Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز فجر میں جماعت کھڑی ہوگئی ہو تو مسجد سے باہر سنت فجر پہلے پڑھے ۔ اگر یہ امید ہے کہ ایک رکعت امام کے ساتھ مل سکتی ہے تو سنت پہلے پڑھے اس کے بعد امام کے ساتھ شریک ہوکر فرض کی تکمیل کرے اور اگر ایک رکعت بھی امام کے ساتھ ملنے کی امید نہ ہو؛ بلکہ اندیشہ ہو کہ دونوں رکعتیں چھوٹ جائیں گی تو جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت فجر چھوڑ دے۔
’’إلا رکعتي الفجر، فإنہ یصلیہما خارج المسجد، وإن فاتتہ رکعۃ من الفجر، فإن خاف أن تفوتہ الفجر ترکہما‘‘(۱) صرف قاعدہ ٔاخیرہ کے مل جانے کی امید پر سنتیں نہ پڑھی جائیں۔
جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد کوئی بھی سنت یا نفل مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے اس سے بظاہر جماعت سے انحراف معلوم ہوتا ہے اس لیے خواہ سنت فجر ہو خارج از مسجد پڑھی جائیں مسجد کی سہ دری وغیرہ میں یا اگر خارج از مسجد کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد کے فرش پر آخری صف میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
’’یکرہ لہ التطوع في المسجد۔ سواء کان رکعتي الفجر أو غیرہما من التطوعات لأنہ یتہم بأنہ لا یری صلاۃ الجماعۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل الصلاۃ المسنونۃ و بیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۹، زکریا دیوبند۔)
(۲) أیضاً:۶۳۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص368
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 978
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اتنی بڑی آبادی کا گاؤں قریہ کبیرہ میں آتا ہے اور اس میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست ہے۔ تاہم علاقہ کے علماء سے معائنہ کرالیں تاکہ تسلی رہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: (۱) شدید ضرورت میں لون لینے کی گنجائش ہے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلاکراہت جائز ہے، اگر شدید مجبوری نہ ہو تو امامت مکروہ ہے۔(۱)
(۲) مقتدیوں کی ناراضگی اگر شرعی وجہ سے ہو مثلاً امام احکام شرعیہ کے خلاف کرتا ہو اور ایسا کرنا شرعاً ثابت بھی ہو تو اس صورت میں فتویٰ یہی ہوگا کہ اس امام کو معزول کردیا جائے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے؛ بلکہ ناراضگی کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہو تو امام کی امامت پروہ ناراضگی بالکل اثر انداز نہیں ہوگی اور امامت اس کی بلاشبہ جائز و درست ہوگی۔(۲)
(۳) امام پر ضروری ہے کہ وہ فوٹو ہٹادے اگر قدرت کے باوجود وہ نہیں ہٹائے گا تو نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی لیکن بکراہت ہوگی۔(۳)
(۱) وفي القنیۃ والبغیۃ یجوز للمحتاج الاستقراض الربح انتہی۔ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، ’’الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ‘‘: ص: ۹۳ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ولو أم قومًا وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریمًا لحدیث أبي داؤد، لایقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قومًا وہم لہ کارہون، وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب: في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(۳) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔۔۔۔ وقال في مجمع الروایات۔ وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزًا ثواب الجماعۃ؛ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص76
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے اگر سچی توبہ کریں اور اس کا اعلان کریں تو پھر ان کی امامت بلا کراہت درست ہوگی نیز امامت پر باقی رکھنے یا علاحدہ کرنے کا اختیار مسجد کی کمیٹی، متولی اور مصلیان مسجد کو ہے۔(۱)
(۱) کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الاستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد۔ وشرعًا: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالٰی بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ (فتجب إہانتہ شرعًا فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ) تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)
{وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا اَوْیَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص201
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: امام کو مقررہ وقت پر حاضر رہنا ضروری ہے، منٹ، دو منٹ انتظار کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے زائد کی تاخیر کرے، تو دوسرا شخص نماز پڑھادے اور امام تاخیر کی وجہ سے قصور وار ٹھرایا جائے گا، لیکن اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے، تو قصور وار نہیں ہوگا۔(۳)
(۳) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الفاسق الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ ولفظہ لا بأس تقید في الغالب أن ترکہ أفضل فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص289
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: محراب میں امام صاحب اس طرح کھڑے ہوں کہ دونوں قدم داخل محراب ہوں، تو مکروہ ہے، البتہ قدمین خارج محراب ہوں، تو مکروہ نہیں ہے نمازیوں کے ازدحام اور جگہ کی تنگی کے سبب مجبوراً اندرون محراب تنہا امام کے قیام کی نوبت آجائے تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’ویکرہ قیام الإمام بجملتہ في المحراب لا قیامہ خارجہ وسجودہ فیہ (إلی قولہ) وإذا ضاق المکان فلا کراہۃ‘‘(۲)
(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین، وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق، کذا في الفتاویٰ البرہانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص408
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قبل الزوال اذان جمعہ بالکل درست نہیں تاہم اگرزوال کے فوراً بعد سنت اداکرلی جائے اور پھر فوراً اذان خطبہ و خطبہ کے بعد نماز فرض ادا کرلی جائے تو درست اور جائز ہے۔
’’لقولہ علیہ السلام إذا مالت الشمس فصل بالناس الجمعہ‘‘۔(۱)
(۱) المرغیناني، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ ’’فصل في قیام شہر رمضان ‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔ لایسن لغیرہا کعید، فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر … قولہ وقع بعضہ وکذا کلہ بالأولی ولو لم یذکر البعض لتوہم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص۔ (ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰، ط: زکریا۔
لوقت أي وقت المکتوبۃ واعتقاد دخولہ أو ما یقوم مقام الاعتقاد من غلبۃ الظن، فلو شرع شاکاً فیہ لاتجزیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ ’’مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘:ج ۱، ص: ۴۵۲۔
تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصبح لایجوز اتفاقا وکذا في الصبح … عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک، وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الحجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی سنتیں خواہ فرائض کے ساتھ قضا ہوں یا انفراداً سنتوں کی شرعاً قضاء نہیں ہے۔ ’’إذا فاتت عن وقتہا لا تقضی، سواء فاتت وحدہا أو مع الفریضۃ‘‘ (۱) ہاں مگر سنت فجر اگر فجر کے ساتھ قضا ہوجائیں تو طلوع کے بعد زوال سے پہلے فرضوں کے ساتھ ان کو بھی پڑھا جائے اور اگر زوال تک نہ پڑھ سکے تو زوال کے بعد سنت فجر کی بھی قضاء نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تنہا سنت فجر چھوٹ جائے اور فرض ادا کرلے تو بھی سنتوں کی قضا نہیں ہے۔
’’فان فاتت مع الفرض تقضی مع الفرض… أما إذا فاتت وحدہا لا تقضی‘‘(۲) لیکن بہتر یہ ہے کہ اگرتنہا سنت چھوٹ جائے تو بعد طلوع آفتاب قضاء کرلی جائیں۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع:کتاب الصلاۃ، السنن تقضی أم لا ج۱، ص: ۶۴۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) أیضا: ج۱، ص: ۶۴۳۔
وقضاء الفرض والواجب والسنۃ فرض وواجب وسنۃ لف ونشر مرتب۔ قولہ: وقضاء الفرض إلخ، لو قدم ذلک أول الباب أو آخرہ عن التفریع الآتي لکان أنسب۔ وأیضا قولہ والسنۃ یوہم العموم کالفرض والواجب ولیس کذلک، فلو قال وما یقضی من السنۃ لرفع ہذا الوہم رملي۔ (ابن عابدین، رد المحتار : ج۲، ص: ۶۶)
وقید بسنۃ الفجر لأن سائر السنن لا تقضی بعد الوقت لاتبعا ولامقصودا واختلف المشایخ في قضائہا تبعاً للفرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحۃ الخالق وتکملۃ الطوري، ج ۲، ص: ۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص369
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2666/45-4429
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر حافظ نفل میں قرآن کریم سنائے اور دوسرا حافظ اس کی اقتداء میں اس کا قرآن کریم سنے باہر باقاعدہ کسی کو جماعت میں شرکت کے لئے نہ بلایا جائے اور یہ تعداد تین سےزیادہ نہ ہو تو قرآن کریم کو پختہ کرنے کے لئے اس طرح قرآن کریم سنانے کی گنجائش ہے۔
اما اقتداء واحد بواحد أو اثنين بواحد فلا يكره وثلاثة بواحد فيه خلاف‘‘ (رد المحتار: ج 2، ص: 48- 49)
ولا يصلي الوتر ولا التطوع بجماعة خارج رمضان أي يكره ذلك علي سبيل التداعي بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدر ولا خلاف في صحة الإقتداء إذ لا مانع
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوغہ پہن کر نمازپڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر ٹخنوں سے نیچے نہ ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ما أسفل من الکعبین من الإزارفي النار۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج۲، ص: ۸۶۱، رقم: ۵۷۸۷)
عن أبي ذرؓ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أنہ قال:ثلاثۃ لا یکلمہم اللّٰہ ولا ینظر إلیہم یوم القیامۃ، ولا یزکیہم ولہم عذاب ألیم، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا وخسروا فأعادہا ثلثا، قلت من ہم یا رسول اللّٰہ فقد خابوا، وخسروا، قال: المسبل، والمنان، والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب، أو الفاجر۔ (أخرجہ أبوداؤد في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ماجاء في الإسبال، الإزار‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم:۴۰۸۷)
إن الإسبال یکون في الإزار والقمیص والعامۃ وأنہ لا یجوز إسبالہ تحت الکعبین إن کان للخیلاء، فإن کان لغیرہا فہو مکروہ، وظواہر الأحادیث فی تقییدہا بالجر خیلاء تدل علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء … وأما القدر المستحب فیما ینزل إلیہ طرف القمیص والإزار فنصف الساقین کما في حدیث ابن عمر المذکور، وفي حدیث أبي سعید: إزارۃ المؤمن إلی أنصاف ساقیہ لا جناح علیہ فیما بینہ وبین الکعبین ما أسفل من ذلک فہو في النار، فالمستحب نصف الساقین والجائز بلا کراہۃ ما تحتہ إلی الکعبین فما نزل عن الکعبین فہو ممنوع فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم وإلا فمنع تنزیہ … قال القاضي: قال العلماء: وبالجملۃ یکرہ کل ما زاد علی الحاجۃ والمعتاد في اللباس من الطول والسعۃ واللّٰہ أعلم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الأول‘‘: ج۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص77