نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:لوگوں میں نماز کی طرف سے تساہل عام ہوتا جا رہا ہے طلوعِ آفتاب وغیرہ کے اوقات کا پورا خیال نہیں رہتا، اگر طلوعِ آفتاب کے وقت نماز پڑھی جائے، تو وہ نماز ادا نہیں ہوتی جب کہ نماز پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ میری نماز ادا ہوگئی ہے اس لیے نماز کو فساد سے بچانے کے لیے اس اعلان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن موسیٰ بن علي عن ابیہ، قال: سمعت عقبۃ بن عامر الجہني یقول ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن أو أن نقبر فیہن موتانا حین تطلع بازغۃ حتی ترتفع وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ: کتاب المساجد، ومواضع الصلاۃ: باب الأوقات التي نہي عن الصلاۃ فیہا، ج ۱، ص: ۲۳۵، رقم: ۸۳۱؛ وأحمد بن حنبل في مسند: ج ۴، ص: ۱۵۲، رقم: ۱۷۴۱۵)؛ وعن ابن عمر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قال لا یتحری أحدکم فیصلی عند طلوع الشمس ولا عند غروبہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لاتتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس‘‘ ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۵)؛ وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا طلع حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی ترتفع إذا غاب حاجب الشمس فأخرو الصلاۃ حتی تغیب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلوۃ: باب الصلوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۸۳)
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 65

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کرسیوں پر نماز کے تعلق سے چند باتیں پیش نظر رہنا ضروری ہیں:
(۱) نماز میں قیام،رکوع اور سجدہ فرض ہے، اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہو اور قیام نہ کرے تو فرض کے چھوٹ جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’منہا القیام في فرض لقادر علیہ و علی السجود‘‘(۱)
’’و الثانیۃ من الفرائض القیام ولو صلی الفریضۃ قاعدا مع القدرۃ علی القیام لا تجوز صلاتہ بخلاف النافلۃ علی ما یأتی‘‘(۲)
(۲) اگر تھوڑی دیر قیام پر قادر ہو، مکمل قیام پر قادر نہ ہو تو جتنی دیر قیام پر قادر ہو اتنی دیر قیام کرنا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی۔
(۳) اسی طرح اگر کوئی شخص رکوع سجدہ پر قادر ہو اور رکوع سجدہ نہ کرے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’والخامسۃ السجدۃ وہي فریضۃ تتأدي بوضع الجبہۃ علی الأرض أو ما یتصل بہا بشرط الانخفاض الزائد علی نہایۃ الرکوع مع الخروج عن حد القیام‘‘(۱)
(۴) اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے؛ لیکن سجدہ پر قادر نہیں ہے تو اس سے قیام ساقط ہو جاتا ہے۔
’’وإن قدر المریض علی القیام دون الرکوع و السجود أي بحیث لوقام لا یقدر أن یرکع ویسجد لم یلزمہ القیام عندنا بل یجوز أن یؤمي قاعدا وہو أفضل‘‘(۲)
(۵) اگر کوئی شخص بیٹھ کر رکوع سجدہ کرکے نماز پڑھ سکتاہے تو اس کے لیے بیٹھ کر رکوع سجدہ کے ذریعہ نماز پڑھنا ضروری ہوگا، زمین پر سجدہ نہ کرتے ہوئے کرسی پریا زمین پر اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
’’وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود فإنہ یصلی المکتوبۃ قاعدا برکوع وسجود لا یجزیہ غیر ذلک‘‘(۳)
(۶) اگر رکوع سجدہ پر قدرت نہیں اور زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرسکتا ہے تو تشہد ہی کی حالت میں بیٹھنا ضروری نہیں؛ بلکہ جس ہیئت پر بھی نماز پڑھنا آسان ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے بیٹھ کر نماز پڑھنی چاہیے۔
معلوم ہوا کہ عام حالات میں کرسی پر نماز پڑھنا یا معمولی عذر کی بنا پر کرسی پر نماز پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص رکوع سجدہ پر قادر نہیں ہے کمر کی تکلیف کی وجہ سے یا گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے، بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہے یا بیٹھنے کے بعد اٹھنے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے یا ڈاکٹروں نے زمین پر بیٹھنے سے منع کیا ہے اور وہ عام حالات میں کرسی پر ہی بیٹھتا ہے تو اس کے لیے کرسی پر نماز ادا کرنے کی گنجائش ہوگی۔
مذکورہ تمہیدی گفتگو کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات تحریر کئے جاتے ہیں ۔
(۱) جو شخص رکوع سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے؛ اس لیے کرسی پر نماز پڑھنے والے حضرات کے لیے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے ان کو مکمل نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھنی چاہیے، قیام کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ان کے قیام کرنے کی وجہ سے بسااوقات صف کی ترتیب میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۲) جو شخص رکوع سجدہ پر قادر ہے؛ لیکن قیام پر قادر نہیں اس لیے وہ قیام کے وقت کرسی پر بیٹھتاہے اور پھر رکوع سجدہ مکمل کرتا ہے اس کے لیے بہتر ہے کہ بیٹھ کر جس ہیئت پر سہولت ہو نماز پڑھے اور رکوع سجدہ کرے۔ قیام کی حالت میں کرسی پربیٹھنا اور رکوع سجدہ کے وقت رکوع سجدہ کرنے سے اگر چہ نماز ہوجائے گی لیکن متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے نماز مکروہ ہوگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کو بواسیر کی بیماری تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کھڑے ہوکر نماز پڑھو اور اگر کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھو؛ اس لیے بہتر ہے کہ وہ شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع سجدہ سے نماز پڑھے۔
(۳) اگر کوئی شخص واقعی معذور ہے جس کا بیان اوپر آچکاہے اور وہ مکمل نماز کرسی پر پڑھتا ہے اور رکوع سجدہ اشارہ سے کرتا ہے تو اس کی نماز درست ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۲۔
(۲) أیضاً: ج ۲، ص: ۷۴۔
(۱) أیضاً:  ج ۲، ص: ۱۱۱۔
(۲) أیضاً:  ج ۲، ص: ۸۱۔
(۳) عالم بن العلاء الحنفی، التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۶۶۔
وإن عجز عن القیام والرکوع والسجود وقدر علی القعود یصلي قاعدا بإیماء ویجعل السجود أخفض من الرکوع، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶)
عن نافع أن عبد اللّٰہ بن عمر کان یقول إذا لم یستطع المریض السجود أومأ برأسہ إیماء إلی الأرض ولم یرفع إلی جبہتہ شیئاً۔ (أخرجہ أنس بن مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ، باب العمل في جامع الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۵۶)
وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذی جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع اہـ۔ ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۹)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 325

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں امام صاحب نے جو لفظ ’’رب‘‘ چھوڑ دیا، تو معنی میں تبدیلی ہوگئی اور ترجمہ اس طرح ہوگیا، پس اِس گھر کی عبادت کرو، تو اس میں غیر اللہ کی عبادت کا ہونا ترجمہ سے ظاہر ہوا ’’ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ الخ لم تفسد مالم یتغیر المعنی‘‘(۱) عبارتِ مذکورہ سے واضح ہو گیا کہ جب تک معنی تبدیل نہ ہوں تو نماز درست ہے، لیکن یہاں معنی میں تبدیلی ہوگئی اس بنا پر نماز صحیح نہیں ہوئی پس ایسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند۔)
ومنہا حذف حرف: إن کان الحذف علی سبیل الایجاز والترخیم، فإن وجد شرائطہ …… فإن کان لا یغیر لا تفسد صلاتہ …… وإن غیر المعنیٰ تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’نقل في الاختیار عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہ علیہ السلام  کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدھا أربعا ثم یضطجع۔ ونقلہ عنہ أیضاً في امداد الفتاح ثم قال: وذکر في المحیط إن تطوع قبل العصر بأربع و قبل العشاء بأربع فحسن، لأن النبي ﷺ لم یواظب علیھا‘‘(۱)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے قبل چار رکعت نماز پڑھی ہے؛ اگرچہ اس پر مواظبت نہیں فرمائی ہے؛ اس لیے فقہاء نے اس کو مستحب یا سنت غیر موکدہ کہا ہے۔(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا بکڈپو دیوبند)
(۲) وفي الإمداد عن الاختیار: یستحب أن یصلی قبل العشاء أربعاً، وقیل رکعتین؛ وأربعاً بعدھا وقیل رکعتین، والظاہر أن الرکعتین المذکورتین غیر المؤکدتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا بکڈپو دیوبند)  
عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص373

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1011

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: کوئی دوسرا شخص بھی اذان ثانی دے سکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2151/44-2229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ  ٹھہرنےکی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجاتاہے خواہ وہ شہر ہو یا دیہات ہواور ایک ہی شہر ودیہات کی مختلف مسجدیں ہوں۔ اور اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا بلکہ اتمام کرنا ہوگا۔  لہذا اگر آپ کا ارادہ کسی ایک جگہ  پندرہ دن ٹھہرنے کاہوجائے تو آپ مقیم ہوں گے، اور نماز میں اتمام  کریں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی امامت درست ہے، تاہم ختنہ کرانا سنت اور شعائر میں سے ہے۔
’’عن أبي أیوب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أربع من سنن المرسلین الحیاء ویروی الختان، والتعطر، والسواک، والنکاح‘‘ (۱) والختان سنۃ وہو من شعائر الإسلام وخصائصہ فلو اجتمع أہل بلدۃ علی ترکہ حاربہم الإمام‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في فصل التراویح‘‘: ج۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۱۰۸۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، مسائل شتی‘‘: ج۹، ص: ۵۲۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سورج طلوع کے وقت کوئی بھی نماز ادا نہیں ہوتی، اس لیے قضاء بھی اس وقت پڑھنی جائز نہیں۔(۲)

(۲) ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أدائہ عند الغروب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في الأوقات التی لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۸۵-۱۸۶، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)؛ ثلاثۃ یکرہ فیہا التطوع والفرض وذلک عند طلوع الشمس ووقت الزوال وعند غروب الشمس إلا عصر یومہ فإنہا لا یکرہ عند غروب الشمس۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، المواقیت، نوع آخر: في بیان الأوقات التی یکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳-۱۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 66

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب سے کہا جائے کہ وہ مذکورہ لڑکے سے اذان نہ دلوایا کریں اور اگرامام کی حرکتیں خود ہی خلاف شرع ہوں جن کی بنا پر نمازیوں کو پریشانی اور انتشار ہوتا ہو تو ایسے امام کوعلیحدہ کر دینا چاہیے۔
اور متولی کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ امام کی اعانت یا حمایت کرے۔(۱)

(۱) ویکرہ (أذان الفاسق) ہو الخارج عن أمر الشرع بأرتکاب کبیرۃ: کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ: کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص188

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بغیر کسی عذرِ شرعی کے جب تک آپ کے جسم میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت وقوت ہے، آپ کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں خواہ آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، سواری پر سوار ہوں یا زمین پر۔ ہر صورت میں تندرستی کی حالت میں قیام کرنا لازم ہے؛ نیز کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شریعت مطہرہ میں اس لیے ضروری ہے کہ نماز میں قیام کرنا ارکانِ نماز میں سے ہے اور اگر کوئی شخص نماز کے ارکانوں میں سے کوئی رکن چھوڑ دے یا چھوٹ جائے، تو اس صورت میں نماز ادا نہیں ہوتی ہے، بغیر عذر کے قیام کو ترک کرنے پر فرض ساقط نہیں ہوتا بلکہ بدستور اس کی ادائیگی ذمہ میں بر قرار رہتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’من فرائضھا التي لا تصح بدونھا التحریمۃ والخ ومنھا القیام الخ في فرض و ملحق بہ الخ لقادر علیہ‘‘(۱)
’’ومنہا القیام وہو فرض في صلاۃ الفرض والوتر، ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ والسراج الوہاج‘‘(۱)
’’وأیضاً: الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض  و سنۃ، و واجب، ففي الأول أمکنہ التدارک بالقضاء یقضی وإلا فسدت صلاتہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۲۸، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضًا: ’’الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 328