نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر موقع ہو تو چاروں رکعت پوری کرے اگر موقع نہ ہو تو دو رکعت بھی کافی ہے عشا و عصر سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔
’’ویستحب أربع قبل العصر، وقبل العشاء وبعدہا بتسلیمۃ وإن شاء رکعتین‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص378

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2357/44-3555

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں،  اور سنت میں کمی یا زیادتی کراہت کا باعث ہے۔لقمہ ملنے پر امام کوقیام کے لئے  دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہئے تھی، البتہ  مقتدیوں کی رعایت میں  چونکہ امام نے ایسا کیا ہے، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

 (وجهر الامام بالتكبير) بقدر حاجته للاعلام بالدخول والانتقال”(شامی ج ۱ ص ۴۷۵/المکتبة الاسلامية)

ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)

ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)

وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)

"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط". (الھندیۃ کتاب الصلوۃ1/ 131، ط: دار الکتب العلمیة )

وفي مجمع الأنہر: والتبکیر سنة کذا في أکثر الکتب / مجمع الأنہر ۱ص۱۴۹۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور جس طرح عام دنوں میں زوال کا وقت ہوتا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی زوال کا وقت ہوتاہے اور جمعہ کے دن بھی زوال (نصف النہار) کے وقت نماز مکروہ ہے۔ روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز پڑھتے تھے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں اس پر اجماع نقل کیاہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
’’وأجمع الفقہاء علی أن وقت الجمعۃ بعد زوال الشمس إلا ما روي عن مجاہد أنہ قال: جائز أن تصلي الجمعۃ في وقت صلاۃ العید؛ لأنہا صلاۃ عید‘‘(۲)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز زوال کے بعد ہی پڑھتے تھے اور جن روایتوں سے زوال کے سے پہلے پڑھنے کا وہم ہوتا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے۔
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس فیہ إشعار بمواظبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاۃ الجمعۃ إذا زالت الشمس، وأما روایۃ حمید التي بعد ہذا عن أنس رضي اللّٰہ عنہ کنا نبکر بالجمعۃ ونقیل بعد الجمعۃ فظاہرہ أنہم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النہار لکن طریق الجمع أولی من  دعوی التعارض وقد تقرر فیما تقدم أن التبکیر یطلق علی فعل الشیء في أول وقتہ أو تقدیمہ علی غیرہ وہو المراد ہنا والمعنی أنہم کانوا یبدوؤن بالصلاۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتہم في صلاۃ الظہر في الحر‘‘(۱)
 

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما جاء في وقت الجمعۃ، إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن بطال أبو الحسن علي بن خلق بن عبد الملک، شرح صحیح البخاري لابن بطال، ’’باب ما جاء في وقت الجمعۃ إذا زالت‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷۔(شاملہ)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الجمعۃ:باب وقت الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۵،۴۷۷، مکتبہ، شیخ الہند، دیوبند۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 72

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں مسائل میں مذکورہ شخص کی اذان مکروہ ہے، اگر دوسرا شخص باشرع موجود ہو تواسی کو اذان واقامت کے لیے متعین کرنا چاہیے۔
’’یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔
وأذان امرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص192

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام سے پہلے رکوع، سجدہ وغیرہ میں جانا مکروہ ہے؛ لیکن اگر اس کے بعد امام رکوع وسجدہ میں گیا اور دونوں کی شرکت اس رکن میں پائی گئی تو نماز درست ہوجائے گی اور اگر شرکت ہی نہیں پائی گئی تو مقتدی کی نماز فاسد ہوگی اور اس پر اعادہ لازم ہوگا۔
’’لو رکع قبل الإمام فلحقہ إمامہ فیہ صح رکوعہ وکرہ تحریما وإلا لا یجزیہ‘‘(۱)
عدم سماع کے عذر کی وجہ سے اگر مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیر دیا تو نماز بلا کراہت درست ہے۔
’’ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ … قولہ ولو أتمہ الخ‘‘
’’أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسـلام أو کلام أو قیـام جاز: أي صحت صلاتہ (حصولہ بعد تمام الأرکان، لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ، لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قراء ۃ التشہد وقد حصل، وإنما کرہ للمؤتم  ذلک لترکہ متابعۃ الإمام بلا عذر بہ فلو بہ، کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج۲، ص: ۲۴۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 333

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نجاست نہ لگی ہو اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم احترام قبلہ کے خلاف ہے، اس لیے بہتر ہے کہ چپل بائیں جانب رکھ کر نماز پڑھیں۔ (۱)
(۱) ولو خلع نعلیہ وقام علیہما، جاز، سواء کان ما یلي الأرض منہ نجساً أو طاہراً۔ إذا کان ما یلي القدم طاہراً، والآجرّ إذا کان أحد وجہیہما نجساً، فقام علی الوجہ الطاہر وصلی جاز مفروشۃ کانت أو موضوعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 6ص 140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں چوں کہ معنی فاسد ہورہا ہے ؛اس لیے نماز فاسد ہوگئی اس کا اعادہ ضروری ہے، قرأت میں خطاء فاحش کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس میں تین آیت کے پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
’’و إن تغیر المعنی نحو أن یقرأ: إن الأبرار لفي جحیم، و إن الفجار لفي نعیم؛ فأکثر المشائخ علی أنہا تفسد وہو الصحیح‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند۔)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرًا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے سلسلے میںاصل تویہی ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا جائے۔{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا}(۲)
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ’’صلّ الصلاۃ لوقتہا‘‘(۳) نماز کو اپنے وقت میں پڑھو؛ اس لیے اصل تو یہی ہے کہ نماز کو اپنے وقت میں ادا کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری اور عذر ہو، تو احناف کے نزدیک جمع صوری کی اجازت ہے؛ اس لیے طبی عملہ اگر ہر نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے میں دشواری محسوس کریں، تو وقتی طور پر جمع بین الصلاتین صوری کرسکتے ہیں اس طور پر ظہر کی نماز آخری وقت میں پڑھیں اور عصر کی نماز ا ول وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھ لیںنماز یں حقیقت میں اپنے اپنے وقت میں ہی پڑھی جائیں گی لیکن جمع کی سی صورت ہوجائے گی۔
’’ولکن حملناہ علی الجمع الصوري حتی لا یعارض الخبر الواحد الاٰیۃ القطعیۃ وہو قولہ تعالیٰ: {حافظواعلی الصلوات} أي أدوہا في أوقاتہا۔۔۔۔۔ وما قلناہ ہو العمل بالآیۃ والخبر وما قالوہ یؤدي إلی ترک العمل بالاٰیۃ‘‘(۱)
 

(۲) سورۃ النساء:۱۰۳۔
(۳)عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال لي  قال رسول اللّٰہ: ’’کیف أنت إذا کانت علیک أمراء یؤخرون الصلاۃ عن وقتہا؟ - أو- یمیتون الصلاۃ عن وقتہا؟‘‘ قال: قلت: فما تأمرني؟ قال: ’’صل الصلاۃ لوقتہا،فإن أدرکتہا معہم، فصل، فإنہا لک نافلۃ‘‘ ولم یذکر خلف عن وقتہا۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ،’’کتاب المساجد    ومواضع الصلاۃ: باب کراہیۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا، ج۱، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۴۸)
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتہا، إلا صلاتین: جمع بین المغرب والعشاء، وصلی الفجر قبل میقاتہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المناسک: باب متی  یصلی الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، رقم:۱۶۲۸، مکتبہ، فیصل، دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصلاۃ: باب ما جاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸)
(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الجمع في السفر بین المغرب والعشاء‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۱۰۔(شاملہ)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نسبندی کرانا ناجائز و حرام ہے اور نسبندی کرانے والا شخص فاسق و فاجر ہے ایسے شخص کی امامت اور اذان مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ وہ شخص پہلی صف میں نماز پڑھ سکتا ہے اگر ایسا شخص اپنی غلطی پر نادم و پشیمان ہوجائے۔اور سچی توبہ کااعلان کرے تو پھر اس کی امامت واذان وغیرہ کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) ولذاکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ … لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ الخ … وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
إلا أنا جوزناہا مع الکراہۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بر وفاجر رواہ دار قطني۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ، ’’فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۴۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص193

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روئی کے باریک گدے جس پر پیشانی ٹک جاتی ہے ایسے  گدوں پر نماز، سجدہ وغیرہ سب درست ہے۔(۲)
(۲) ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وإن لم تستقر، لا!۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ‘‘: الفصل الأول، في فرائض الصلاۃ ومنہا السجود ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 334