Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عشا کا وقت غروب شفق سے شروع ہوتا ہے، مگر شفق سے کون سی مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے لغت میں سرخی اور اس سرخی کے بعد کی سفیدی دونوں کو شفق کہتے ہیں۔ علامہ ابن رشد فرماتے ہیں: ’’وسبب اختلافہم في ہذہ المسئلۃ اشتراک اسم الشفق في لسان العرب فإنہ کما أن الفجر في لسانہم فجران کذلک الشفق شفقان: أحمر وأبیض‘‘(۲)
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ شفق سے وہ شفق(سفیدی) مراد لیتے ہیں جو سرخی کے غائب ہو جانے کے تھوڑی دیر تک رہتی ہے اور یہی راجح اور قابل عمل ہے۔ ’’ألشفق البیاض الذي بعد الحمرۃ‘‘(۳)
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں عشا کب پڑھوں؟ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حین أسود الأفق‘‘ یعنی جب آسمان کے کنارے سیاہ ہو جائیں اور حدیث مرفوع ہے ’’یصلي العشاء حین یسود الأفق‘‘(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کے کنارے سیاہ ہو جانے کے بعد نماز عشاء ادافرمائی ہے، اسی کو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل بنایا ہے اور اسی پر تمام احناف کا عمل ہے۔(۲)
(۲) ابن رشد، بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد: ج ۱، ص: ۱۰۴۔(شاملہ)
(۳) کتاب الأخیار : ج ۱، ص: ۳۹۔(شاملہ)
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴۔
(۲) ووقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘، ج ۱، ص:۱۰۷)
فقال عروۃ سمعت بشیر بن أبي مسعود یقول سمعت أبا مسعود الأنصاری یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نزل جبریل علیہ السلام فأخبرني بوقت الصلاۃ فصلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ ثم صلیت معہ یحسب بأصابعہ خمس صلوات فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي المغرب حین تسقط الشمس ویصلي العشاء حین یسود الأفق۔ (أخرجہ ابوداؤد في سننہ،کتاب الصلاۃ: باب في المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۳۹۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر معروف طریقہ پر باندھنا سنت ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے پر امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا بھی یہی مسلک ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ عند الشافعی ومالک ہاتھ ناف سے اوپر اور امام اعظمؒ کے نزدیک ناف سے نیچے باندھے جائیں۔ امام مالکؒ کا ایک قول ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا ہے، ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے سے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن سے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا ثابت ہے۔(۱) اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاً جو نماز سکھلائی ہاتھ باندھنا اسی وقت سے ثابت ہے۔(۲)
(۱) أخرجہ مالک، في المؤطأ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیدین إحداہاعلی الآخر‘‘ یضع الیمنی علی الیسری۔ (ج۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۴۶)
قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤمنا فیأخذ شمالہ بیمینہ الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲، مکتبہ بلال، دیوبند)
(۲) قال محمد ویضع بطن کفہ الأیمن علی رسغہ الأیسر تحت السرۃ فیکون الرسغ في وسط الکف۔ (یعقوب بن إبراہیم، کتاب الآثار بروایۃ محمد، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ قاعدًا والتعمد علی إلی سترۃ الشيء أو یصلي‘‘: ج۱، ص: ۳۱۹، رقم: ۱۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، اس سے معنی میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، چند الفاظ کے چھوٹ جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے۔(۱)
(۱) فالمعتبر في عدم الفساد عند عدم تغیر المعنیٰ کثیراً وجود المثل في القرآن عندہ والموافقۃ في المعنیٰ عندہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فالعبرۃ في عدمہ الفساد عدم تغیر المعنیٰ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲، مکتبہ الاتحاد دیوبند)
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم تغیر المعنیٰ مثل: وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لا تفسد، وإن غیرت مثل فمالہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد عند العامۃ؛ وقیل لا، والصحیح الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص256
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1990/44-1937
بسم اللہ الرحمن الرحیم: نماز کے شرائط میں سے وقت کا ہونا بھی ہے۔ اور نمازی کو نماز شروع کرنے سے پہلے وقت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ لیکن گاؤں میں لوگ اس سلسلہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں ، اس لئے اس طرح کا اعلان کرنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور کسی دن اعلان نہ ہونے پر ہنگامہ برپا نہ کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2276/44-2432
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ہاں، اس سلسلہ میں صریح احادیث موجود ہیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں ایک لاکھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
سنن ابن ماجہ: (رقم الحدیث: 1406)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ
و فیہ ایضا: (رقم الحدیث: 1413)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا رُزَيْقٌ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَلْهَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلَاةً، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِ مِائَةِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلَاةٍ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ .
فتح الملھم: (باب فضل الصلاۃ بمسجدي مكۃ و المدينۃ، 301/6، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی) لاحتمال ان حديث الاقل قبل حديث الاكثر ثم تفضل الله بالاکثر شيئا بعد شيء ويحتمل ان يكون تفاوت الاعداد لتفاوت الاحوال۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے امام صاحب خشوع وخضوع کی وجہ سے اور ذہنی انتشار سے حفاظت کی غرض سے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھاتے ہیں تو یہ مکروہ نہیں ہے، تاہم بغیر کسی عذر اور ضرورت کے نماز میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا اور پڑھانا دونوں مکروہ ہے۔
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید حلیۃ وبحر‘‘(۲)
(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قام أحدکم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔ قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھا لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ در۔ أو قصد قطع النظر عن الأغیار والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم، قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلوۃ، بیان مایستحب ومایکرہ في الصلوۃ‘‘: ج۱، ص:۵۰۷۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسے لوگوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ آخری صف میں یا جہاں کنارے پر جگہ ہو وہاں نماز ادا کریں ان شاء اللہ ان کو جماعت اور صف اول کا ثواب ملے گا۔(۱)
(۱) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ السلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلماً أضعف لہ أجر الصف الأول وبہ أخذ أبوحنیفۃؒ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 5 ص: 417
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:مختار مذہب یہ ہے کہ تہجد کا وقت نصف شب کے بعد شروع ہوتا ہے خواہ اس سے پہلے سویا ہو یا نہ سویا ہو (سونا شرط نہیں ہے) ہاں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنا بہتر ہے۔(۱)
(۱) عن الحجاج بن عمرو المازني قال: أیحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد إنما التہجد الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ ثم الصلاۃ بعد رقدۃ تلک کانت صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ الطبراني، في معجمہ: ج ۸، ص: ۲۹۲، رقم: ۸۶۷۰)(شاملہ)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 63
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض وواجبات اور فجر کی سنتوں میں قیام فرض ہے، دیگر سنتوں اور نوافل میں قیام فرض نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی شدید تکلیف یا مجبوری ہو جس کی وجہ سے آدمی کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو فرائض، واجبات اور سنت فجر میں قیام اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے۔(۳) لہٰذا اگر نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جائیں تو درست ہوجاتے ہیں(۴) البتہ کھڑے ہونے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیٹھ کر نوافل سے آدھا ثواب ملتا ہے۔(۵)
(۳) منہا القیام في فرض وملحق بہ کنذر وسنۃ فجر في الأصح لقادر علیہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج۲، ص: ۱۳۱)
(۴) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعدا لامضطجعا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، بحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳)
(۵) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم۔ ( مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب القصد في العمل، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۱۰، رقم: ۱۲۴۹)
وکذا في ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث المسائل الستۃ عشرۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۸۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص322
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مسئولہ صورت میں معنی میں تغیر فاحش ہونے کی بنا پر اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے۔(۱)
(۱) فالعبرۃ في عدم الفساد عدم تغیر المعنی (ابن الھمام، فتح القدیر’’باب صفۃ الصلا‘‘: ج۱، ص: ۳۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص257