نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: لفظ ’’بالساہرہ‘‘ کی جگہ ’’بالساحرہ‘‘ قصداً پڑھا جس سے تغیر فاحش لازم آ گیا اور قرآن پاک میں کسی جگہ موجود بھی نہیں ہے؛ اس لیے نماز نہ ہوگی اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔
’’قال في الخانیۃ والخلاصۃ : الأصل فیما إذا ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنیٰ، إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد، وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین، والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم: لا تفسد‘‘(۱)

(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ:  تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶۔
الأصل فیہ أي في الزلل والخطاء أنہ إن لم یکن مثلہ أي مثل ذلک اللفظ في القرآن والمعنیٰ أي الحال في أن معنی ذلک اللفظ بعید من معنی لفظ القرآن متغیر معنی لفظ القرآن بہ تغیراً فاحشاً قویاً بحیث لا مناسبۃ بین المعنیین أصلا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المستملي في منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 951/41-90

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں بھی نماز درست ہوجاتی ہے، لیکن اگر کوئی عذر نہ ہو تو مسجد میں جماعت سے ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ لاک ڈاؤن میں ابھی مسجدیں پورے طور پر نہیں کھلی ہیں، اور کرونا نامی وبا کے خطرات اب بھی ہیں، اس لئے اگر کوئی احتیاط برتتے ہوئے گھر میں نماز پڑھے تو گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1606/43-1202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی معذور شخص عذر کی حالت میں غیر معذور لوگوں کی کسی بھی نماز میں امامت  نہیں کرسکتاہے۔ کیوں امامت کے شراءط میں سے ہے کہ اما  م کی حالت مقتدیوں کی حالت سے اقوی ہو، جبکہ معذور کی امامت کے مسئلہ میں مقتدیوں کی حالت اقوی ہوجاتی ہے۔  اس لئے غیرمعذور لوگوں کی نماز معذور امام کے پیچھے جائز نہیں ہے۔ اگر نماز پڑھی تو اعادہ ضروری ہے، اور امام پر لازم ہے کہ ان کو خبر کردے اور اعلان کردے کہ میں معذور ہوں، جن لوگوں نے میرے پیچھے نماز پڑھی وہ اپنی نمازیں اتنے دنوں کی لوٹالیں۔ البتہ اگر شرعاًمعذورامام نے اس حالت میں نماز پڑھائی  کہ وضو کرنے کے بعد سے نماز پڑھاکر فارغ ہونے تک عذر پیش نہیں آیا تھا تو اس کی امامت درست ہوگئی اور غیرمعذورمقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگئی، نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں، اس لئے آپ کو  اعلان کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔  لیکن اگر نماز کے دوران پیشاب کا قطرہ نکل گیا اور عذر پیش آگیا تو امام کی نماز تو شرعی معذور ہونے کی  وجہ سے ہوجائے گی، البتہ غیر معذور لوگوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اس لئے اگر آپ نے نماز سے پہلے پیشاب و استنجا سے فارغ ہوکر وضو کرکے نماز پڑھادی اور اس دوران کوئی پیشاب کا عذر پیش نہیں آیاتھا تو سب کی نماز درست ہوگئی۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔   البتہ اگر عذر پیش آگیاتھا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، جہاں جہاں آپ نے نماز پڑھائی حتی المقدور اس جگہ اعلان کرنے کی کوشش کریں اور توبہ واستغفار بھی کریں۔

قال الحصکفي: وصاحب عذر من بہ سلسل بول إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاة مفروضة بإن لا یجد في جمیع وقتہا زمنًا یتوضأ ویصلي فیہ خالیًّا عن الحدث- قال ابن عابدین نقلاً عن الرحمتي: ثم ہل یشترط أن لا یمکنا مع سننہما أو الاقتصار علی فرضہما؟ یراجع اھ أقول الظاہر الثاني (شامی مطلب في أحکام المعذور 1/504) وقال الحصکفي: ولا طاہر بمعذور (شامی باب الإمامة 2/278)

(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) - - - (وقائم بقاعد) يركع ويسجد؛ «لأنه صلى الله عليه وسلم صلى آخر صلاته قاعدا وهم قيام وأبو بكر يبلغهم تكبيره» (قوله وقائم بقاعد) أي قائم راكع ساجد أو موم، وهذا عندهما خلافا لمحمد. وقيد القاعد بكونه يركع ويسجد لأنه لو كان موميا لم يجز اتفاقاً''۔(شامی، باب الامامۃ 1/588)

وكذا لايصح الاقتداء بمجنون مطبق أو متقطع في غير حالة إفاقته وسكران) أو معتوه ذكره الحلبي (ولا طاهر بمعذور) هذا (إن قارن الوضوء الحدث أو طرأ عليه) بعده (وصح لو توضأ على الانقطاع وصلى كذلك) كاقتداء بمفتصد أمن خروج الدم؛ وكاقتداء امرأة بمثلها، وصبي بمثله، ومعذور بمثله وذي عذرين بذي عذر، لا عكسه كذي انفلات ريح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسة.

قوله: ومعذور بمثله إلخ) أي إن اتحد عذرهما، وإن اختلف لم يجز كما في الزيلعي والفتح وغيرهما. وفي السراج ما نصه: ويصلي من به سلس البول خلف مثله. وأما إذا صلى خلف من به السلس وانفلات ريح لا يجوز لأن الإمام صاحب عذرين والمؤتم صاحب عذر واحد اهـومثله في الجوهرة. وظاهر التعليل المذكور أن المراد من اتحاد العذر اتحاد الأثر لا اتحاد العين، وإلا لكان يكفيه في التمثيل أن يقول وأما إذا صلى خلف من به انفلات ريح، ولكان عليه أن يقول في التعليل لاختلاف عذرهما، ولهذا قال في البحر: وظاهره أن سلس البول والجرح من قبيل المتحد، وكذا سلس البول واستطلاق البطن. اهـ".  (شامی (1/ 578)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: زوجہ اگر شوہر کے والدین کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی تو شوہر پر لازم ہے کہ اس کے لیے الگ مکان کا انتظام کرے خواہ پورا مکان الگ ہو یا صحن ایک ہو کمرہ الگ ہو(۱) اس مقصد کے لیے اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ آمدنی کی خاطر (وقف بورڈ) میں ملازمت کرنا اور تعویذ و عملیات کی اجرت لینا جائز اور درست ہے۔ شرط یہ ہے کہ جھوٹ کا سہارا نہ لے۔

(۱) وکذا تجب لہا السکنی في بیت خال عن أہلہ لأنہا تتضرر بمشارکۃ غیرہا فیہ لأنہا لاتأمن علی متاعہا ویمنعہا ذلک من المباشرۃ مع زوجہا ومن الاستمتاع إلا أن تختار ذلک لأنہا رضیت بانتقاص حقہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في مسکن الزوجۃ‘‘ ج ۵، ص: ۳۲۰، زکریا)
 قال العینی کأنہ أراد المبالغۃ في تصویبہ إیاہم، فیہ جواز الرقیۃ، وبہ قالت الائمۃ الأربعۃ: وفیہ جواز أخذ الأجرۃ، قال محمد في المؤطأ: لا بأس بالرقی بما کان في القرآن وبما کان من ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داؤد  في سننہ، ’’کتاب الطب، باب الرقی‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جب امام محراب میں کھڑا ہوکر نماز پڑھائے، تو قدموں کا کچھ حصہ محراب سے باہر ہونا چاہئے اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر برآمدہ یا صحن میں نماز ہو رہی ہو، تو پوری مسجد برابر ہے اس کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہے بس امام اپنی جگہ پر مقتدیوں سے الگ ہو۔(۱)
(۱) وحقیقۃ اختلاف المکان تمنع الجواز فشبہۃ الاختلاف توجب الکراہۃ والمحراب وإن کان من المسجد فصورتہ وہیئتہ اقتضت شبہۃ الاختلاف اہـ ملخصا. قلت: أی لأن المحراب إنما بنی علامۃ لمحل قیام الإمام لیکون قیامہ وسط الصف کما ہو السنۃ، لا لأن یقوم في داخلہ، فہو وإن کان من بقاع المسجد لکن أشبہ مکانا آخر فأورث الکراہۃ، ولا یخفی حسن ہذا الکلام فافہم، لکن تقدم أن التشبہ إنما یکرہ في المذموم وفیما قصد بہ التشبہ لا مطلقا، ولعل ہذا من المذموم تأمل۔ ہذا وفي حاشیۃ البحر للرملي: الذی یظہر من کلامہم أنہا کراہۃ تنزیہ تأمل اہـ (تنبیہ) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فالحاصل أن مقتضی ظاہر الروایۃ کراہۃ قیامہ في المحراب مطلقا سواء اشتبہ حال الإمام أو لا وسواء کان المحراب من المسجد أم لا وإنما لم یکرہ سجودہ في المحراب إذا کان قدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم في مکان الصلاۃ حتی تشترط طہارتہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: تغمیض عینیہ في الصلوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جن ممالک میں موسم گرما میں آفتاب غروب ہی نہ ہوتا ہو اور موسم سرما میں آفتاب طلوع ہی نہ ہوتا ہو اسی طرح وہ ممالک جہاں مسلسل چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن رہتا ہو وہاں کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قریب ترین ملک جہاں فرض نمازوں کے اوقات جدا جد ہوں وہاں کے اوقات نماز کے پیش نظر اپنی پنج وقتہ فرض نمازوں کے اوقات متعین کر لیں اور ہر چوبیس گھنٹے کے اندر پانچوں فرض نمازیں ادا کریں۔ مثلاً اگر قریب ترین معتدل علاقے میں نمازِ مغرب نوبجے ہوتی ہے اور عشاء ساڑھے دس بجے تو اِن میں بھی مغرب اور عشاء بالترتیب ۹؍ بجے اور ساڑھے دس بجے پڑھی جائے؛ کیوں کہ اسراء و معراج والی حدیث میں وارد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر ایک دن اور ایک رات میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کرواتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا: ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دن اور رات میں اب یہ کل پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز دس کے برابر ہے گویا یہ پچاس نمازیں ہیں‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں آپ نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سورہ کہف کی تلاوت کیا کرو یہ تمہیں دجال سے بچائے گی اس پر صحابہؓ نے پوچھا کہ دجال کتنے دن رہے گا آپ نے فرمایا چالیس دن ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ایک دن ایک مہینہ کے برابر ہوگا ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے اس پر صحابہؓ نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا ہمیں ایک دن کی نماز کافی ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ تم اندازا لگا کر نماز پڑھنااس سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جن علاقوں میں دن اوررات چھ مہینہ کا ہوتاہے وہاں ایک دن کی نماز کافی نہیں ہوگی، بلکہ قریب ترین ممالک کو دیکھ کر نماز کے اوقات طے کئے جائیں گے۔(۱)
ذکر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الدجال، فقال: إن یخرج وأنا فیکم فأنا حجیجہ دونکم، وإن یخرج ولست فیکم فامرؤ حجیج نفسہ، واللّٰہ خلیفتی علی کل مسلم، فمن أدرکہ منکم فلیقرأ علیہ بفواتح سورۃ الکہف، فإنہا جوارکم من فتنتہ قلنا: وما لبثہ في الأرض؟ قال: أربعون یوما: یوم کسنۃ، ویوم کشہر، ویوم کجمعۃ، وسائر أیامہ کأیامکم فقلنا: یا رسول اللّٰہ، ہذا الیوم الذي کسنۃ، أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ولیلۃ؟ قال: لا اقدروا لہ قدرہ‘‘(۲)
’’وحاصلہ أنا لا نسلم لزوم وجود السبب حقیقۃ بل یکفی تقدیرہ کما في أیام الدجال۔ ویحتمل أن المراد بالتقدیر المذکور ہو ما قالہ الشافعیۃ من أنہ یکون وقت العشاء في حقہم بقدر ما یغیب فیہ الشفق في أقرب البلاد إلیہم والمعنی الأول أظہر، کما یظہر لک من کلام الفتح الآتی حیث ألحق ہذہ المسألۃ بمسألۃ أیام الدجال‘‘(۱)

 

(۱) قال الرملي في شرح المنہاج ویجري ذلک فیما لو مکثت الشمس عند قوم مدہ: اھـ۔
قال في إمداد الفتاح قلت: وکذلک یقدر لجمیع الآجال کالصوم والزکاۃ والحج والعدۃ وآجال البیع والسلم والإجارۃ وینظر ابتداء الیوم فیقدر کل فصل من الفصول الأربعۃ بحسب ما یکون کل یوم من الزیادۃ والنقص کذا في کتب الأئمۃ الشافعیۃ ونحن نقول بمثلہ إذ اصل التقدیر مقول بہ اجماعاً في الصلوات۔ (ابن عـابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ مطلب: في طلوع من مغربہا: ج ۱، ص: ۳۶۵)
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم :باب خروج الدجال‘‘: ج۲، ص: ۵۹۳، رقم: ۴۳۲۱۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب في فاقد وقت العشاء کأہل بلغار‘‘ ج۲، ص: ۱۹۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 60

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تندرست شخص کے لیے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز ادا کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت ان گاڑیوں کو روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اس لیے اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے تو نماز درست نہیں ہوتی ہے، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی۔
علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، (قولہ: القادر علیہ) فلو عجز عنہ حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۱)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلي قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضو في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۳۲۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص320

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دونوں کے مخرج سے واقف نہ ہو اور دونوں میں فرق نہ کر سکتا ہو، تو نماز ادا ہو جائے گی، لیکن اگر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی۔(۲)

(۲) وإن کان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینہما بلا کلفۃ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنہ مفسد، وإن لم یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص255

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ میںتشہد کے بعد فوراً کھڑے ہوجائیں؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔
امام صاحب کو چاہئے کہ قعدہ اولیٰ کو زیادہ طول نہ دیں اور مقتدیوں کی رعایت کریں البتہ اگر امام صاحب التحیات کو قدرے سکون سے پڑھتے ہیں تاکہ ہر قسم کے نمازی کی رعایت رکھی جائے تو یہ امر مستحسن ہے، اس پر امام صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
’’سمعت أبا عبیدۃ بن عبد اللّٰہ  بن مسعود یحدث عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم إذا جلس في الرکعتین الأولیین کأنہ علی الرضف قال شعبۃ ثم حرک سعد شفتیہ بشيء فأقول حتی یقوم؟ فیقول حتی یقوم، والعمل علی ہذا عند أہل العمل یختارون أن لا یطیل الرجل القعود في الرکعتین الأولیین ولا یزید علی التشہد شیئا۔ وقالوا إن زاد علی التشہد فعلیہ سجدتا السہو، ہکذا روي عن الشعبي وغیرہ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: مقدار القعود في الرکعتین الأولین‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۶۶۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر عذر ہو اور کوئی دوسری صورت نہ ہوسکتی ہو تو امام کو ذرا آگے کرکے اس کے پیچھے صف لگا نی چاہئے اس قدر آگے ہوجانا امام کا کافی ہے کہ امام کے پیر مقتدیوں کے پیر سے آگے رہیں۔(۱)
(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وہو راجع إلی اختلاف القلوب وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الصف أو میسرتہ فقد أساء لمخالفتہ السنۃ ألا تری أن المحاریب لم تنصب إلا في الوسط وہي معینۃ لمقام الإمام۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلوۃ: الأحق بالامامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۶)
السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، ولو کان المسجد الصیفی بجنب الشتوی وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوی القوم من جانبیہ، والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ خلاف عمل الأمۃ۔ قال علیہ الصلاۃ والسلام: توسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 416