نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: زوجہ اگر شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ مکان کا انتظام کرے خواہ پورا مکان الگ ہو یا صحن ایک ہو کمرہ الگ ہو(۱) اس مقصد کے لیے اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ آمدنی کی خاطر (وقف بورڈ) میں ملازمت کرنا اور تعویذ و عملیات کی اجرت لینا جائز اور درست ہے۔ شرط یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا نہ لے۔

(۱) وکذا تجب لہا السکنی في بیت خال عن أہلہ لأنہا تتضرر بمشارکۃ غیرہا فیہ لأنہا لاتأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلک لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في مسکن الزوجۃ‘‘ ج ۵، ص: ۳۲۰، زکریا)
 قال العینی کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم، فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الائمۃ الأربعۃ: وفیہ جواز أخذ الأجرۃ، قال محمد في المؤطأ: لا بأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داؤد  في سننہ، ’’کتاب الطب، باب الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جب امام محراب میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے، تو قدموں کا کچھ حصہ محراب سے باہر ہونا چاہئے اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر برآمدہ یا صحن میں نماز ہو رہی ہو، تو پوری مسجد برابر ہے اس کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بس امام اپنی جگہ پر مقتدیوں سے الگ ہو۔(۱)
(۱) وحقیقۃ اختلاف المکان تمنع الجواز فشبہۃ الاختلاف توجب الکراہۃ والمحراب وإن کان من المسجد فصورتہ وہیئتہ اقتضت شبہۃ الاختلاف اہـ ملخصا. قلت: أی لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکانا آخر فأورث الکراہۃ، ولا یخفی حسن ہذا الکلام فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقا، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذی یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ تأمل اہـ (تنبیہ) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فالحاصل أن مقتضی ظاہر الروایۃ کراہۃ قیامہ في المحراب مطلقا سواء اشتبہ حال الإمام أو لا وسواء کان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم یکرہ سجودہ في المحراب إذا کان قدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم في مکان الصلاۃ حتی تشترط طہارتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: تغمیض عینیہ في الصلوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں۔ مثلاً اگر قریب ترین معتدل علاقے میں نمازِ مغرب نوبجے ہوتی ہے اور عشاء ساڑھے دس بجے تو اِن میں بھی مغرب اور عشاء بالترتیب ۹؍ بجے اور ساڑھے دس بجے پڑھی جائے؛ کیوں کہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سورہ کہف کی تلاوت کیا کرو یہ تمہیں دجال سے بچائے گی اس پر صحابہؓ نے پوچھا کہ دجال کتنے دن رہے گا آپ نے فرمایا چالیس دن ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے اس پر صحابہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اندازا لگا کر نماز پڑھنااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جن علاقوں میں دن اوررات چھ مہینہ کا ہوتاہے وہاں ایک دن کی نماز کافی نہیں ہوگی، بلکہ قریب ترین ممالک کو دیکھ کر نماز کے اوقات طے کئے جائیں گے۔(۱)
ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الدجال، فقال: إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم، وإن یخرج ولست فیکم فامرؤ حجیج نفسہ، واللّٰہ خلیفتی علی کل مسلم، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف، فإنہا جوارکم من فتنتہ قلنا: وما لبثہ في الأرض؟ قال: أربعون یوما: یوم کسنۃ، ویوم کشہر، ویوم کجمعۃ، وسائر أیامہ کأیامکم فقلنا: یا رسول اللّٰہ، ہذا الیوم الذي کسنۃ، أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ؟ قال: لا اقدروا لہ قدرہ‘‘(۲)
’’وحاصلہ أنا لا نسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ بل یکفی تقدیرہ کما في أیام الدجال۔ ویحتمل أن المراد بالتقدیر المذکور ہو ما قالہ الشافعیۃ من أنہ یکون وقت العشاء في حقہم بقدر ما یغیب فیہ الشفق في أقرب البلاد إلیہم والمعنی الأول أظہر، کما یظہر لک من کلام الفتح الآتی حیث ألحق ہذہ المسألۃ بمسألۃ أیام الدجال‘‘(۱)

 

(۱) قال الرملي في شرح المنہاج ویجري ذلک فیما لو مکثت الشمس عند قوم مدہ: اھـ۔
قال في إمداد الفتاح قلت: وکذلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم والزکاۃ والحج والعدۃ وآجال البیع والسلم والإجارۃ وینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذ اصل التقدیر مقول بہ اجماعاً في الصلوات۔ (ابن عـابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ مطلب: في طلوع من مغربہا: ج ۱، ص: ۳۶۵)
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم :باب خروج الدجال‘‘: ج۲، ص: ۵۹۳، رقم: ۴۳۲۱۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في فاقد وقت العشاء کأہل بلغار‘‘ ج۲، ص: ۱۹۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تندرست شخص کے لیے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز ادا کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت ان گاڑیوں کو روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اس لیے اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، (قولہ: القادر علیہ) فلو عجز عنہ حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۱)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضو في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۲۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص320

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دونوں کے مخرج سے واقف نہ ہو اور دونوں میں فرق نہ کر سکتا ہو، تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اگر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔(۲)

(۲) وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص255

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ میںتشہد کے بعد فوراً کھڑے ہوجائیں؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔
امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ کو زیادہ طول نہ دیں اور مقتدیوں کی رعایت کریں البتہ اگر امام صاحب التحیات کو قدرے سکون سے پڑھتے ہیں تاکہ ہر قسم کے نمازی کی رعایت رکھی جائے تو یہ امر مستحسن ہے، اس پر امام صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
’’سمعت أبا عبیدۃ بن عبد اللّٰہ  بن مسعود یحدث عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إذا جلس في الرکعتین الأولیین کأنہ علی الرضف قال شعبۃ ثم حرک سعد شفتیہ بشيء فأقول حتی یقوم؟ فیقول حتی یقوم، والعمل علی ہذا عند أہل العمل یختارون أن لا یطیل الرجل القعود في الرکعتین الأولیین ولا یزید علی التشہد شیئا۔ وقالوا إن زاد علی التشہد فعلیہ سجدتا السہو، ہکذا روي عن الشعبي وغیرہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: مقدار القعود في الرکعتین الأولین‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۶۶۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر عذر ہو اور کوئی دوسری صورت نہ ہوسکتی ہو تو امام کو ذرا آگے کرکے اس کے پیچھے صف لگا نی چاہئے اس قدر آگے ہوجانا امام کا کافی ہے کہ امام کے پیر مقتدیوں کے پیر سے آگے رہیں۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وہو راجع إلی اختلاف القلوب وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الصف أو میسرتہ فقد أساء لمخالفتہ السنۃ ألا تری أن المحاریب لم تنصب إلا في الوسط وہي معینۃ لمقام الإمام۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ: الأحق بالامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۶)
السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، ولو کان المسجد الصیفی بجنب الشتوی وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ، والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ خلاف عمل الأمۃ۔ قال علیہ الصلاۃ والسلام: توسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عشا کا وقت غروب شفق سے شروع ہوتا ہے، مگر شفق سے کون سی مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے لغت میں سرخی اور اس سرخی کے بعد کی سفیدی دونوں کو شفق کہتے ہیں۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں: ’’وسبب اختلافہم في ہذہ المسئلۃ اشتراک اسم الشفق في لسان العرب فإنہ کما أن الفجر في لسانہم فجران کذلک الشفق شفقان: أحمر وأبیض‘‘(۲)
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ شفق سے وہ شفق(سفیدی) مراد لیتے ہیں جو سرخی کے غائب ہو جانے کے تھوڑی دیر تک رہتی ہے اور یہی راجح اور قابل عمل ہے۔ ’’ألشفق البیاض الذي بعد الحمرۃ‘‘(۳)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں عشا کب پڑھوں؟ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حین أسود الأفق‘‘ یعنی جب آسمان کے کنارے سیاہ ہو جائیں اور حدیث مرفوع ہے ’’یصلي العشاء حین یسود الأفق‘‘(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے کنارے سیاہ ہو جانے کے بعد نماز عشاء ادافرمائی ہے، اسی کو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل بنایا ہے اور اسی پر تمام احناف کا عمل ہے۔(۲)

(۲) ابن رشد، بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد: ج ۱، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۳) کتاب الأخیار : ج ۱، ص: ۳۹۔(شاملہ)
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴۔
(۲) ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘، ج ۱، ص:۱۰۷)
فقال عروۃ سمعت بشیر بن أبي مسعود یقول سمعت أبا مسعود الأنصاری یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نزل جبریل علیہ السلام فأخبرني بوقت الصلاۃ فصلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ یحسب بأصابعہ خمس صلوات فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي المغرب حین تسقط الشمس ویصلي العشاء حین یسود الأفق۔ (أخرجہ ابوداؤد في سننہ،کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 42

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر معروف طریقہ پر باندھنا سنت ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے پر امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا بھی یہی مسلک ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ عند الشافعی ومالک ہاتھ ناف سے اوپر اور امام اعظمؒ کے نزدیک ناف سے نیچے باندھے جائیں۔ امام مالکؒ کا ایک قول ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن سے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا ثابت ہے۔(۱) اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاً جو نماز سکھلائی ہاتھ باندھنا اسی وقت سے ثابت ہے۔(۲)

(۱) أخرجہ مالک، في المؤطأ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیدین إحداہاعلی الآخر‘‘ یضع الیمنی علی الیسری۔ (ج۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۴۶)
قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤمنا فیأخذ شمالہ بیمینہ الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲، مکتبہ بلال، دیوبند)
(۲) قال محمد ویضع بطن کفہ الأیمن علی رسغہ الأیسر تحت السرۃ فیکون الرسغ في وسط الکف۔ (یعقوب بن إبراہیم، کتاب الآثار بروایۃ محمد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ قاعدًا والتعمد علی إلی سترۃ الشيء أو یصلي‘‘: ج۱، ص: ۳۱۹، رقم: ۱۲۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص321

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، اس سے معنی میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، چند الفاظ کے چھوٹ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔(۱)

(۱) فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فالعبرۃ في عدمہ الفساد عدم تغیر المعنیٰ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲، مکتبہ الاتحاد دیوبند)
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم تغیر المعنیٰ مثل: وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لا تفسد، وإن غیرت مثل فمالہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد عند العامۃ؛ وقیل لا، والصحیح الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶،زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص256