نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: پہلی رکعت میں سورۃ الناس نہیں پڑھنی چاہئے اگر پڑھ دی تو دوسری رکعت میں الم سے پڑھنا چاہئے تاہم صورت مسئولہ میں نماز ادا ہوگئی ہے سجدہ سہو لازم نہیں ہے۔(۲)(۲) وأن یقراء منکوساً … ولایکرہ في النفل شيء من ذلک۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: الإستمتاع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)وإذا قرأ في الأولیٰ قل أعوذ برب الناس لا عن قصد یکررہا في الثانیۃ ولا کراہۃ فیہ حذرا عن کراہۃ القراء ۃ منکوساً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 269

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت سجدہ سہو واجب ہوگیا تھا اگر سجدہ سہو کر لیا تو نماز درست ہوگئی ورنہ واجب الاعادہ ہے۔(۱)(۱) وجہر بقراء ۃ الفجر وأولي العشائین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: … باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۵)ومنہا الجہر والاخفاء: حتی لو جہر فیما یخافت أو خافت فیما یجہر وجب علیہ سجود السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 268

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر امام نے وتر میں دعا قنوت پڑھے بغیر رکوع کردیا تو بہتر یہ ہے کہ رکوع سے نہ لوٹے اور آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرے تاہم اگر لوٹ آیا اور دعا قنوت پڑھی پھر رکوع کیا اگرچہ دوبارہ رکوع کی ضرورت نہ تھی تو یہ ٹھیک ہوا مگر سجدہ سہو اس صورت میں بھی لازم ہوگا۔’’(ولو نسیہ) أي القنوت (ثم تذکرہ في الرکوع لا یقنت) فیہ لفوات محلہ (ولا یعود إلی القیام) في الأصح لأن فیہ رفض الفرض للواجب، (فإن عاد إلیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ) لکون رکوعہ بعد قراء ۃ تامۃ (وسجد للسہو) قنت أولا لزوالہ عن محلہ‘‘(۱)’’ولو نسي القنوت فتذکر في الرکوع فالصحیح أنہ لا یقنت في الرکوع ولا یعود إلی القیام ہکذا في التاتارخانیۃ فإن عاد إلی القیام وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ، کذا في البحر الرائق‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: الاقتداء بالشافعي‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۶، ۴۴۷۔ …(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن: في صلاۃ الوتر‘‘: ج۱، ص: ۱۷۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں قعدہ اخیرہ میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوا اور سجدہ سہو کرلیا گیا تو تراویح کی دو رکعت درست ہوگئیں شبہ نہ کیا جائے البتہ تیسری رکعت باطل ہوگئی اس تیسری رکعت میں پڑھا ہوا قرآن پاک لوٹایا جائے گا تاکہ تراویح میں قرآن پاک پورا ہوجائے۔(۱)(۱) ولو صلی أربعاً بتسلیمۃ ولم یقعد في الثانیۃ ففي الاستحسان لاتفسد وہو اظہر الروایتین عن أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ … وعن أبي بکر الإسکاف۔ أنہ سئل عن رجل قام إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال إن تذکر في القیام ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد للثالثۃ، فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخری کانت ہذہ الأربع عن تسلیمۃ واحدۃ، وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد اختلفوا فیہ فعلی قول العامۃ یجوز عن تسلیمتین، وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع: في النوافل، فصل: في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور سب کی نماز درست ہوگئی ہے۔(۲)(۲) ولا یجب السجود إلا بترک واجب أو تاخیرہ أو تاخیر رکن أو تقدیمہ أو تکرارہ أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب … ولا یجب بترک التعوذ والبسملۃ في الأولیٰ والثناء وتکبیرات الانتقالات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)إن ذکر آیۃ مکان إن وقف علی الأولیٰ وقفاً تاماً وابتدأ بالثانیۃ لا تفسد صلاتہ … وإن تغیر المعنی بأن قرأ، إن الأبرار لفي جہیم وإن الفجار لفي نعیم … تفسد صلاتہ۔ (فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: باب الحدث في الصلاۃ، وما یکرہ فیہ ومالا یکرہ، فصل: فیما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 266

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صرف ایک طرف (دائیں جانب) سلام پھیرے اگر دونوں طرف سلام پھیر دیا تب بھی کوئی حرج نہیں سجدہ سہو ادا ہو جائے گا، لیکن ایسا کرنا نہیں چاہئے۔’’یجب بعد سلام واحد عن یمینہ فقط لأنہ المعہود وبہ یحصل التحلیل  وہو الأصح‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰۔یجب سجدتان لأنہ علیہ السلام سجد سجدتین للسہو وہو جالس بعد التسلیم وعمل بہ الأکابر من الصحابۃ والتابعین بتشہد وتسلیم۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: چوں کہ واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہو گئی اس لیے سجدہ سہو سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں نماز قابل اعادہ ہوگی۔(۱)(۱) یجب سجدتان بتشہد وتسلیم لترک واجب بتقدیم أو تأخیر أو زیادۃ أو نقص … سہواً۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰)وإذا قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو وکذلک إذا قرأ الفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: دوران نماز جس وقت یاد آئے اسی وقت دوسرا سجدہ کرے اور پھر آخر میں سجدہ سہو کرے۔ اگر سجدہ سہو نہ کیا تو نماز کا اعادہ کرے۔ کیوں کہ دونوں سجدے فرض ہیں اور فرض کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔(۱)(۱) ومنہا السجود، السجود الثاني فرضٌ کالأول بإجماع الأمۃ، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷)(و) یفترض (العود إلی السجود) الثاني لأن السجود الثاني کالأول فرض باجماع الأمۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، وأرکانہا‘‘: ص: ۲۳۳، ۲۳۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 264

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر مقتدی نے امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرا اور سوتا رہا اور جوں ہی بیدار ہو سلام پھیر دیا تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہوگا۔(۱)(۱) وقولہ مع الإمام: بیان للأفضل یعنی الأفضل للمأموم المقارنۃ في التحریمۃ والسلام عند أبي حنیفۃ، وعندہما الأفضل عدمہا؛ للاحتیاط، ولہ أن الاقتداء عقد موافقۃ، وإنہا في القران لا في التأخیر، وإنما شبہ السلام بالتحریمۃ؛ لأن المقارنۃ في التحریمۃ باتفاق الروایات عن أبي حنیفۃ، وأما في السلام ففیہ روایتان، لکن الأصح ما في الکتاب، کما في الخلاصۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۱)…ومنہا) أنہ لو سلم ساہیا أو قبلہ لایلزمہ سجود السہو، وإن سلم بعدہ لزمہ، کذا في الظہیریۃ، ہو المختار، کذا في جواہر الأخلاطي، وإن سلم مع الإمام علی ظن أن علیہ السلام مع الإمام فہو عمد فتفسد، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ۔ قولہ: (لو أتمہ إلخ) أي لو أتم المؤتم التشہد، بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ؛ لحصولہ بعد تمام الأرکان؛ لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ؛ لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قراء ۃ التشہد وقد حصل، وإنما کرہ للمؤتم ذلک؛ لترکہ متابعۃ الإمام بلا عذر، فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ، کما سیأتي قبیل باب الاستخلاف، (قولہ: فلو عرض مناف) أي بغیر صنعہ کالمسائل الأثنی عشریۃ وإلا بأن قہقہ أو أحدث عمدا فلا تفسد صلاۃ الإمام أیضا کما مر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ للکافر ولجمیع المؤمنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 263

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں طبعی عذر چھینک ڈکار وغیرہ کی وجہ سے جو تاخیر ہو رہی ہے اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔(۳)(۳) أما مالا یمکن الامتناع عنہ فلا یفسد عند الکل کالمریض إذا لم یملک نفسہ من الأمین والتاؤہ لأنہ حینئذ کالعطاس والجشاء إذا حصل بہما حروف۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، … ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۷)(والتنحنع) بحرفین (بلا عذر) أما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا (أو) بلا (غرض صحیح) فلو لتحسین صوتہ أو یہتدی إمامہ للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح …… قولہ: (إلا لمریض) قال في المعراج: ثم إن کان الأنین من وجع مما یمکن الإمتناع عنہ، فعن أبي یوسف یقطع الصلا، وإن کان مما لا یمکن لا یقطع۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ: وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۶، تا ۳۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 262