نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: (۱) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۂ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دھر پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ لیکن اس پر دوام ثابت نہیں اس لیے جمعہ میں کبھی کبھی ان دونوں سورتوں کو پڑھنا چاہیے لیکن اس پر دوام مناسب نہیں ہے۔ حضرات فقہاء نے ہمیشہ پڑھنے سے منع کیا ہے خاص طورپر جب کہ مقتدیوں میں کمزور اور ضعیف لوگ ہوں تو امام صاحب کو ان کی رعایت کرنی چاہیے۔
’’عن سعید بن جبیر، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في صلاۃ الفجر یوم الجمعۃ: تنزیل السجدۃ، وہل أتی علی الإنسان حین من الدہر‘‘(۱)
’’ھذا، وقید الطحاوي والاسبیجابي الکراھۃ بما إذا رأي ذلک حتماً لا یجوز غیرہ، أما لو قرأہ للتیسیر علیہ أو تبرکاً بقرائتہ علیہ الصلاۃ والسلام فلا کراھۃ، لکن بشرط أن یقرأ غیرھا أحیانا لئلا یظن الجاھل أن غیرھا لا یجوز۔ واعترضہ في الفتح بأنہ لا تحریر فیہ، لأن الکلام في المداومۃ اھـ۔ وأقول: حاصل معنی کلام ھذین الشیخین بیان وجہ الکراھۃ في المداومۃ، وھو أنہ إن رأي ذلک حتماً یکرہ من حیث تغییر المشروع وإلا یکرہ من حیث إیہام الجاھل، وبھذا الحمل یتأید أیضا کلام الفتح السابق، ویندفع اعتراضہ اللاحق فتدبر‘‘(۲)

(۲) تکبیرات انتقالیہ میں مسنون یہ ہے کہ ایک رکن سے منتقل ہوتے ہوئے تکبیر شروع کرے اور دوسرے رکن میں پہنچنے پر اس کو مکمل کرے یعنی انتقال کے دوران تکبیر کہے انتقال کے بعد نہیں۔ امام کا سجدہ میں جاکر تکبیر کہنے کو حضرات فقہاء نے مکروہ لکھاہے۔
’’یکبر مع الانحطاط، کذا في ’’الہدایۃ‘‘ قال الطحاوي: وہو الصحیح کذا فی ’’معراج الدرایۃ‘‘ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في ’’المحیط‘‘(۳)
’’ویکرہ) أن یأتي بالأذکار المشروعۃ في الانتقالات بعد تمام الانتقال بأن یکبر للرکوع بعد الانتہاء إلی حد الرکوع ویقول سمع اللّٰہ لمن حمدہ بعد تمام القیام‘‘(۴)

(۳) سورۂ فا تحہ او رضم سورت کے درمیان سکتہ خفیفہ ہونا چاہیے جس میں آمین کہہ سکیں او رکسی سورت کے انتخاب کے لیے سوچنے کا موقع مل سکے، اتنا وقفہ کرنا جس میں آدمی تین آیت کے بقدر پڑھ سکتاہے درست نہیں ہے ا س سے نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’ومن الواجب تقدیم الفاتحۃ علی السورۃ، وأن لا یؤخر السورۃ عنہا بمقدار أداء رکن‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب : تفریع أبواب الجمعۃ، باب ما یقرأ في صلاۃ الصبح یوم الجمعۃ‘‘  ج ۱، ص: ۲۸۲، ط: نعیمیہ، دیوبند۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القرائۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین و سنۃ کفایۃ‘‘: ج۲، ص:۲۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت۔)
(۴) إبراھیم الحلبي، الکبیري: ص: ۳۵۷۔
(۱)الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘ ص: ۴۶۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص234


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں چار رکعت پڑھے گا اور وہ دو رکعت اس کی نفل ہوگئی وہ ان سنتوں (چار سنت قبل الظہر) میں محسوب نہیں ہوں گی۔(۲)

(۲) قد استدل قاضي خان لقضاء سنۃ الظہر بما عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر قضاہن بعدہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ أو أفحش، ج ۲، ص: ۵۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے ساتھ علاج معالجہ کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ امام کو لازم ہے کہ فرائض امامت میں کوتاہی نہ آنے دے۔(۱)

(۱) {رِجَالٌلا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَإِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِصلا یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُہقلا ۳۷ } (سورۃ النور: ۳۷)
لما استخلف أبو بکر الصدیق قال لقد علم قومي أن حرفتي لم تکن تعجر عن مؤنۃ أہلي وشغلت بأمر المسلمین فسیأکل آل أبي بکر من ہذا المال ویحترف للمسلمین فیہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۲۰۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص39

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی اولاد اگر عالم اور صالح ہو تو ان کی امامت درست ہوگی؛ بلکہ افضل ہوگی اور خود اس شخص کی امامت بھی درست ہے جب کہ وہ خود بھی صالح اور عالم ہو۔(۱)

(۱) وکرہ إمامۃ العبد والأعمی وولد الزنا الذي لاعلم عندہ ولا تقوی فلذا قیدہ مع ماقبلہ بقولہ الجاہل، إن لو کان عالماً تقیاً لاتکرہ وولد الزنا من ولد الرشد، قولہ، وولدالزنا لأنہ لیس لہ أب یعلمہ فیغلب علیہ الجہل فلو کان عندہ علم لا کراہۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وولد الزنا إذا کان أفضل القوم فلا کراہۃ إذا لم یکونا محتقرین بین الناس لعدم العلۃ للکراہۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص64

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام صاحب سے جو پڑھانا وغیرہ طے ہوا تھا اس کی طرف امام صاحب کو سنجیدگی سے توجہ دلائی جائے اور اگر مقتدی امام صاحب کی غلطی کی وجہ سے ناراض ہوں تو محلہ ومسجد کے ذمہ داران امام صاحب سے بات کرکے تصفیہ کرادیں بصورت دیگر ذمہ داران دوسرے امام کا نظم کرسکتے ہیں۔(۲)

(۲) لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولانہم أحق بالإمامۃ منہ …کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص194

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا شخص جو خود بھی مسجد کی نماز اور جماعت سے بغیر عذر شرعی اعراض کرتا ہے اور دوسروں کے اعراض کا ذریعہ بنتا ہے وہ شخص خود بھی گنہگار ہے اور دوسروں کو گناہوں میں ملوث کر رہا ہے اسلامی احکام (نماز باجماعت مسجد میں) غریب، فقیر، بادشاہ، حقیر  سب کے لیے برابر ہیں بغیر عذر شرعی کے اس کے خلاف کرنے والا گناہگار ہے اور خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا، اس کو ایسی گمراہ کن حرکتوں سے باز آنا چاہئے اور دوسرے حضرات کو چاہئے کہ اس کی روش چھوڑ دیں اور اس کے گمراہ کن طریقہ کار کو بالکل نہ اپنا ئیں ورنہ تو وہ بھی گناہگار ہوں گے۔(۱)

(۱) وعن ابن عباس -رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالو: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ    الصلاۃ التي صلی۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ص: ۹۶، یاسر ندیم دیوبند)
عن عبداللّٰہ بن ام مکتوم أنہ قال: یارسول اللّٰہ ان المدینۃ کثیرۃ الہوام والسباع۔ قال ہل تسمع حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح؟ قال نعم۔ قال: فحي ھلا ولم یرخص لہ۔  (أخرجہ النساء في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، المحافظۃ علی الصلوات حیث ینادی بہن،  ج۱، ص:۱۰۹، رقم:۸۵۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص389

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر قیام سے مراد وہ قیام ہے، جو بریلوی حضرات کرتے ہیں، تو وہ بدعت اور قابل ترک ہے؛ اس سے اجتناب ضروری ہے، لیکن اس بدعتی کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا درست نہیں ہے۔(۱) {وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ أَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِيْ  خَرَابِھَاط}(۲) گھر میں نماز پڑھنے سے فرض ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے، لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کے ثواب سے محروم رہتا ہے جو کہ عظیم خسارہ ہے؛ اس لیے مذکورہ شخص بدعات وخرافات سے توبہ کرے اور مسجد میں نماز پڑھنے کا اہتمام کرے تاکہ حدیث میں وارد شدہ وعید سے بچ سکے۔(۳)
صورت مسئول عنہا میں اگر مسجد میں جانے سے اس کو روکا گیا، تو اس کو دوسری جگہ جمعہ پڑھنے کے لیے جانا درست ہے اور اس مجبوری میں گھر میں پنج وقتہ نماز پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔ اور صورت مسئول عنہا میں دوسری مسجد کا بنانا بھی درست ہے۔(۱)
(۱) منصوب علی العلیۃ أي کراہۃ أن یذکر وسعي في خرابہا بالتعطیل عن ذکر اللّٰہ فإنہم لما منعوا من أن یعمرہ بالذکر فقد سعوا في خرابہا۔ (ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۱۴‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶)
(۲) سورۃ البقرۃ: ۱۱۴۔
(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لقد ہممت أن اٰمر … فیجمعوا حزما من حطب ثم آتی قوما یصلون في بیوتہم لیست بہم علۃ فأحرقہا علیہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، رقم: ۵۴۹، مکتبہ اشرفی دیوبند)
(۱) عن جابر بن عبد اللّٰہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أعطیت خمسا لم یعطہن أحد قبلي، نصرت بالرعب مسیرۃ شہر وجعلت لي الأرض مسجداً وطہوراً فأیما رجل من أمتي أدرکتہ الصلوٰۃ فلیصل الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۳۳۵)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 34

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر اذان میں ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ اذان ہی نہ ہو پائے تو روکنا ضروری ہے، ورنہ شدت نہ برتی جائے ان کو سمجھاتے رہنا چاہئے تاکہ اختلاف بھی نہ ہو اور اذان بھی اچھے انداز پر پڑھی جا سکے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۸۷، رقم: ۵۹۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص172

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا نیت ہی نماز شروع کردی، پھر یاد آیا کہ نیت نہیں کی یا غلط نیت کر لی، مثلاً: عصر کی جگہ ظہر کی نیت کرلی، تو اب نیت کا وقت ختم ہوگیا؛ اس لیے نماز کے اندر نیت کر لینے کا اعتبار نہیں ہوگا، پھر از سر نو نیت کرے، تکبیر تحریمہ کہے۔(۱)

(۱) قولہ: ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا ینبني الباقي علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص: ۹۴)
إنما الأعمال بالنیات۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب کیف کان بدء الوحي‘‘: ج ۱، ص: ۲، رقم : ۱)
(النیۃ) بالإجماع (وہي الإرادۃ المرجحۃ) المرجحۃ لأحد المتساویین أي إرادۃ الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ علی الخلوص۔۔۔۔ (المعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبیٰ (وہو) أی عمل القلب (أن یعمل) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۱،۹۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص294

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد آپ جو عمل ’’نصر من اللّٰہ وفتح قریب‘‘ وغیرہ پڑھتے ہیں اس کا پڑھنا درست اور جائز ہے؛ لیکن مناسب یہ ہے کہ سنتوں کے بعد پڑھیں، عذر معقول کے بغیر فرض اور سنت میں زیادہ فصل مناسب نہیں۔(۱)
(۱) الأولیٰ أن لا یقرأ الأوراد قبل السنۃ، ولو فعل لابأس بہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۴۴۱)
 فروع: قراء ۃ الأوراد بین الفرض والسنۃ لابأس بہا، قالہ الحلواني : ولو قام في مصلاہ إن شاء قرأ جالسا وإن شاء قرأ قائما، وفي شرح الشہید القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون، وفي الثاني کان النبي علیہ السلام، إذا سلم یمکث قدر ما یقول اللّٰہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والإکرام، ولو تکلم بعد السنۃ قبل الفریضۃ ہل تسقط السنۃ، قیل: تسقط، وقیل: لا (تسقط)، ولکن ثوابہ أفضل من ثوابہ قبل التکلم۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، عدد رکعات التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۰؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الصلاۃ المسنونۃ کل یوم‘‘: ج۲، ص: ۵۲)
فصل (الأذکار الواردۃ بعد الفرض) القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون وعن شمس الأئمۃ الحلواني لابأس بقراء ۃ الأوراد بین الفریضۃ والسنۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج۱، ص: ۳۱۲؛ و حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ج۱، ص: ۱۱۸)
لکنہ إن کانت الصلاۃ مما بعدہا سنۃ فالسنۃ وصلہا بالفرض ورجح کراہۃ الفصل بینہا وبین الفرض بالأذکار والأوراد والأدعیۃ ومقابل ما رجح أنہ لابأس بأن یقرأ بینہما الأوراد کما في شرح المنظومۃ لابن الشحنۃ۔ (علي حیدر، درر الحکام، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الإمامۃ ‘‘ ج۱، ص: ۸۰) (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص439