نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صور ت مسئولہ کے متعلق فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
غلطی منافی صلاۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بگڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر محمول کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔(۱)

(۱) (فتاوی محمودیہ ج ۱۱ ص۲۰۶ مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ۲۰۰۹ء)
لو قرأ القرآن في الصلاۃ بالألحان إن غیر الکلمۃ تفسد، وإن کان ذلک في حروف المد واللین لا تفسد إلا إذا فحش۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: البال الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)
اعلم أن الحرف إما أن یکون من أصول الکلمۃ أولا،وعلی کل إما أن یغیر المعنیٰ أو لا، فإن غیر نحو خلقنا، بلا خاء أو جعلنا بلا جیم تفسد عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص253

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1039/41-228

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فرض نمازوں میں مسنون قرات مستحب ہے جس کا اہتمام کرنا چاہئے۔

ویستحب فی الحضر ان یقرأ فی الفجر طوال المفصل وفی الظھر کذلک۔ ـ(منیۃ المصلی 97) والمستحب قراءۃ المفصل تیسیرا للأمر (فتاوی قاضیخان 1/16)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں زید بد فعلی کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ لیکن اس نے توبہ کرلی اور توبہ کا اعلان بھی کردیا تو اس کی امامت درست ہے؛ مناسب یہ ہے کہ اس مسجد میں امامت نہ کرائے کہ مقتدیوں کے ذہنوں میں اس کی برائی باقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال: التائب من الذنب کمن لا ذنبہ لہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ   في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ یحبّ العبد المؤمن المفتن التواب۔ (أخرجہ أحمد، في المؤطاء، ’’باب مسند علی ابن أبي طالب‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸، رقم: ۶۰۵)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ کتب فقہ میں فاسق کی امامت کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں ملوث ہواور توبہ نہ کرے تو فسق کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ ہوگی؛ لیکن شرعی تحقیق کے بغیر کسی کو مرتکب کبیرہ نہیں قرار دیا جاسکتا اور اگر کسی شخص پر صرف زنا کی تہمت ہے مگر ثابت نہیں ہوا ہے تو اس پر تہمت لگانے والے سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحقِ عذاب ہوگا ان لوگوں پر جنہوں نے الزام لگایا ہے توبہ واستغفار اور اس شخص سے معافی طلب کرنا لازم ہے اگر اسلامی قانون نافذ ہوتا تو زنا کی تہمت لگانے والے اگر چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کر پاتے تو اسی ۸۰ کوڑے مارے جاتے۔
 سوال میں مذکورہ احوال اگر واقعۃً صداقت پر مشتمل ہیں، اور مذکورہ شخص نے خود ہی قبول
کیا ہے تو ایسا شخص شرعاً امامت کے لائق نہیں ہے، اگر جماعت میں اس سے بہتر شخص امامت کے لائق موجود ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، مسجد کی انتطامیہ پر لازم ہے کہ کسی نیک صالح متبعِ سنت عالمِ دین کو امامت پر مقرر کریں۔
نیز مذکور شخص کا زنا کرنا یا اس کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا اگر ثابت ہو جائے اور اس کے بعد اس نے توبہ کرلی ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس سے بیزار رہنے والے غلطی پر ہیں توبہ استغفار کے بعد مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے اور ان سب کی نماز اس کے پیچھے ہوجاے گی بشرطیکہ کوئی اور چیز مانع امامت نہ ہو۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین، فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
’’بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)
’’قولہ: فاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک‘‘(۳)
’’قال تعالیٰ: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً}(۴)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن سعد بن عبادۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ! إن وجدت مع إمرأتي رجلاً أمہِّلہ حتی أتی بأربعۃ شہداء؟ قال نعم‘‘(۵)
’’ویثبت شہادۃ أربعۃ رجال في مجلس واحد … بلفظ الزنا لا الوطء والجماع … وعدّلوا سراً وعلناً … ویثبت أیضاً بإقرارہ أربعاً في مجالسہ: أي المقرالأربعۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحدود‘‘: ج ۴، ص: ۴۲۱۔
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
 أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
 عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
 وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص207

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص اصلاً مرد ہی ہے اور صرف ظاہری حالت مخنث جیسی بنا رکھی ہے تو اسے مرد ہی کہا جائے گا اور مردوں کی صفوں میں رہ سکتا ہے اور اگر واقعۃً مخنث ہے تو پیچھے کھڑا ہو۔ اور اگر وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہو گیا، تودوسرے لوگوں اور خود اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی؛ بلکہ درست ہوگی، اگر مردوں، بچوں اور مخنثوں کا مجمع ہو، تو ان کی صف بندی میں اس  ترتیب کی رعایت رکھیںکہ آگے مرد کھڑے ہوں، پھر بچے اور ان کے پیچھے مخنث۔
’’وإذا وقف خلف الإمام قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ امرأۃ فلا یتخلل الرجال کیلا تفسد صلاتہم‘‘(۱)
’’ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخنثیٰ ثم النساء‘‘(۲)
’’مفہوم أن محاذاۃالخنثیٰ المشکل لا تفسد وبہ صرح في التاتار خانیۃ‘‘(۱)
(۱) المرغیناني، الہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔
(۲) أحمد بن محمد القدوري، القدوري مع شرح الثمیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۳۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 414

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:یہ وقت بہت معمولی ہوتا ہے آیا اور گیا اس کو قرار نہیں ہے اس لیے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں۔(۲)

(۲) ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل وفي ہذا القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ فلعل المراد إنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان أو المراد بالنہار الشرعي وہو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس وعلی ہذا یکون نصف النہار قبل الزوال بزمان یعتد بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت: ج ۲، ص:۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 58

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا واجب نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کو سنن زوائد میں شمار کیا ہے۔ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمامؒ اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں اگر احیانا و اتفاقاً چھوٹ جائے تو گنہ گار نہیں؛ لیکن بار بار ایسا کرنا یقیناً باعثِ گناہ ہے۔
’’وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ أي قبلہا في الخلاصۃ إن اعتاد ترکہ أثم قولہ في الخلاصۃ والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیاناً‘‘(۱)

(۱) وکذلک إذا صلی الفریضۃ بالعذر علی دابۃ والنافلۃ بغیر عذر فلہ أن یصلی إلی أي جہۃ توجہ: کذا فی منیۃ المصلي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص317

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بھول کر پڑھا، تو نماز بھی ہوگئی گنہگار بھی نہیں ہوا اور اگر جان کر پڑھا، تو نماز فاسد ہوگئی اور گنہگار ہوگا۔(۱)

(۱) وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن، والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جریٰ علی لسانہ أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار، ہکذا في الوجیز، للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عصر و عشاء سے قبل سنتیں غیر مؤکدہ ہیں جن کے پڑھنے پر ثواب ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) ترکہ لا یوجب إساء ۃ ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد،  لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵)
وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قبرستان موقوفہ ہے، تو اس کا یہ تصرف ناجائز ہے وہ اور اس کی مدد کرنے والے گناہ گار ہیں اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
 أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
 عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
 وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص209