نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ لوٹانے کی ضرورت ہے۔(۱)

(۱) الکلمۃ الزائدۃ إن غیرت المعنیٰ ووجدت في القرآن … أو لم یوجد … تفسد صلاتہ بلا خلاف، وإن لم تغیر المعنی۔ٰ فإن کانت فيالقرآن نحو أن یقرا {إن اللّٰہ کان بعبادہ خبیراً بصیراً} لا تفسد بالإجماع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
(قولہ ولو زاد کلمۃ) اعلم أن الکلمۃ الزائدۃ إما أن تکون في القرآن أو لا، و علی کل، إما أن تغیر أولا، فإن غیرت أفسدت مطلقاً … وإن لم تغیر فإن کان في القرآن … لم تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہ، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنن مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے درود شریف اور دعاء نہ پڑھے۔(۱)

(۱) ولا یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الأولی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا) ولو صلی ناسیًا فعلیہ السہو، وقیل: لا، شمني (ولایستفتح إذا قام إلی الثالثۃ منہا) لأنہا لتأکدہا أشبہت الفریضۃ (وفيالبواقي من ذوات الأربع یصلي علی النبي) صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ویستفتح) ویتعوذ ولو نذرا،  لأن کل شفع صلاۃ۔
قولہ: ولا یصلي إلخ) أقول: قال في البحر في باب صفۃ الصلاۃ: إن ماذکر مسلم فیما قبل الظہر، لما صرحوا بہ من أنہ لا تبطل شفعۃ الشفیع بالانتقال إلی الشفع الثاني منہا، ولو أفسدہا قضی أربعاً، والأربع قبل الجمعۃ بمنزلتہا۔ وأما الأربع بعد الجمعۃ فغیر مسلم فإنہا کغیرہا من السنن، فإنہم لم یثبتوا لہا تلک الأحکام المذکورۃ ۱ہـ ومثلہ في الحلیۃ، وہذا مؤید لما بحثہ الشرنبلالي من جوازہا بتسلیمتین لعذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
ولا یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدۃ الاولٰی في الأربع قبل الظہر والجمعۃ وبعدہا ولو صلی ناسیا فعلیہ السہو وقیل لا شمني … وفي البواقي من ذوات الأربع یصلی علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسلم اھـ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص377

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے یہاں جمع بین الصلاتین حقیقی حج کے موقع پر عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ جائز نہیں ہے؛ اس لیے اگر کسی نے ایسا کیا تو جو نماز وقت سے پہلے ہوئی ہے وہ فاسد ہوگی اور اس کی قضاء کرنی لازم ہوگی، صورت مسؤلہ میں چوں کہ آپ امام ہیں اور آپ کے ساتھ عذر ہے اور عذر کی صورت میں علامہ شامی نے جمع بین الصلاتین کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے کہ اگر آپ کی نماز ہی درست نہ ہو، تو پھر سب کی نماز نہیں ہوگی اس لیے ایسی صورت میں بقول علامہ شامی جمع کی گنجائش ہے۔ آپ کی نماز ہوگئی ہے قضا کی ضرورت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے:
’’ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ بغیر (لغیر) میقاتہا إلا صلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتہا‘‘(۲)
ترمذی کی حدیث ہے: ’’من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر‘‘(۱)
فتاوی شامی میں ہے: (ولا جمع بین فرضین في وقت بعذر) سفر ومطر۔۔۔۔۔ وما رواہ محمول علی الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض علی وقتہ (وحرم لو عکس) أي أخرہ عنہ (وإن صح) بطریق القضاء (إلا لحاج بعرفۃ ومزدلفۃ)۔ ولا بأس بالتقلید عند الضرورۃ لکن بشرط أن یلتزم جمیع ما یوجبہ ذلک الإمام لما قدمنا أن الحکم الملفق باطل بالإجماع۔ وفي رد المحتار: ظاہرہ أنہ عند عدمہا لا یجوز، وہو أحد قولین۔ والمختار جوازہ مطلقا ولو بعد الوقوع کما قدمناہ في الخطبۃ ط۔ وأیضاً عند الضرورۃ لا حاجۃ إلی التقلید کما قال بعضہم: مستندا لما في المضمرات: المسافر إذا خاف اللصوص أو قطاع الطریق ولا ینتظرہ الرفقۃ جاز لہ تأخیر الصلاۃ؛ لأنہ بعذر، ولو صلی بہذا العذر بالإیماء وہو یسیر جاز۔ لکن الظاہر أنہ أراد بالضرورۃ ما فیہ نوع مشقۃ۔ تأمل‘‘(۲)

(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من یصلي الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶، رقم: ۱۶۸۲۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۴۵ تا ۴۷، زکریا، دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 70

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: غیر اللہ کے نام پر مانگنا، غیر اللہ کے نام پر دیئے ہوئے جانور کے گوشت کو کھانا وغیرہ مذکورہ امور ناجائز وحرام ہیں ایسا شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے(۱) اور اس کی اذان، اقامت وامامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام ویؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام … قولہ: باطل وحرام، لوجوہ منہا أنہ نذر لمخلوق لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصلوۃ وما لا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص191

 

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سرین نہ اٹھائے جائیں اور ہاتھ کو بھی علیحدہ نہ کیا جائے۔ (۲)
(۲)وإن تعذرا لا القیام أومأ قاعدا ویجعل سجودہ أخفض من رکوعہ لزوما ولا یرفع إلی وجہہ شیئا یسجد علیہ فإنہ یکرہ تحریماً۔ قولہ ویجعل سجودہ أخفض إلخ، أشار إلی أنہ یکفیہ أدنی الإنحناء عن الرکوع وأنہ لا یلزمہ تقریب جبہتہ من الأرض بأقصی ما یمکنہ کما بسطہ في البحر عن الزاہدي۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، ۵۶۸، زکریا دیوبند)
وقال في المجتبی: کانت کیفیۃ الإیماء بالرکوع والسجود مشتبہاً علی أنہ یکفی بعض الانحناء أم أقصی ما یمکن فظفرت علی الروایۃ فإنہ ذکر شیخ الإسلام المومئ إذا خفض رأسہ للرکوع شیئاً ثم للسجود شیئاً جاز۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صلاۃ المریض‘‘: ص: ۴۳۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذ أثمر واستحصد۔ تعالیٰ جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أوّاب لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا ،دیوبند)
وإن بدل القاري في الصلاۃ حرفاً مکان حرف کان الأصل فیہ أي في ذلک التبدیل أنہ إن کان بینہما أي بین الحرفین المبدل والمبدل منہ قرب المخرج کالقاف مکان الکاف أو کانا من مخرج واحد کالسین مع الصاد لا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۲، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر موقع ہو تو چاروں رکعت پوری کرے اگر موقع نہ ہو تو دو رکعت بھی کافی ہے عشا و عصر سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔
’’ویستحب أربع قبل العصر، وقبل العشاء وبعدہا بتسلیمۃ وإن شاء رکعتین‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص378

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2357/44-3555

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں،  اور سنت میں کمی یا زیادتی کراہت کا باعث ہے۔لقمہ ملنے پر امام کوقیام کے لئے  دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہئے تھی، البتہ  مقتدیوں کی رعایت میں  چونکہ امام نے ایسا کیا ہے، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

 (وجهر الامام بالتكبير) بقدر حاجته للاعلام بالدخول والانتقال”(شامی ج ۱ ص ۴۷۵/المکتبة الاسلامية)

ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)

ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)

وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)

"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط". (الھندیۃ کتاب الصلوۃ1/ 131، ط: دار الکتب العلمیة )

وفي مجمع الأنہر: والتبکیر سنة کذا في أکثر الکتب / مجمع الأنہر ۱ص۱۴۹۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور جس طرح عام دنوں میں زوال کا وقت ہوتا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی زوال کا وقت ہوتاہے اور جمعہ کے دن بھی زوال (نصف النہار) کے وقت نماز مکروہ ہے۔ روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز پڑھتے تھے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں اس پر اجماع نقل کیاہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
’’وأجمع الفقہاء علی أن وقت الجمعۃ بعد زوال الشمس إلا ما روي عن مجاہد أنہ قال: جائز أن تصلي الجمعۃ في وقت صلاۃ العید؛ لأنہا صلاۃ عید‘‘(۲)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز زوال کے بعد ہی پڑھتے تھے اور جن روایتوں سے زوال کے سے پہلے پڑھنے کا وہم ہوتا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے۔
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس فیہ إشعار بمواظبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاۃ الجمعۃ إذا زالت الشمس، وأما روایۃ حمید التي بعد ہذا عن أنس رضي اللّٰہ عنہ کنا نبکر بالجمعۃ ونقیل بعد الجمعۃ فظاہرہ أنہم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النہار لکن طریق الجمع أولی من  دعوی التعارض وقد تقرر فیما تقدم أن التبکیر یطلق علی فعل الشیء في أول وقتہ أو تقدیمہ علی غیرہ وہو المراد ہنا والمعنی أنہم کانوا یبدوؤن بالصلاۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتہم في صلاۃ الظہر في الحر‘‘(۱)
 

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما جاء في وقت الجمعۃ، إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن بطال أبو الحسن علي بن خلق بن عبد الملک، شرح صحیح البخاري لابن بطال، ’’باب ما جاء في وقت الجمعۃ إذا زالت‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷۔(شاملہ)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الجمعۃ:باب وقت الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۵،۴۷۷، مکتبہ، شیخ الہند، دیوبند۔

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 72

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں مسائل میں مذکورہ شخص کی اذان مکروہ ہے، اگر دوسرا شخص باشرع موجود ہو تواسی کو اذان واقامت کے لیے متعین کرنا چاہیے۔
’’یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔
وأذان امرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص192