نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: {أحد} کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھا جاتا ہے ’’الساکن إذا حرک حرک بالکسر‘‘(۱)؛ اس لیے {أحدُنِ اللّٰہ} پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست ہے۔

(۱) وفیما قریٔ من قولہ تعالیٰ: قل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ الصمد، فشاذ۔ والأصل في تحریک الساکن الأول الکسر لما ذکرنا أنہ من سجیۃ النفس إذا لم تستکرہ علی حرکۃ أخری۔ (ابن الحاجب، الرضي الاستراذي، ’’باب التقاء الساکنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵)
وحق الساکن إذا حرک بالکسر۔ (محمد بن عبداللّٰہ، علل النحو: ج ۱، ص: ۱۶۴)
فجملۃ ہذا الباب في التحرک أن یکون الساکن الأول مکسوراً وذلک قولک أضرب وأکرم الرجل وأذہب وقل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ لأن التنوین ساکن وقع بعدہ حرف ساکن فصار بمنزلۃ باء أضرب ونحو ذلک۔ (الکتاب لسیبویہ، ’’إذا حذفت الف الوصل لالتقاء الساکنین‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۲؛ و الأصول في النحو، ’’الف الوصل‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص249

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ سنتیں وقت ظہر شروع ہونے کے بعد پڑھی ہیں خواہ اذان سے پہلے ہی پڑھی ہو ں تو جائز اور درست ہیں، اعادہ ان کا بعد ِ اذان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)

(۱)  و أما الصلاۃ المسنونۃ فھي السنن المعھودۃ للصلوات المکتوبۃ ۔۔۔۔ أما الأوّل فوقت جملتھا وقت المکتوبات لأنھا توابع للمکتوبات، فکانت تابعۃ لھا في الوقت، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص۲۸۴)
وھو سنۃ للفرائض الخمس في وقتھا ولو قضاء لأنہ سنۃ لصلاۃ حتی یبرد بہ لا للوقت لا یسن لغیرھا کعید (قولہ لعید أي وتر و جنازۃ و کسوف و استسقاء و تراویح و سنن رواتب لأنھا اتباع للفرائض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار ج۱، ص۸۵-۳۸۴، کتاب الصلوٰۃ، سعید، کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1772/43-1507

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

احناف کے نزدیک سجدہ  سہوکی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد ، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھير کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔

(ويسجد له بعد السلام سجدتين ثم يتشهد ويسلم) قال - عليه الصلاة والسلام -: «لكل سهو سجدتان بعد السلام» . وروى عمران بن حصين وجماعة من الصحابة: «أنه - صلى الله عليه وسلم - سجد سجدتي السهو بعد السلام» ، ثم قيل يسلم تسليمتين، وقيل تسليمة واحدة وهو الأحسن، ثم يكبر ويخر ساجدا ويسبح، ثم يرفع رأسه، ويفعل ذلك ثانيا، ثم يتشهد ويأتي بالدعاء ; لأن موضع الدعاء آخر الصلاة، وهذا آخرها.(الاختیار لتعلیل المختار،1/73)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر (بدائع الصنائع:١٧٣/١
)

امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورتوں کی گنجائش ہے ۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہو کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ درود  اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھي دونوں سلام ثابت ہے۔

ويأتي بالصلاة على النبي - عليه الصلاة والسلام -، والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح لأن الدعاء موضعه آخر الصلاة.-(قوله هو الصحيح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتين لأن كلا منهما آخر.وقيل قبل السجود عندهما وعند محمد بعده(فتح القدیر1/501)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر، وذكر الطحاوي أنه يأتي بالدعاء قبل السلام وبعده وهو اختيار بعض مشايخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذكار الموضوعة في الصلاة(بدائع الصنائع،1/173)

جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔

عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ: “إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم“ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری لہ (۱/۱۲۸)(يجب(سجدتان. و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد(رد المحتار،2/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  (۱) سوال میں مذکورہ افعال اگر امام خود نہیں کرتا؛ بلکہ وہ نوکر کرتا ہے جس کو اس کام کے لیے رکھا ہے اور امام کو اس کی اطلاع بھی ہوئی تو ایسی صورت میں اس غیر شرعی شکل میںامام کی شرکت بلا واسطہ نہیں ہوئی لہٰذا ان کی امامت میں نماز صحیح ہے۔(۱)
(۲) مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ہوجاتی ہے۔(۲)
(۳) مسجد سے متصل کمرے میں مذکورہ جملہ امور جائز اور صحیح ہیں؛ کیوں کہ یہ امور مساجد کی تعمیر کے مقاصد میں سے ہیں اور مقصد میں تعلیم وتعلم بھی ہے۔(۳)
(۴) اگر بغیر پگڑی کے نہیں مان رہا تھا تو پگڑی دے کر مکان لینے کی امام کے لیے گنجائش تھی اس لیے اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود ان من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)
(۲) أیضاً:
(۳) قال المصنف في البحر لعلامۃ: لأن المسجد ملکا لأحد وعزاہ إلی النہایۃ ثم قال: ومن ہنا یعلم جہل بعض مدرسي زماننا من منعہم من یدرس في مسجد تقرر في تدریسہ أوکراہتہم…لذلک زاعمین الاختصاص بہ دون غیرہم وہذا جہل عظیم۔۔۔ لأن المسجد مابني إلا لہا من صلوۃ أو اعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم أو تعلمہ وقرأۃ قرآن، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الثالث من الأشباہ، القول في احکام المسجد‘‘: ج۴، ص: ۶۳)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود إن من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  جو لوگ مذکورہ فی السوال قبائح و ناجائز امور کے مرتکب ہوں ان کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، وأما الفاسق عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص203

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوبارہ سوال نامہ بھی کسی ایک فریق کا معلوم ہوتا ہے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے، تو دونوں فریق کے بیانات درج ہونے چاہئیں۔
دوسری بات: حکم اور فیصل طے کرنے سے پہلے آپسی رضامندی سے کسی کو حکم بنانا چاہیے تھا، پھر حکم کی بات کوقبول کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، تیسری بات یہ کہ اب بھی واقعہ کی صداقت کی کوئی عملی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے نفس واقعہ پر ہم کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے ہیں، تاہم جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱) توبہ کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا اور اطاعت پر جمنا ہے۔ توبہ کی حقیقت میں چار چیزیں داخل ہیں: (۱) گناہ پر دل میں ندامت ہو (۲) فوری طور پر گناہ کو ترک کرے (۳) اور پختہ ارادہ کرے کہ دو بارہ یہ گناہ نہیں کرے گا، چناںچہ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’ہي الندم بالقلب وترک المعصیۃ في الحال والعزم علی أن لا یعود إلی مثلہا وأن یکون ذلک حیاء من اللّٰہ‘‘(۱) (۴) اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے یا حقوق اللہ سے اس کی تلافی کرنا۔ مثلاً اگر نماز چھوڑی ہیں، تو توبہ کے ساتھ ان نمازوں کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔(۲) اگر روزہ چھوڑا ہے، تو توبہ کے بعد روزے کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو، تو اس کی تلافی ہر حال میں کرے، مثلاً کسی کا مال لیا ہے، تو وہ مال واپس کرے، کسی کی غیبت کی ہے، تو محض توبہ سے غیبت کے گناہ معاف نہیں ہوں گے؛ بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی مانگے، غرض کہ حقوق کی مکمل تلافی کرے اور جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرے۔
(۲) جو امام خائن یا فاسق ہو، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے،(۳) لیکن اگر اس نے نماز پڑھائی، تو نماز ہو گئی ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کے لیے امامت کرنا مکروہ ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ نماز نیک اور فاسق ہر ایک کے پیچھے درست ہو جاتی ہے حدیث ’’صلو کل بر وفاجر‘‘(۴)
(۴) زکوٰۃ کے سلسلے میں جواب دے دیا گیا تھا اگر وصول کرنے والے نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں استعمال نہیں کیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور وصول کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔(۵)
(۵) فتوی حکم شرعی کا نام ہے یعنی مفتی سوال کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتاتا ہے اس پر عمل کرنا اس کی دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(۱) تفسیر قرطبي: ج ۵، ص: ۹۱۔

(۲) عن أنس بن مالک -رضی اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک، قال قتادۃٰ: وأقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۶۸۴)

ما یقضی بین الناس یوم القیامۃ في الدماء وظواہر الحدیث دالۃ علی أن الذي یقع أولاً المحاسبۃ علی حقوق اللّٰہ تعالیٰ قبل حقوق العباد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ‘‘: ج ۲، ص: ۷)
(۳) ویکرہ تقدیم الفاسق أیضاً لتساہلہ في الأمور الدینیۃ فلا یؤمن من تقصیرہ في الإتیان بالشرائط۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۷، دار الکتاب)
(۴) ملا علي قاري، عمدۃ القاري شرح البخاري: ج ۱۱، ص: ۴۸۔
(۵) {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیمٌہ۶۰} (سورۃ التوبہ: ۶۰)

توخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۴، رقم: ۱۷۷۲)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص292-293-294

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کے کھانسنے سے نماز میں یا نماز کے کسی رکن میں خلل ہوتا ہے، تو ایسے شخص کو چاہیے کہ صف کے کنارہ پر آخر میں کھڑا ہو جائے، تاکہ دوسروں کو پریشانی نہ ہو اور دوسروں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو اور لوگ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کر سکیں۔(۳) اگرمرض زیادہ ہو تو گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ البتہ جماعت سے نماز پڑھنا اس کے لیے بھی ضروری ہے(۱) احتیاط یہ ہے کہ مذکورہ صورت اختیار کر لے۔
(۱) والصلاۃ بالجماعۃ سنۃ في الأصح مؤکدۃ شبیہۃ بالواجب في القوۃ للرجال للمواظبۃ ولقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلاۃ الجماعۃ أفضل من صلاۃ أحدکم وحدہ بخمسۃ وعشرین جزء اً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ص: ۲۹۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:پہلے وقتیہ نماز ادا کریں اس کے بعد فائتہ نماز پڑھیں، جیسا کہ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔
’’فلایلزم الترتیب إذا ضاق الوقت المستحب حقیقۃ إذ لیس من الحکمۃ تفویت الوقتیۃ لتدارک الفائتۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت‘‘: مطلب: في تعریف الإعادۃ، ج ۲، ص: ۵۲۴-۵۲۵، (مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وفي الفتح: ویعتبر الضیق عند الشروع حتی لو شرع في الوقتیۃ مع تذکر الفائتۃ وأطال حتی ضاق لا یجوز إلا أن یقطعہا ثم یشرع فیہا، ولو شرع ناسیاً والمسألۃ بحالہا فتذکر عند ضیقہ جازت۔(أیضًا: ج ۲، ص: ۵۲۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویسقط الترتیب عند ضیق الوقت …… ولو قدم الفائتۃ جاز وأتم … ثم تفسیر ضیق الوقت أن یکون الباقي منہ ما لا یسع فیہ الوقتیۃ والفائتۃ جمیعاً حتی لو کان علیہ قضاء العشاء  مثلا، وعلم أنہ لو اشتغل بقضائہ ثم صلی الفجر تطلع الشمس قبل أن یقعد قدر التشہد، صلی الفجر في الوقت وقضیٰ العشاء بعد ارتفاع الشمس، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي عشر في قضاء الفـوائت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وبائی امراض کے موقع پر اذان دینا حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ البتہ حضرات فقہاء نے غم اور مصیبت کے وقت غم کو ہلکا کرنے کے لیے اذان دینے کی بات لکھی ہے(۲) حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر اذان دینے کو جائز لکھا ہے؛(۳) اس لیے سنت اور ضروری نہ سمجھتے ہوئے انفرادی طور پر اذان دینے کی گنجائش ہے  لیکن موجودہ حالات میں اجتماعیت سے ساتھ اور التزام کے طورپر اذان دینے کا کوئی جواز نہیں ہے اس لیے کہ یہ عمل بدعت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور حضرات صحابہ ؓسے طاعون وغیر ہ وبا کے وقت اذان دینا ثابت نہیں ہے۔

(۲) خرج بہا الأذان الذي یسن لغیر الصلاۃ کالأذان في أذن المولود الیمنی والإقامۃ في الیسری ویسن أیضاً عن الہم وسوء الخلق لخبر الدیلمی عن علي: رأني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزینا فقال: یا ابن أبي طالب أني أراک حزیناً فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک فإنہ درء الہم قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۳) مفتي کفایت اللّٰہ دہلويؒ،کفایت المفتي: ج ۳، ص: ۵۲، دار الاشاعت کراچی۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص184

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھانا مختلف روایات سے ثابت ہے۔
’’عن مالک بن الحویرث رضي اللّٰہ عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ حتی یحاذي بہما أذنیہ وفي روایۃ حتی یحاذي بہما فروع أذنیہ‘‘(۱)
’’عن وائل بن حجر أنہ أبصر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین قام إلی الصلاۃ رفع یدیہ حتی کانتا بحیال منکبیہ وحاذي إبہامیہ أذنیہ ثم کبر‘‘(۲)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، استحباب رفع الیدین حذو المنکبین‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۳۹۱۔
(۲) أخرجہ أبو داؤد في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب رفع الیدین‘‘: ج۱، ص: ۱۰۵، رقم: ۷۲۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص313