نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل میں عموماً موجود ہوتا ہے، اس سے مدد لے سکتے ہیں۔(۱)

(۱)وقت الفجر: من الصبح الصادق وہو البیاض المنتشر في الأفق إلی طلوع الشمس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)؛ وآخرہ (إلی قبیل طلوع الشمس) لقولہ علیہ السلام وقت صلاۃ الفجر ما لم یطلع قرن الشمس الأول۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۵، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وآخر وقت الفجر حین تطلع الشمس فإذا طلعت الشمس خرج وقت الفجر۔ (عالم بن علاء الحنفي، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الأول، في المواقیت‘‘: ج ۲، ص: ۴، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 67

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:داڑھی کٹانا یعنی ایک مشت سے کم کرنا، نماز چھوڑ نا، وی سی آر، پکچر وغیرہ دیکھنا یہ افعال موجب فسق ہیں جو شخص ایسے افعال کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد: ہکذا في الذخیرۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
وکذا یکرہ أذان الفاسق ولا یعاد أذانہ لحصول المقصود بہ۔ (عالم بن علاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص189

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب کی کمر میں درد ہے اور وہ کھڑے ہونے سے عاجز اور معذور ہیں تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکتے ہیں، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھا کرو اور اگر بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔ جیسا کہ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’صل قائماً فإن لم تستطع فقاعداً فإن لم تستطع فعلی جنب‘‘(۱)
نیز بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع کی کیفیت کے سلسلے میں فقہا نے لکھا ہے کہ: اتنا ہی جھکنا چاہئے کہ کوئی دیکھنے والا یہ تصور نہ کرے کہ یہ سجدہ کر رہا ہے، رکوع اور سجدہ میں واضح فرق ہونا چاہئے اس لیے رکوع میں پیشانی کو اتنا جھکائے کہ گھٹنوں کے مقابل کر دیا جائے تو رکوع ہو جائے گا جیسا کہ مراقی الفلاح میں ہے:
’’وفي الحموي فإن رکع جالسا ینبغي أن تحاذی جبہتہ رکبتیہ لیحصل الرکوع، ولعل مرادہ إنحناء الظہر عملا بالحقیقۃ لا أنہ یبالغ فیہ حتی یکون قریبا من السجود‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب‘‘:ج ۱، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۰۶۶۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۹۔

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز ادا ہوگئی۔(۲)

(۲) وینبغي أن لا تفسد، ووجہہ أنہ لیس بتغیر فاحش لعدم کون اعتقادہ کفراً مع أنہ لا یخرج عن کونہ من القرآن۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۸، دار الکتاب دیوبند)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص259

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے۔ فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
’’أخرج أبو داود وأحمد وابن خزیمۃ وابن حبان في صحیحیہما والترمذي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رحم اللّٰہ امرأً صلی قبل العصر أربعا، قال الترمذي: حسن غریب، وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرۃ عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین ورواہ الترمذي وأحمد فقالا: أربعا بدل رکعتین‘‘(۱)
(قولہ ویستحب أربع قبل العصر) لم یجعل للعصر سنۃ راتبۃ لأنہ لم یذکر في حدیث عائشۃ المار۔ بحر۔ قال في الإمداد: وخیر محمد بن الحسن والقدوري المصلي بین أن یصلي أربعا أو رکعتین قبل العصر لاختلاف الآثار‘‘(۲)

(۱) ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، مکتبہ الاتحاد دیوبند۔)(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر و النوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۲ ، زکریا دیوبند۔)
وندب الأربع قبل العصر أو رکعتان۔ (عبد الرحمن بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ص: ۱۰۵، دار البیروتی، دمشق، سوریہ)
أما الأربع قبل العصر فلما رواہ الترمذي وحسنہ عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل العصر أربع رکعات یفصل بینہن بالتسلیم علی الملائکۃ المقربین ومن تبعہم من المسلمین والمؤمنین وروی أبو داؤد عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي قبل العصر رکعتین، فلذا خیرہ في الأصل بین الأربع وبین الرکعتین والأفضل الأربع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص375

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1003

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر دوران نماز سترکا چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ  کھُل جائے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ناف سے لیکر گھٹنے  تک  پورا  ستر ہے جس کا چھپانا فرض ہے، اس کا خیال رکھنانماز کی صحت کے لئے  ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز کا وقت احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے؛ البتہ صاحبین کے نزدیک مثل اول کے بعد شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ صاحبین کا قول مفتی بہ نہیں ہے تاہم ضرورت وحاجت کی وجہ سے اگر عصر کی نماز مثل اول میں پڑھ لے تو نماز درست ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بعض مشائخ نے اس پر فتویٰ دیا ہے۔  حرمین کا مسئلہ خاص فضیلت کا حامل ہے، اس لیے حرمین میں عصر کی نماز جماعت کے ساتھ مثل اول پر ہی پڑھنی چاہئے جماعت ترک کر کے مثلین پر انفرادی یا اجتماعی طور پر پڑھنا مناسب نہیں ہے۔(۱)

(۱) ووقت العصر: من صیرورۃ الظل مثلیہ غیر فيء الزوال إلی غروب الشمس، ہکذا في ’’شرح المجمع‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول، في المواقیت وما یتصل بہا‘‘ الفصل الأول، في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وأما أول وقت العصر فعلی الإختلاف الذي ذکرنا في آخر وقت الظہر حتی روي عن أبي یوسف أنہ قال: خالفت أبا حنیفۃ في وقت العصر، فقلت: أولہ إذا زاد الظل علی قامۃ اعتماداً علی الآثار التي جائت وآخرہ حین تغرب الشمس عندنا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان، معرفۃ الزوال ووقت العصر‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 68

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فاسق کی اذان، اقامت اور امامت مکروہ تحریمی ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الإستقامۃ ولعل المراد بہ مـن یرتکب الکبائر‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ علی المذہب وأذان إمرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالماً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب، ج ۲، ص: ۶۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد، ہکذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوٰی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص190

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی جائے اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے، اس طرح کرنے سے قیام بھی مل گیا اور رکوع بھی مل جائے گا۔
اس صورت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قیام کرنا مقدار تین تسبیح کے ضروری نہیں ہے۔ زید کا قول درست ہے۔(۱)
(۱) فلو کبّر قائماً فرکع ولم یقف صح: لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ الرکوع یکفیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱)
(فرکع) أي وقرأ في ہویّۃ قدر الفرض أو کان أخرس أو مقتدیاً أو أخّر القرأۃ، قولہ: (إلی أن یبلغ الرکوع) أي یبلغ أقل الرکوع بحیث تنال یداہ رکبتیہ وعبارتہ في الخزائن عن القنیۃ: إلی أن یصیر أقرب إلی الرکوع۔ (أیضًا)
ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام أو فیما ہو أقرب إلیہ من الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، زکریا، دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 331

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ قصداً ’’دال‘‘ ہی پڑھتا ہے، تو نماز نہیں ہوگی لیکن اگر وہ مخرج سے نکالنے اور ادا کرنے کی سعی کرتا ہے، لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ ’’دال‘‘ ادا ہوئی تو اس صورت میں مفتی بہ قول کی رو سے نماز ہو جائے گی۔(۱)

(۱) وإن لم یکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرہم علی عدم الفساد لعموم البلویٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴)
وإن کان لا یمکن الفصل  بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء، مع الضاد والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشائخ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ: ہکذا في فتاویٰ قاضي خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص260