نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی سنتیں خواہ فرائض کے ساتھ قضا ہوں یا انفراداً سنتوں کی شرعاً قضاء نہیں ہے۔ ’’إذا فاتت عن وقتہا لا تقضی، سواء فاتت وحدہا أو مع الفریضۃ‘‘ (۱) ہاں مگر سنت فجر اگر فجر کے ساتھ قضا ہوجائیں تو طلوع کے بعد زوال سے پہلے فرضوں کے ساتھ ان کو بھی پڑھا جائے اور اگر زوال تک نہ پڑھ سکے تو زوال کے بعد سنت فجر کی بھی قضاء نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تنہا سنت فجر چھوٹ جائے اور فرض ادا کرلے تو بھی سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
’’فان فاتت مع الفرض تقضی مع الفرض… أما إذا فاتت وحدہا لا تقضی‘‘(۲) لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرتنہا سنت چھوٹ جائے تو بعد طلوع آفتاب قضاء کرلی جائیں۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع:کتاب الصلاۃ، السنن تقضی أم لا ج۱، ص: ۶۴۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) أیضا: ج۱، ص: ۶۴۳۔
وقضاء الفرض والواجب والسنۃ فرض وواجب وسنۃ لف ونشر مرتب۔ قولہ: وقضاء الفرض إلخ، لو قدم ذلک أول الباب أو آخرہ عن التفریع الآتي لکان أنسب۔ وأیضا قولہ والسنۃ یوہم العموم کالفرض والواجب ولیس کذلک، فلو قال وما یقضی من السنۃ لرفع ہذا الوہم رملي۔ (ابن عابدین،  رد المحتار : ج۲، ص: ۶۶)
وقید بسنۃ الفجر لأن سائر السنن لا تقضی بعد الوقت لاتبعا ولامقصودا واختلف المشایخ في قضائہا تبعاً للفرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الخالق وتکملۃ الطوري، ج ۲، ص: ۸۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص369

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2666/45-4429

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر حافظ نفل میں قرآن کریم سنائے اور دوسرا حافظ اس کی اقتداء میں اس کا قرآن کریم سنے باہر باقاعدہ کسی کو جماعت میں شرکت کے لئے نہ بلایا جائے اور یہ تعداد تین سےزیادہ نہ ہو تو قرآن کریم کو پختہ کرنے کے لئے اس طرح قرآن کریم سنانے کی گنجائش ہے۔

اما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره وثلاثة بواحد فيه خلاف‘‘ (رد المحتار: ج 2، ص: 48- 49)

ولا يصلي الوتر ولا التطوع بجماعة خارج رمضان أي يكره ذلك علي سبيل التداعي بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدر ولا خلاف في صحة الإقتداء إذ لا مانع

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوغہ پہن کر نمازپڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر ٹخنوں سے نیچے نہ ہونا چاہئے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ما أسفل من الکعبین من الإزارفي النار۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج۲، ص: ۸۶۱، رقم: ۵۷۸۷)
عن أبي ذرؓ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أنہ قال:ثلاثۃ لا یکلمہم اللّٰہ ولا ینظر إلیہم یوم القیامۃ، ولا یزکیہم ولہم عذاب ألیم، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا وخسروا فأعادہا ثلثا، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا، وخسروا، قال: المسبل، والمنان، والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب، أو الفاجر۔ (أخرجہ أبوداؤد في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ماجاء في الإسبال، الإزار‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم:۴۰۸۷)
إن الإسبال یکون في الإزار والقمیص والعامۃ وأنہ لا یجوز إسبالہ تحت الکعبین إن کان للخیلاء، فإن کان لغیرہا فہو مکروہ، وظواہر الأحادیث فی تقییدہا بالجر خیلاء تدل علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء … وأما القدر المستحب فیما ینزل إلیہ طرف القمیص والإزار فنصف الساقین کما في حدیث ابن عمر المذکور، وفي حدیث أبي سعید: إزارۃ المؤمن إلی أنصاف ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ما أسفل من ذلک فہو في النار، فالمستحب نصف الساقین والجائز بلا کراہۃ ما تحتہ إلی الکعبین فما نزل عن الکعبین فہو ممنوع فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم وإلا فمنع تنزیہ … قال القاضي: قال العلماء: وبالجملۃ یکرہ کل ما زاد علی الحاجۃ والمعتاد في اللباس من الطول والسعۃ واللّٰہ أعلم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الأول‘‘: ج۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص77

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے مقتدیوں کو اعتراض کا حق حاصل ہے مگر فتنہ و انتشار سے پرہیز کریں۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، وأما الفاسق عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ ‘‘: ص: ۳۰۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے امام ومؤذن کو پہلے اوقاف سے ہی وظیفہ ملتا تھا  لیکن جب اوقاف کا نظام معطل ہوگیا، تو لوگوں نے اپنے طور پر امام ومؤذن کے وظیفہ کا انتظام کیا اب جب کہ اوقاف سے دہلی میں تنخواہ بحال ہوگئی ہے؛ اس لیے اگر مسجد کمیٹی والے تنخواہ نہ دیں تو کوئی غلط نہیں ہے؛ اس لیے کہ امام ومؤذن کو وظیفہ ملنا چاہیے، چاہے کمیٹی دے یا وقف بورڈ دے۔
مسجد میںامام و مؤذن کے نام پر پہلے جو پیسہ جمع ہوتا تھا، اگر اس پیسے کو مسجد کمیٹی تعمیر میں لگاتی ہے، تو یہ عمل درست ہے۔
وقف بورڈ سے مسجد کے امام ومؤذن کو جو وظیفہ مل رہا ہے اس میں سے کچھ کمیٹی والوں کا لے لینااور تعمیر میں لگانا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ امام ومؤذن مصالح مسجد میں سب سے مقدم ہیںپہلے ان کی ضرورت پوری کی جائے گی تعمیری ضرورت اس کے بعد ہے۔ کمیٹی کا یہ عمل اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ یہ پیسے امام ومؤذن کی تنخواہ کے نام پر آرہے ہیں؛ اس لیے دوسرے مصرف میں استعمال میں لانا کیوں کر درست ہوگا؟
’’وتقطع الجہات للعمارۃ إن لم یخف ضرر بین فتح، فإن خیف کإمام وخطیب وفراش قدموافیعطی المشروط لہم-ویدخل في وقف المصالح قیم... إمام خطیب والمؤذن یعبر‘‘(۱)

(۱) ویبدأ من غلتہ بعمارۃ ثم ماہو أقرب لعمارتہ کإمام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدر کفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح، وتمامہ في البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب یبدأ بعد العمارۃ بما ہو أقرب إلیہا‘‘: ج۶، ص: ۵۶۰، دارالفکر، بیروت)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص291

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت طریقہ تو یہ ہے کہ اگر مقتدی ایک ہے، تو اس کو داھنی طرف کھڑا کیا جائے اور اگر بالکل پیچھے یا بائیں کھڑا ہو گیا، تو نماز کراہت کے ساتھ ادا ہو گئی۔(۱)
(۱) قولہ ویقف الواحد عن یمینہ والإثنان خلفہ لحدیث ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أنہ علیہ السلام صلی بہ وأقامہ عن یمینہ وہو ظاہر في محاذاۃ الیمین وہي المساواۃ، وہذا ہو المذہب خلافاً لما عن محمد من أنہ یجعل أصبعہ عند عقب الإمام، وأفاد الشارح أنہ لو وقف عن یسارہ فإنہ یکرہ یعني اتفاقاً، ولو وقف خلفہ فیہ روایتان أصحہما الکراہۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۶)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص409

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سایہدو مثل ہونے کے بعد (مفتی بہ قول کی رو سے) عصر کی نماز پڑھی جائے تو غروب شمس تک ایک گھنٹہ اور چند منٹ کا وقفہ رہتا ہے دو گھنٹہ کا نہیں۔(۱)
(۱) (وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین) لما قدمناہ من الخلاف (إلی غروب الشمس) علی المشہور لقولہ علیہ السلام: من أدرک رکعۃ من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک العصر، وقال الحسن بن زیاد: إذا اصفرت الشمس خرج وقت العصر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر اذان دی گئی تو ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اس اذان کا لوٹانا مستحب ہے، جیسا کہ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے میں لکھا ہے:
’’(ویکرہ أذان جنب (إلی قولہ) وقاعد: في الشامیۃ (قولہ: ویعاد أذان جنب إلخ) زاد القہستاني: والفاجر والراکب والقاعد والماشي، والمنحرف عن القبلۃ۔ وعلل الوجوب في الکل بأنہ غیر معتد بہ والندب بأنہ معتد بہ إلا أنہ ناقص، قال وہو الأصح کما في التمرتاشي‘‘(۱)
اذان سے قبل یا بعد میں درود پڑھنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: درود شریف پڑھنا بلا شک وشبہ افضل ترین عبادت ہے؛ لیکن اذان سے قبل یا بعد میں درود شریف پڑھنے کا جو طریقہ اور انداز آج کل اپنایا گیا ہے یا جو رواج لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ متعارف ہے یہ بلا شک وشبہ بدعت ہے، اس طرح پڑھنے کا حکم نہ قرآن وحدیث میں ہے اور نہ ہی فقہ اسلامی میں اگر درود پڑھنا ہی ہے تو مسجد یا گھر میں بیٹھ کر نہایت خشوع اور ادب کے ساتھ پڑھیں مذکورہ طریقہ جو لاؤڈ اسپیکر میں زور وشور سے درود ودعاء پڑھی جاتی ہے یہ بظاہر محض ریا کاری پر مبنی ہے اس سے بچنا ضروری ہے، جیسا کہ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے الاعتصام میں لکھا ہے۔
’’فإذا ندب الشرع مثلا إلی ذکر اللّٰہ، فالتزم قوم الاجتماع علیہ علی لسان واحد وصوت، أو في وقت معلوم مخصوص عن سائر الأوقات لم یکن في ندب الشرع ما یدل علی ہذا التخصیص الملتزم، بل فیہ ما یدل علی خلافہ، لأن التزام الأمور غیر اللازمۃ شرعاً شأنہا أن تفہم التشریع، وخصوصا مع من یقتدی بہ في مجامع الناس کالمساجد‘‘(۱)
’’وکذا في الشامي: ہل یکرہ رفع الصوت بالذکر والدعاء؟ قیل نعم‘‘(۲)
’’کما في روایۃ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳)

نیز اذان کے کلمات میں اضافہ کے بارے میں یاد رکھیں کہ شرعی اذان تو وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اس میں مزید کلمات کا اضافہ جائز نہیں ہے اور اگر اضافہ کردیا گیا تو وہ شرعی اذان نہیں رہے گی، اس لیے حدیث پاک سے جو اذان کے کلمات منقول ہیں ان ہی کواختیار دیا جائے۔ اپنی جانب اذان کے کلمات نہ بڑھائے جائیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن محیریز، عن أبي محذورۃ، أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
علمہ ہذا الأذان: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، ثم یعود فیقول، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہُ، أشھد أن محمدا رسول اللّٰہ، أشھد أن محمدا رسول اللّٰہ، حی علی الصلاۃ مرتین، حی علی الفلاح مرتین زاد إسحاق: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اللّٰہ۔‘‘(۴)
’’الأذان خمس عشرۃ کلمۃً و آخرہ عندنا لا إلہ إلا اللّٰہ، کذا فی فتاوی قاضی خان۔ و ہي: اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ، أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ، حي علی الصلاۃ، حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح، حي علی الفلاح، اللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر، لا إلہ إلا اللّٰہ، ہکذا في الزاہدي‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر مجنب في أذان، ج ۲، ص: ۶۰، ۶۱۔
(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشاطبي، ’’کتاب الاعتصام: الباب الرابع: في مأخذ أہل البدع بالاستدلال، فصل من صور ابتاع الزائغین للمتشبہات، ومنہا: تحریف الأدلۃ عن مواضعہا‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴)
(۲) (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۷۰)
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۴) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵ رقم: ۳۷۹)
(۱)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ، ج ۱، ص: ۱۱۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص180

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’ض‘‘ کو مشابہ بالغین پڑھنا درست نہیں ہے، ایسی کوئی قرأت نہیں ہے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ کسی مجوّد سے اپنی اصلاح کرلیں، تاہم نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’إلا بما یشق الخ: قال في الخانیۃ والخلاصۃ: الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیر المعنی، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین، والطاء مع التاء، قال أکثرہم: لا تفسد۔اھـ۔ وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلک تفسد، وإن جری علی لسانہ أو لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو المختار۔ حلیۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک۔ بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص248

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہوا ہے تو بنیت تہجد پڑھی گئیں دو نفل جو بوقت صبح صادق پڑھی گئی بعد میں معلوم ہوا کہ وقت تہجد نہیںتھا؛ بلکہ طلوع صبح ہوچکی تھی تو وہ سنت فجر کے قائم مقام ہوں گی سنت فجر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) لو صلی تطوعا في آخر اللیل فلما صلی رکعۃ طلع الفجر فإن الأفضل إتمامہا؛ لأن وقوعہ في التطوع بعد الفجر لا عن قصد ولا ینوبان عن سنۃ الفجر علی الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار،  : ج۱، ص: ۳۷۴، دار الفکر)
ولو صلی رکعتین وہو یظن أن اللیل باق، فإذا تبین أن الفجر قد کان طلع … وقال المتأخرون یجزیہ عن رکعتي الفجر وذکر الشیخ الإمام الأجل شمس الأئمۃ الحلواني في شرح کتاب الصلاۃ ظاہر الجواب، أنہ یجزیہ عن رکعتي الفجر؛ لأن الأداء حصل في الوقت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ  : ج ۱، ص: ۱۷۱، فیصل،دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371