نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2493/45-3803

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز جمعہ سے قبل  اگر چندہ کیاجائے تو زیادہ بہتر ہے، دعا سے پہلے چندہ شروع کرکے دعا کے لئے لوگوں کو زبردستی روکنا درست عمل نہیں ہے، اس کو ترک کردینا چاہئے۔ نمازوں کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے، اس لئے نماز کے بعد متصلا دعا (یاسنت وغیرہ) مشغول ہونا بہتر ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احناف کے یہاں نمازوں میں اوقاتِ مستحبہ  کے سلسلے میں تاخیر یا تعجیل مطلقاً نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نماز فجر وقتِ اسفار میں پڑھنا افضل ہے؛ جب کہ ظہر کی نماز کے سلسلے میں کچھ تفصیلات ہیں۔ احناف کے نزدیک گرمیوں کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر کرنا اور سردیوں کے موسم میں تعجیل کر کے پڑھنا افضل ہے۔ عصر کی نماز گرمی اور سردی دونوں موسم میں تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے؛ ہاں عصر کی نماز میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ سورج کا رنگ متغیر اور زرد ہو جائے، مغرب کی نماز میں ہمیشہ تعجیل افضل ہے۔ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کر کے ادا کرنا حنفیہ کے نزدیک افضل ہے، تاہم آسمان اگر ابر آلود ہو، تو اس صورت میں عصر اور عشاء دونوں نمازوں کو مقدم یعنی تعجیل کر کے اور باقی نمازوں کو تاخیر کر کے پڑھنا افضل ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم بہ) ہو المختار بحیث یرتل أربعین آیۃ ثم یعیدہ بطہارۃ لو فسد۔ وقیل یؤخر جدا؛ لأن الفساد موہوم (إلا لحاج بمزدلفۃ) فالتغلیس أفضل کمرأۃ مطلقا۔ وفي غیر الفجر الأفضل لہا انتظار فراغ الجماعۃ (وتأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشي في الظل (مطلقا) کذا في المجمع وغیرہ: أي بلا اشتراط، (و) تأخیر (عصر) صیفا وشتاء توسعۃ للنوافل (ما لم یتغیر ذکاء) بأن لا تحار العین فیہا في الأصح (و) تأخیر (عشاء إلی ثلث اللیل  والمستحب تعجیل ظہر شتاء) یلحق بہ الربیع، وبالصیف الخریف (و) تعجیل (عصر وعشاء یوم غیم، و) (وتأخیر غیرہما فیہ)‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴-۲۹، مکتبہ زکریا، دیوبند۔
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 69

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ شخص ٹی وی پر فلم دیکھتا ہے، گانا سنتا ہے اور مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار ہے ایسے شخص سے اذان نہ پڑھوائی جائے اور اگر ٹی وی پر اصلاحی وغیر مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار نہیں ہے۔ بہر صورت اس کی دی ہوئی اذان درست ہے اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔(۲)

(۲)  ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اقتداء درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ہر رکن میں امام کی اقتداء ہو۔ مذکورہ صورت میں ایک رکن میں بالکل ہی اقتداء نہیں پائی گئی اس لیے نماز درست نہیں ہوئی وہ نماز دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) وإن رفع المقتدي رأسہ من السجدۃ الثانیۃ قبل أن یضع الإمام جبہتہ علی الأرض لایجوز وکان علیہ إعادۃ تلک السجدۃ ولو لم یعد تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند)
بقي من المفسدات … ومسابقۃ المؤتم برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ کأن رکع ورفع رأسہ قبل إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم مع الإمام۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: مطلب في المشی في الصلاۃ، ج ۲، ص: ۳۹۱، ۳۹۲)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) الکلمۃ الزائدۃ إن غیرت المعنیٰ ووجدت في القرآن … أو لم یوجد … تفسد صلاتہ بلا خلاف، وإن لم تغیر المعنی۔ٰ فإن کانت فيالقرآن نحو أن یقرا {إن اللّٰہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً} لا تفسد بالإجماع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
(قولہ ولو زاد کلمۃ) اعلم أن الکلمۃ الزائدۃ إما أن تکون في القرآن أو لا، و علی کل، إما أن تغیر أولا، فإن غیرت أفسدت مطلقاً … وإن لم تغیر فإن کان في القرآن … لم تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہ، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے درود شریف اور دعاء نہ پڑھے۔(۱)

(۱) ولا یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا) ولو صلی ناسیًا فعلیہ السہو، وقیل: لا، شمني (ولایستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا) لأنہا لتأکدہا أشبہت الفریضۃ (وفيالبواقي من ذوات الأربع یصلي علی النبي) صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ویستفتح) ویتعوذ ولو نذرا،  لأن کل شفع صلاۃ۔
قولہ: ولا یصلي إلخ) أقول: قال في البحر في باب صفۃ الصلاۃ: إن ماذکر مسلم فیما قبل الظہر، لما صرحوا بہ من أنہ لا تبطل شفعۃ الشفیع بالانتقال إلی الشفع الثاني منہا، ولو أفسدہا قضی أربعاً، والأربع قبل الجمعۃ بمنزلتہا۔ وأما الأربع بعد الجمعۃ فغیر مسلم فإنہا کغیرہا من السنن، فإنہم لم یثبتوا لہا تلک الأحکام المذکورۃ ۱ہـ ومثلہ في الحلیۃ، وہذا مؤید لما بحثہ الشرنبلالي من جوازہا بتسلیمتین لعذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الاولٰی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولو صلی ناسیا فعلیہ السہو وقیل لا شمني … وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسلم اھـ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص377

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے یہاں جمع بین الصلاتین حقیقی حج کے موقع پر عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ جائز نہیں ہے؛ اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو جو نماز وقت سے پہلے ہوئی ہے وہ فاسد ہوگی اور اس کی قضاء کرنی لازم ہوگی، صورت مسؤلہ میں چوں کہ آپ امام ہیں اور آپ کے ساتھ عذر ہے اور عذر کی صورت میں علامہ شامی نے جمع بین الصلاتین کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے کہ اگر آپ کی نماز ہی درست نہ ہو، تو پھر سب کی نماز نہیں ہوگی اس لیے ایسی صورت میں بقول علامہ شامی جمع کی گنجائش ہے۔ آپ کی نماز ہوگئی ہے قضا کی ضرورت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے:
’’ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ بغیر (لغیر) میقاتہا إلا صلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتہا‘‘(۲)
ترمذی کی حدیث ہے: ’’من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر‘‘(۱)
فتاوی شامی میں ہے: (ولا جمع بین فرضین في وقت بعذر) سفر ومطر۔۔۔۔۔ وما رواہ محمول علی الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض علی وقتہ (وحرم لو عکس) أي أخرہ عنہ (وإن صح) بطریق القضاء (إلا لحاج بعرفۃ ومزدلفۃ)۔ ولا بأس بالتقلید عند الضرورۃ لکن بشرط أن یلتزم جمیع ما یوجبہ ذلک الإمام لما قدمنا أن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ وفي رد المحتار: ظاہرہ أنہ عند عدمہا لا یجوز، وہو أحد قولین۔ والمختار جوازہ مطلقا ولو بعد الوقوع کما قدمناہ في الخطبۃ ط۔ وأیضاً عند الضرورۃ لا حاجۃ إلی التقلید کما قال بعضہم: مستندا لما في المضمرات: المسافر إذا خاف اللصوص أو قطاع الطریق ولا ینتظرہ الرفقۃ جاز لہ تأخیر الصلاۃ؛ لأنہ بعذر، ولو صلی بہذا العذر بالإیماء وہو یسیر جاز۔ لکن الظاہر أنہ أراد بالضرورۃ ما فیہ نوع مشقۃ۔ تأمل‘‘(۲)

(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من یصلي الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم: ۱۶۸۲۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۴۵ تا ۴۷، زکریا، دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 70

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: غیر اللہ کے نام پر مانگنا، غیر اللہ کے نام پر دیئے ہوئے جانور کے گوشت کو کھانا وغیرہ مذکورہ امور ناجائز وحرام ہیں ایسا شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے(۱) اور اس کی اذان، اقامت وامامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام ویؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام … قولہ: باطل وحرام، لوجوہ منہا أنہ نذر لمخلوق لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصلوۃ وما لا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص191

 

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سرین نہ اٹھائے جائیں اور ہاتھ کو بھی علیحدہ نہ کیا جائے۔ (۲)
(۲)وإن تعذرا لا القیام أومأ قاعدا ویجعل سجودہ أخفض من رکوعہ لزوما ولا یرفع إلی وجہہ شیئا یسجد علیہ فإنہ یکرہ تحریماً۔ قولہ ویجعل سجودہ أخفض إلخ، أشار إلی أنہ یکفیہ أدنی الإنحناء عن الرکوع وأنہ لا یلزمہ تقریب جبہتہ من الأرض بأقصی ما یمکنہ کما بسطہ في البحر عن الزاہدي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸، زکریا دیوبند)
وقال في المجتبی: کانت کیفیۃ الإیماء بالرکوع والسجود مشتبہاً علی أنہ یکفی بعض الانحناء أم أقصی ما یمکن فظفرت علی الروایۃ فإنہ ذکر شیخ الإسلام المومئ إذا خفض رأسہ للرکوع شیئاً ثم للسجود شیئاً جاز۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صلاۃ المریض‘‘: ص: ۴۳۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذ أثمر واستحصد۔ تعالیٰ جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أوّاب لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا ،دیوبند)
وإن بدل القاري في الصلاۃ حرفاً مکان حرف کان الأصل فیہ أي في ذلک التبدیل أنہ إن کان بینہما أي بین الحرفین المبدل والمبدل منہ قرب المخرج کالقاف مکان الکاف أو کانا من مخرج واحد کالسین مع الصاد لا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۲، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262