نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نفل نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے، بعض حضرات نے تداعی کے ساتھ اور بعض نے دونوں صورتوں میں مکروہ قرار دیا ہے۔ حضرت مدنیؒ کا تفرد ہے باقی علمائے دیوبند اس کے قائل نہیں ہیں، جمہور فقہا کی رائے کراہت ہی کی ہے۔(۱)

(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعۃ بواحد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
فتاویٰ رشیدیۃ: ج ۲،ص: ۵۵؛ وامداد الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۳۰۰؛ وکفایت المفتي: ج ۳، ص: ۳۸۶؛ وفتاویٰ محمودیہ،: ج ۹، ص: ۲۰۹۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص379

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر تحریر کردہ سوالات صحیح ہیں، تو مذکورہ امام کو جب کہ قرآن صحیح نہیں پڑھتا امامت سے الگ کر دیا جائے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، کسی صحیح پڑھنے والے اور متدین کو جو کہ جھگڑا لو نہ ہو امام مقرر کر لیں(۱) مذکورہ صورت میں اس کی طرف داری کرنے والے غلطی پر ہیں، اگر یہ شرعی مسجد ہے، تو بلڈنگ وسوسائٹی کے لوگوں کا نمازیوں کو روکنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر یہ صرف جماعت خانہ ہے، تو اہل محلہ کو مسجد کی تعمیر کی کوشش کرنی چاہئے۔

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ   …ثم الأورع ثم الأسن۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (أیضاً: ص: ۲۹۷، زکریا دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص210

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2743/45-4280

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے، البتہ کسی خاص صورت حال میں شریعت نے تاخیر کی اجازت دی ہے تو اس میں تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورتِ  مسئولہ میں گرمی کے موسم میں ظہر  کی نماز  میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا شدیدگرمی کا ہوتا ہے جس میں بہت ممکن ہے کہ جماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہو؛ لہذا جماعت میں زیادہ لوگوں کی شرکت کے پیشِ نظر گرمی کے دنوں میں ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ سردی کے موسم میں  چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تقلیل  جماعت کا سبب بنے ؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے اور سردیوں میں ظہر کی نماز میں تعجیل مستحب ہے۔

"ويستحب تأخير الظهر في الصيف وتعجيله في الشتاء. هكذا في الكافي سواء كان يصلي الظهر وحده أو بجماعة." (الھندیۃ كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، 52/1، ط: رشيدية)

"و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.

و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1 / 249)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2763/45-4307

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اشراق باب افعال کا مصدر ہے اشرقت الشمس کے معنی آتے ہیں آفتات کا طلوع ہونا۔چاشت عربی لفظ نہیں ہے بلکہ عربی میں اس کے لیے ضحی کا لفظ آتاہے جس کے معنی چاشت کا وقت ہے ۔جو نماز طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیان اداکی جائے اسے صلوۃضحیٰ کہتے ہیں ہم اسے نماز چاشت یا شراق بھی کہتے ہیں اس کا ایک نام صلوٰۃ الاوابین بھی ہے۔اشراق اور چاشت یہ دونوں مختلف نمازیں ہیں او ر دونوں احادیث سے ثابت ہیں تاہم اشراق کی نماز کے لیے حدیث میں کوئی مستقل نام نہیں ذکر کیا گیا ہےجب کہ چاشت کے لیے صلاۃ الضحی کا لفظ آحادیث میں مذکور ہے ۔ ان دونوں نمازوں میں ابتداءِ وقت اور انتہاءِ وقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ دونوں کا ابتدائی اور انتہائی وقت ایک ہی ہے یعنی سورج نکلنے کے کم از کم دس منٹ بعد سے زوال تک، البتہ اشراق کی نماز  اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جب کہ چاشت کا افضل وقت چوتھائی دن گزرنے کے بعد ہے، جب سورج گرم ہوجاتاہے۔بعض علما طلوع آفتاب کے بعد صرف ایک نماز مانتے ہیں، یعنی: نماز چاشت ، وہ نماز اشراق نہیں مانتے۔ اور جو حضرات دو نمازیں (نماز اشراق اور نماز چاشت) مانتے ہیں، احادیث سے ان کے قول کی بھی تائید ہوتی ہے۔

(قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا (إعلاء السنن: ۷/۳۰) عاصم بن ضمرة السلولي، قال: سألنا عليًّا، عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار فقال: إنكم لاتطيقونه، فقلنا: أخبرنا به نأخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا صلى الفجر يمهل، حتى إذا كانت الشمس من هاهنا - يعني من قبل المشرق - بمقدارها من صلاة العصر من هاهنا - يعني من قبل المغرب - قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، - يعني من قبل المشرق - مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا قام فصلى أربعًا"سنن ابن ماجه (1/ 367):۔ قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا(إعلاء السنن: ۷/۳۰

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورۃ مسئول عنہا میں اگر ترک واجب سے نماز کا اعادہ کیا گیا اور اس اعادہ والی نماز میں اگر کوئی دوسرا مقتدی شامل ہو گیا، تو اس کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی؛ اس لیے کہ یہ اعادہ والی نماز نفل ہے۔ قول اصح کی بناء پر اور اگر شامل ہونے والے مقتدی کو اس مسئلہ کا علم نہیں ہے، تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ امام کو چاہئے کہ نماز میں جو خرابی آئی نقصان ہوا ہے اس کو مقتدیوں کے سامنے ظاہر کر دے۔(۱)
’’وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا، والمختار أنہ جابر للأول۔ لأن الفرض لا یتکرر، وقال الشامي‘‘ (والمختار أنہ) ’’أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلۃ الجبر بسجود السہو، و بالأول یخرج عن العہدۃ وإن کان علی وجہ الکراہۃ علی الأصح، کذا في شرح الأکمل علی أصول البزدوي الخ‘‘(۲)

(۱) والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸،زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص38

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوران نماز دیوار پر کلینڈر اور گھڑی دیکھ کر تاریخ اور ٹائم سمجھنے سے نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ نماز کی حالت میں دیوار کی طرف دیکھنا نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع کے منافی ہے اور بالقصد ان چیزوں کی طرف دیکھنا کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
’’ولا یفسدہا نظرہ إلی مکتوب وفہمہ لو مستفہماً وإن کرہ (در مختار) قولہ: وإن کرہ أي لاشتغالہ بما لیس من أعمال الصلاۃ، وأما لو وقع علیہ نظر بلا قصد وفہمہ فلا یکرہ‘‘(۱)
’’إذا کان المکتوب علی المحراب غیر القرآن فنظر المصلي إلی ذلک وتأمل وفہم، فعلی قول أبي یوسفؒ : لا تفسد، وبہ أخذ مشائخنا‘‘(۲)

نیز نماز پڑھتے ہوئے اگر جیب سے موبائل نکال کر باضابطہ موبائل سوئچ آف کیا جائے تو یہ عمل نماز فاسد کرنے والا ہے، کیوں کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، اسی کو فقہی اصطلاح میں عمل کثیر کہا جاتا ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اس لیے اس عمل سے نماز فاسد ہو جائے گی۔
البتہ اگر عمل قلیل کے ذریعہ موبائل بند کرنا ممکن ہو مثلاً موبائل کی گھنٹی بجنے پر انگلی سے بٹن بند کردے یا ایک ہی ہاتھ سے موبائل نکال کر موبائل کو بند کرے تو یہ عمل قلیل ہے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ جیب سے موبائل نکالے بغیر ہی ایک ہی ہاتھ سے جیب میں ہی موبائل بند کردے یا فون کاٹ دے۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا ما لا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا، وفي الشامیۃ: الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل‘‘(۱)
’’ویفسدہا العمل الکثیر لا القلیل والفاصل بینہما أن الکثیر ہو الذي لا یشک الناظر لفاعلہ أنہ لیس في الصلاۃ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۷،۳۹۸، زکریا، : ج ۱، ص: ۶۳۴، کراچی۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ:کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج ۱، ص: ۱۶۰؛ وکذا في الفتاوی التاتار خانیۃ: ج ۲، ص: ۲۲۸۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب‘‘: ج ۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵، زکریا۔)
(۲) أحمد بن محمد، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘ : ص: ۳۲۲۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص151

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ کی اس صورت میں کوئی نقص نہیں آیا اور نماز کو لوٹانا صحیح نہیں تھا اس لیے فرض نماز میں کچھ بھی ترک نہیں ہوا نہ سجدہ سہو واجب ہوا؛ کیوں کہ سجدہ سہو واجب کے ترک کرنے سے لازم آتا ہے اور یہاں پر قدر فرض وواجب کی قرأۃ ادا ہوگئی اور درمیان قرأت کے اگر کوئی آیت چھوٹ گئی تو بھی نماز جمعہ درست اور صحیح ہوگئی اور فرض نماز میں اگر ضرورت ہو تو لقمہ دیا جا سکتا ہے، اس سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’ولوزاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً … لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ، مطلب: …مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵،۳۹۶، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شب قدر و شب برأت کا احیاء مستحب ہے، یہ راتیں عند اللہ بہت متبرک ہیں ان میں جتنی عبادت کی جائے بہت زیادہ اجر وثواب ہے، لیکن نوافل باجماعت نہ پڑھنی چاہئے،(۱) کیوں کہ یہ بدعت ومکروہ ہے اور کسی خاص اجتماع کی بھی ضرورت نہیں ہے۔(۲) فرداً فرداً نوافل، تلاوت کرنا چاہئے؛ البتہ شب معراج کی نہ تعیین ہے نہ کوئی فضیلت، اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام بدعت ہے۔(۳)

(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستندلہا من الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذا العبادات ما استطاعوا۔ (الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام: باب إذا اجتہد العامل أو الحاکم فأخطأ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۹۲، رقم: ۱۷۱۸)
(۳) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد الخ‘‘: ص: ۴۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص380

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مرد و عورت کی نماز میں درج ذیل  اعمال میں فرق ہے (1) مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے گا اور عورت سینے تک ہاتھوں کو اٹھائے گی (البحر الرائق1/35)۔  (2) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی(اعلاء السنن2/153)۔ (3) عورت رکوع میں کم جھکے گی اور رکوع میں عورت انگلیاں مرد کی طرح کشادہ نہیں رکھے گی(عالمگیری 1/74)۔ (4) مرد سجدے کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے اور بازو  کو بغل سے جُدا رکھے گا اورکہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے  گا،   جبکہ عورت  پیٹ کو   رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملائے رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا کر سجدہ کرے گی(البحر الرائق 1/320)۔  (5) مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا دایاں پیر کھڑا کرکے بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھ جائے  گا جبکہ  عورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے گی(کبیری223)۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1157/42-393

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر نجاست اس قدر لگی ہے  جو منافی صلوۃ ہے  یعنی ایک درھم کے برابر نجاست ہےتو ایسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ اور اگر نجاست ایک درہم کی مقدار سے کم ہے تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند