Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ کتب فقہ میں فاسق کی امامت کو مکروہ تحریمی لکھا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں ملوث ہواور توبہ نہ کرے تو فسق کی وجہ سے اس کی امامت مکروہ ہوگی؛ لیکن شرعی تحقیق کے بغیر کسی کو مرتکب کبیرہ نہیں قرار دیا جاسکتا اور اگر کسی شخص پر صرف زنا کی تہمت ہے مگر ثابت نہیں ہوا ہے تو اس پر تہمت لگانے والے سخت گنہگار حق العبد میں گرفتار اور مستحقِ عذاب ہوگا ان لوگوں پر جنہوں نے الزام لگایا ہے توبہ واستغفار اور اس شخص سے معافی طلب کرنا لازم ہے اگر اسلامی قانون نافذ ہوتا تو زنا کی تہمت لگانے والے اگر چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کر پاتے تو اسی ۸۰ کوڑے مارے جاتے۔
سوال میں مذکورہ احوال اگر واقعۃً صداقت پر مشتمل ہیں، اور مذکورہ شخص نے خود ہی قبول
کیا ہے تو ایسا شخص شرعاً امامت کے لائق نہیں ہے، اگر جماعت میں اس سے بہتر شخص امامت کے لائق موجود ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، مسجد کی انتطامیہ پر لازم ہے کہ کسی نیک صالح متبعِ سنت عالمِ دین کو امامت پر مقرر کریں۔
نیز مذکور شخص کا زنا کرنا یا اس کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا اگر ثابت ہو جائے اور اس کے بعد اس نے توبہ کرلی ہو تو ان دونوں صورتوں میں اس سے بیزار رہنے والے غلطی پر ہیں توبہ استغفار کے بعد مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے اور ان سب کی نماز اس کے پیچھے ہوجاے گی بشرطیکہ کوئی اور چیز مانع امامت نہ ہو۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین، فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
’’بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)
’’قولہ: فاسق: من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک‘‘(۳)
’’قال تعالیٰ: {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً}(۴)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن سعد بن عبادۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: یا رسول اللّٰہ! إن وجدت مع إمرأتي رجلاً أمہِّلہ حتی أتی بأربعۃ شہداء؟ قال نعم‘‘(۵)
’’ویثبت شہادۃ أربعۃ رجال في مجلس واحد … بلفظ الزنا لا الوطء والجماع … وعدّلوا سراً وعلناً … ویثبت أیضاً بإقرارہ أربعاً في مجالسہ: أي المقرالأربعۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحدود‘‘: ج ۴، ص: ۴۲۱۔
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص207
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص اصلاً مرد ہی ہے اور صرف ظاہری حالت مخنث جیسی بنا رکھی ہے تو اسے مرد ہی کہا جائے گا اور مردوں کی صفوں میں رہ سکتا ہے اور اگر واقعۃً مخنث ہے تو پیچھے کھڑا ہو۔ اور اگر وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہو گیا، تودوسرے لوگوں اور خود اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی؛ بلکہ درست ہوگی، اگر مردوں، بچوں اور مخنثوں کا مجمع ہو، تو ان کی صف بندی میں اس ترتیب کی رعایت رکھیںکہ آگے مرد کھڑے ہوں، پھر بچے اور ان کے پیچھے مخنث۔
’’وإذا وقف خلف الإمام قام بین صف الرجال والنساء لاحتمال أنہ امرأۃ فلا یتخلل الرجال کیلا تفسد صلاتہم‘‘(۱)
’’ویصف الرجال ثم الصبیان ثم الخنثیٰ ثم النساء‘‘(۲)
’’مفہوم أن محاذاۃالخنثیٰ المشکل لا تفسد وبہ صرح في التاتار خانیۃ‘‘(۱)
(۱) المرغیناني، الہدایہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔
(۲) أحمد بن محمد القدوري، القدوري مع شرح الثمیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 414
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:یہ وقت بہت معمولی ہوتا ہے آیا اور گیا اس کو قرار نہیں ہے اس لیے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں۔(۲)
(۲) ولا یخفی أن زوال الشمس إنما ہو عقیب انتصاف النہار بلا فصل وفي ہذا القدر من الزمان لا یمکن أداء صلاۃ فیہ فلعل المراد إنہ لا تجوز الصلاۃ بحیث یقع جزء منہا في ہذا الزمان أو المراد بالنہار الشرعي وہو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس وعلی ہذا یکون نصف النہار قبل الزوال بزمان یعتد بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت: ج ۲، ص:۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا واجب نہیں ہے۔ بعض فقہاء نے اس کو سنن زوائد میں شمار کیا ہے۔ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ہمامؒ اس کے سنت مؤکدہ ہونے کے قائل ہیں اگر احیانا و اتفاقاً چھوٹ جائے تو گنہ گار نہیں؛ لیکن بار بار ایسا کرنا یقیناً باعثِ گناہ ہے۔
’’وسننہا رفع الیدین للتحریمۃ أي قبلہا في الخلاصۃ إن اعتاد ترکہ أثم قولہ في الخلاصۃ والمختار إن اعتادہ أثم لا إن کان أحیاناً‘‘(۱)
(۱) وکذلک إذا صلی الفریضۃ بالعذر علی دابۃ والنافلۃ بغیر عذر فلہ أن یصلی إلی أي جہۃ توجہ: کذا فی منیۃ المصلي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص317
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بھول کر پڑھا، تو نماز بھی ہوگئی گنہگار بھی نہیں ہوا اور اگر جان کر پڑھا، تو نماز فاسد ہوگئی اور گنہگار ہوگا۔(۱)
(۱) وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن، والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جریٰ علی لسانہ أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار، ہکذا في الوجیز، للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عصر و عشاء سے قبل سنتیں غیر مؤکدہ ہیں جن کے پڑھنے پر ثواب ہوتا ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہوتا اس لیے مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۱)
(۱) ترکہ لا یوجب إساء ۃ ولا عتاباً کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب صفۃ الصلوۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵)
وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص83
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر قبرستان موقوفہ ہے، تو اس کا یہ تصرف ناجائز ہے وہ اور اس کی مدد کرنے والے گناہ گار ہیں اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۲)
(۲) قال ولو وکلہ بشراء شيء بعینہ فلیس لہ أن یشتریہ لنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب البیوع، فصل في الشراء‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۴)
أن الغاصب أو المودع إذا تصرف فی المغصوب أو الودیعۃ وربح لا یطیب لہ الربح۔ (المرغیانی، الہدایۃ، ’’کتاب الغصب، فصل‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۵)
عن عبد اللّہ بن عمر وأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أربع من کن فیہ کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعہا إذا ائتمن خان۔ (ملا علي قاري، عمدۃ القاري، ’’کتاب الإیمان، باب الکبائر، باب علامات المنافق‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ إلخ) قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص209
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، اگر دوسرے نمازی سے کندھا یا ٹخنہ ملانے کی سعی کریں گے، تو سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہوگا؛ پس اس قدر مل کر کھڑا ہونا چاہئے کہ خلل درمیان میں نہ ہو۔(۲)
(۲) (قولہ ومنہا القیام) یشمل التام منہ وہو الانتصاب مع الاعتدال وغیر التام وہو الانحناء القلیل بحیث لا تنال یداہ رکبتیہ، وقولہ بحیث إلخ صادق بالصورتین أفادہ ط۔ ویکرہ القیام علی أحد القدمین فی الصلاۃ بلا عذر، وینبغی أن یکون بینہما مقدار أربع أصابع الید لأنہ أقرب إلی الخشوع، ہکذا روي عن أبي نصر الدبوسی إنہ کان یفعلہ کذا في الکبری۔ وما روی أنہم ألصقوا الکعاب بالکعاب أرید بہا الجماعۃ أی قام کل واحد بجانب الآخر کذا في فتاوی سمرقند، ولو قام علی أصابع رجلیہ أو عقبیہ بلا عذر یجوز، وقیل لا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص:۱۳۱)
وقال ﷺ: استووا تستوی قلوبکم وتماسوا تراحموا، وقال ﷺ: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولینوا بأیدي إخوانکم لا تذروا فرجات للشیطان من وصل صفا وصلہ اللہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 415
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عیدین کی نماز میں تاخیر کرنے کے سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ: بارش یا کسی اور عذر کی وجہ سے عید الفطر کی نماز میں ایک دن تاخیر ہو جائے تو دوسرے دن ادا کر لینا جائز ہے اس کے بعد ادا نہیں کر سکتے جب کہ بقر عید کی نماز اگر دوسرے دن ادا نہ کر سکے تو تیسرے دن بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(وتؤخر بعذر) کمطر (إلی الزوال من الغد فقط)‘‘(۱)
’’وتؤخر صلاۃ عید الفطر بعذر کأن غم الہلال وشہدوا بعد الزوال أو صلوہا في غیم فظہر أنہا کانت بعد الزوال فتؤخر إلی الغد فقط لأن الأصل فیہا أن لا تقضی کالجمعۃ إلا أنا ترکناہ بما روینا من أنہ علیہ السلام أخرہا إلی الغد بعذر … الخ‘‘(۲)
وفیہ أیضاً:
’’وتؤخر صلاۃ عید الأضحی بعذر لنفي الکراہۃ وبلا عـذر مع الکراہۃ لمخالفۃ المأثور إلی ثلاثۃ أیام‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لایبقی بعد موتہ، ج ۳، ص: ۵۹۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘: ص: ۵۳۶۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشـیـۃ الطـحطاوي علی مراقي الفلاح: ’’کتاب الصــلاۃ: باب أحکام العیدین من الصلاۃ وغیرہا‘‘: ص: ۵۳۸۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) شرعی عذر کی بنا پر اگر کوئی شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے قیام کے وقت کھڑا ہونا بھی جائز ہے اور چوں کہ اشارہ سے رکوع، سجدہ کرنے والے شخض سے قیام کا فرض ساقط ہو جاتا ہے اس لیے ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر یا مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے ۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود فلو قدر علیہ دون السجود ندب إیماؤہ قاعدا أي لقربہ من السجود و جاز إیماؤہ قائما کما في البحر‘‘(۱)
(۲) جو حضرات شرعی عذر کی بناء پر کرسی پر نماز پڑھیں تو کرسی رکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ کرسی اس طرح رکھی جائے کہ اس کے پچھلے پائے صف میں کھڑے مقتدیوں کی ایڑیوں کے برابر ہوں تاکہ بیٹھنے کی صورت میں ان معذورین کا کندھا دیگر نمازیوں کے کندھے کے برابر میں ہو؛ کیوں کہ حدیث میں صف بندی اور اقامت صفوف کی بڑی تاکید آئی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب و الأعناق‘‘(۱)
(۳) کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص صف کے کسی بھی حصہ میں نماز پڑھ سکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ وہ صف کے کنارے پرنماز پڑھے تاکہ درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صف میں ٹیڑھا پن اور معمولی خلا سا جو پیدا ہوجاتا ہے وہ نہ ہو اور صف سیدھی معلوم ہو ۔
(۴) ایسے شخص کو صف کے کنارے نماز پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے، ہاں صف کی درستگی کے لیے ان کو بہتر انداز میں سمجھا کر صف کے کنارے نماز پڑھنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، ۱۳۲۔
(۱) محمد بن المالکي، جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد، ’’النوع الثاني في تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۵، ص: ۶۰۹، رقم: ۳۸۶۶۔
قال حدثنا أنس رضي اللّٰہ عنہ أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: راصوّا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق۔ (أخرجہ النسائي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: حث الإمام علی رصّ الصفوف والمقاربۃ بینہا‘‘: ج۱، ص: ۹۴، رقم: ۸۱۵)
إن کان ذلک الموضوع یصح السجود علیہ کان سجودا وإلا فإیماء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج۲، ص: ۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص318