نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب سے لے کر تقریباًایک سوا گھنٹے تک مغرب کی نماز کا وقت رہتا ہے، مگر احتیاطاً مغرب کی نماز جلدیپڑھنی چاہیے، اور ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وقت عشاء شروع ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) ووقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرۃ عند ہما وبہ قالت: الثلاثۃ وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ الوسطی، ج ۲، ص: ۱۷)
وقال تلمیذہ العلامۃ قاسم في تصحیح القدوري: إن رجوعہ لم یثبت۔ أیضًا۔
ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الأول:  في المواقیت: الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷)
وأول وقت المغرب منہ أي غروب الشمس إلی قبیل غروب الشفق (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات آسمانی پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ یا ہتھیار سمجھتے ہیں؛ اس لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ عمل درست ہے۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دل جوئی کے لیے اذان دی جائے؛ کیوں کہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔(۲) ’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن فيأذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱)

(۲) قولہ: وخرج بالفرائض الخ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلا یسن للمنذورۃ۔ ورأیت في کتب الشافعیۃ: أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذان المولود، والمہموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ’’مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰)
وخرج بہا الأذان الذي یسن لغیر الصلاۃ کالأذان في أذن المولود الیمنٰی،…والإقامۃ في الیسریٰ، ویسن أیضاً عن الہم وسوء الخلق لخبر الدیلمي، عن علي، رآني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حزیناً فقال: (یا ابن أبي طالب إني أراک حزیناً فمر بعض أہلک یؤذن في أذنک، فإنہ درء الہم) قال: فجربتہ فوجدتہ کذلک۔ وقال: کل من رواتہ إلی علي أنہ جربہ، فوجدہ کذلک۔ وروي الدیلمي عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من ساء خلقہ من إنسان أو دابۃ فأذنوا في أذنہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
(۱)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ، ج ۲، ص: ۵۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص186

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہنا نماز کے شروع کرنے کے لیے ہر ایک نمازی (امام، مقتدی، مدرک، مسبوق) پر الگ الگ فرض ہے جس کے چھوڑ دینے سے ترک فرض لازم آئے گا اور نماز نہیں ہوگی پس مذکورہ دونوں مسئلوں میں جس طرح امام پر تکبیر تحریمہ فرض ہے اسی طرح مدرک و مسبوق پر بھی فرض ہے اس کے چھوڑ دینے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) فرائض الصلاۃ ستۃ: التحریمۃ والقیام والقراء ۃ والرکوع والسجود والقعدۃ في أخر الصلاۃ مقدار التشہد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۸)
مفتاح الصلاۃ الطہور، وتحریمہا التکبیر، وتحلیلہا التسلیم۔(أخرجہ الترمذي في صحیحہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في تحریم الصلاۃ وتحلیلہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۸)
وإن أدرک الإمام في الرکوع أو السجود، یتحری إن کان أکبر رأیہ أنہ لم أتی بہ أدرکہ في شيئٍ من الرکوع أو السجود یأتي بہ قائماً وإلا یتابع الإمام ولا یأتي بہ، وإذا لم یدرک الإمام في الرکوع أوالسجود لا یأتي بہما، وإن أدرک الإمام في القعدۃ لا یأتي بالثناء بل یکبر للافتتاح ثم للانحطاط ثم یقعد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)
ویشترط کونہ (قائما) فلو وجد الإمام راکعاً فکبر منحنیاً إن کان إلی القیام أقرب صح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص315

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں آیت کریمہ مذکورہ کے چھوڑنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر پیدا ہو گیا جس سے سورت کا مقصد ہی فوت ہوگیا، اس لیے نماز فاسد ہوگئی۔ نماز کااعادہ لازم ہے۔ ’’ولوزاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا أو قدمہ أو بدلہ بآخر … لم تفسد مالم یتغیر المعنی‘‘(۱)
جس نماز میں ایسا ہوا ہے اسی نماز میں احتیاطا تین دن اعلان کردیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور وہ اعادہ کرلیں۔

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶)
المسألۃ الثالثۃ وضع حرف موضع حرف آخر فإن کانت الکلمۃ لا تخرج عن لفظ القرآن ولم یتغیر بہ المعنی المراد لا تفسد۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۴۰، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص251

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2356/44-3556

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     فجر میں مسنون قراءت طوال مفصل ہے، یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک کوئی سورہ یا اتنی مقدار تلاوت کرے، آپ ﷺ سے فجر کی نماز میں 60 آیات  سے 100 آیات تک تلاوت کرنا ثابت ہے، کبھی کبھی اس سے کم بھی پڑھنا ثابت ہے۔

سورہ مسئولہ میں اگر امام صاحب مفصلات کے بقدر کہیں سے تلاوت کریں تو سنت ادا ہوجائے گی، اس کو خلاف سنت کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح ترتیب وار نماز میں تلاوت کرنا صحابہ کرام کے عمل سے  بھی ثابت ہے۔

عن ابی برزۃ ان النبی ﷺ کان یقرأ فیھا بالستین الی المأۃ یعنی فی الفجر (مصنف ابن ابی شیبۃ ) عن نافع عن ابن عمر قال کان یقرأ فی الفجر بالسورۃ اللتی یذکر فیھا یوسف ویذکر فیھا الکھف۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اگر کوئی غیر حافظ پابند شرع ایسا ہو جو نماز پڑھا سکے تو وہ نماز کے لیے مقدم ہے اور اگر کوئی ایسا نہ ہو کہ نماز بھی صحیح پڑھا سکے کہ اس کو چند سورتیں بھی یاد نہ ہوں تو بغیر جماعت نماز پڑھنے کے بجائے اسی غیر حافظ کو امام بنالیا جائے۔(۱)
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ فرض وقیل واجب وقیل سنۃ … قولہ قدر فرض … قدر ما تجوز بہ الصلاۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء، الإسلام، والبلوغ والعقل والذکـورۃ والقراء ۃ، بحفظ آیۃ تصح بہا الصلوۃ علی الخلاف، قولہ بحفظ آیۃ، ولو قصیرۃ والأولی أن یقول بحفظ ما تصح بہ الصلوۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۸، شیخ الہند دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص82

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کا اجنبیہ عورت کو چھونا درست نہیں ہے؛ اس لیے امام صاحب کا یہ پیشہ قابلِ ترک ہے اگر امام صاحب چوڑیاں بیچیں مگر عورتوں کو اپنے ہاتھ سے نہ پہنائیں تو ان کی امامت میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر باز نہ آئیں تو ان کی جگہ کسی اور مناسب آدمی کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) وإذا صلی الرجل خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لما روینا من الحدیث لکن لاینال ثواب من یصلي خلف عالم تقي۔ (قاضي خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلوۃ، فصل فیمن یصح الاقتداء بہ وفیمن لایصح‘‘:ج۱، ص: ۵۹)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق أي من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء ونحو ذٰلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)  
کرہ إمامۃ الفاسق … والفسق لغۃً: خروج عن الإستقامۃ، وہو معنی قولہم: خروج الشيء عن الشيء علی وجہ الفساد، وشرعاً: خروج عن طاعۃ اللّٰہ تعالیٰ بارتکاب کبیرۃ۔ قال القہستاني: أي أو إصرار علی صغیرۃ۔ فتجب إہانتہ شرعًا، فلا یعظم بتقدیم الإمامۃ تبع فیہ الزیلغي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص:۳۰۳، ط: دارالکتب العلمیۃ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص206

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف بندی کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے بالغ مردوں کی صفیں لگائی جائیں اس کے بعد نابالغ لڑکوں کی صف بنائی جائے پس اگر نابالغ لڑکے نے بڑوں کی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو نماز ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلینی منکم أولو الأحلام والنہي۔  (المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۸)
ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخناثی ثم النساء۔ (حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۱۶)
والترتیب الحاصر لہا أن یقدم الأحرار البالغون ثم الأحرار الصبیان ثم العبید البالغون ثم العبید الصبیان ثم الأحرار الخناثی الکبار ثم الأحرار الخناثی الصغار ثم الأرقاء الخناثی الکبار ثم الأرقاء الخناثی الصغار ثم الحرائر الکبار ثم الحرائر الصغار ثم الإماء الکبار ثم الإماء الصغار۔ (عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنھر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، أولٰی الناس بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 413


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک مفتی بہ قول کے مطابق جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے تو اس وقت ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور عصر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے جس کو عام زبان میں کہتے ہیں کہ عصر کی نماز مثل ثانی پر پڑھنی چاہئے یہ عصر کی نماز کا وقتِ جواز ہے اور اصفرار شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر مستحب ہے اور اصفرار تک موخر کرنا مکروہ ہے، اگر کسی وجہ سے عصر کی نماز مثل اول پر پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں اس لیے کہ صاحبینؒ کے نزدیک عصر کی نماز کا وقت مثل اول پر ہی شروع ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) وقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في شرح المجمع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ، ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

وأول وقت العصر من ابتداء الزیادۃ علی المثل أو المثلین لما قدمناہ من الخلاف إلی غروب الشمس علی المشہور۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 57

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہنا نماز کے شروع کرنے کے لیے ہر ایک نمازی (امام، مقتدی، مدرک، مسبوق) پر الگ الگ فرض ہے جس کے چھوڑ دینے سے ترک فرض لازم آئے گا اور نماز نہیں ہوگی پس مذکورہ دونوں مسئلوں میں جس طرح امام پر تکبیر تحریمہ فرض ہے اسی طرح مدرک و مسبوق پر بھی فرض ہے اس کے چھوڑ دینے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۰، ۱۷۱، زکریا دیوبند۔
(قولہ وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ) للمواظبۃ وہي وإن کانت من غیر ترک تفید الوجوب لکن إذا لم یکن ما یفید إنہا لیست لحامل الوجوب، وقد وجد، وہو تعلیمہ الأعرابي من غیر ذکر تأویل، وتأخیر البیان عن وقت الحاجۃ لا یجوز، علی أنہ حکي في الخلاصۃ خلافا في ترکہ، و قیل یأثم، وقیل لا، قال والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیانا۔ اہـ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق،کتاب الصلاۃ ’’سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۲۸؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص316