نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زید جب سہارنپور جائے اور وہاں ۱۵؍ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو وہاں قصر کرے گا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے ٹھہرے گا تو پوری نماز پڑھے گا اور جب اپنے وطن مظفرنگر جائے تو چاہے چند گھنٹے کے لیے جائے بہر حال پوری نماز پڑھے گا، وطن میں قصر کی اجازت نہیں ہے۔(۱)

(۱) (ولا یزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضی ثلاثۃ أیّام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الأصلی (أو ینوی إقامتہ نصف شہر ببلد أو قریۃ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)

من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا صلی الفرض الرباعي رکعتین ولو عاصیاً بسفرہ حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوی إقامۃ نصف شہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:343

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص شرعی سفر پر گیا اور واپسی میں ملازمت کی جگہ ٹھہر گیا چند روز کے لیے یعنی پندرہ دن سے کم یا راستے میں ملازمت کی جگہ سے گذرا تو بھی مسافر ہی رہے گا مقیم نہ ہوگا اور نماز قصر کرے گا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کیا تو مقیم ہوگا اور نمازیں پوری پڑھے گا۔(۱)

(۱) (ولا یزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضي ثلاثۃ أیّام مسافراً (یقصر حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الأصلی (أو ینوی إقامتہ نصف شہر ببلد أو قریۃ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)ولم یعتبر المحقفون وطن السکنی وہو ما رای موضع ینوی الإقامۃ فیہ دون نصف شہر وکان مسافراً فلا یبطل بہ وطن الإقامۃ ولا یبطل السفر۔ (أیضاً: ص: ۴۲۹،  ۴۳۰)ووطن السفر ما ینوي فیہ الإقامۃ أقل من خمسۃ عشر یوماً ولیس مولدہ ولا لہ بہ أہل ویسمیٰ وطن السکنی أیضاً والمحققون علی عدم اعتبارہ ولذا لم یذکرہ صاحب الہدایۃ لأنہ فیہ یوصف السفر فہو کالمفازۃ۔ (إبراہیم الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:342

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسافت قصر پر آدمی گیا اور اس کو معلوم بھی ہے کہ تجھ کو مسافت قصر پر لے جایا جا رہا ہے تو اب وہ نماز قصر پڑھے اور سزا جب تک نہیں سنائی گئی اور اس کو مدت قید کے بارے میں بتایا نہیں گیا تو وہ نماز قصر ہی پڑھتا رہے گا اس لیے کہ ہر روز یہ احتمال ہے کہ آج چھوٹ جائے اور اگر مدت قید کے بارے میں بتا دیا گیا ہے اور مدت قید پندرہ دن یا اس سے زائد ہو تو پھر نماز پوری پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) أو کان أحدہما تبعاً للآخر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہ للاتحاد حکماً (أو لم یکن مستقلاً برأیہ) کعبد وإمرأۃ (أو دخل بلدۃ ولم ینوہا) أي مدۃ الإقامۃ (بل ترقب السفر) غداً أو بعدہ (ولو بقي) علی ذلک (سنین) إلا أن یعلم تأخر القافلۃ نصف شہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۷)

(وقصر إن نوی أقل منہ) أي من نصف شہر (أو لم ینو) شیئاً (وبقی) علی ذلک (سنین) وہو ینوی الخروج في غد أو بعد جمعۃ لأن علقمۃ بن قیس مکث کذلک بخوارزم سنتین یقصر الصلاۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:341

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب مذکورہ شخص نے پہلا سفر شروع کیا تو وہ مسافر ہوگیا راستہ میں نماز قصر لازم ہوئی، پھر ایک جگہ اس نے ایک ماہ قیام کی نیت کی تو وہ مقیم ہوگیا پوری نماز لازم ہوگئی، پھر وہاں سے سفر شرعی شروع کیا تو مسافر ہوگیا، کہیں جاکر دو تین روز قیام کیا تو وہ مسافر ہی رہا قصر ہی لازم ہے۔ پھر وہ واپس وطن اقامت آگیا جہاں پہلے ایک ماہ کے لئے مقیم ہوا تھا، تو اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ یہاں کتنے دن اقامت کی نیت کرتا ہے، اگر پندرہ ایام یا اس سے زائد قیام کی نیت کرے تو وہ مقیم ہوگا اور نمازیں پوری لازم ہوں گی اور اگر پندرہ دن سے کم کی نیت کرتا ہے تو مسافر ہی رہے گا اور قصر لازم ہوگی پہلے جو ایک ماہ کی نیت کی تھی اس کا اب کوئی اعتبار نہ رہا اس کا حکم تو اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب اس نے وہاں سے سفر شرعی شروع کیا تھا۔(۱)

(۱) ووطن الإقامۃ یبطل بوطن الإقامۃ وبإنشاء السفر وبالوطن الأصلي ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲)(ولا یزال) المسافر الذي استحکم سفرہ بمضي ثلاثۃ أیام مسافراً (یقصر)حتی یدخل مصرہ) یعنی وطنہ الأصلی (أو ینوي إقامتہ نصف شہر ببلد أو قریۃ)۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۵)(ویبطل وطن الإقامۃ بمثلہ و) یبطل أیضا بالإنشاء (السفر) بعدھ۔ (أیضاً: ص: ۴۲۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:340

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک ساتھ مسافت شرعی کی نیت سے سفر کیا جائے تو قصر لازم ہوتی ہے اور اگر مسافت شرعی سے کم کا سفر کیا جائے پھر وہاں سے دوسری جگہ بھی مسافت شرعی سے کم کا سفر کیا جائے تو چاہے کتنی ہی دور چلا جائے پوری نماز پڑھنی ضروری ہوگی اس لیے صورت مسئولہ میں قصر نہیں؛ بلکہ پوری نماز پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) ولا بد للمسافر من قصد مسافۃ مقدرۃ بثلاثۃ أیّام حتی یترخص برخصۃ المسافرین وإلا لایترخص أبداً ولو طاف الدنیا جمیعہا بأن کان طالب آبق أو غریم أو نحو ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)

ومن طاف الدنیا بلا قصد لم یقصر، قولہ: (بلا قصد) بأن قصد بلدۃ بینہ وبینہا یومان للإقامۃ بہا فلما بلغہا بدالہ أن مذہب إلی بلدۃ بینہ وبینہا یومان وہلم جراً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:339

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں وہ نمازیں پوری پڑھنی ہوں گی۔(۲)

(۲) (وفائتۃ السفر و) فائتۃ (الحضر تقضي رکعتین وأربعاً) فیہ لف ونشر مرتب لأن القضاء بحسب الأداء … (والمعتبر فیہ) آخر الوقت۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۲۸)من فاتہ صلاۃ وہو مقیم قضاہا أربعاً مقیماً أو مسافراً ومن فاتہ صلاۃ في السفر قضاہا رکعتین مسافراً أو مقیماً۔ (إبراہیم الحلبي الکبیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۴۶۸، دارالکتاب دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:338

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عند الاحناف شرعی سفر میں نماز میں قصر کرنا واجب ہے اور یہ مسلم شریف کی حدیث سے ثابت ہے حضرت یعلی ابن امیہؓ کہتے ہیںکہ میں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں نماز قصر کرو اگر تم کو کفار کے فتنہ کا خوف ہو پس اگر لوگ مامون ہیں وہ خوف نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے بھی یہ شبہ پیش آیا تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ہی عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نمازمیں قصر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اس کو قبول کرو۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللہ عنہ، قال: إن اللّٰہ فرض الصلاۃ علی لسان نبیکم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم علی المسافر رکعتین، وعلی المقیم أربعاً، وفي الخوف رکعۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱، رقم: ۶۸۷، اعظم پیلیشرز)عن یعلی بن امیۃ قال قلت لعمربن الخطاب لیس علیکم جناح أن تقصروا من الصلاۃ إن خفتم أن یفتنکم الذین کفروا فقد أمن الناس فقال عجبت مما عجبت منہ فسألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن ذلک فقال صدقۃ تصدق اللّٰہ بہا علیکم فاقبلوا صدقتہ۔ (أیضاً: رقم: ۶۸۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:337

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مقتدی مقیم مسافر امام کے پیچھے چار ہی رکعت کی نیت کرے گا۔(۱) 

(۱) (ولا بد من التعیین عند النیۃ لفرض) أنہ ظہر أو عصر … (وواجب) أنہ وتر أو نذر … (دون) تعیین (عدد رکعاتہ) لحصولہا ضمنا فلا یضر الخطأ في عددہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب: في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص: ۹۵ تا ۹۸)

(وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت وبعدہ فإذا قام) المقیم (إلی الاتمام لایقرأ ولا یسجد للسہو (في الأصح) لأنہ کاللاحق والقعدتان فرض علیہ وقیل لا، قنیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۱)

(وبعکسہ) بأن اقتدی مقیم بمسافر (صح) الاقتداء (فیہما) أي في الوقت وفیما بعد خروجہ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأہل مکۃ وہو مسافر وقال: أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر، وقعودہ فرضأقوی من الأول في حق المقیم ویتم المقیمون منفردین بلا قراء ۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:337

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر لڑکی والدین کے گھر سے سامان وغیرہ کے ساتھ منتقل ہوکر اپنے شوہر کے گھر آباد ہوگئی ہے اور شوہر کے گھر میں مقیم ہے اور سسرال اور میکہ کے درمیان شرعی مسافت سفر پائی جاتی ہے، تو لڑکی جب چودہ دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی نیت سے میکہ جائے گی، تو قصر کرے گی ورنہ نماز پوری پڑھے گی۔(۱)

’’(الوطن الأصلي) یبطل بمثلہ إذا لم یبق لہ بالأول أہل فلو بقي لم یبطل بل یتم فیہا (لا غیر)‘‘(۲)

(۱) والوطن الأصلي ہو وطن الإنسان في بلدتہ أو بلدۃ أخری اتخذہا داراً وتوطن بہا مع أہلہ وولدہ ولیس من قصدہ الارتحال عنہا بل التعیش بہا وہذا الوطن یبطل بمثلہ لاغیر وہو أن یتوطن في بلدۃ اخری وینقل الأہل إلیہا فیخرج الأول من أن یکون وطنا أصلیا حتی لو دخلہ مسافرا لایتم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹)

(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:336

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت مسئولہ میں زید اپنی سسرال میں اگر پندرہ دن کے رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے اور اگر نیت نہیں کی تو قصر کرے، زوج متبوع ہے تابع نہیں کہ زوجہ کے وطن اصلی کو اس کا وطن قرار دیدیا جائے۔(۱)

(۱) قولہ: (أو تأہلہ) أي تزوجہ۔ قال في شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الإقامۃ بہ فقیل: لا یصیر مقیماً، وقیل: یصیر مقیماً؛ وہو الأوجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴)(ویشترط لصحۃ نیۃ السفر ثلاثۃ أشیاء: الاستقلال بالحکم و البلوغ و) الثالث (عدم نقصان مدۃ السفر عن ثلاثۃ أیام فلایقصر من لم یجاوز عمران مقامہ أو جاوز) العمران ناویًا (و) لکن (کان صبیًّا أو تابعًا لم ینومتبوعہ السفر) والتابع (کالمرأۃ مع زوجہا) وقد أوفاہا معجل مہرہا۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۴، دار الکتاب، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:335