Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دونوں کے مخرج سے واقف نہ ہو اور دونوں میں فرق نہ کر سکتا ہو، تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اگر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔(۲)
(۲) وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص255
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ میںتشہد کے بعد فوراً کھڑے ہوجائیں؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔
امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ کو زیادہ طول نہ دیں اور مقتدیوں کی رعایت کریں البتہ اگر امام صاحب التحیات کو قدرے سکون سے پڑھتے ہیں تاکہ ہر قسم کے نمازی کی رعایت رکھی جائے تو یہ امر مستحسن ہے، اس پر امام صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
’’سمعت أبا عبیدۃ بن عبد اللّٰہ بن مسعود یحدث عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إذا جلس في الرکعتین الأولیین کأنہ علی الرضف قال شعبۃ ثم حرک سعد شفتیہ بشيء فأقول حتی یقوم؟ فیقول حتی یقوم، والعمل علی ہذا عند أہل العمل یختارون أن لا یطیل الرجل القعود في الرکعتین الأولیین ولا یزید علی التشہد شیئا۔ وقالوا إن زاد علی التشہد فعلیہ سجدتا السہو، ہکذا روي عن الشعبي وغیرہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: مقدار القعود في الرکعتین الأولین‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص85
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر عذر ہو اور کوئی دوسری صورت نہ ہوسکتی ہو تو امام کو ذرا آگے کرکے اس کے پیچھے صف لگا نی چاہئے اس قدر آگے ہوجانا امام کا کافی ہے کہ امام کے پیر مقتدیوں کے پیر سے آگے رہیں۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وہو راجع إلی اختلاف القلوب وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الصف أو میسرتہ فقد أساء لمخالفتہ السنۃ ألا تری أن المحاریب لم تنصب إلا في الوسط وہي معینۃ لمقام الإمام۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ: الأحق بالامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۶)
السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، ولو کان المسجد الصیفی بجنب الشتوی وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ، والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ خلاف عمل الأمۃ۔ قال علیہ الصلاۃ والسلام: توسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عشا کا وقت غروب شفق سے شروع ہوتا ہے، مگر شفق سے کون سی مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے لغت میں سرخی اور اس سرخی کے بعد کی سفیدی دونوں کو شفق کہتے ہیں۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں: ’’وسبب اختلافہم في ہذہ المسئلۃ اشتراک اسم الشفق في لسان العرب فإنہ کما أن الفجر في لسانہم فجران کذلک الشفق شفقان: أحمر وأبیض‘‘(۲)
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ شفق سے وہ شفق(سفیدی) مراد لیتے ہیں جو سرخی کے غائب ہو جانے کے تھوڑی دیر تک رہتی ہے اور یہی راجح اور قابل عمل ہے۔ ’’ألشفق البیاض الذي بعد الحمرۃ‘‘(۳)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں عشا کب پڑھوں؟ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حین أسود الأفق‘‘ یعنی جب آسمان کے کنارے سیاہ ہو جائیں اور حدیث مرفوع ہے ’’یصلي العشاء حین یسود الأفق‘‘(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے کنارے سیاہ ہو جانے کے بعد نماز عشاء ادافرمائی ہے، اسی کو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل بنایا ہے اور اسی پر تمام احناف کا عمل ہے۔(۲)
(۲) ابن رشد، بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد: ج ۱، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۳) کتاب الأخیار : ج ۱، ص: ۳۹۔(شاملہ)
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴۔
(۲) ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘، ج ۱، ص:۱۰۷)
فقال عروۃ سمعت بشیر بن أبي مسعود یقول سمعت أبا مسعود الأنصاری یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نزل جبریل علیہ السلام فأخبرني بوقت الصلاۃ فصلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ یحسب بأصابعہ خمس صلوات فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي المغرب حین تسقط الشمس ویصلي العشاء حین یسود الأفق۔ (أخرجہ ابوداؤد في سننہ،کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر معروف طریقہ پر باندھنا سنت ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے پر امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا بھی یہی مسلک ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ عند الشافعی ومالک ہاتھ ناف سے اوپر اور امام اعظمؒ کے نزدیک ناف سے نیچے باندھے جائیں۔ امام مالکؒ کا ایک قول ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن سے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا ثابت ہے۔(۱) اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاً جو نماز سکھلائی ہاتھ باندھنا اسی وقت سے ثابت ہے۔(۲)
(۱) أخرجہ مالک، في المؤطأ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیدین إحداہاعلی الآخر‘‘ یضع الیمنی علی الیسری۔ (ج۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۴۶)
قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤمنا فیأخذ شمالہ بیمینہ الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲، مکتبہ بلال، دیوبند)
(۲) قال محمد ویضع بطن کفہ الأیمن علی رسغہ الأیسر تحت السرۃ فیکون الرسغ في وسط الکف۔ (یعقوب بن إبراہیم، کتاب الآثار بروایۃ محمد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ قاعدًا والتعمد علی إلی سترۃ الشيء أو یصلي‘‘: ج۱، ص: ۳۱۹، رقم: ۱۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، اس سے معنی میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، چند الفاظ کے چھوٹ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔(۱)
(۱) فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فالعبرۃ في عدمہ الفساد عدم تغیر المعنیٰ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲، مکتبہ الاتحاد دیوبند)
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم تغیر المعنیٰ مثل: وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لا تفسد، وإن غیرت مثل فمالہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد عند العامۃ؛ وقیل لا، والصحیح الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص256
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1990/44-1937
بسم اللہ الرحمن الرحیم: نماز کے شرائط میں سے وقت کا ہونا بھی ہے۔ اور نمازی کو نماز شروع کرنے سے پہلے وقت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ لیکن گاؤں میں لوگ اس سلسلہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ، اس لئے اس طرح کا اعلان کرنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور کسی دن اعلان نہ ہونے پر ہنگامہ برپا نہ کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2276/44-2432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ہاں، اس سلسلہ میں صریح احادیث موجود ہیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں ایک لاکھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 1406)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ
و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1413)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا رُزَيْقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَلْهَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ .
فتح الملھم: (باب فضل الصلاۃ بمسجدي مكۃ و المدينۃ، 301/6، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی) لاحتمال ان حديث الاقل قبل حديث الاكثر ثم تفضل الله بالاکثر شيئا بعد شيء ويحتمل ان يكون تفاوت الاعداد لتفاوت الاحوال۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے امام صاحب خشوع وخضوع کی وجہ سے اور ذہنی انتشار سے حفاظت کی غرض سے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھاتے ہیں تو یہ مکروہ نہیں ہے، تاہم بغیر کسی عذر اور ضرورت کے نماز میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا اور پڑھانا دونوں مکروہ ہے۔
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید حلیۃ وبحر‘‘(۲)
(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قام أحدکم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔ قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھا لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ در۔ أو قصد قطع النظر عن الأغیار والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم، قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلوۃ، بیان مایستحب ومایکرہ في الصلوۃ‘‘: ج۱، ص:۵۰۷۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ آخری صف میں یا جہاں کنارے پر جگہ ہو وہاں نماز ادا کریں ان شاء اللہ ان کو جماعت اور صف اول کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول وبہ أخذ أبوحنیفۃؒ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 417