نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’نقل في الاختیار عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہ علیہ السلام  کان یصلي قبل العشاء أربعا ثم یصلي بعدھا أربعا ثم یضطجع۔ ونقلہ عنہ أیضاً في امداد الفتاح ثم قال: وذکر في المحیط إن تطوع قبل العصر بأربع و قبل العشاء بأربع فحسن، لأن النبي ﷺ لم یواظب علیھا‘‘(۱)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء سے قبل چار رکعت نماز پڑھی ہے؛ اگرچہ اس پر مواظبت نہیں فرمائی ہے؛ اس لیے فقہاء نے اس کو مستحب یا سنت غیر موکدہ کہا ہے۔(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا بکڈپو دیوبند)
(۲) وفي الإمداد عن الاختیار: یستحب أن یصلی قبل العشاء أربعاً، وقیل رکعتین؛ وأربعاً بعدھا وقیل رکعتین، والظاہر أن الرکعتین المذکورتین غیر المؤکدتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا بکڈپو دیوبند)  
عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص373

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1011

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: کوئی دوسرا شخص بھی اذان ثانی دے سکتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2151/44-2229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ  ٹھہرنےکی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجاتاہے خواہ وہ شہر ہو یا دیہات ہواور ایک ہی شہر ودیہات کی مختلف مسجدیں ہوں۔ اور اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا بلکہ اتمام کرنا ہوگا۔  لہذا اگر آپ کا ارادہ کسی ایک جگہ  پندرہ دن ٹھہرنے کاہوجائے تو آپ مقیم ہوں گے، اور نماز میں اتمام  کریں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی امامت درست ہے، تاہم ختنہ کرانا سنت اور شعائر میں سے ہے۔
’’عن أبي أیوب قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أربع من سنن المرسلین الحیاء ویروی الختان، والتعطر، والسواک، والنکاح‘‘ (۱) والختان سنۃ وہو من شعائر الإسلام وخصائصہ فلو اجتمع أہل بلدۃ علی ترکہ حاربہم الإمام‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في فصل التراویح‘‘: ج۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۱۰۸۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، مسائل شتی‘‘: ج۹، ص: ۵۲۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سورج طلوع کے وقت کوئی بھی نماز ادا نہیں ہوتی، اس لیے قضاء بھی اس وقت پڑھنی جائز نہیں۔(۲)

(۲) ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أدائہ عند الغروب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في الأوقات التی لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۸۵-۱۸۶، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)؛ ثلاثۃ یکرہ فیہا التطوع والفرض وذلک عند طلوع الشمس ووقت الزوال وعند غروب الشمس إلا عصر یومہ فإنہا لا یکرہ عند غروب الشمس۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، المواقیت، نوع آخر: في بیان الأوقات التی یکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳-۱۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 66

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب سے کہا جائے کہ وہ مذکورہ لڑکے سے اذان نہ دلوایا کریں اور اگرامام کی حرکتیں خود ہی خلاف شرع ہوں جن کی بنا پر نمازیوں کو پریشانی اور انتشار ہوتا ہو تو ایسے امام کوعلیحدہ کر دینا چاہیے۔
اور متولی کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ مذکورہ امام کی اعانت یا حمایت کرے۔(۱)

(۱) ویکرہ (أذان الفاسق) ہو الخارج عن أمر الشرع بأرتکاب کبیرۃ: کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنۃ: کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص188

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بغیر کسی عذرِ شرعی کے جب تک آپ کے جسم میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت وقوت ہے، آپ کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں خواہ آپ سفر میں ہوں یا حضر میں، سواری پر سوار ہوں یا زمین پر۔ ہر صورت میں تندرستی کی حالت میں قیام کرنا لازم ہے؛ نیز کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شریعت مطہرہ میں اس لیے ضروری ہے کہ نماز میں قیام کرنا ارکانِ نماز میں سے ہے اور اگر کوئی شخص نماز کے ارکانوں میں سے کوئی رکن چھوڑ دے یا چھوٹ جائے، تو اس صورت میں نماز ادا نہیں ہوتی ہے، بغیر عذر کے قیام کو ترک کرنے پر فرض ساقط نہیں ہوتا بلکہ بدستور اس کی ادائیگی ذمہ میں بر قرار رہتی ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’من فرائضھا التي لا تصح بدونھا التحریمۃ والخ ومنھا القیام الخ في فرض و ملحق بہ الخ لقادر علیہ‘‘(۱)
’’ومنہا القیام وہو فرض في صلاۃ الفرض والوتر، ہکذا في الجوہرۃ النیرۃ والسراج الوہاج‘‘(۱)
’’وأیضاً: الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض  و سنۃ، و واجب، ففي الأول أمکنہ التدارک بالقضاء یقضی وإلا فسدت صلاتہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص:۱۲۸، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
(۲) أیضًا: ’’الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 328

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ قرأت قدر مایجوز بہ الصلاۃ ہو چکی تھی؛ لیکن اس سے آگے کی قرأت میں ایسی غلطی کی ہو جس سے معنیٰ بدل گئے ہوں کہ کفر کی حد تک ترجمہ ہو جائے تو نماز فاسد ہوگئی اور اعادہ واجب ہوگا۔(۱)

(۱) والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جیمع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳، زکریا دیوبند؛ و إبراھیم الحلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۰، دار الکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا مکروہ اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے؛ لیکن جب کہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے، تو آپ بھی دو رکعت نفل ادا کرسکتے ہیں۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن مغفل المزني أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بین کل أذانین صلاۃ ثلٰثاً لمن شاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب کم بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، نعیمیہ دیوبند)
فرجحت الحنفیۃ أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنۃ، وکرہوا التنفل قبلہا، لأن فعل المباح والمستحب إذا أفضیٰ إلی الإخلال بالسنۃ یکون مکروہاً، ولا یخفیٰ أن العامۃ لو اعتادوا صلاۃ رکعتین قبل المغرب لیخلون بالسنۃ حتما، ویؤخرون المغرب عن وقتہا قطعاً، وأما تو تنفل أحد من الخواص قبلہا ولم یخل بسنۃ التعجیل فلا یلام علیہ ،لأنہ قد أتی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم‘‘۔
فحاصل الجواب أن التنفل قبل المغرب مباح في نفسہ، وإنما قلنا بکراہتہ نظراً إلی العوارض، فالکراہۃ عارضۃ، ولا منافاۃ بینہما۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأوقات المکروہۃ‘‘: ج۲، ص: ۶۹، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص374

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت ایک اہم ذمہ داری ہے ’’الإمام ضامن‘‘ ہر کس وناکس کو امام بنانا درست نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرء ہم لکتاب اللّٰہ فإن کانوا في القرآۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ فإن کانوا في السنۃ سواء فأقدہم ہجرۃ فإن کانوا في الجہرۃ سواء فأقدمہم إسلاما ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ ولا یقعد في بیتہ علی تکرمتہ إلا بإذنہ‘‘(۱) ’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم أصبحہم أي أسمحہم وجہا ثم أکثر ہم حسبا ثم الأنظف ثوباً ثم الأکبر رأساً الخ‘‘(۲)
اگر بستی یا محلہ میں کوئی عالم یا نماز کے ضروری مسائل سے واقف شخص موجود ہے، تو اس کو امام بنایا جائے اور اگر مذکورہ نمبر دار کے علاوہ کوئی صحیح قرآن پڑھنا نہیں جانتا، تو اس نمبر دار کو بھی امام بنانا درست ہے۔

(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶؛ وأخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶؛ وأخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۵۵؛ وأخرجہ نسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ، من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۰)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص91