نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ قرأت قدر مایجوز بہ الصلاۃ ہو چکی تھی؛ لیکن اس سے آگے کی قرأت میں ایسی غلطی کی ہو جس سے معنیٰ بدل گئے ہوں کہ کفر کی حد تک ترجمہ ہو جائے تو نماز فاسد ہوگئی اور اعادہ واجب ہوگا۔(۱)

(۱) والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جیمع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، زکریا دیوبند؛ و إبراھیم الحلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، دار الکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا مکروہ اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے؛ لیکن جب کہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے، تو آپ بھی دو رکعت نفل ادا کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)
فرجحت الحنفیۃ أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنۃ، وکرہوا التنفل قبلہا، لأن فعل المباح والمستحب إذا أفضیٰ إلی الإخلال بالسنۃ یکون مکروہاً، ولا یخفیٰ أن العامۃ لو اعتادوا صلاۃ رکعتین قبل المغرب لیخلون بالسنۃ حتما، ویؤخرون المغرب عن وقتہا قطعاً، وأما تو تنفل أحد من الخواص قبلہا ولم یخل بسنۃ التعجیل فلا یلام علیہ ،لأنہ قد أتی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم‘‘۔
فحاصل الجواب أن التنفل قبل المغرب مباح في نفسہ، وإنما قلنا بکراہتہ نظراً إلی العوارض، فالکراہۃ عارضۃ، ولا منافاۃ بینہما۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأوقات المکروہۃ‘‘: ج۲، ص: ۶۹، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص374

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت ایک اہم ذمہ داری ہے ’’الإمام ضامن‘‘ ہر کس وناکس کو امام بنانا درست نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القرآۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ فإن کانوا في السنۃ سواء فأقدہم ہجرۃ فإن کانوا في الجہرۃ سواء فأقدمہم إسلاما ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ ولا یقعد في بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ‘‘(۱) ’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم أصبحہم أي أسمحہم وجہا ثم أکثر ہم حسبا ثم الأنظف ثوباً ثم الأکبر رأساً الخ‘‘(۲)
اگر بستی یا محلہ میں کوئی عالم یا نماز کے ضروری مسائل سے واقف شخص موجود ہے، تو اس کو امام بنایا جائے اور اگر مذکورہ نمبر دار کے علاوہ کوئی صحیح قرآن پڑھنا نہیں جانتا، تو اس نمبر دار کو بھی امام بنانا درست ہے۔

(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶؛ وأخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۵۵؛ وأخرجہ نسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ، من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۰)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل میں عموماً موجود ہوتا ہے، اس سے مدد لے سکتے ہیں۔(۱)

(۱)وقت الفجر: من الصبح الصادق وہو البیاض المنتشر في الأفق إلی طلوع الشمس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)؛ وآخرہ (إلی قبیل طلوع الشمس) لقولہ علیہ السلام وقت صلاۃ الفجر ما لم یطلع قرن الشمس الأول۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وآخر وقت الفجر حین تطلع الشمس فإذا طلعت الشمس خرج وقت الفجر۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، في المواقیت‘‘: ج ۲، ص: ۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 67

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:داڑھی کٹانا یعنی ایک مشت سے کم کرنا، نماز چھوڑ نا، وی سی آر، پکچر وغیرہ دیکھنا یہ افعال موجب فسق ہیں جو شخص ایسے افعال کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد: ہکذا في الذخیرۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وکذا یکرہ أذان الفاسق ولا یعاد أذانہ لحصول المقصود بہ۔ (عالم بن علاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص189

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب کی کمر میں درد ہے اور وہ کھڑے ہونے سے عاجز اور معذور ہیں تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکتے ہیں، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھا کرو اور اگر بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔ جیسا کہ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’صل قائماً فإن لم تستطع فقاعداً فإن لم تستطع فعلی جنب‘‘(۱)
نیز بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع کی کیفیت کے سلسلے میں فقہا نے لکھا ہے کہ: اتنا ہی جھکنا چاہئے کہ کوئی دیکھنے والا یہ تصور نہ کرے کہ یہ سجدہ کر رہا ہے، رکوع اور سجدہ میں واضح فرق ہونا چاہئے اس لیے رکوع میں پیشانی کو اتنا جھکائے کہ گھٹنوں کے مقابل کر دیا جائے تو رکوع ہو جائے گا جیسا کہ مراقی الفلاح میں ہے:
’’وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذی جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع، ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب‘‘:ج ۱، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۰۶۶۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۹۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی۔(۲)

(۲) وینبغي أن لا تفسد، ووجہہ أنہ لیس بتغیر فاحش لعدم کون اعتقادہ کفراً مع أنہ لا یخرج عن کونہ من القرآن۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۸، دار الکتاب دیوبند)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے۔ فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
’’أخرج أبو داود وأحمد وابن خزیمۃ وابن حبان في صحیحیہما والترمذي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رحم اللّٰہ امرأً صلی قبل العصر أربعا، قال الترمذي: حسن غریب، وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرۃ عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین ورواہ الترمذي وأحمد فقالا: أربعا بدل رکعتین‘‘(۱)
(قولہ ویستحب أربع قبل العصر) لم یجعل للعصر سنۃ راتبۃ لأنہ لم یذکر في حدیث عائشۃ المار۔ بحر۔ قال في الإمداد: وخیر محمد بن الحسن والقدوري المصلي بین أن یصلي أربعا أو رکعتین قبل العصر لاختلاف الآثار‘‘(۲)

(۱) ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، مکتبہ الاتحاد دیوبند۔)(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر و النوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۲ ، زکریا دیوبند۔)
وندب الأربع قبل العصر أو رکعتان۔ (عبد الرحمن بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۱۰۵، دار البیروتی، دمشق، سوریہ)
أما الأربع قبل العصر فلما رواہ الترمذي وحسنہ عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل العصر أربع رکعات یفصل بینہن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تبعہم من المسلمین والمؤمنین وروی أبو داؤد عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین، فلذا خیرہ في الأصل بین الأربع وبین الرکعتین والأفضل الأربع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص375

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1003

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر دوران نماز سترکا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ  کھُل جائے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ناف سے لیکر گھٹنے  تک  پورا  ستر ہے جس کا چھپانا فرض ہے، اس کا خیال رکھنانماز کی صحت کے لئے  ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز کا وقت احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے؛ البتہ صاحبین کے نزدیک مثل اول کے بعد شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ صاحبین کا قول مفتی بہ نہیں ہے تاہم ضرورت وحاجت کی وجہ سے اگر عصر کی نماز مثل اول میں پڑھ لے تو نماز درست ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بعض مشائخ نے اس پر فتویٰ دیا ہے۔  حرمین کا مسئلہ خاص فضیلت کا حامل ہے، اس لیے حرمین میں عصر کی نماز جماعت کے ساتھ مثل اول پر ہی پڑھنی چاہئے جماعت ترک کر کے مثلین پر انفرادی یا اجتماعی طور پر پڑھنا مناسب نہیں ہے۔(۱)

(۱) ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وأما أول وقت العصر فعلی الإختلاف الذي ذکرنا في آخر وقت الظہر حتی روي عن أبي یوسف أنہ قال: خالفت أبا حنیفۃ في وقت العصر، فقلت: أولہ إذا زاد الظل علی قامۃ اعتماداً علی الآثار التي جائت وآخرہ حین تغرب الشمس عندنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان، معرفۃ الزوال ووقت العصر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 68