نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا واجب نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کو سنن زوائد میں شمار کیا ہے۔ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمامؒ اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں اگر احیانا و اتفاقاً چھوٹ جائے تو گنہ گار نہیں؛ لیکن بار بار ایسا کرنا یقیناً باعثِ گناہ ہے۔
’’وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ أي قبلہا في الخلاصۃ إن اعتاد ترکہ أثم قولہ في الخلاصۃ والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیاناً‘‘(۱)

(۱) وکذلک إذا صلی الفریضۃ بالعذر علی دابۃ والنافلۃ بغیر عذر فلہ أن یصلی إلی أي جہۃ توجہ: کذا فی منیۃ المصلي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص317

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بھول کر پڑھا، تو نماز بھی ہوگئی گنہگار بھی نہیں ہوا اور اگر جان کر پڑھا، تو نماز فاسد ہوگئی اور گنہگار ہوگا۔(۱)

(۱) وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن، والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جریٰ علی لسانہ أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار، ہکذا في الوجیز، للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عصر و عشاء سے قبل سنتیں غیر مؤکدہ ہیں جن کے پڑھنے پر ثواب ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) ترکہ لا یوجب إساء ۃ ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد،  لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵)
وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قبرستان موقوفہ ہے، تو اس کا یہ تصرف ناجائز ہے وہ اور اس کی مدد کرنے والے گناہ گار ہیں اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
 أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
 عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
 وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، اگر دوسرے نمازی سے کندھا یا ٹخنہ ملانے کی سعی کریں گے، تو سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوگا؛ پس اس قدر مل کر کھڑا ہونا چاہئے کہ خلل درمیان میں نہ ہو۔(۲)
(۲) (قولہ ومنہا القیام) یشمل التام منہ وہو الانتصاب مع الاعتدال وغیر التام وہو الانحناء القلیل بحیث لا تنال یداہ رکبتیہ، وقولہ بحیث إلخ صادق بالصورتین أفادہ ط۔ ویکرہ القیام علی أحد القدمین فی الصلاۃ بلا عذر، وینبغی أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسی إنہ کان یفعلہ کذا في الکبری۔ وما روی أنہم ألصقوا الکعاب بالکعاب أرید بہا الجماعۃ أی قام کل واحد بجانب الآخر کذا في فتاوی سمرقند، ولو قام علی أصابع رجلیہ أو عقبیہ بلا عذر یجوز، وقیل لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص:۱۳۱)
وقال ﷺ: استووا تستوی قلوبکم وتماسوا تراحموا، وقال ﷺ: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات للشیطان من وصل صفا وصلہ اللہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 415

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عیدین کی نماز میں تاخیر کرنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز میں ایک دن تاخیر ہو جائے تو دوسرے دن ادا کر لینا جائز ہے اس کے بعد ادا نہیں کر سکتے جب کہ بقر عید کی نماز اگر دوسرے دن ادا نہ کر سکے تو تیسرے دن بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(وتؤخر بعذر) کمطر (إلی الزوال من الغد فقط)‘‘(۱)
’’وتؤخر صلاۃ عید الفطر بعذر کأن غم الہلال وشہدوا بعد الزوال أو صلوہا في غیم فظہر أنہا کانت بعد الزوال فتؤخر إلی الغد فقط لأن الأصل فیہا أن لا تقضی کالجمعۃ إلا أنا ترکناہ بما روینا من أنہ علیہ السلام أخرہا إلی الغد بعذر … الخ‘‘(۲)
وفیہ أیضاً:
’’وتؤخر صلاۃ عید الأضحی بعذر لنفي الکراہۃ وبلا عـذر مع الکراہۃ لمخالفۃ المأثور إلی ثلاثۃ أیام‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ، ج ۳، ص: ۵۹۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۶۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۸۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 59

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) شرعی عذر کی بنا پر اگر کوئی شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے قیام کے وقت کھڑا ہونا بھی جائز ہے اور چوں کہ اشارہ سے رکوع، سجدہ کرنے والے شخض سے قیام کا فرض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر یا مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود فلو قدر علیہ دون السجود ندب إیماؤہ قاعدا أي لقربہ من السجود و جاز إیماؤہ قائما کما في البحر‘‘(۱)
(۲) جو حضرات شرعی عذر کی بناء پر کرسی پر نماز پڑھیں تو کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان معذورین کا کندھا دیگر نمازیوں کے کندھے کے برابر میں ہو؛ کیوں کہ حدیث میں صف بندی اور اقامت صفوف کی بڑی تاکید آئی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقیموا الصفوف وحاذوا  بین المناکب و الأعناق‘‘(۱)
(۳) کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ وہ صف کے کنارے پرنماز پڑھے تاکہ درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صف میں ٹیڑھا پن اور معمولی خلا سا جو پیدا ہوجاتا ہے وہ نہ ہو اور صف سیدھی معلوم ہو ۔
(۴) ایسے شخص کو صف کے کنارے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، ہاں صف کی درستگی کے لیے ان کو بہتر انداز میں سمجھا کر صف کے کنارے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، ۱۳۲۔
(۱) محمد بن المالکي، جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد، ’’النوع الثاني في تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۵، ص: ۶۰۹، رقم: ۳۸۶۶۔
قال حدثنا أنس رضي اللّٰہ عنہ أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: راصوّا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق۔ (أخرجہ النسائي   في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: حث الإمام علی رصّ الصفوف والمقاربۃ بینہا‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۸۱۵)
إن کان ذلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودا وإلا فإیماء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج۲، ص: ۵۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص318

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: لفظ ’’بالساہرہ‘‘ کی جگہ ’’بالساحرہ‘‘ قصداً پڑھا جس سے تغیر فاحش لازم آ گیا اور قرآن پاک میں کسی جگہ موجود بھی نہیں ہے؛ اس لیے نماز نہ ہوگی اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’قال في الخانیۃ والخلاصۃ : الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنیٰ، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم: لا تفسد‘‘(۱)

(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶۔
الأصل فیہ أي في الزلل والخطاء أنہ إن لم یکن مثلہ أي مثل ذلک اللفظ في القرآن والمعنیٰ أي الحال في أن معنی ذلک اللفظ بعید من معنی لفظ القرآن متغیر معنی لفظ القرآن بہ تغیراً فاحشاً قویاً بحیث لا مناسبۃ بین المعنیین أصلا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المستملي في منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 951/41-90

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں بھی نماز درست ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد میں جماعت سے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ لاک ڈاؤن میں ابھی مسجدیں پورے طور پر نہیں کھلی ہیں، اور کرونا نامی وبا کے خطرات اب بھی ہیں، اس لئے اگر کوئی احتیاط برتتے ہوئے گھر میں نماز پڑھے تو گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1606/43-1202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت  نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما  م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔  اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی  کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو  اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔  لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی  وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔   البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.

قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ".  (شامی (1/ 578)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند