Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مؤذن صاحب کے نماز پڑھا دینے میں کوئی حرج نہیں بلا کراہت امامت درست ہے، مسجد کی صفائی کرنے سے اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا اصل بات یہ ہے کہ وہ امامت کے لائق ہو اور قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔(۲)
(۲) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدًا للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
والأحق بالإمامۃ تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل: سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدًا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي: الأکثر اتقاء للشبہات۔ (أیضًا:)۔
شروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (أیضاً)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص71
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پیشاب کے شدید تقاضے کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حکم یہی ہے کہ قضاء حاجت کے بعد میں نماز پڑھے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن أرقم أنہ خرج حاجا أو معتمرًا ومعہ الناس وہو یؤمّہم فلما کان ذات یوم اقام الصلوٰۃ، صلوٰۃ الصبح ثم قال لیتقدم أحدکم وذہب الخلاء فإني سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول إذا أراد أحدکم أن یذہب الخلاء وقامت الصلوٰۃ فلیبدأ بالخلاء‘‘(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل لرجل یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن یصلی وہو حقن حتی یتخفف‘‘(۲)
(۱) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۸۸، نعیمیۃ دیوبند
(۲) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، نعیمیۃ دیوبند
قولہ (وصلاتہ مع مدافعۃ الأخبثین الخ) أي البول والغائط: قال في الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت وإن خاف أتمہا أثم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص394
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے کہ نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے، اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔(۱)
(۱) فلم یجعل قصدہ تشـریکاً وترکاً للإخلاص بل ہو قصد العبادۃ علی حسب وقوعہا لأن من ضرورتہا حصول الحمیۃ أو الـتـداوي۔ (شرح الحموي علی الأشباہ، ’’الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول: القاعدۃ الثانـیـۃ: الأمور بمقاصدہا‘‘: ص: ۱۴۳، دار الکتاب دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 41 و 42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: امام کے لیے طریقہ نیت مقتدی جیسا ہے؛ البتہ اس کے ساتھ مقتدیوں کے لیے امامت کی نیت زیادہ ہے کہ فلاں امام کی اقتداء کی نیت کرتا ہوں امام کو یہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے کہ میں مقتدیوں کی امامت کر رہا ہوں۔(۲)
(۲) ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ، حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ، فإن اقتداء ہن بہ لا یجوز ما لم ینو أن یکون إماماً لہن أو لمن تبعہ عموماً۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ‘‘: ص: ۲۱۹، دار الکتاب دیوبند)
والخامس منہا: نیۃ المتابعۃ مع نیۃ أصل الصلاۃ للمقتدي … وقیدنا بالمقتدي لأنہ لا یشترط نیۃ الإمامۃ للرجال بل للنساء۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۱، ۲۲۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا مسنون اور احادیث سے ثابت ہے۔
’’حدثنا محمد بن أبي یحییٰ: قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأی رجلا رافعاً یدیہ بدعوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
’’ما من عبد مؤمن یبسط کفیہ في دبر کل صلوۃ ثم یقول: اللّٰہم إلہي وإلٰہ إبراہیم … إلا کان حقا علی اللّٰہ أن لا یرد یدیہ خائبتین‘‘(۲)
(۱) المعجم الکبیر للطبراني، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي، عن ابن الزبیر‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)
(۲) علاء الدین الہندي،کنز العمال، ’’کتاب الأذکار: قسم الأقوال، الفرع الثاني أدعیۃ بعد الصلاۃ ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، رقم: ۳۴۷۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔ عن المطلب عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الصلوٰۃ مثنی مثنیٰ أن تشہد في کل رکعتین وأن تباء س وتمسکن وتقنع بیدیک وتقول اللّٰہم اللّٰہم فمن لم یفعل ذلک فہي خداج۔ (أخرجہ أبوداود في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في صلاۃ النہار‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳، رقم: ۱۲۹۸، مکتبہ اتحاد، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص445
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39/1096
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ان دونوں نمازوں کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس نیت سے پڑھیں گے اس کے ثمرات مرتب ہون گے ان شاء اللہ۔بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1671/43-1341
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، ، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:
(1) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں، اور صفیں درست کرلیں،۔ (2) امام جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے ہیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (3) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جبکہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموما ہوتاہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں ۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے تو اما م کے نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں " حی علی الصلوۃ "پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ حی علی الصلوۃ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حی علی الصلوہ سے پہلے کھڑاا ہونا درست نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی ، باب مایتعلق بالاقامۃ ، 3/526 زکریا دیوبند) وقال الطحاوی تحت قولہ : والقیام لامام و مؤتم والظاہر انہ احتراز عن التاخیر لاالتقدیم حتی لو قام اول الاقامۃ لاباس بہ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ، باب صفۃ الصلوۃ 1/215، بیروت) (شامی، آداب الصلوۃ 2/177 زکریا دیوبند)
حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ، " كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاةِ، وَلَا يَأْتِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:120] مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ " (المراسیل لابی داؤد، جامع الصلاۃ 1/119) (مصنف عبدالرزاق ، باب قیام الناس عندالاقامۃ 1/507) (فتح الباری، باب لایقوم الی الصلوۃ مستعجلا 2/120)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی وظیفہ (درود وغیرہ) کو ایک بار پڑھا جائے تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے دس گنا(۱) یا اس سے زیادہ عطا فرماتے ہیں، جس قدر اخلاص ہوگا اسی قدر اجر وثواب زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔(۲)
(۱) {مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ أَمْثَالِھَاج} (سورۃ الأنعام: ۱۶۰)
(۲) {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَہُمْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَمنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُط} (سورۃ البقرۃ: ۲۶۱)
{لِیُوَفِّیَھُمْ أُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط} (سورۃ الفاطر: ۳۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبعمائۃ ضعف، قال اللّٰہ عز وجل: إلا الصوم فإنہ لي، وأنا أجزي بہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصیام: باب فضل الصیام‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳، رقم: ۱۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص386
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے قرأت، رکوع سجود کو دراز نہ کرنا چاہئے، بلکہ قرأت، رکوع اور سجود کو سنت کے مطابق ادا کرنا چاہئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے، تو ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ ان میں کمزور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب تم تنہا نماز پڑھو، تو جتنی چاہے طویل کرو۔(۱)
(۱) یکرہ تحریما (تطویل الصلاۃ) علی القوم زائدا علی قدر السنۃ في قراء ۃ وأذکار رضي القوم أو لا لإطلاق الأمر بالتخفیف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب لإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)
وکرہ تطویل الصلاۃ کذا في التبیِین وینبغي للإمام أن لا یطول بہم الصلاۃ بعد القدر المسنون، وینبغي لہ أن یراعي حال الجماعۃ ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رجل: یا رسول اللّٰہ لا أکاد أدرک الصلاۃ مما یطول بنا فلان فما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في موعظۃ أشد غضبا من یوْمئذ فقال أیہا الناس إنکم منفرون فمن صلی بالناس فلیخفف فإن فیہم المریض والضعیف وذا الحاجۃ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب الغضب في الموعظۃ والتعلیم إذا رأي ما یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹، رقم: ۹۰)
عن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۷۰۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص43
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2738/45-4260
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص جنازہ میں امام کے ساتھ کچھ تکبیریں گزرنے کے بعد شامل ہوا تو امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، جب امام اگلی تکبیر کہے تو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہوجائے ، پھر اگر یہ معلوم ہو کہ کونسی تکبیر ہے تو اس کے بعد والی دعا پڑھے۔ اور اگر تکبیر کونسی ہے معلوم نہ ہو تو پھر ترتیب کے مطابق پہلے ثنا پڑھے اور پھر دورود پڑھے وغیرہ۔ اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ تکیبرات کہے اور دعا پڑھنے کی گنجائش ہو تو دعا پڑھے ورنہ صرف تکبیرات پر اکتفاء کرے۔ اگرکسی مقتدی نے تکبیر کہی مگر امام نے فورا سلام پھیردیا تو اس کی نماز جنازہ فوت ہوگئی، اب وہ اپنے طور پر میت کے لئے دعا و استغفارکرے۔
المسبوق یوافق إمامہ في دعائہ لوعلمہ بسماعہ إھ وظاہر تقییدہ الموافقة بالعلم أنہ إذا لم یعلم بأن لم یعلم أنہ في التکبیرة الثانیة أو الثالثة مثلاً یأتي بہ مرتبًا أي بالثناء ثم الصلاة ثم الدعاء (شامي زکریا: ۳/۱۱۶)
(والمسبوق) ببعض التكبيرات لا يكبر في الحال بل (ينتظر) تكبير (الإمام ليكبر معه) للافتتاح لما مر أن كل تكبيرة كركعة، والمسبوق لا يبدأ بما فاته. وقال أبو يوسف: يكبر حين يحضر (كما لا ينتظر الحاضر) في (حال التحريمة)۔ (الدر المختار: 216/2، ط: دار الفکر)
(قوله وينتظر المسبوق ليكبر معه لا من كان حاضرا في حالة التحريمة) أي وينتظر المسبوق في صلاة الجنازة تكبير الإمام ليكبر مع الإمام للافتتاح فلو كبر الإمام تكبيرة أو تكبيرتين لا يكبر الآتي حتى يكبر الأخرى بعد حضوره عند أبي حنيفة ومحمد وقال أبو يوسف يكبر حين يحضر؛ لأن الأولى للافتتاح والمسبوق يأتي به، ولهما أن كل تكبيرة قائمة مقام ركعة والمسبوق لا يبتدئ بما فاته إذ هو منسوخ كذا في الهداية، وهو مفيد لما ذكرناه أن التكبيرات الأربع أركان وليست الأولى شرطا كما توهمه في فتح القدير إلا أن يكون على قول أبي يوسف كما لا يخفى، ولو كبر كما حضر، ولم ينتظر لا تفسد عندهما لكن ما أداه غير معتبر كذا في الخلاصة وأشار المصنف إلى أنه لو أدرك الإمام بعدما كبر الرابعة فاتته الصلاة على قولهما خلافا لأبي يوسف وأفاد أنه لو جاء بعد التكبيرة الأولى فإنه يكبر بعد سلام الإمام عندهما خلافا لأبي يوسف ثم عندهما يقضي ما فاته بغير دعاء؛ لأنه لو قضى الدعاء رفع الميت فيفوت له التكبير وإذا رفع الميت قطع التكبير؛ لأن الصلاة على الميت ولا ميت يتصور، وفي الظهيرية، ولو رفعت بالأيدي، ولم توضع على الأكتاف ذكر في ظاهر الرواية أنه لا يأتي، وإنما لا ينتظر من كان حاضرا حالة التحريمة اتفاقا (البحر الرائق: (199/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وإذا جاء رجل وقد كبر الإمام التكبيرة الأولى ولم يكن حاضرا انتظره حتى يكبر الثانية ويكبر معه فإذا فرغ الإمام كبر المسبوق التكبيرة التي فاتته قبل أن ترفع الجنازة وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وكذا إن جاء وقد كبر الإمام تكبيرتين أو ثلاثا، كذا في السراج الوهاج. (الفتاوی الھندیة: (165/1، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند