Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہوگا ہاں جب امام سجدہ سہو کے لیے سلام پھیرے گا اس میں مسبوق امام کی متابعت نہیں کرے گا۔(۱)
(۱) ثالثہا: أنہ لو قام إلی قضاء ما سبق بہ، وعلی الإمام سجدتا سہو قبل أن یدخل معہ، کان علیہ أں یعود فیسجد معہ ما لم یقید بسجدۃ، فإن لم یعد حتی سجد، وعلیہ أن یسجد في آخر صلاتہ … ومنہا أنہ یتابع الإمام في السہو ولا یتابعہ في التسلیم والتکبیر والتلبیۃ، فإن تابعہ في التسلیم والتلبیۃ فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، زکریا دیوبند)
ولو قام لقضاء ما سبق بہ وسجد إمامہ لسہو تابعہ فیہ إن لم یقید الرکعۃ بسجدۃ فإن لم یتابعہ سجد في آخر صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃالطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في ما یفعلہ المقتدي الخ‘‘: ص: ۳۰۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص33
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا مصلی اور جائے نماز جس پر خانہ کعبہ کی تصویر پرنٹ ہو یا نقش ہو اس پر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے۔ اگر اس سے خشوع و خضوع متاثر ہو، تو ایسے مصلی پر نماز پڑھنے سے احتراز بہتر ہے، ایسے مصلی میں بسااوقات خشوع فوت ہونے کا امکان ہے؛ اس لیے مصلی سادے ہونے چاہئیں۔ حدیث سے بھی اس طرف اشارہ ملتاہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منقش چادر میں نماز پڑھی پھر آپ نے وہ چادر ابوجہم کو دینے کا حکم دے دیا۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی في خمیصۃ لہا أعلام، فنظر إلی أعلامھا نظرۃ، فلما انصرف قال: إذہبوا بخمیصتي ہذہ إلی أبي جہم، وائتوني بأنبجانیّۃ أبي جہم؛ فإنہا ألہتنی آنفا عن صلاتي‘‘(۱)
فتاویٰ عثمانی میں لکھا ہے: ’’جا نمازوں پر فی نفسہ کسی بھی قسم کا نقش پسندیدہ نہیں؛ لیکن اگر کسی جانماز پر حرمین شریفین میں سے کسی کی تصویر اس طرح بنی ہوئی ہے کہ وہ پاؤں کے نیچے نہیں آتی تو اس میں بھی اہانت کا کوئی پہلو نہیں؛ البتہ موضع سجود میں بیت اللہ کے سوا کسی اور چیز کی تصویر بالخصوص روضۂ اقدس کی شبیہ میں چوں کہ ایہام خلافِ مقصود کا ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس سے احتراز مناسب معلوم ہوتا ہے‘‘۔(۲)
(۱) معلوم ہوا کہ اس طرح کے مصلی سے احتراز ہی بہتر ہے۔
(۲) ایسے مصلی جس پر خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر ہو اس پر پاؤں رکھناخلاف احتیاطہے۔
(۳) ایسے مصلی کو بچھانے اور اس پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن حضرات فقہاء نے لکھاہے کہ جو مصلیٰ نماز کے لیے مختص ہو بہتر ہے کہ جب تک نماز کے لیے استعمال ہو اس کو کسی دوسرے کام میں استعمال میں نہ لایا جائے؛ اس لیے اس پر بلاضرورت بیٹھنا خلاف اولیٰ کہلائے گا۔(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا صلی في ثوب لہ أعلام و نظر إلی علمھا‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم:۳۷۳۔
ویستنبط منہ کراہیۃ کل ما یشغل عن الصلاۃ من الأصباغ والنقوش ونحو ہا۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا صلی في ثوب الخ‘‘: ج ۱، ص:۶۰۷
(۲) مفتي تقي عثماني، فتاوی عثماني: ج ۱، ص: ۱۵۔
(۳) قولہ أو لغیر ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس لہ رواہ الشیخان ولا فرق في الشجر بین المثمر وغیرہ خلافاً لمجاہد، قولہ لأنہا لا تعبد، أي ہذہ المذکورات وحینئذ فلا یحصل التشبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۸، زکریا دیوبند)
صح فرض ونفل فیہا وکذا فوقہا وإن لم یتخذ سترۃ لکنہ مکروہ لإسائۃ الأدب باستعلائہ علیہا۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في الکعبۃ‘‘: ص: ۱۰۰، المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص142
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز صحیح ہوگئی اعادے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایسی غلطی کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو غلطی ہوتی ہی نہیں اور احساس غلطی کا سننے والے کو ہوتا ہے اس لیے اس سے پرہیز مشکل ہے پس نماز صحیح ہوگئی ہر امام قاری نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو من ثمرہ إذا أثمر واستحصد، تعالیٰ جد ربنا، انفرجت بدل، انفجرت، أیاب بدل أواب لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا وکذا لو کرر کلمۃ؛ وصحح الباقاني الفساد إن غیر المعنی نحو رب رب العالمین للإضافۃ کما لو بدل کلمۃ بکلمۃ وغیر المعنی نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامہ في المطولات، وإن غیر أفسد مثل: وزرابیب مکان، زرابي مبثوثۃ، ومثانین مکان مثاني، وکذا، {والقرآن الحکیم} (یٰس: ۲) و {إنک لمن المرسلین} (یٰس:۳) بزیادۃ الواو تفسد اہـ أي لأنہ جعل جواب القسم قسما کما في الخانیۃ، لکن في المنیۃ: وینبغي أن لا تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴-۳۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص264
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام کے ساتھ شریک ہوکر التحیات شروع نہیں کی تو امام کے ساتھ ہی کھڑا ہو جائے اور اگر پڑھنی شروع کردی ہے، تو جلدی سے پوری کر کے کھڑا ہو جائے۔(۱)
’’أو قیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز‘‘(۲)
(۱) ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدیٰ بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحاً، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلاً عن أبي اللیث : المختار عندي أن یتم التشہد۔۔۔۔۔ وإن لم یفعل أجزأہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۰، زکریا دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹، ۲۰۰، ط: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عام حالات میں بلا عذر ناک اور منھ پر کپڑا لپیٹنا مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ عذر کی بنا پر ناک یا چہرا ڈھانپنا بلاکراہت درست ہے؛ اس لیے موجودہ حالات میں عذر کی بنا پر ماسک پہن کر نما ز پڑھنا درست ہوگا۔ امام صاحب بھی عذر کی بنا پر ماسک لگا سکتے ہیں۔(۱)
’’فإذا علم ہذا علم أن تغطیۃ الفم إذا لم یکن عن عذر مکروہ‘‘(۲)
(۱) (فروع) یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم و التنمم وکل عمل قلیل بلا عذر۔
قولہ والتلثم) وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳، زکریا دیوبند)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن السدل في الصلاۃ وأن یغطی الرجل فاہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السدل في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۶۴۳، نعیمیہ دیوبند)
وفي شرح السنۃ إن عرض لہ التثاؤب جاز أن یغطي فمہ بثوب أو بیدہ لحدیث ورد فیہ ذکرہ الطیبي، والفرق ظاہر لأن المراد من النہي استمرارہ بلا ضرورۃ ومن الجواز عروضہ ساعۃ لعارض۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الستر، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۶، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
(۲) غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي، ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلي فمہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص144
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال مذکورہ صورت میں نماز درست ہے تاہم امام صاحب سے کسی ماہر عالم کو سنوا دیا جائے اگر وہ واقعۃ صحیح ادائیگی نہ کر پائیں تو کسی صحیح ادائیگی والے کو امام بنایا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) عن أبي سعید الخدري قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانوا ثلاثۃ فلیؤمّہم أحدہم وأحقہم بالإمامۃ أقرأہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۳۶، رقم: ۶۷۲)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ، إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف؛ فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور پہلی رکعت میں ثناء، تعوذ وتسمیہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کر کے قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملا کر نماز پوری کرے۔ یہ عام قاعدہ ہے، مگر حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وجہ سے بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دو رکعت کر کے قعدہ کرے گا تب بھی اس پر سجدہ سہو یا نماز کا اعادہ لازم نہ آئے گا کبیری میں ہے۔(۱)
’’حتی لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرء في الرکعتین الفاتحہ والسورۃ ویعقد في أولہما لأنہا ثنائیۃ ولم لم یعقد جاز استحساناً لا قیاسا ولم یلزمہ سجود السہو‘‘(۲)
(۱) قولہ وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً، ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولٰی من وجہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
(۲) إبراہیم حلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سجود السہو،…مطلب في أحکام آخر للمسبوق‘‘: ص: ۲۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص34
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام کے پیچھے قرأت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا ضروری نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…، وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۱)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ (في السریۃ) یعلم منہ نفی (القراء ۃ) في الجھریۃ بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرء کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۲)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰، حکم الحدیث حسن۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورہ نحل‘‘: ج۲، ص: ۶۱۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۶۶، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص145
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی غلطی جان بوجھ کر نہ کرنی چاہئے اگر بلا قصد ایسی غلطی ہوجائے جیسا کہ عام طور پر دیہات میں اماموں سے ہوتی رہتی ہے تو نماز ان کی صحیح اور درست ہے۔(۲)
(۲) و إن ذکر حرفًا مکان حرف و غیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مکان الصالحات، تفسد صلاتہ عند الکل، و إن کان …لایمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظاء مع الضاد و الصاد مع السین، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فیہ، قال أکثرہم لاتفسد صلاتہ … و لو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ (قاضی خان، فتاوی قاضیخان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ في القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، ۱۳۱، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(ومنہا) ذکر حرف مکان حرف۔ إن ذکر حرفا مکان حرف ولم یغیر المعنی، بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبہ ذلک لم تفسد صلاتہ وإن غیر المعنی۔ فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔ وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین، والطاء مع التاء، اختلف المشایخ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جری علی لسانہ، أو کان لا یعرف التمییز لا تفسد، وہو أعدل الأقاویل والمختار؛ ہکذا في الوجیز للکردري۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص266