نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:مختار مذہب یہ ہے کہ تہجد کا وقت نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے خواہ اس سے پہلے سویا ہو یا نہ سویا ہو (سونا شرط نہیں ہے) ہاں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) عن الحجاج بن عمرو المازني قال: أیحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ تلک کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ الطبراني، في معجمہ: ج ۸، ص: ۲۹۲، رقم: ۸۶۷۰)(شاملہ)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 63

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض وواجبات اور فجر کی سنتوں میں قیام فرض ہے، دیگر سنتوں اور نوافل میں قیام فرض نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی شدید تکلیف یا مجبوری ہو جس کی وجہ سے آدمی کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو فرائض، واجبات اور سنت فجر میں قیام اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے۔(۳) لہٰذا اگر نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جائیں تو درست ہوجاتے ہیں(۴) البتہ کھڑے ہونے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر نوافل سے آدھا ثواب ملتا ہے۔(۵)

 (۳) منہا القیام في فرض وملحق بہ کنذر وسنۃ فجر في الأصح لقادر علیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص: ۱۳۱)
(۴) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعدا لامضطجعا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، بحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳)
(۵) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم۔ ( مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب القصد في العمل، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰، رقم: ۱۲۴۹)
وکذا في ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں معنی میں تغیر فاحش ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) فالعبرۃ في عدم الفساد عدم تغیر المعنی (ابن الھمام، فتح القدیر’’باب صفۃ الصلا‘‘: ج۱، ص: ۳۳۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1014 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صور ت مسئولہ کے متعلق  فتاوی محمودیہ کی درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"جو غلطی منافی صلوۃ ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اگر معنی بکڑنے سے نماز فاسد ہوگئی تھی تو اس لفظ کا صحیح طور پر اعادہ کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوئی، بلکہ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔ البتہ عالمگیری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صحیح ہوجائے گی۔ ہمارے اکابر اس کو نفل وتراویح وغیرہ پر حمل کرتے ہیں۔ وسط کلمہ پر سانس توڑنے سے خواہ تشہد وغیرہ میں معنی صحیح رہیں یا بگڑیں سب کا ایک حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ ج 11 ص206 مطبوعہ مکتبہ محمودیہ میرٹھ2009ء)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1004

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ظہر کا وقت شروع ہونے سے قبل سنت موکدہ معتبر نہیں ، وقت ہونے کے بعد ہی ادا کی جائے۔ کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھیں یا جمعہ کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لیں،  اس کی گنجائش ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آپ نے سہواً جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ہے جنابت کی حالت میں نماز پڑھانا اور پڑھنا دونوں ناجائز اور سخت گناہ کا کام ہے  البتہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ نے لا علمی میں حالتِ جنابت میں نماز پڑھائی ہے؛ اس لیے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم اس پر توبہ اور استغفار کریں، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خطا اور نسیان کی وجہ سے ان شاء اللہ مواخذہ نہیں ہوگا۔
’’وعن ابن عباس أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ قد تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ‘‘(۱)
نیز حالت جنابت میں پڑھائی گئی نماز دوبارہ ادا کریں امام اور مقتدیوں کے لیے نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے آپ کسی نماز میں اعلان کردیں کہ فلاں دن کی فلاں نماز میں جو حضرات شریک ہوئے تھے وہ اپنی نماز کا اعادہ کر لیں کسی وجہ سے وہ نماز نہیں ہوئی ان شاء اللہ اس کے بعد آپ بری الذمہ ہیں؛ لیکن آئندہ آپ اپنے منصب اور پاکی اور ناپاکی کا خاص خیال رکھیں آپ کی وجہ سے عوام ذہنی تناؤ اور کوئی خلجان میں مبتلا نہ ہوں۔
’’وفي کفر من صلی بغیر طہارۃ … مع العمد خلف في الروایات یسطر۔ (قولہ: کما في الخانیۃ) حیث قال بعد ذکرہ الخلاف في مسألۃ الصلاۃ بلا طہارۃ وأن الإکفار روایۃ النوادر۔ وفي ظاہر الروایۃ لا یکون کفرا، وإنما اختلفوا إذا صلی لا علی وجہ الاستخفاف بالدین، فإن کان علی وجہ الاستخفاف ینبغي أن یکون کفرا عند الکل‘‘
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) وکذا کل مفسد في رأی مقتد (بطلت فیلزم إعادتہا)؛ لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃً وفساداً (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو رکن۔ وہل علیہم إعادتہا إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقیل: لا لفسقہ باعترافہ؛ ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ؛ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام وأجبر علیہ (بالقدر الممکن) بلسانہ أو (بکتاب أو رسول علی الأصح) لو معینین وإلا لایلزمہ، بحر عن المعراج۔ وصحح في مجمع الفتاوی عدمہ مطلقاً؛ لکونہ عن خطأ معفو عنہ، لکن الشروح مرجحۃ علی الفتاوی‘‘(۲)
’’قلت: وبہ ظہر أن تعمد الصلاۃ بلا طہر غیر مکفر کصلاتہ لغیر القبلۃ أو مع ثوب نجس، وہو ظاہر المذہب کما في الخانیۃ، وفي سیر الوہبانیۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الطلاق، باب طلاق الکرہ والناس‘‘: ص:۱۴۵، رقم: ۲۰۴۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص88


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:فجر کی نماز غلس میں پڑھے یا اسفار میں پڑھے دونوں جائز ہیں؛ البتہ احناف کے نزدیک اسفار میں جماعت افضل ہے؛ اس لیے کہ اس وقت میں جماعت میں کثرت ہوتی ہے اور رمضان کے ماہ میں چوں کہ لوگ اذان کے فوراً بعد آ جاتے ہیں؛ اس لیے کثرت جماعت کی وجہ سے غلس میں احناف کے نزدیک بھی افضل ہوگی۔(۱)

(۱) ’’یستحب الإسفار‘‘ و ھو التأخیر للإضائۃ بالفجر بحیث لو ظہر فسادہا أعادہا بقرائۃ مسنونۃ قبل طلوع الشمس لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ:  باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰)
والإسفار بصلاۃ الفجر أفضل من التغلیس بہا في السفر والحضر والصیف والشتاء في حق جمیع الناس إلا في حق الحاج بمزدلفۃ فإن التغلیس بہا أفضل في حقہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: کتاب الصلاۃ: الأوقات المستحبۃ، ج ۱، ص: ۳۲۲)
فلو اجتمع الناس الیوم أیضا في التغلیس لقلنا بہ أیضا: کما في مبسوط السرخسي في باب التیمم أنہ یستحب التغلیس في الفجر والتعجیل في الظہر إذا اجتمع الناس۔ (الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 64

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تنہا تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہ ہوگی، نیز گاڑی میں قبلہ رخ رہنا بھی ممکن نہیں ہے، لہٰذا گاڑی رکوا کر اتر کر نماز ادا کی جائے، اگر کسی نے چلتی کار، وین وغیرہ میں فرض نماز ادا کرلی تو نماز درست نہ ہوگی؛ بلکہ اعادہ لازم ہوگا۔

’’بس‘‘ کے بارے میںتفصیل یہ ہے کہ اگر شہر سے باہر لمبا سفر ہو اور بس ڈرائیور کہنے کے باوجود بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو، تو دیکھا جائے گا کہ اگر بس کے اندر قبلہ رُخ ہوکر قیام رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو اس طرح نماز ادا کرے۔ (چنانچہ اگر بس قبلہ رخ چل رہی ہو یا مخالف سمت جارہی ہو اور سیٹوں کے درمیان فاصلہ ہو تو قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اور اگر بس میں مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار وغیرہ کا ڈرائیور گاڑی نہ روکے) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی قضا کرلے۔

’’وفي الخلاصۃ: وفتاویٰ قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ لا تجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، زکریا دیوبند۔
قولہ: وخوف فوت الوقت وقیل یتیمم لخوف فوت الوقت، قال الحلبي، والأحوط أنہ یتیمم ویصلي بہ ویعید ذکرہ السید۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ص: ۱۱۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائما بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضوء فيالوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 323

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، اس سے معنی میں بھی کوئی تغیر فاحش پیدا نہیں ہوا۔(۲)

(۲) ومنہا ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے جو حالات سوال میں مذکور ہیںان سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف وانتشار اور لڑائی وغیرہ پیدا ہوتی ہے، امام صاحب پر لازم ہے کہ اس طرح کے عمل کو ترک کردیں ورنہ اپنا کوئی دوسرا نظم کر لیں امامت کا منصب انتہائی اہم ہے۔ مقتدیوں کو بھی لازم ہے کہ حقائق پر ہی کوئی فیصلہ کریں۔(۲)

(۲) ویکرہ تقدیم العبد والأعرابي والفاسق لأنہ لا یتہم لأمر دینہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰؛ وإبراہیم الحلبي، وحلبی کبیري، ’’ ‘‘: ص: ۳۱۷؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص90