نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وعظ و نصیحت اوردینی باتیں بتلانا بہت اچھا عمل ہے؛ لیکن اس کے لیے بھی مستحسن اور مفید طریقہ ہی کو اختیار کرنا چاہئے، مسجد میں روزانہ اس انداز پر وعظ کرنا درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو نماز پڑھنے میں پریشانی اور خلل ہو نیز روزانہ کے اس انداز سے لوگ اُکتا جاتے ہیں اور پھر وعظ کا اثر بھی نہیں ہوتا، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وعظ کیا جائے اور اس کا خیال رکھا جائے کہ نمازوں میں خلل نہ پڑے نیز صلوٰۃ التسبیح وغیرہ اور دیگر نوافل کا اہتمام گھروں میں کرنا افضل ہے۔
’’صلوا أیہا الناس في بیوتکم فإن أفضل الصلاۃ صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ‘‘(۱)
’’مثل البیت الذي یذکر اللّٰہ فیہ والبیت الذي لا یذکر فیہ مثل الحي والمیت‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلوٰۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲، رقم: ۶۹۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ومسلم ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ‘‘: ج۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۷۷۹۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص295

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز تو ہو جاتی ہے؛ لیکن ایسا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ مکروہ ہے۔(۲)
(۲) ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم وفي الحدیث من سد فرجۃ غفرلہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۲)
ویکرہ القیام خلف صف فیہ فرجۃ للأمر بسد فرجات الشیطان ولقولہ: من سد فرجۃ من الصف کتب لہ عشر حسنات ومحي عنہ عشر سیئات ورفع لہ عشر درجات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 411

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:رمضان المبارک کے علاوہ عام دنوں میں اذانِ مغرب کے بعد فوراً جماعت کرنا افضل ہے اس میں اول وقت کی فضیلت بھی ہے اور تکثیر جماعت کی فضیلت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے؛ کیوںکہ اذان کے سنتے ہی سب لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔
البتہ رمضان کے مہینہ میں چوںکہ روزہ دار نمازی روزہ افطار کر کے مسجد میں آتے ہیں جس میں کچھ وقت ضرور صرف ہوتا ہے پس جماعت میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر کر دی جائے تاکہ سب ہی نمازی افطار سے فارغ ہو کرجماعت میں شریک ہو سکیں کہ اس تاخیر کی وجہ سے تکثیر جماعت کی فضیلت اور ثواب حاصل ہوگا۔
ہمارے بزرگوں اور اسلاف اکابر علماء کرام کا معمول یہی ہے کہ ایام رمضان میں مغرب کی جماعت میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر کرتے ہیں اور فجر کی جماعت میں تعجیل کرتے ہیں تاکہ تکثیر جماعت متحقق ہو جائے۔
البتہ اذانِ مغرب غروب کے فوراً بعد پڑھنی چاہیے کہ جہاں پر سائرن کی آواز یا گھنٹہ یا گولے کی آواز نہ پہونچے وہ لوگ اذان سن کر روزہ افطار کر لیں۔ اور جہاں گھنٹہ، سائرن، وغیرہ کابہتر نظم ہو، تو وہاں اذان تاخیر سے دی جائے۔(۱)
(۱) وقال علیہ الصلاۃ السلام: ’’إن أمتی لن یزالوا بخیر ما لم یؤخروا المغرب إلی اشتباک النجوم‘‘ مضاہاۃ للیہود فکان تاخیرہا مکروہاً ’’إلا في یوم غیم‘‘ وإلا من عذر سفر أو مرض أوحضور مائدۃ، والتأخیر قلیلاً لا یکرہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ص: ۱۸۳، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
قولہ:(یکرہ تنزیہاً) أفاد أن المراد بالتعجیل أن لا یفصل بین الأذان والإقامۃ بغیر جلسۃ أو سکتۃ علی الخلاف وأن ما في القنیۃ من استثناء التأخیر القلیل محمولٌ علی ما دون الرکعتین وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیہاً وما بعدہ تحریماً إلا بعذر۔(ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتـاب الصلاۃ: مطلب في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 55

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر طرف بے چینی ہو تو لوگوں کی قلبی راحت کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہے۔
’’عن أنس : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا أذّن في قریۃ أمنہا اللّٰہ تعالیٰ من عذابہ ذلک الیوم‘‘(۱)
’’عن علي: رآني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزینا فقال: (یا ابن أبي طالب إني أراک حزینا فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک، فإنہ درء الہم) قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک‘‘(۲)
’’وفي حاشیۃ البحر الرملي: رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر
الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل وعند إنزال المیت القبر قیاسا علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا‘‘(۱)

(۱) مغلطاي بن قلیج المصري، شرح سنن ابن ماجہ، ’’کتاب الصلاۃ، فضل الأذان وثواب المؤذنین‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۹۔(شاملہ)
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذن‘‘: مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص185

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیرمیں دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں کی لوسے ملائے ہاتھوں کو اس طرح رکھے کہ انگلیوں کا تھوڑا سا جھکاؤ قبلے کی طرف رہے اور ایک سانس میں کہے اللہ اکبر پھر ہاتھ باندھے۔(۱)

(۱)(وکیفیتہا) إذا أراد الدخول في الصلاۃ کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبیین ولا یطأطأ رأسہ عند التکبیر، کذا في الخلاصۃ، قال الفقیہ أبوجعفر: یستقبل ببطون کفیہ القبلۃ وینشر أصابعہ ویرفعہما فإذا استقرتا في موضع محاذاۃ الإبہامین شحمتي الأذنین یکبر، قال شمس الأئمۃ السرخسي: علیہ عامۃ المشایخ، کذا في المحیط، والرفع قبل التکبیر ہو الأصح، ہکذا في الہدایۃ وہکذا تکبیرات القنوت وصلاۃ العیدین ولا یفرعہما في تکبیرۃ سواہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلوٰۃ وأدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
والأصح أنہ یرفع یدیہ أولا ثم یکبر لأن فعلہ نفي الکبریاء عن غیر اللّٰہ والنفي مقدم علی الإثبات۔ (ویرفع یدیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ) وعند الشافي رحمہ اللّٰہ: یرفع إلی منکبیہ، وعلی ہذا تکبیرۃ القنوت والأعیاد والجنازۃ، لہ حدیث أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر رفع یدیہ إلی منکبیہ، ولنا روایۃ وائل بن حجر والبراء وأنس رضي اللّٰہ عنہم، أن النبي علی الصلاۃ والسلام کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶، ۲۸۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص314

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی دو رکعتیں اور سنن و نوافل کی ہر ہر رکعت یعنی جن رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنی واجب ہے ، اگر ان میں بھول سے کوئی آیت یا آیت کا کچھ حصہ چھوٹ جائے تو سجدۂ سہو واجب ہے اور فرض کی آخری دو رکعتوں میں چوں کہ سورۂ فاتحہ واجب ہی نہیں ہے اس لیے وہاں کسی آیت کے چھوٹنے سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱) و ذکر الآیۃ تمثیل لا تقیید إذ بترک شییٔ منہا آیۃ أو أقل ولو حرفا لا یکون آتیا بکلھا الذي ھو الواجب۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ج۲، ص۱۴۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص251

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  بشرط صحت سوال ہندہ کے شوہر کا امام بننا درست ہے امامت میں کوئی کراہت نہیں ہے ہندہ کو گھر میں رہنے کے لیے کہا جائے اور جس کام میں واقعۃ وہ معذور ہے اس پر زبردستی نہ کی جائے۔(۱)

(۱) قولہ بشرط اجتنابہ الخ، کذا في الدرایۃ المجتبی وعبارۃ الکافی وغیرہ الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لا یرغبون في الاقتداء بہ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَایُحْمَلْ مِنْہُ شَیْئٌ وَّلَوْکَانَ ذَا قُرْبٰیط اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُہ۱۸} (الفاطر: ۱۸)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بروفاجر عما لم یکن متبدعاً بدعۃ یکفر بہا ومالم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید بلا شبہ فاسق ہے اور علامت نفاق میں سے ایک امانت میں خیانت بھی ہے۔ حدیث شریف میں ’’إذا أوتمن خان‘‘ اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ در مختار میں ہے۔
’’وتکرہ إمامۃ عبد وفاسق، وقال في رد المحتار: مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
نیز شامی نے لکھا ہے کہ ایسا شخص قابل اہانت ہے اور امامت عہدۂ عظمت ہے وہ ایسے شخص کو نہ دیا جائے جو کہ واجب الاہانۃ ہو۔(۲)
لہٰذا ایسے شخص کو امامت ومدرسی سے الگ کر دیا جائے اور جو رقوم اس پر واجب الادا ہوں وہ وصول کی جائیں۔(۳)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) لو صلی خلف فاسق أو مبتدع ینال فضل الجماعۃ؛ لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی علی خلف نبي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص205

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسلمان کا فرض ہے کہ کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے روگردانی نہ کرے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں تیجہ وغیرہ غیر شرعی رسومات میں امام کی شرکت جائز نہیں۔(۲)
(۲) عن عائشۃ -رضی اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’باب نقض الأحکام الباطلۃ ورد محدثات الأمور، کتاب الأقضیۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴، رقم: ۱۷۱۸)
یکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور وہي بدعۃ مستقبحۃ، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل البیت‘‘:ج۳، ص: ۱۴۸)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص296

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں صفوں کو درست کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور صفوں کی درستگی میں مل مل کر کھڑا ہوناہے(۱) اور نماز کا متوارث طریقہ یہی ہے کہ لوگ مل مل کر کھڑے ہوں اس لیے اگر اتنا فاصلہ ہو کہ لوگوں کا ایک نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تا ہو تونماز کے متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ بالکل درست نہیں ۔(۲) ہاں اگر معمولی فاصلہ ہو جس میں بظاہر لوگوں کا ایک ہی نماز میں ہونا معلوم ہو تو موجودہ حالات میں اس کی گنجائش ہے۔ اسی طرح اگر کچھ لوگ تو صف میں متصل کھڑے ہوں؛ لیکن ایک دو آدمی مسجد میں ہی ایک میٹر کے فاصلے سے کھڑے ہوں تو اگر چہ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے تاہم اس کی نماز ہوجائے گی۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک، وینبغي أن یکملوا ما یلی الإمام من الصفوف، ثم ما یلی ما یلیہ، وہلمّ جرًّا، وإذا استوی جانبا الإمام فإنہ یقوم الجائی عن یمینہ، وإن ترجح الیمین فإنہ یقوم عن یسارہ، وإن وجد في الصف فرجۃ سدّہا، وإلا فینتظر حتی یجيء آخر کما قدمناہ، وفي فتح القدیر: وروي أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنہ قال: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدیکم (بأیدی) إخوانکم لاتذروا فرجات للشیطان، من وصل صفًّا وصلہ اللہ، ومن قطع صفًّا قطعہ اللّٰہ۔ وروي البزار بإسناد حسن عنہ من سدّ فرجۃً في الصفّ غفر لہ۔ وفي أبي داود عنہ: قال: خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’وقوف المامومین في الصلاۃ خلف الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۱، ص: ۵۶۸؛ وأحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶)
(۲) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل، مفتاح السعادۃ أو (طریق تجري فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور أو نہر تجري فیہ السفن ولو زورقا ولو في المسجد ولو خلاء أي فضاء في الصحراء أو في مسجد کبیر جداً کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب إذا کانت الثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰)
عن أبي بکرۃ رضي اللّٰہ عنہ إنہ انتہي أي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو راکع فرکع قبل أن یصل أي الصف فذکر ذلک النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: زادک اللّٰہ حرصاً ولا تعد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا رکع دون الصف‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱، رقم: ۷۵۰)
(۱) ذکر ما یستفاد منہ: فیہ: الأمر بتسویۃ الصفوف، وہي من سنۃ الصلاۃ عند أبي حنیفۃ والشافعي ومالک، وزعم ابن حزم أنہ فرض، لأن إقامۃ الصلاۃ فرض، وما کان من الفرض فہو فرض۔ قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ فإن قلت: الأصل في الأمر الوجوب ولا سیما فیہ الوعید علی ترک تسویۃ الصفوف، فدل علی أنہا واجبۃ۔ قلت: ہذا الوعید من باب التغلیظ والتشدید تأکیدا وتحریضا علی فعلہا، کذا قالہ الکرماني، ولیس بسدید۔ لأن الأمر المقرون بالوعید یدل علی الوجوب، بل الصواب أن یقول: فلتکن التسویۃ واجبۃ بمقتضی الأمر، ولکنہا لیست من واجبات الصلاۃ بحیث أنہ إذا ترکہا فسدت صلاتہ أو نقصتہا۔ غایۃ ما في الباب إذا ترکہا یأثم۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج۵، ص: ۲۵۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 411