نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز واجب کا وہی حکم ہے جو نماز فرض کا ہے پس اگر قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھا گیا تو سجدہ سہو لازم ہوگا اور سنن مؤکدہ میں دو قول ہیں مگر احوط یہ ہی ہے کہ سجدہ سہو کیا جائے۔(۱)(۱) ولو قراء آیۃ في الرکوع أو السجود أو القومۃ فعلیہ السہو، ولو قراء في القعود إن قراء قبل التشہد في القعدتین فعلیہ السہو لترک واجب الابتداء بالتشہد أول الجلوس۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۱)وإذا قراء الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو وکذلک إذا قرأ الفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 275

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔(۲)(۲) ولو کرر التشہد في القعدۃ الأولی فعلیہ السہو وکذا لو زاد علی التشہد الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتویٰ، کذا في المضمرات … ولو کررہ في القعدۃ الثانیۃ فلا سہو علیہ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)(وتأخیر قیام إلی الثالثۃ بزیادۃ علی التشہد بقدر رکن) وقیل: بحرف، وفي الزیلعي: الأصح وجوبہ باللہم صلّ علی محمد قولہ: (وفي الزیلعي الخ) جزم بہ المصنف في متنہ في فصل إذا أراد الشروع وقال إنہ المذہب واختارہ في البحر تبعا للخلاصۃ والخانیۃ۔ والظاہر أنہ لا ینافي قول المصنف ہنا بقدر رکن تأمل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، ۵۴۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 274

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا بہتر تھا جو آپ نے کیا وہ درست کیا آپ کے ساتھی نے قعدہ نہیں کیا تو خلاف اولی کیا مگر نماز اس کی بھی صحیح  ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں۔حضرت مسروق اور حضرت جندب کو بھی یہ بات پیش آئی تو حضرت مسروق نے قعدہ کیا اور حضرت جندب نے نہیں کیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس واقعہ پہونچا تو آپ نے فرمایا کہ دونوں کی نماز ہوگئی مگر مسروق نے افضل پر عمل کیا ہے۔(۱)

(۱) ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشہد بینہما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط، ولا یقعد قبلہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷)وفي الفیض عن المستصفی: لو أدرکہ في رکعۃ الرباعي یقضي رکعتین بفاتحۃ وسورۃ، ثم یتشہد، ثم یأتي بالثالثۃ بفاتحۃ خاصۃ عند أبي حنیفۃ۔ وقالا: رکعۃ بفاتحۃ وسورۃ وتشہد، ثم رکعتین أولاہما بفاتحۃ وسورۃ، وثانیتہما بفاتحۃ خاصۃ۔ اہـ۔ وظاہر کلامہم اعتماد قول محمد۔ (ابن عبادین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’أیضا:‘‘)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 273

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال نماز درست ہوگئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)(۱) کذا صرح بذلک في غیر ہذا المصنف علی ہذہ الواجبات في باب صفۃ الصلاۃ وبقي واجب آخر وہو عدم تأخیر الفرض والواجب وعدم تغییرہما وعلیہ تفرع مسائل منہا لو رکع رکوعین أو سجد ثلاثا في رکعۃ لزمہ السجود لتأخیر الفرض وہو السجود في الأول والقیام في الثاني۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، ۱۷۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 273

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہے، امام کو لقمہ دینے کے لئے ’’اللّٰہ أکبر، سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ‘‘ کہہ سکتا ہے۔(۱)(۱) واحترز بقصد الجواب عما لو سبح لمن استأذنہ في الدخول علی قصد إعلامہ أنہ في الصلاۃ کما یأتي أو سبح لتنبیہ إمامہ فإنہ وإن لزم تغییرہ بالنیۃ عندہما إلا أنہ خارج عن القیاس بالحدیث الصحیح إذا نابت وہو في الصلاۃ فلیسبح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 272

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: نوافل کے معنی زائد علی الفرائض کے ہیں جس میں سنن مؤکدہ وغیرہ مؤکدہ شامل ہیں اس سنن مؤکدہ قبل الظہر میں چار رکعتوں میں سورت کا ملانا ضروری ہے اگر کسی وجہ سے ترک ضم سورت ہو گئی تو ترک واجب کی بناء پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔(۲)(۲) (ولہا واجبات) (وہي قراء ۃ فاتحۃ الکتاب) … (و) في (جمیع) رکعات (النفل) لأن کل شفع منہ صلاۃ، (و) کل (الوتر)۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۶ تا ۱۵۰)والسہو یلزم إذا زاد فی صلاتہ فعلاً من جنسہا لیس منہا، أو ترک فعلاً مسنوناً أو ترک قراء ۃ فاتحۃ الکتاب، أو القنوت، أو التشہد، أو تکبیرات العیدین، أو جہر الإمام فیما یخافت أو خافت فیہا یجہر۔ (عبد الغني الغنیمي، اللباب في شرح الکتاب، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴، مکتبہ دار العلم، دیوبند)ضم سورۃ إلی الفاتحۃ فی جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی فی أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والآیات القصار الثلاث۔ (عبدالرحمان الجزیری، الفقہ علی مذاہب الأربعۃ: ج ۱، ص: ۲۵۹، دار الکتب، بیروت)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 271

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: دو رکعت پر بیٹھنا فرض کے درجہ میں ہے لہٰذا اس کے ترک کرنے کی تلافی سجدہ سہو سے نہ ہو سکے گی، پہلی دو رکعت فاسد ہوگئی اور صرف اخیر کی دو رکعت نماز صحیح ہوگی، قرآن کریم کا جس قدر حصہ ان دو رکعتوں میں پڑھا گیا اسے دہرا لیا جائے۔’’إذا صلی الإمام أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولم یقعد في الثانیۃ في القیاس تفسد صلاتہ وہو قول محمد وزفر، ویلزمہ قضاء ہذہ التسلیمۃ وہو روایۃ عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ، وفي الاستحسان: وہو أظہر الروایتین عن أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللہ لا تفسد وإذا لم تفسد اختلفوا في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللہ أنہا تنوب عن تسلیمۃ أو تسلیمتین، قال الفقیہ أبو اللیث: تنوب عن تسلیمتین لأن الأربع لما جاز وجب أن ینوب عن تسلیمتین …… وقال الفقیہ أبو جعفر والشیخ الإسلام أبو بکر محمد بن الفضل في  التراویح: تنوب الأربع عن تسیلمۃ واحدۃ وہو الصحیح لأن القعدۃ علی رأس الثانیۃ فرض في التطوع، فإذا ترکہا کان ینبغي أن تفسد صلاتہ أصلاً کما ہو وجہ القیاس وإنما جاز استحساناً، فأخذنا بالقیاس وقلنا بفساد الشفع الأول، وأخذنا بالإستحسان في حق بقاء التحریمۃ وإذا بقیت التحریمۃ صح شروعہ في الشفع الثاني وقد أتمہا بالقعدۃ فجاز عن تسلیمۃ واحدۃ‘‘(۱)(۱) فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصوم: باب التراویح، فصل: في السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸، المکتبۃ الفیصل، دیوبند۔ولو صلی اربعاً بتسلیمۃ ولم یقعد في الثانیۃ، ففي الإستحسان: لاتفسد وہو اظہور الروایتین عن أبي حنیفۃ وأبي یوسف … وإن تذکر بعد ما سجد للثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخری … کانت ہذہ الأربعۃ عن تسلیمۃ واحدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في التراویح، الباب التاسع: في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 270

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: پہلی رکعت میں سورۃ الناس نہیں پڑھنی چاہئے اگر پڑھ دی تو دوسری رکعت میں الم سے پڑھنا چاہئے تاہم صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوگئی ہے سجدہ سہو لازم نہیں ہے۔(۲)(۲) وأن یقراء منکوساً … ولایکرہ في النفل شيء من ذلک۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: الإستمتاع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)وإذا قرأ في الأولیٰ قل أعوذ برب الناس لا عن قصد یکررہا في الثانیۃ ولا کراہۃ فیہ حذرا عن کراہۃ القراء ۃ منکوساً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 269

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت سجدہ سہو واجب ہوگیا تھا اگر سجدہ سہو کر لیا تو نماز درست ہوگئی ورنہ واجب الاعادہ ہے۔(۱)(۱) وجہر بقراء ۃ الفجر وأولي العشائین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: … باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۵)ومنہا الجہر والاخفاء: حتی لو جہر فیما یخافت أو خافت فیما یجہر وجب علیہ سجود السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 268

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر امام نے وتر میں دعا قنوت پڑھے بغیر رکوع کردیا تو بہتر یہ ہے کہ رکوع سے نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرے تاہم اگر لوٹ آیا اور دعا قنوت پڑھی پھر رکوع کیا اگرچہ دوبارہ رکوع کی ضرورت نہ تھی تو یہ ٹھیک ہوا مگر سجدہ سہو اس صورت میں بھی لازم ہوگا۔’’(ولو نسیہ) أي القنوت (ثم تذکرہ في الرکوع لا یقنت) فیہ لفوات محلہ (ولا یعود إلی القیام) في الأصح لأن فیہ رفض الفرض للواجب، (فإن عاد إلیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ) لکون رکوعہ بعد قراء ۃ تامۃ (وسجد للسہو) قنت أولا لزوالہ عن محلہ‘‘(۱)’’ولو نسي القنوت فتذکر في الرکوع فالصحیح أنہ لا یقنت في الرکوع ولا یعود إلی القیام ہکذا في التاتارخانیۃ فإن عاد إلی القیام وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ، کذا في البحر الرائق‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: الاقتداء بالشافعي‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۶، ۴۴۷۔ …(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن: في صلاۃ الوتر‘‘: ج۱، ص: ۱۷۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 267