نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2660/45-4188

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رفع یدین یعنی نماز کی حالت میں تکبیر کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھانا، وتر اور عیدین کی نماز کے علاوہ عام نمازوں میں  صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہی رفعِ یدین کرنا مسنون ہے، اور یہ مسئلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے مختلف فیہ ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بعض صحابہ کرام رفع یدین کرتے تھے اوربعض نہیں کرتے تھے۔اسی وجہ سے ائمہ مجتہدین  میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہواہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ترکِ رفع یدین والی روایات کوراجح قراردیاہے،کئی اکابر صحابہ کرام کامعمول ترکِ رفع کاتھا، اوریہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری عمل ہے، اور پہلے رفع یدین کرتے تھے اور پھر بعد میں رفع یدین نہیں کرتے تھے، اس کا صاف مطلب یہی ہو اکہ بعد والا عمل آپ کا ناسخ ہے اور جو کچھ اب تک ہوا وہ منسوخ ہے۔اس لئے  احناف کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ مواقع پر  ترکِ رفع یدین ہی  سنت ہے۔ دلائل حسب ذیل ہیں:

۔۔  "حدّثنا إسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یزید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول  الله صلی  الله علیه وسلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه ثم لم یرفعهما". (مسند أبي یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد، ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)

۔۔   "عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

۔۔  "عن المغیرة قال: قلت لإبراهيم: حدیث وائل أنه رأی النبي صلی الله علیه وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك". (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)    

۔۔   "عن جابر بن سمرة قال: خرج علینا رسول  الله صلی  الله علیه وسلم فقال: مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاة". (صحیح مسلم  ۱/  ۱۸۱)

5۔۔ "عن  علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول  الله صلی  الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة". ( جامع الترمذي  ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)

۔۔  " عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألاَ أصلّي بکم صلاة رسول  الله صلی الله علیه وسلم قال:  فصلی فلم یرفع یدیه إلا مرةً واحدةً". (سنن النساائي  ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم    ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)
7۔۔  "عن علقمة عن عبد الله بن مسعود قال: صلیت خلف النبي صلی  الله علیه وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیهم إلا عند افتتاح الصلاة." (السنن الکبری للبیهقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخه جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)    

۔۔   "عن إبراهيم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراهيم والشعبی یفعلان ذلك". (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)

9۔۔  "عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیه قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة ولم یرفعهما فیما سوی ذلك". (مؤطا إمام محمد/ ۹۲

10۔۔  "عن مجاهد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه إلا في التکبیرة الأولی من الصلاة، فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلایکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی  الله علیه وسلم فعله وقامت الحجة علیه بذلك". (طحاوي شریف  ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کو امام کے پیچھے صرف ایک رکعت ملی، وہ امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پر اکتفاء کرے، امام کے سلام سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی کھڑا ہو اور اپنی دوسری رکعت اسی طرح ادا کرے جس طرح چھوٹی ہے، یعنی ثناء وتعوذ وتسمیہ پڑھے، سورہ فاتحہ شروع کردے اور کوئی سورہ یاچند آیات پڑھے، پھر رکوع وسجدہ کرے اور بیٹھ جائے، تشہد پڑھے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو، سورہ فاتحہ پڑھے، کوئی سورہ یا چند آیات پڑھے اور پھر رکوع وسجدہ کرے اور اب سیدھا چوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے اور صرف سورہ فاتحہ پڑھے، سورہ نہ ملائے اور رکوع وسجدہ کے بعد قعدہ اخیرہ کرے جس میں تشہد، درودشریف اور دعاء کے بعد سلام پھیردے۔(۱)
’’فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشھد بینھما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط ولایقعد قبلھا‘‘(۱)

(۱) ومنہا: أنہ لا یقوم إلی القضاء بعد التسلیمتین، بل ینتظر فراغ الإمام، کذا في البحر الرائق … ومنہا أنہ یقضی أول صلاتہ في حق القراء ۃ، وآخرہا في حق التشہد … ولو أدرک رکعۃ من الرباعیۃ، فعلیہ أن یقضي رکعۃ یقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ، ویتشہد ویقضي رکعۃ أخریٰ کذلک، ولا یتشہد، وفي الثالثۃ بالخیار، والقراء ۃ أفضل، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع  في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص36

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت میں مسئولہ میں اگر کوئی شخص بغیر ٹوپی اوڑھے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو نماز ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ فقہا نے لکھا ہے کہ بغیر کسی عذر کے محض غفلت اور سستی وتساہل میں بغیر ٹوپی کے کوئی نماز پڑھتا ہے تو یہ خلاف ادب اور مکروہ ہے؛ اس لیے اسے ایسے فعل سے اجتناب کرنا چاہئے۔
’’عن ہشام بن حسان عن الحسن قال: أدرکنا القوم ہم یسجدون علی عمائمہم، ویسجد أحدہم ویدیہ في قمیصہ‘‘(۱)
وکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل ولا بأس بہ للتذلل‘‘(۲)
’’وتکرہ الصلاۃ … مکشوف الرأس‘‘(۳)

ان کا دعوی کہ ٹوپی پہننے کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ہے۔ غلط ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ اور ٹوپی اوڑھنے کا ثبوت ملتا ہے، اس لیے بغیر علم کے کسی چیز کا اقرار وانکار کرنا صحیح نہیں ہے ان کو چاہیے کہ اپنے مقامی علماء سے رجوع کریں اور دینی معلومات حاصل کریں۔ ٹوپی اوڑھنے کے سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یلبس قلنسوۃ بیضاء‘‘(۴)
(۱) أخرجہ عبد الرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود علی العمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۵۶۶۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، : ۲،ص: ۴۰۷؛وجماعۃ من علماء الہندیۃ والفتاوی الھندیۃ: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي مع مراقي الفلاح: ص: ۳۵۹۔
(۴) مجمع الزوائد: ج ۵، ص: ۱۲۱۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص148

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی اس لیے کہ یہاں معنی میں تغیر فاحش لازم نہیں آتا ہے {الذي انقض ظہرک} کا معنی ہے جس نے آپ کی پیٹھ جھکا دی اور {انقض وزرک} کا معنی ہے جس نے آپ کے بوجھ کو جھکا دیا، اس میں اگر چہ معنی بدل جاتاہے؛ لیکن اس سے تغیر فاحش لازم نہیں آتا ہے اور جو تبدیلی ہے اسے ا لفاظ قرآن کے تقدیم وتاخیر کی تبدیلی بھی کہہ سکتے ہیں اور {رفعنا لہ ذکرک} میں صرف ضمیر تبدیل ہوئی ہے جس سے معنی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتاہے اس لیے نماز ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’ومنہا: ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لاتفسد صلاتہ، نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص268

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1042

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  علاقہ کے معتبر علماء سے معائنہ کرالیں، وہ جو فیصلہ کریں اس پر عمل کریں۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 949/41-93

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  امام کے ساتھ بھول کر سلام پھیر دیا تو اب  آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الفتاوی الھندیۃ 1/98)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1390/42-821

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام ومقتدی سب کی نماز پوری ہو جاتی ہے۔ نماز کے بعد دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہیں اور قبولیت دعا کے مواقع میں سے ہے۔ یہ دعا جہری بھی ہوسکتی ہے اور سری بھی، انفرادی بھی اور بوقت ضرورت اجتماعی بھی۔ البتہ سرا اور انفرادی طور پر دعا مانگنا افضل ہے۔ جماعت کے بعد دعا مانگنے یا نہ مانگنے کے سلسلے میں امام و مقتدی آزاد ہیں۔ دعا نہ کرنے پر امام یا مقتدیوں پر اعتراض کرنا غلط ہے۔ اسی طرح دعا شروع کرنے یا نہ کرنے میں امام کی اقتداء کا التزام خلاف سنت ہے۔ اگر لوگ اس کو ضروری سمجھیں تو امام کا دعا کی ابتداء میں الحمد للہ یا آخر میں یا ارحم الراحمین کہنے کا اہتمام قابل ترک ہے۔ ائمہ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو صحیح مسئلہ  سے آگاہ کرتے رہا کریں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے، البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا، تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔ اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ ارسال کریں۔(۲)

(۲) ومنہا: أنہ یقضی أول صلاتہ في حق القراء ۃ، وآخرہا في حق التشہد، حتی لو أدرک رکعۃ من المغرب قضی رکعتین وفصل بقعدۃ فیکون بثلاث قعدات، وقرأ في کل فاتحۃً وسورۃً، و لو ترک القراء ۃ في إحداہما تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس… في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
قولہ: (وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولیٰ من وجہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘:  ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص37

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: واضح رہے کہ روشنی ہو یا اندھیرا دونوں میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں اندھیرے میں نماز پڑھ سکتے ہیں جس طرح اجالے میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح اندھیرے میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے، ہاں اگر کسی کو اندھیرے میں وحشت ہورہی ہو یا قبلہ کا رخ یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو روشنی میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ بخاری شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھیرے میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک روایت منقول ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوئی تھی اور میرے دونوں پیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کی جانب میں تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اشارہ کرتے تو میں اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ لیتی جب آپ قیام میں جاتے تو میں پیروں کو پھیلا لیتی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
’’عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، و رجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزني فقبضتُ رجليَّ، فإذا قام بسطتُھما،  قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح‘‘(۱
’’أما باللیل فیصلي قائماً لأن ظلمۃ اللیل تستر عورتہ‘‘(۱)
’’وان علم بہ في صلوتہ أو تحول رایہ … ولو بمکۃ أو مسجد مظلم ولا یلزمہ قرع أبواب ومس جدران۔ وفي الشامیۃ تحتہ:  في الخلاصۃ إذا لم یکن في المسجد قوم والمسجد في مصر في لیلۃٍ مظلمۃٍ (قولہ ومس جدران) لأن الحائط لو کانت منقوشۃ لا یمکنہ تمییز المحراب من غیرہ، وعسی أن یکون ثم ھامۃ مؤذیۃً … وھذا إنما یصح في بعض المساجد فأما في الأکثر فیمکن تمییز المحراب من غیرہ في الظلمۃ بلا إیذاء‘‘(۲)
’’رجل صلی في المسجد في لیلۃ مظلمۃ بالتحري، فتبین أنہ صلی إلی غیر القبلۃ، جازت صلاتہ؛ لأنہ لیس علیہ أن یقرع أبواب الناس للسؤال عن القبلۃ‘‘(
۳)
مذکورہ عربی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے؛ بلکہ حدیث سے ثابت ہے، البتہ نمازی اگر اپنی اور دوسروں کی سہولت کے لیے تھوڑی بہت روشنی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مناسب اور بہتر ہے تاکہ اندھیرے میں کوئی موذی جانور تکلیف نہ دے سکے یا قبلہ اندھیرے کی وجہ سے مشتبہ نہ ہو جائے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘: ج ۱، ص: ۵۶،رقم۳۸۲۔
(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد‘‘ ج۲، ص۸۵، زکریا دیوبند
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۱۶، ۱۱۷، زکریا۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی اس لیے کہ ’’من قبلہ‘‘ کواگر زائد ما ن لیا جائے تو معنی میں فساد نہیں لازم آتاہے اور دونوں صورت میں مطلب قریب قریب ہے۔ پہلی صورت میں مطلب ہے کہ رسول جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ایمان لائے اور دوسری صورت میں مطلب ہوگا کہ رسول پر جو نازل ہو ا اس پر ایمان لائے اور مومنین اس پر ایمان لائے۔ معلوم ہوا کہ معنی میں تغیر فاحش نہیں ہے اس لیے نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرروت نہیں ہے۔
’’ومنہا: ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لاتفسد صلاتہ، نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: ’’وعداً علینا إنا کنا غافلین‘‘ مکان (فاعلین) ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص269