Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیماری کا علاج مجبوری ہے اس لیے حسب ضرورت آپریشن کرنا درست ہے اور اس کی وجہ سے امامت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، امامت درست ہے، لیکن بوقت ضرورت قدر ضرورت سے تجاوز ہر گز نہ کیا جائے آپریشن میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔(۱)
(۱) و الأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ و فسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، و قبل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدا (للقراء ۃ، ثم الأروع) أی: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص78
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مذکور ہ میں اگر واقعی طور پر نکاح سے پہلے اس شخص نے آئندہ ہونے والی بیوی سے زنا کرلیا ہے جیسا کہ اس کا اقرار بھی ہے تو وہ شخص گناہگار ہے
اور فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے(۱) البتہ اگر وہ شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو توبہ سے اس کا گناہ معاف ہوجائے گا اور اس کی امامت بھی درست اور صحیح ہوجائے گی کہ کفر و شرک کے علاوہ سبھی گناہ سچی پکی توبہ سے معاف ہوجاتے ہیں ۔ (۲)
’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۱)
(۱) یکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق: فاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۸)
(۲) {وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج} (سورۃ النساء: ۴۸)
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص202
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب جس نے چالیس سال خدمت انجام دی ہے اور بظاہر لوگوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تو محض اس بنیاد پر کہ انہوں نے ایک دھوکہ بازکمپنی کا ساتھ دیا تھا امامت سے برطرف کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اولاً امام صاحب پر الزام ثابت نہیں ہے اور اگر الزام ثابت ہوجائے، تو امام صاحب نے دھوکہ باز کمپنی کا ساتھ جان بوجھ کر نہیں دیا ہوگا وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ کمپنی صحیح ہے؛ اس لیے اس کا ساتھ دیا ہوگا؛ اس لیے امام صاحب امامت وخطابت کرسکتے ہیں۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶ } (سورۃ الحجرات: ۶)
قولہ تعالیٰ: {{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا} لدلائل قد قامت علیہ فثبت أن مراد الآیۃ في الشہادات والزام الحقوق أو إتیان أحکام الدین والفسق السني لیست من جہۃ الدین والاعتقاد۔ (أحمد بن علی ابوبکر الرازی الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ج۲، ص: ۲۷۹)
قال في البحر: واستفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلا جنحۃ عدمہا لصاحب وظیفۃ في وقف بغیر جنحۃ وعدم أہلیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الوقف، مطلب لایصح عزل صاحب وظیفۃ بلاجنحۃ أو عدم أہلیۃ‘‘: ج۶، ص: ۵۸۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص290
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف بندی کی ترتیب اس طرح حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ پہلے مردوں کی صف بندی کی جائے، اس کے بعد والی صف میں بچوں کو کھڑا کیا جائے،(۱) البتہ اگر ایک ہی بچہ ہے تو اس کو بڑوں کی صف میں شامل کر لیا جائے الگ سے نہ کھڑا ہو۔(۲)
(۱) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ السلام: لیلیني منکم أولا الأحلام والنہي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۷)
(۲) ویقتضي أیضاً أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وإن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 409
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کامل طور پر طلوع شمس کے بعد سے اشراق کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔اور یہ وقت تقریباً پندرہ بیس منٹ ہوتا ہے۔(۱)
(۱)ومن المندوبات: صلاۃ الضحیٰ: وأقلہا رکعتان وأکثرہا ثنتا عشرۃ رکعۃ ووقتہا من ارتفاع الشمس إلی زوالہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحیٰ) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وابتداؤہ من ارتفاع الشمس إلی قبیل زوالہا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘: ص: ۳۹۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیر نامسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہیں کرنا چاہئے، ایسا کر نا مکر وہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہو گیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہو گئی اور اس کے بعد پڑھی گئی نماز بلا کر اہت درست ہو گئی۔ جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اس کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے، اگر مؤذن ناراض ہو تاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہو تا ہے تو دوسرا شخص بلا اجازت بھی اقامت کہہ سکتا ہے۔ نماز بہر صورت درست ہو جاتی ہے۔
’’قولہ: ویلتفت یمینا وشمالا بالصلاۃ والفلاح لما قدمناہ ولفعل بلال رضي اللّٰہ عنہ علی ما رواہ الجماعۃ، ثم أطلقہ فشمل ما إذا کان وحدہ علی الصحیح؛ لکونہ سنۃ الأذان فلایترکہ خلافا للحلواني؛ لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي السراج الوہاج: أنہ من سنن الأذان فلایخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول‘‘
’’وقید بالیمین والشمال؛ لأنہ لایحول وراء ہ لما فیہ من استدبار القبلۃ، ولا أمامہ لحصول الإعلام في الجملۃ بغیرہا من کلمات الأذان، وقولہ بالصلاۃ والفلاح لف ونشر مرتب یعني أنہ یلتفت یمینا بالصلاۃ وشمالاً بالفلاح، وہو الصحیح خلافا لمن قال: إن الصلاۃ بالیمین والشمال والفلاح کذلک، وفي فتح القدیر: أنہ الأوجہ، ولم یبین وجہہ، وقید بالالتفات؛ لأنہ لایحول قدمیہ؛ لما رواہ الدارقطني عن بلال قال: أمرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أذنا أو أقمنا أن لانزیل أقدامنا عن مواضعہا، وأطلق في الالتفات ولم یقیدہ بالأذان، وقدمنا من الغنیۃ أنہ یحول في الإقامۃ أیضًا، وفي السراج الوہاج لایحول فیہا لأنہا لإعلام الحاضرین بخلاف الأذان فإنہ إعلام للغائبین، وقیل: یحول، إذا کان الموضع متسعًا ‘‘(۱)
’’ویحول في الإقامۃ إذا کان المکان متسعًا وہو أعدل الأقوال کما في النہر‘‘(۲)
’’أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقاً)، وإن بحضورہ کرہ أن لحقہ وحشۃ‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۴۴۹،۴۵۰۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج۲، ص: ۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص182
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: {أحد} کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھا جاتا ہے ’’الساکن إذا حرک حرک بالکسر‘‘(۱)؛ اس لیے {أحدُنِ اللّٰہ} پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست ہے۔
(۱) وفیما قریٔ من قولہ تعالیٰ: قل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ الصمد، فشاذ۔ والأصل في تحریک الساکن الأول الکسر لما ذکرنا أنہ من سجیۃ النفس إذا لم تستکرہ علی حرکۃ أخری۔ (ابن الحاجب، الرضي الاستراذي، ’’باب التقاء الساکنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۵)
وحق الساکن إذا حرک بالکسر۔ (محمد بن عبداللّٰہ، علل النحو: ج ۱، ص: ۱۶۴)
فجملۃ ہذا الباب في التحرک أن یکون الساکن الأول مکسوراً وذلک قولک أضرب وأکرم الرجل وأذہب وقل ہو اللّٰہ أحد، اللّٰہ لأن التنوین ساکن وقع بعدہ حرف ساکن فصار بمنزلۃ باء أضرب ونحو ذلک۔ (الکتاب لسیبویہ، ’’إذا حذفت الف الوصل لالتقاء الساکنین‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۲؛ و الأصول في النحو، ’’الف الوصل‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص249
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ سنتیں وقت ظہر شروع ہونے کے بعد پڑھی ہیں خواہ اذان سے پہلے ہی پڑھی ہو ں تو جائز اور درست ہیں، اعادہ ان کا بعد ِ اذان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۱) و أما الصلاۃ المسنونۃ فھي السنن المعھودۃ للصلوات المکتوبۃ ۔۔۔۔ أما الأوّل فوقت جملتھا وقت المکتوبات لأنھا توابع للمکتوبات، فکانت تابعۃ لھا في الوقت، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،کتاب الصلوٰۃ، ج۱، ص۲۸۴)
وھو سنۃ للفرائض الخمس في وقتھا ولو قضاء لأنہ سنۃ لصلاۃ حتی یبرد بہ لا للوقت لا یسن لغیرھا کعید (قولہ لعید أي وتر و جنازۃ و کسوف و استسقاء و تراویح و سنن رواتب لأنھا اتباع للفرائض۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار ج۱، ص۸۵-۳۸۴، کتاب الصلوٰۃ، سعید، کراچی)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص371
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1772/43-1507
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
احناف کے نزدیک سجدہ سہوکی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد ، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھير کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔
(ويسجد له بعد السلام سجدتين ثم يتشهد ويسلم) قال - عليه الصلاة والسلام -: «لكل سهو سجدتان بعد السلام» . وروى عمران بن حصين وجماعة من الصحابة: «أنه - صلى الله عليه وسلم - سجد سجدتي السهو بعد السلام» ، ثم قيل يسلم تسليمتين، وقيل تسليمة واحدة وهو الأحسن، ثم يكبر ويخر ساجدا ويسبح، ثم يرفع رأسه، ويفعل ذلك ثانيا، ثم يتشهد ويأتي بالدعاء ; لأن موضع الدعاء آخر الصلاة، وهذا آخرها.(الاختیار لتعلیل المختار،1/73)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر (بدائع الصنائع:١٧٣/١)
امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورتوں کی گنجائش ہے ۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہو کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھي دونوں سلام ثابت ہے۔
ويأتي بالصلاة على النبي - عليه الصلاة والسلام -، والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح لأن الدعاء موضعه آخر الصلاة.-(قوله هو الصحيح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتين لأن كلا منهما آخر.وقيل قبل السجود عندهما وعند محمد بعده(فتح القدیر1/501)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر، وذكر الطحاوي أنه يأتي بالدعاء قبل السلام وبعده وهو اختيار بعض مشايخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذكار الموضوعة في الصلاة(بدائع الصنائع،1/173)
جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔
عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ: “إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم“ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری لہ (۱/۱۲۸)(يجب(سجدتان. و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد(رد المحتار،2/79)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: (۱) سوال میں مذکورہ افعال اگر امام خود نہیں کرتا؛ بلکہ وہ نوکر کرتا ہے جس کو اس کام کے لیے رکھا ہے اور امام کو اس کی اطلاع بھی ہوئی تو ایسی صورت میں اس غیر شرعی شکل میںامام کی شرکت بلا واسطہ نہیں ہوئی لہٰذا ان کی امامت میں نماز صحیح ہے۔(۱)
(۲) مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ہوجاتی ہے۔(۲)
(۳) مسجد سے متصل کمرے میں مذکورہ جملہ امور جائز اور صحیح ہیں؛ کیوں کہ یہ امور مساجد کی تعمیر کے مقاصد میں سے ہیں اور مقصد میں تعلیم وتعلم بھی ہے۔(۳)
(۴) اگر بغیر پگڑی کے نہیں مان رہا تھا تو پگڑی دے کر مکان لینے کی امام کے لیے گنجائش تھی اس لیے اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود ان من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)
(۲) أیضاً:
(۳) قال المصنف في البحر لعلامۃ: لأن المسجد ملکا لأحد وعزاہ إلی النہایۃ ثم قال: ومن ہنا یعلم جہل بعض مدرسي زماننا من منعہم من یدرس في مسجد تقرر في تدریسہ أوکراہتہم…لذلک زاعمین الاختصاص بہ دون غیرہم وہذا جہل عظیم۔۔۔ لأن المسجد مابني إلا لہا من صلوۃ أو اعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم أو تعلمہ وقرأۃ قرآن، (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الثالث من الأشباہ، القول في احکام المسجد‘‘: ج۴، ص: ۶۳)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوۃ مع أداء الأرکان وعموہما موجود إن من غیر نقص في الشرائط والأرکان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص79