Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان و اقامت اور جماعت کے اوقات مقرر کرکے نماز ادا کرنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز بغیر اذان واقامت کے ادا کرلی گئی تو اس صورت میں بھی ادا ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ۔(۱)
(۱) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان ولا یکرہ ترکہما لمن یصلی في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
قال في الدر : وکرہ ترکہما معًا … بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ: لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ: ج ۲، ص: ۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص177
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا جائز ہے اس میں کوئی کراہت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر ظہر کی نماز سے قبل چار سنت نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے؛ لہٰذا ایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ فرض کے بعد دو سنت پڑھ کر فوت شدہ چار سنتیں ادا کرے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاھن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب آخر‘‘: ج۱، ص ۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1147/42-366
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مسجد میں باضابطہ امام ومؤذن کے ذریعہ جماعت کا نظم ہو وہاں مسافرین کا اسی جگہ اپنی جماعت کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم اس سے اہل محلہ کی جماعت اصلیہ پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اہل محلہ اپنی نماز معمول کے مطابق اذان و اقامت کے ساتھ ہی ادا کریں گے۔
’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ ، إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادي‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولا یجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)
لأن التکرار یؤدی إلی تقلیل الجماعة لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة فیستعجلون فتکثرالجماعة، وإذا علموا أنها لا تفوتهم یتأخرون فتقل الجماعة وتقلیل الجماعة مکروه‘‘. (بدائع،کتاب الصلاة، فصل في بیان محل وجوب الأذان ۱/۱۵۳)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1608/43-1230
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان مسبوقین کو کھڑا نہیں ہونا چاہئے بلکہ امام کا انتظار کرنا چاہئے ، اس لئے ان کی نماز فاسد ہوگئی۔ وہ نماز توڑ کر اپنی انفرادی نماز اداکریں ۔
ولوقام امامہ لخامسۃ فتابعہ ان بعد القعود تفسد والا لا حتی یقید الخامسۃ بسجدۃ (شامی 1/599) ولوقام الالمام الی الخامسۃ فتابعہ المسبوق ان قعد الامام علی راس الرابعۃ تفسد صلوۃ المسبوق وان لم یقعد لم یفسد حتی یقید الخامسۃ بالسجدۃ فاذا قیدھا بالسجدۃ فسدت صلوۃ الکل (الھندیۃ 1/150 کتاب الصلوۃ ، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1979/44-1921
بسم اللہ الرحمن الرحیم: وہ کپڑے جن پر عربی کے مقدس کلمات لکھے ہوئےہوں، ان کو استعمال کرنے سے ان کلمات کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ان کو پہننا مناسب نہیں ہے۔
جائے نماز پر پھولوں سے نقش و نگار بنایاجاتاہے ، اگر بہت غور سے دیکھاجائے تو بعض مرتبہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کسی جاندار کی تصویر ہے، حالانکہ وہ حقیقت میں تصویر نہیں ہوتی ہے، اس لئے اس پر شبہہ نہ کیاجائے ، ان پر نماز درست ہوجاتی ہے۔ البتہ اگر ہر ایک کو اس پر جاندار کی یا کسی دیوی وغیرہ کی تصویر صاف نظر آتی ہو تو پھر تصاویر محرمہ کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے اس پر نماز درست نہیں ہوگی۔ اور اس جائے نماز کو مسجد میں بچھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق:اگر وہ موچی ہے اور نماز پڑھانی جانتا ہے اور قرآن پاک صحیح پڑھتا ہے تو اس کے پیچھے سب کی نماز درست ہوگی۔(۱)
مسجد محلہ جس میں کہ امام مقرر ہو محلہ کے اکثر نمازی اسی میں نماز پڑھتے ہوں تو مفتی بہ قول کی رو سے جماعت ثانیہ اس میں مکروہ ہوگی۔(۲)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ۔ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقراء ۃ، ثم الأروع أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، رد المحتار) (أیضًا:)
(۲) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لافي مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن، قولہ: ویکرہ أي تحریمًا؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ الخ)۔۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعًا۔ ۱ہـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: (أیضًا: ص: ۲۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص74
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ اشخاص کی کمائی پوری کی پوری حرام ہو، کمائی کا کوئی جائز طریقہ موجود ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ اشخاص کے ساتھ کھانا پینا وغیرہ درست نہیں ہے اور اگر کوئی جائز کمائی بھی ہو تو کھانے پینے کی گنجائش ہے؛ اسی اعتبار سے امام صاحب کو بھی عمل کرنا چاہئے اس کے خلاف عمل کرنا درست نہیں اگر اس کے خلاف عمل ہو تو امامت میں بھی کراہت ہے۔ (۱)
(۱) آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۷، زکریا، دیوبند)
کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص200
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت عبادت ہے اور عبادت پر اجرت فقہاء مقتدمین کے نزدیک ناجائز ہے؛ اس لیے کہ طاعت پر اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن حضرات متاخرین نے طاعت پر اجرت کو ضرورتاً جائز قرار دیا ہے، کیوں کہ پہلے بیت المال سے دینی خدمت گاروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا، اب بیت المال اور اوقاف کے نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے وظیفہ نہیں دیا جاتا ہے اب اگر دینی خدمت گاروں کو تنخواہ نہیں دی گئی تو جمعہ وجماعت کا نظام متاثر ہو جائے گا، اس لیے امام کی تنخواہ مقرر کرنا درست ہے، دین کی بقاء اور آبیاری اس سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تنخواہ لینے کی وجہ ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
’’إن المتقدمین منعوا أخذ الأجرۃ علی الطاعات وأفتی المتأخرون بجواز التعلیم والإمامۃ کان مذہب المتأخرین ہو المفتی بہ‘‘(۱)
’’ویفتی الیوم بصحتہا أي الإجارۃ علی تعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص:۵۶۸۔
(۲) أیضًا:۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص288
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف اول میں جگہ خالی چھوڑ کر دوسری صف بنانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر صف اول میں جگہ نہ ہو تو آنے والا دوسری صف میں کھڑا ہو جائے، اور ممکن ہو تو کسی ایک مقتدی کو صف اول سے کھینچ کر اپنے ساتھ دوسری صف میں کھڑا کر لے، لیکن آج کل لوگوں میں جہالت غالب ہے، اگلی صف سے کھینچنے میں نماز کے فساد کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے تھوڑا انتظار کرے کہ کوئی مصلی آجائے تو اس کو ساتھ لے لے اور اگر کوئی ساتھ میں کھڑا ہونے والا نہ ہو تو تنہا دوسری صف بنا لے۔ اگر کوئی شخص دوسری صف میں تنہا کھڑا ہو جب کہ پہلی صف میں ایک آدمی کی جگہ باقی ہو تو آنے والے کو چاہئے کہ دوسری صف میں کھڑے ہونے والے کے ساتھ کھڑا ہو جائے، اور اگر دوسری صف میں دو لوگ ہوں اور پہلی صف میں ایک آدمی کی گنجائش ہے تو آنے والے کو چاہئے کہ صف اول کو پُر کرے، اور اس کے لیے اگر نمازی کے سامنے سے گزر کر جانا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۱)
(۱) کرہ کقیامۃ في صف خلف صف فیہ فرجۃ … ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم، وفي الحدیث من سد فرجۃ غفر لہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ، وبہذا یعلم جہل من یستمسک عند دخول داخل بجنبہ في الصف، ویظن أنہ ریاء کما بسط في البحر (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)
وقدمنا کراہۃ القیام في صف خلف صف فیہ فرجۃ للنہی، وکذا القیام منفردا وإن لم یجد فرجۃ بل یجذب أحدا من الصف ذکرہ ابن الکمال، لکن قالوا في زماننا ترکہ أولٰی، فلذا قال في البحر: یکرہ وحدہ إلا إذا لم یجد فرجۃ۔ (أیضًا:)
والأولٰی في زماننا عدم الجذب والقیام وحدہ وفي الخلاصۃ إن صلی خلف الصف منفردا مختارا من غیر ضرورۃ یجوز وتکرہ، ولو کبر خلف الصف وأراد أن یلحق بالصف یکرہ، وفي الفتح عن الدرایۃ لو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف یکرہ إجماعا، والأفضل أن یقوم في الصف الأخیر إذا خاف إیذاء أحد وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکان الوقوف فیہ اختلاف۔ وفي الشرح إذا تکامل الصف الأول لا ینبغي أن یتزاحم علیہ لما فیہ من الإیذاء (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروھات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص407
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بلا ثبوت شرعی کسی کو عیب لگانا سخت گناہ ہے۔ قرآن کریم میںارشاد خداوندی ہے۔{اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط}(۱) لیکن اگر صورت مذکورہ واقعی صحیح ہے، جیسا کہ بتایا گیا ہے، تو ایسے شخص کو مؤذن نہ بنانا چاہئے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ کسی دیندار پرہیزگار شخص کو مؤذن بنایا جائے۔(۲)
(۱) سورۃ الحجرات: ۱۲۔
(۲) وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
ویکرہ أذان الفاسق ولایعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضًا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰،مختار اینڈ کمپنی دیوبند)؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہ، باب فضل الأذان وثواب المؤذنین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۷۲۶)
ومنہا: (أي من سنن الأذان) أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن، والأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل بیان سنن الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۲)
و منہا: أي من صفات المؤذن أن یکون تقیاً؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الإمام ضامن، والمؤذن مؤتمن، و الأمانۃ لا یؤدیہا إلا التقي۔ (ومنہا): أن یکون عالما بالسنۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤمکم أقرؤکم، و یؤذن لکم خیارکم، و خیار الناس العلماء۔ (أیضًا)
و ینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ، کذافي النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
و یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد، ہکذافي الذخیرۃ۔ (أیضاً)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص178