نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، اگر دوسرے نمازی سے کندھا یا ٹخنہ ملانے کی سعی کریں گے، تو سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوگا؛ پس اس قدر مل کر کھڑا ہونا چاہئے کہ خلل درمیان میں نہ ہو۔(۲)
(۲) (قولہ ومنہا القیام) یشمل التام منہ وہو الانتصاب مع الاعتدال وغیر التام وہو الانحناء القلیل بحیث لا تنال یداہ رکبتیہ، وقولہ بحیث إلخ صادق بالصورتین أفادہ ط۔ ویکرہ القیام علی أحد القدمین فی الصلاۃ بلا عذر، وینبغی أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسی إنہ کان یفعلہ کذا في الکبری۔ وما روی أنہم ألصقوا الکعاب بالکعاب أرید بہا الجماعۃ أی قام کل واحد بجانب الآخر کذا في فتاوی سمرقند، ولو قام علی أصابع رجلیہ أو عقبیہ بلا عذر یجوز، وقیل لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص:۱۳۱)
وقال ﷺ: استووا تستوی قلوبکم وتماسوا تراحموا، وقال ﷺ: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات للشیطان من وصل صفا وصلہ اللہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 415

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عیدین کی نماز میں تاخیر کرنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز میں ایک دن تاخیر ہو جائے تو دوسرے دن ادا کر لینا جائز ہے اس کے بعد ادا نہیں کر سکتے جب کہ بقر عید کی نماز اگر دوسرے دن ادا نہ کر سکے تو تیسرے دن بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(وتؤخر بعذر) کمطر (إلی الزوال من الغد فقط)‘‘(۱)
’’وتؤخر صلاۃ عید الفطر بعذر کأن غم الہلال وشہدوا بعد الزوال أو صلوہا في غیم فظہر أنہا کانت بعد الزوال فتؤخر إلی الغد فقط لأن الأصل فیہا أن لا تقضی کالجمعۃ إلا أنا ترکناہ بما روینا من أنہ علیہ السلام أخرہا إلی الغد بعذر … الخ‘‘(۲)
وفیہ أیضاً:
’’وتؤخر صلاۃ عید الأضحی بعذر لنفي الکراہۃ وبلا عـذر مع الکراہۃ لمخالفۃ المأثور إلی ثلاثۃ أیام‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ، ج ۳، ص: ۵۹۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۶۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘:  ص: ۵۳۸۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 59

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) شرعی عذر کی بنا پر اگر کوئی شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے قیام کے وقت کھڑا ہونا بھی جائز ہے اور چوں کہ اشارہ سے رکوع، سجدہ کرنے والے شخض سے قیام کا فرض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر یا مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود فلو قدر علیہ دون السجود ندب إیماؤہ قاعدا أي لقربہ من السجود و جاز إیماؤہ قائما کما في البحر‘‘(۱)
(۲) جو حضرات شرعی عذر کی بناء پر کرسی پر نماز پڑھیں تو کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان معذورین کا کندھا دیگر نمازیوں کے کندھے کے برابر میں ہو؛ کیوں کہ حدیث میں صف بندی اور اقامت صفوف کی بڑی تاکید آئی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقیموا الصفوف وحاذوا  بین المناکب و الأعناق‘‘(۱)
(۳) کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ وہ صف کے کنارے پرنماز پڑھے تاکہ درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صف میں ٹیڑھا پن اور معمولی خلا سا جو پیدا ہوجاتا ہے وہ نہ ہو اور صف سیدھی معلوم ہو ۔
(۴) ایسے شخص کو صف کے کنارے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، ہاں صف کی درستگی کے لیے ان کو بہتر انداز میں سمجھا کر صف کے کنارے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، ۱۳۲۔
(۱) محمد بن المالکي، جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد، ’’النوع الثاني في تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۵، ص: ۶۰۹، رقم: ۳۸۶۶۔
قال حدثنا أنس رضي اللّٰہ عنہ أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: راصوّا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق۔ (أخرجہ النسائي   في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: حث الإمام علی رصّ الصفوف والمقاربۃ بینہا‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۸۱۵)
إن کان ذلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودا وإلا فإیماء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج۲، ص: ۵۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص318

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: لفظ ’’بالساہرہ‘‘ کی جگہ ’’بالساحرہ‘‘ قصداً پڑھا جس سے تغیر فاحش لازم آ گیا اور قرآن پاک میں کسی جگہ موجود بھی نہیں ہے؛ اس لیے نماز نہ ہوگی اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’قال في الخانیۃ والخلاصۃ : الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنیٰ، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم: لا تفسد‘‘(۱)

(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶۔
الأصل فیہ أي في الزلل والخطاء أنہ إن لم یکن مثلہ أي مثل ذلک اللفظ في القرآن والمعنیٰ أي الحال في أن معنی ذلک اللفظ بعید من معنی لفظ القرآن متغیر معنی لفظ القرآن بہ تغیراً فاحشاً قویاً بحیث لا مناسبۃ بین المعنیین أصلا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المستملي في منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 951/41-90

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں بھی نماز درست ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد میں جماعت سے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ لاک ڈاؤن میں ابھی مسجدیں پورے طور پر نہیں کھلی ہیں، اور کرونا نامی وبا کے خطرات اب بھی ہیں، اس لئے اگر کوئی احتیاط برتتے ہوئے گھر میں نماز پڑھے تو گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1606/43-1202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت  نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما  م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔  اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی  کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو  اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔  لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی  وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔   البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.

قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ".  (شامی (1/ 578)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: زوجہ اگر شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ مکان کا انتظام کرے خواہ پورا مکان الگ ہو یا صحن ایک ہو کمرہ الگ ہو(۱) اس مقصد کے لیے اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ آمدنی کی خاطر (وقف بورڈ) میں ملازمت کرنا اور تعویذ و عملیات کی اجرت لینا جائز اور درست ہے۔ شرط یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا نہ لے۔

(۱) وکذا تجب لہا السکنی في بیت خال عن أہلہ لأنہا تتضرر بمشارکۃ غیرہا فیہ لأنہا لاتأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلک لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في مسکن الزوجۃ‘‘ ج ۵، ص: ۳۲۰، زکریا)
 قال العینی کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم، فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الائمۃ الأربعۃ: وفیہ جواز أخذ الأجرۃ، قال محمد في المؤطأ: لا بأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داؤد  في سننہ، ’’کتاب الطب، باب الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جب امام محراب میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے، تو قدموں کا کچھ حصہ محراب سے باہر ہونا چاہئے اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر برآمدہ یا صحن میں نماز ہو رہی ہو، تو پوری مسجد برابر ہے اس کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بس امام اپنی جگہ پر مقتدیوں سے الگ ہو۔(۱)
(۱) وحقیقۃ اختلاف المکان تمنع الجواز فشبہۃ الاختلاف توجب الکراہۃ والمحراب وإن کان من المسجد فصورتہ وہیئتہ اقتضت شبہۃ الاختلاف اہـ ملخصا. قلت: أی لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکانا آخر فأورث الکراہۃ، ولا یخفی حسن ہذا الکلام فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقا، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذی یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ تأمل اہـ (تنبیہ) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فالحاصل أن مقتضی ظاہر الروایۃ کراہۃ قیامہ في المحراب مطلقا سواء اشتبہ حال الإمام أو لا وسواء کان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم یکرہ سجودہ في المحراب إذا کان قدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم في مکان الصلاۃ حتی تشترط طہارتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: تغمیض عینیہ في الصلوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں۔ مثلاً اگر قریب ترین معتدل علاقے میں نمازِ مغرب نوبجے ہوتی ہے اور عشاء ساڑھے دس بجے تو اِن میں بھی مغرب اور عشاء بالترتیب ۹؍ بجے اور ساڑھے دس بجے پڑھی جائے؛ کیوں کہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سورہ کہف کی تلاوت کیا کرو یہ تمہیں دجال سے بچائے گی اس پر صحابہؓ نے پوچھا کہ دجال کتنے دن رہے گا آپ نے فرمایا چالیس دن ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے اس پر صحابہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اندازا لگا کر نماز پڑھنااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جن علاقوں میں دن اوررات چھ مہینہ کا ہوتاہے وہاں ایک دن کی نماز کافی نہیں ہوگی، بلکہ قریب ترین ممالک کو دیکھ کر نماز کے اوقات طے کئے جائیں گے۔(۱)
ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الدجال، فقال: إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم، وإن یخرج ولست فیکم فامرؤ حجیج نفسہ، واللّٰہ خلیفتی علی کل مسلم، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف، فإنہا جوارکم من فتنتہ قلنا: وما لبثہ في الأرض؟ قال: أربعون یوما: یوم کسنۃ، ویوم کشہر، ویوم کجمعۃ، وسائر أیامہ کأیامکم فقلنا: یا رسول اللّٰہ، ہذا الیوم الذي کسنۃ، أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ؟ قال: لا اقدروا لہ قدرہ‘‘(۲)
’’وحاصلہ أنا لا نسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ بل یکفی تقدیرہ کما في أیام الدجال۔ ویحتمل أن المراد بالتقدیر المذکور ہو ما قالہ الشافعیۃ من أنہ یکون وقت العشاء في حقہم بقدر ما یغیب فیہ الشفق في أقرب البلاد إلیہم والمعنی الأول أظہر، کما یظہر لک من کلام الفتح الآتی حیث ألحق ہذہ المسألۃ بمسألۃ أیام الدجال‘‘(۱)

 

(۱) قال الرملي في شرح المنہاج ویجري ذلک فیما لو مکثت الشمس عند قوم مدہ: اھـ۔
قال في إمداد الفتاح قلت: وکذلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم والزکاۃ والحج والعدۃ وآجال البیع والسلم والإجارۃ وینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذ اصل التقدیر مقول بہ اجماعاً في الصلوات۔ (ابن عـابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ مطلب: في طلوع من مغربہا: ج ۱، ص: ۳۶۵)
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم :باب خروج الدجال‘‘: ج۲، ص: ۵۹۳، رقم: ۴۳۲۱۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في فاقد وقت العشاء کأہل بلغار‘‘ ج۲، ص: ۱۹۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تندرست شخص کے لیے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز ادا کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت ان گاڑیوں کو روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اس لیے اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، (قولہ: القادر علیہ) فلو عجز عنہ حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۱)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضو في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۲۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص320