نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1990/44-1937

بسم اللہ الرحمن الرحیم: نماز کے شرائط میں سے وقت کا ہونا بھی ہے۔ اور نمازی کو نماز شروع کرنے سے پہلے وقت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ لیکن گاؤں میں لوگ اس سلسلہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ، اس لئے اس طرح کا اعلان کرنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور کسی دن اعلان نہ ہونے پر ہنگامہ برپا نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2276/44-2432

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ہاں، اس سلسلہ میں صریح احادیث موجود ہیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں ایک لاکھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 1406)

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ

و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1413)

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رُزَيْقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَلْهَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ .

فتح الملھم: (باب فضل الصلاۃ بمسجدي مكۃ و المدينۃ، 301/6، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی) لاحتمال ان حديث الاقل قبل حديث الاكثر ثم تفضل الله بالاکثر شيئا بعد شيء ويحتمل ان يكون تفاوت الاعداد لتفاوت الاحوال۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے امام صاحب خشوع وخضوع کی وجہ سے اور ذہنی انتشار سے حفاظت کی غرض سے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھاتے ہیں تو یہ مکروہ نہیں ہے، تاہم بغیر کسی عذر اور ضرورت کے نماز میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا اور پڑھانا دونوں مکروہ ہے۔

’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)

’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید حلیۃ وبحر‘‘(۲)
(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قام أحدکم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔ قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھا لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ در۔ أو قصد قطع النظر عن الأغیار والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم، قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلوۃ، بیان مایستحب ومایکرہ في الصلوۃ‘‘: ج۱، ص:۵۰۷۔
(۲) ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص87


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ آخری صف میں یا جہاں کنارے پر جگہ ہو وہاں نماز ادا کریں ان شاء اللہ ان کو جماعت اور صف اول کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول وبہ أخذ أبوحنیفۃؒ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 417

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:مختار مذہب یہ ہے کہ تہجد کا وقت نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے خواہ اس سے پہلے سویا ہو یا نہ سویا ہو (سونا شرط نہیں ہے) ہاں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) عن الحجاج بن عمرو المازني قال: أیحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ تلک کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ الطبراني، في معجمہ: ج ۸، ص: ۲۹۲، رقم: ۸۶۷۰)(شاملہ)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 63

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض وواجبات اور فجر کی سنتوں میں قیام فرض ہے، دیگر سنتوں اور نوافل میں قیام فرض نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی شدید تکلیف یا مجبوری ہو جس کی وجہ سے آدمی کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو فرائض، واجبات اور سنت فجر میں قیام اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے۔(۳) لہٰذا اگر نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جائیں تو درست ہوجاتے ہیں(۴) البتہ کھڑے ہونے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر نوافل سے آدھا ثواب ملتا ہے۔(۵)

 (۳) منہا القیام في فرض وملحق بہ کنذر وسنۃ فجر في الأصح لقادر علیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص: ۱۳۱)
(۴) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعدا لامضطجعا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، بحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳)
(۵) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم۔ ( مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب القصد في العمل، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰، رقم: ۱۲۴۹)
وکذا في ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں معنی میں تغیر فاحش ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) فالعبرۃ في عدم الفساد عدم تغیر المعنی (ابن الھمام، فتح القدیر’’باب صفۃ الصلا‘‘: ج۱، ص: ۳۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1014 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صور ت مسئولہ کے متعلق  فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"جو غلطی منافی صلوۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بکڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر حمل کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ ج 11 ص206 مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ2009ء)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1004

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ظہر کا وقت شروع ہونے سے قبل سنت موکدہ معتبر نہیں ، وقت ہونے کے بعد ہی ادا کی جائے۔ کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھیں یا جمعہ کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لیں،  اس کی گنجائش ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آپ نے سہواً جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ہے جنابت کی حالت میں نماز پڑھانا اور پڑھنا دونوں ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے  البتہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے لا علمی میں حالتِ جنابت میں نماز پڑھائی ہے؛ اس لیے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم اس پر توبہ اور استغفار کریں، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خطا اور نسیان کی وجہ سے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا۔
’’وعن ابن عباس أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ قد تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ‘‘(۱)
نیز حالت جنابت میں پڑھائی گئی نماز دوبارہ ادا کریں امام اور مقتدیوں کے لیے نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے آپ کسی نماز میں اعلان کردیں کہ فلاں دن کی فلاں نماز میں جو حضرات شریک ہوئے تھے وہ اپنی نماز کا اعادہ کر لیں کسی وجہ سے وہ نماز نہیں ہوئی ان شاء اللہ اس کے بعد آپ بری الذمہ ہیں؛ لیکن آئندہ آپ اپنے منصب اور پاکی اور ناپاکی کا خاص خیال رکھیں آپ کی وجہ سے عوام ذہنی تناؤ اور کوئی خلجان میں مبتلا نہ ہوں۔
’’وفي کفر من صلی بغیر طہارۃ … مع العمد خلف في الروایات یسطر۔ (قولہ: کما في الخانیۃ) حیث قال بعد ذکرہ الخلاف في مسألۃ الصلاۃ بلا طہارۃ وأن الإکفار روایۃ النوادر۔ وفي ظاہر الروایۃ لا یکون کفرا، وإنما اختلفوا إذا صلی لا علی وجہ الاستخفاف بالدین، فإن کان علی وجہ الاستخفاف ینبغي أن یکون کفرا عند الکل‘‘
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأی مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا)؛ لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃً وفساداً (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ وہل علیہم إعادتہا إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقیل: لا لفسقہ باعترافہ؛ ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ؛ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام وأجبر علیہ (بالقدر الممکن) بلسانہ أو (بکتاب أو رسول علی الأصح) لو معینین وإلا لایلزمہ، بحر عن المعراج۔ وصحح في مجمع الفتاوی عدمہ مطلقاً؛ لکونہ عن خطأ معفو عنہ، لکن الشروح مرجحۃ علی الفتاوی‘‘(۲)
’’قلت: وبہ ظہر أن تعمد الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر کصلاتہ لغیر القبلۃ أو مع ثوب نجس، وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ، وفي سیر الوہبانیۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الطلاق، باب طلاق الکرہ والناس‘‘: ص:۱۴۵، رقم: ۲۰۴۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص88