نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فاسق کی اذان، اقامت اور امامت مکروہ تحریمی ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الإستقامۃ ولعل المراد بہ مـن یرتکب الکبائر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب وأذان إمرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالماً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب، ج ۲، ص: ۶۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوٰی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی جائے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے، اس طرح کرنے سے قیام بھی مل گیا اور رکوع بھی مل جائے گا۔
اس صورت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قیام کرنا مقدار تین تسبیح کے ضروری نہیں ہے۔ زید کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) فلو کبّر قائماً فرکع ولم یقف صح: لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
(فرکع) أي وقرأ في ہویّۃ قدر الفرض أو کان أخرس أو مقتدیاً أو أخّر القرأۃ، قولہ: (إلی أن یبلغ الرکوع) أي یبلغ أقل الرکوع بحیث تنال یداہ رکبتیہ وعبارتہ في الخزائن عن القنیۃ: إلی أن یصیر أقرب إلی الرکوع۔ (أیضًا)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام أو فیما ہو أقرب إلیہ من الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، زکریا، دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 331

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ قصداً ’’دال‘‘ ہی پڑھتا ہے، تو نماز نہیں ہوگی لیکن اگر وہ مخرج سے نکالنے اور ادا کرنے کی سعی کرتا ہے، لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ’’دال‘‘ ادا ہوئی تو اس صورت میں مفتی بہ قول کی رو سے نماز ہو جائے گی۔(۱)

(۱) وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
وإن کان لا یمکن الفصل  بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشائخ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ: ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص260

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن غیر مؤکدہ ہوں یا نوافل اور مستحبات ہوں جب چار رکعت کی نیت باندھی جائے تو دوسری رکعت کے بعد تیسری میں کھڑے ہوکر ثناء نہیں پڑھی جائے گی؛ بلکہ آہستہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورۃ پڑھے۔(۱)

(۱) وأما صفۃ القرائۃ فیہا فالقراء ۃ في السنن في الرکعات کلہا فرض؛ لأن السنۃ تطوع الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع  ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ المسنونۃ وبیان ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۹، زکریا دیوبند)
الأصح أنہ لا یصلي ولا یستفتح في سنۃ الظہر والجمعۃ، وکون کل شفع صلاۃ علی حدۃ لیس مطرداً في کل الأحکام، ولذا لو ترک القعدۃ الأولیٰ لا تفسد … فیقال ہنا أیضاً: لا یصلی ولا یستفتح ولا یتعوذ لوقوعہ في وسط الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: قولہم کل شفع من النفل صلاۃ لیس مطرداً‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۶، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص376

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 904

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر قریبی کسی دوسری مسجد میں  حنفی وقت کے مطابق نماز ہوتی ہو تو وہاں ادا کرنے کی کوشش کرلیں ، بصور ت دیگر مثل اول میں شافعی المسلک امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی بھی گنجائش ہے۔لیکن مسجدوں میں جو جماعتیں ہورہی ہیں انہیں چھوڑکر الگ سے نمازیں اداکرنی مناسب نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/997

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اس موضوع پر بہت تفصیل کے ساتھ لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں ، ان کا مطالعہ کریں تاکہ تسلی ہو۔ ان کتابوں میں منکرین و مثبتین کے دلائل سے حق واضح ہوجائے گا ان شاء اللہ۔  واللہ  اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2493/45-3803

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز جمعہ سے قبل  اگر چندہ کیاجائے تو زیادہ بہتر ہے، دعا سے پہلے چندہ شروع کرکے دعا کے لئے لوگوں کو زبردستی روکنا درست عمل نہیں ہے، اس کو ترک کردینا چاہئے۔ نمازوں کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہے، اس لئے نماز کے بعد متصلا دعا (یاسنت وغیرہ) مشغول ہونا بہتر ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احناف کے یہاں نمازوں میں اوقاتِ مستحبہ  کے سلسلے میں تاخیر یا تعجیل مطلقاً نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نماز فجر وقتِ اسفار میں پڑھنا افضل ہے؛ جب کہ ظہر کی نماز کے سلسلے میں کچھ تفصیلات ہیں۔ احناف کے نزدیک گرمیوں کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر کرنا اور سردیوں کے موسم میں تعجیل کر کے پڑھنا افضل ہے۔ عصر کی نماز گرمی اور سردی دونوں موسم میں تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے؛ ہاں عصر کی نماز میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ سورج کا رنگ متغیر اور زرد ہو جائے، مغرب کی نماز میں ہمیشہ تعجیل افضل ہے۔ عشاء کی نماز کو رات کے تہائی حصہ تک مؤخر کر کے ادا کرنا حنفیہ کے نزدیک افضل ہے، تاہم آسمان اگر ابر آلود ہو، تو اس صورت میں عصر اور عشاء دونوں نمازوں کو مقدم یعنی تعجیل کر کے اور باقی نمازوں کو تاخیر کر کے پڑھنا افضل ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے:
’’(والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار والختم بہ) ہو المختار بحیث یرتل أربعین آیۃ ثم یعیدہ بطہارۃ لو فسد۔ وقیل یؤخر جدا؛ لأن الفساد موہوم (إلا لحاج بمزدلفۃ) فالتغلیس أفضل کمرأۃ مطلقا۔ وفي غیر الفجر الأفضل لہا انتظار فراغ الجماعۃ (وتأخیر ظہر الصیف) بحیث یمشي في الظل (مطلقا) کذا في المجمع وغیرہ: أي بلا اشتراط، (و) تأخیر (عصر) صیفا وشتاء توسعۃ للنوافل (ما لم یتغیر ذکاء) بأن لا تحار العین فیہا في الأصح (و) تأخیر (عشاء إلی ثلث اللیل  والمستحب تعجیل ظہر شتاء) یلحق بہ الربیع، وبالصیف الخریف (و) تعجیل (عصر وعشاء یوم غیم، و) (وتأخیر غیرہما فیہ)‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۴-۲۹، مکتبہ زکریا، دیوبند۔
 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 69

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ شخص ٹی وی پر فلم دیکھتا ہے، گانا سنتا ہے اور مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار ہے ایسے شخص سے اذان نہ پڑھوائی جائے اور اگر ٹی وی پر اصلاحی وغیر مفسد پروگرام دیکھتا ہے، تو وہ گنہگار نہیں ہے۔ بہر صورت اس کی دی ہوئی اذان درست ہے اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔(۲)

(۲)  ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اقتداء درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ہر رکن میں امام کی اقتداء ہو۔ مذکورہ صورت میں ایک رکن میں بالکل ہی اقتداء نہیں پائی گئی اس لیے نماز درست نہیں ہوئی وہ نماز دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)

(۱) وإن رفع المقتدي رأسہ من السجدۃ الثانیۃ قبل أن یضع الإمام جبہتہ علی الأرض لایجوز وکان علیہ إعادۃ تلک السجدۃ ولو لم یعد تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند)
بقي من المفسدات … ومسابقۃ المؤتم برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ کأن رکع ورفع رأسہ قبل إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم مع الإمام۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: مطلب في المشی في الصلاۃ، ج ۲، ص: ۳۹۱، ۳۹۲)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332