً أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وإن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کامل طور پر طلوع شمس کے بعد سے اشراق کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔اور یہ وقت تقریباً پندرہ بیس منٹ ہوتا ہے۔(۱)
(۱)ومن المندوبات: صلاۃ الضحیٰ: وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ ووقتہا من ارتفاع الشمس إلی زوالہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحیٰ) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وابتداؤہ من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۳۹۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیر نامسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہیں کرنا چاہئے، ایسا کر نا مکر وہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہو گئی اور اس کے بعد پڑھی گئی نماز بلا کر اہت درست ہو گئی۔ جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اس کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے، اگر مؤذن ناراض ہو تاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہو تا ہے تو دوسرا شخص بلا اجازت بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ نماز بہر صورت درست ہو جاتی ہے۔
’’قولہ: ویلتفت یمینا وشمالا بالصلاۃ والفلاح لما قدمناہ ولفعل بلال رضي اللّٰہ عنہ علی ما رواہ الجماعۃ، ثم أطلقہ فشمل ما إذا کان وحدہ علی الصحیح؛ لکونہ سنۃ الأذان فلایترکہ خلافا للحلواني؛ لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي السراج الوہاج: أنہ من سنن الأذان فلایخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول‘‘
’’وقید بالیمین والشمال؛ لأنہ لایحول وراء ہ لما فیہ من استدبار القبلۃ، ولا أمامہ لحصول الإعلام في الجملۃ بغیرہا من کلمات الأذان، وقولہ بالصلاۃ والفلاح لف ونشر مرتب یعني أنہ یلتفت یمینا بالصلاۃ وشمالاً بالفلاح، وہو الصحیح خلافا لمن قال: إن الصلاۃ بالیمین والشمال والفلاح کذلک، وفي فتح القدیر: أنہ الأوجہ، ولم یبین وجہہ، وقید بالالتفات؛ لأنہ لایحول قدمیہ؛ لما رواہ الدارقطني عن بلال قال: أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أذنا أو أقمنا أن لانزیل أقدامنا عن مواضعہا، وأطلق في الالتفات ولم یقیدہ بالأذان، وقدمنا من الغنیۃ أنہ یحول في الإقامۃ أیضًا، وفي السراج الوہاج لایحول فیہا  لأنہا لإعلام الحاضرین بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول، إذا کان الموضع متسعًا ‘‘(۱)
’’ویحول في الإقامۃ إذا کان المکان متسعًا وہو أعدل الأقوال کما في النہر‘‘(۲)
’’أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقاً)، وإن بحضورہ کرہ أن لحقہ وحشۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  ج۱، ص: ۴۴۹،۴۵۰۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج۲، ص: ۶۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص182