نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال مذکورہ صورت میں نماز درست ہے تاہم امام صاحب سے کسی ماہر عالم کو سنوا دیا جائے اگر وہ واقعۃ صحیح ادائیگی نہ کر پائیں تو کسی صحیح ادائیگی والے کو امام بنایا جانا چاہئے۔(۱)

(۱) عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانوا ثلاثۃ فلیؤمّہم أحدہم وأحقہم بالإمامۃ أقرأہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۳۶، رقم: ۶۷۲)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ، إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف؛ فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور پہلی رکعت میں ثناء، تعوذ وتسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کر کے قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملا کر نماز پوری کرے۔ یہ عام قاعدہ ہے، مگر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وجہ سے بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دو رکعت کر کے قعدہ کرے گا تب بھی اس پر سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ لازم نہ آئے گا کبیری میں ہے۔(۱)
’’حتی لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرء في الرکعتین الفاتحہ والسورۃ ویعقد في أولہما لأنہا ثنائیۃ ولم لم یعقد جاز استحساناً لا قیاسا ولم یلزمہ سجود السہو‘‘(۲)

(۱) قولہ وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً، ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولٰی من وجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ،  مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم حلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سجود السہو،…مطلب في أحکام آخر للمسبوق‘‘: ص: ۲۱۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام کے پیچھے قرأت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا ضروری نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…، وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ  قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۱)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ (في السریۃ) یعلم منہ نفی (القراء ۃ) في الجھریۃ  بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرء کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۲)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰، حکم الحدیث حسن۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورہ نحل‘‘: ج۲، ص: ۶۱۔
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۶۶، زکریا دیوبند۔
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص145

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی غلطی جان بوجھ کر نہ کرنی چاہئے اگر بلا قصد ایسی غلطی ہوجائے جیسا کہ عام طور پر دیہات میں اماموں سے ہوتی رہتی ہے تو نماز ان کی صحیح اور درست ہے۔(۲)

(۲) و إن ذکر حرفًا مکان حرف و غیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مکان الصالحات، تفسد صلاتہ عند الکل، و إن کان …لایمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظاء مع الضاد و الصاد مع السین، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فیہ، قال أکثرہم لاتفسد صلاتہ … و لو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ (قاضی خان، فتاوی قاضیخان،  ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ في القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(ومنہا) ذکر حرف مکان حرف۔ إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی، بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبہ ذلک لم تفسد صلاتہ وإن غیر المعنی۔ فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔ وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جری علی لسانہ، أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار؛ ہکذا في الوجیز للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص266

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1776/43-1517

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقت داخل ہونے پر ہی نماز فرض ہوتی ہے، وقت سے پہلے نماز پڑھنا درست نہیں ، وقتیہ نماز ادا نہیں ہوگی۔ اس لئے جن لوگوں نے وقت سے پہلے نماز ادا کرلی وہ اپنی نماز قضا کریں ، اس لئے کہ وہ نماز یں جو وقت سے پہلے پڑھی گئیں وہ ذمہ سے ساقط نہیں ہوئی ہیں۔ اور کسی نماز کو جان بوجھ کر قضا کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے اگر ٹرین  وغیرہ سے سفر ہے اور کھڑے ہوکر نماز پڑھ سکتے ہیں تو کھڑے ہوکر نماز ادا کریں، اور اگر کار وغیرہ سے سفر ہے تو  ایک جائے نماز رکھیں اور کسی مناسب جگہ اتر کر نماز اداکرلیں۔ اگر قضاء کا خطرہ ہو تو آفس میں مثل اول پر بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، لیکن اس کی عادت بنالینا درست نہیں ہے۔  اگر اتفاقیہ کسی دن راستہ میں اترنے کا کوئی موقع نہ ہو تو گھر پہونچ کر وقت  باقی ہوتو نماز اداکرلیں ورنہ قضا کرلیں۔

إذ تقديم الصلاة عن وقتها لا يصح وتصح إذا خرج وقتها (مراقی الفلاح شرح نورالایضاح 1/72)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottom of Form

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2659/45-4187

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کسی حدیث پر عمل کرنے سے پہلے اس کی اسنادی حیثیت کو پرکھنا اور جانچنا انتہائی ضروری ہے، حدیث کا ثبوت اور آپ ﷺ سے  اس کا اتصال جس قدر قوی ہوگا اسی قدر اس کی حیثیت قوی ہوگی۔ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق حضرت عبادہ بن صامتؓ کی جو حدیث نقل کی جاتی ہے، وہ حدیث قوی نہیں ہے بلکہ اس میں کافی اضطراب پایاجاتاہے، اس وجہ سے وہ حدیث قابل عمل نہیں ہے۔ اور امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کا حکم قرآن  کریم اور صحیح  احادیث میں موجود ہے۔ خلفائے راشدین، ستر بدری صحابہ کے افعال اور ان کے علاوہ، دیگر صحابہ کرام کے آثارسے یہ بات ثابت ہے کہ مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے۔

وَاِذَا قُرِئ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الاعراف:۲۰۴)

قال النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم :إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیوٴمکم أحدکم فإذا کبر فکبروا، فإذا قال:غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ،فقولوا: آمین… وعن قتادة وإذا قرأ فأنصتوا۔ (مسلم:رقم:404، دار إحیاء التراث العربي)

عن أبي موسیٰ قال: علمنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم :إذا قمتم إلی الصلاة فلیوٴمکم أحدکم ،وإذا قرأ الإمام فأنصتوا
(مسند احمد رقم:۱۹۲۸۴، دارإحیاء التراث العربي)

قال (عبدالرحمن بن زید):أخبرني أشیاخنا أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال:من قرأ خلف الإمام فلا صلاة لہ، قال:وأخبرني موسٰی بن عقبة: أن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وأبو بکر وعمر وعثمان کانوا ینہون عن القراء ة خلف الإمام (مصنف عبدالرزاق: رقم:۲۸۱۰، المکتب الإسلامي، بیروت)

عن عبادة بن الصامت قال: کنا خلف النّبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم في صلاة الفجر، فقرأ، فثقلت علیہ القراء ة ،فلما فرغ قال: لعلکم تقروٴون خلف إمامکم ، قلنا :نعم! یا رسول اللّٰہ ! قال:لا تفعلوا إلا بفاتحة الکتاب، فإنہ لا صلاة لمن لم یقرأبہا (أبوداوٴد:رقم:۸۲۳، دارالفکر)

فہذہ ثمانیة وجوہ من اضطرابہ في الإسناد رفعاً ووقفا وانقطاعا واتصالا (معار ف السنن:۳/۲۰۳، ط:دار الکتاب دیوبند)

وأمااضطراب متنہ فہو کذلک علی وجوہ … ثم قال :فہذہ ثلاثة عشر لفظا فی حدیث عبادہ (معارف السنن: ۳/۲۰۵)

وہذا الحدیث معلل عند أئمة الحدیث بأمور کثیرة ضعفہ أحمد وغیرہ من الأئمة الخ (فتاوی ابن تیمیہ:۲۳/۲۸۶)

وقال النیموي:حدیث عبادة بن الصامت في التباس القراءة قد روی بوجوہ کلّہا ضعیفة۔(آثارالسّنن:۱/۷۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے، اور بہتر ہے کہ التحیات ٹھہرٹھہر کر پڑھے کہ اما م کے سلام پھیرنے کا وقت ہوجائے۔ جب امام سلام پھیرلے، تو کھڑا ہو اور اپنی نماز مکمل کرے۔(۳)

(۳) ومنہا أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الإمام في التشہد الأخیر، وإذا أتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات، ثم ماذا یفعل؟  تکلموا فیہ … والصحیح أن المسبوق یترسل في التشہد حتی یفرغ عند سلام الإمام۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
ولو فرغ المؤتم قبل إمامہ سکت اتفاقاً؛ وأما المسبوق فیترسل لیفرغ عند سلام إمامہ، وقیل یتم، وقیل یکرر کلمۃ الشہادۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۰، ۲۲۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص35

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز کی حالت میں زید کا کپڑوں کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے، جیسا کہ فتاویٰ ہندیۃ میں ہے۔
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ کذا في معراج الدرایۃ‘‘(۱)
البتہ اگر کسی عذر اور ضرورت کی وجہ سے کپڑا درست کرنا پڑے تو اس صورت میں مکروہ نہیں ہے؛ جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے۔
’’کل عمل ہو مفید لا بأس بہ للمصلی‘‘(۲) کہ ہر وہ عمل جو مفید ہو اس کے کرنے میں نمازی کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اور جو مفید نہ ہو وہ کام کرنا مکروہ ہے ’’وما لیس بمفید یکرہ‘‘(۳)
خلاصہ: نماز نہایت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنی چاہئے نماز کی حالت میں بلا ضرورت کپڑے وغیرہ کے ساتھ کھیلنا مکروہ تحریمی ہے؛ زید کو اس فعل سے اجتناب کرنا چاہئے، بعض مرتبہ مسلسل کپڑے سے کھیلنے کی بنا پر (عمل کثیر کی وجہ سے) نماز بھی فاسد ہو جاتی ہے۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۲) أیضاً:۱۶۴                         (۳) أیضاً:۱۶۴

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص147

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز فاسد ہوگئی اس لیے کہ معنی بدل گئے ہیں۔ عالمگیری میں ہے۔
’’منہا: زیادۃ حرف۔ إن زاد حرفا، فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ عند عامۃ المشائخ الخ … وإن غیر المعنی الخ … تفسد صلاتہ ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ،… الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
قال في البزازیۃ: ولو زاد حرفاً لایغیر المعنی لاتفسد عندنا وإن غیر أفسد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فروع مشي المصلی مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)
أحدہا أن تکون الکلمۃ الزائدۃ موجودۃ في القرآن، ان کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ بالاجماع وان غیر المعنی تفسد صلاتہ۔ (محمود بن أحمد، المحیط الرباني في الفقہ النعماني، ’’الفصل الخامس في حذف حرف‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۸)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص267

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1775/43-1515

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں  مذکورہ آیات کے چھوٹنے اور دوسری آیات کے پڑھنے سے معنی میں کوئی قابل ذکر خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلی آیات میں خاص مؤمنین کا ذکر ہے اور دوسری آیات میں عام مؤمنین کا ذکر ہے۔

والثاني: أن يقدم كلمة على كلمة، ولا يغير المعنى بأن يقرأ لهم فيها شهيق وزفير أو يقرأ...... لا تفسد صلاته، وكذلك إذا قرأ إنما ذلكم الشيطان يخوف أولياءه فخافون ولا تخافوهم لا تفسد صلاته، وإن تغير المعنى تفسد صلاته (المحیط البرھانی، الفصل الرابع فی کیفیتھا 1/322)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند