Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وقت ضرورت لقمے دینے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی اس لیے تراویح درست ہے۔(۲)(۲) (وفتحہ علی إمامہ جائز) لما روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في الصلاۃ سورۃ المؤمنون فترک کلمۃ فلما فرغ قال ألم یکن قال بلیٰ قال ہلا فتحت علی قال ظننت أنہا نسخت فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو نسخت لأعلمتکم وقال إذا استطعمک الإمام فأطعمہ أي إذا استفتحک الإمام فافتح علیہ … وبکرہ للمنتدی أن یعجل بالفتح لأن الإمام ربما یتذکر فیکون التلقین من غیر حاجۃ وبکرہ للإمام أن یلجنہم إلیہ بأن یقف ساکنا بعد الحصر أو یکرر الآیۃ بل ینتقل إلی أیۃ أخری أو یرکع أن قرأ القدر المستحب وقیل قدر الفرض والأول ہو الظاہر۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳)وإن فتح علی إمامہ لم تفسد … وفتح المراہق کالبالغ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یقصد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 129
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں پہلی دو رکعت فاسد اور آخری دو رکعت درست ہوگئیں۔ پہلی دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآن کریم اس دن یا اگلے دن کی تراویح میں لوٹا لے، اصل یہ ہے کہ جب دو رکعت پر قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو راجح یہ ہے کہ شفعہ اولیٰ فاسد ہو کر شفعہ ثانیہ کی بنا کے حق میں تحریمہ باقی رہتا ہے۔’’فلو فعلہا بتسلیمۃ فإن قعد لکل شفع صحت بکراہۃ وإلانابت عن شفع واحد، قولہ صحت بکراہۃ: أي صحت عن الکل وتکرہ إن تعمد وہذا ہو الصحیح کما في الحلیۃ عن النصاب وخزانۃ الفتاویٰ خلافاً لما في المنیۃ من عدم الکراہۃ فإنہ لا یخفیٰ لمخالفتہ المتوارث قولہ بہ یفتی: لم أرمن صرح بہذا اللفظ ہنا وإنما صرح بہ في النہر عن الزاہدي فیما لو صلی أربعاً بتسلیمۃ واحدۃ وقعدۃ واحدۃ‘‘ (۱) نوافل میں دو رکعت کے بعد قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵، ۴۹۶۔وعن أبي بکر الإسکاف أنہ شکل عن رجل قال إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال: إن تذکر في القیام، ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد للثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخریٰ، کانت ہذہ الأربع عن تسلیمۃ واحدۃ وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد۔… (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 128
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز میں بھی امام کی قرأت کی غلطی پر لقمہ دینا چاہیے اور اس صورت میں امام پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔(۱)(۱) وإن فتح علی إمامہ لم تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)وفتحہ علی إمامہ جائز لما روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ في الصلاۃ سورۃ المؤمنین فترک کلمۃ فلما فرغ قال ألم یکن فیکم أبي؟ قال بلیٰ، قال ہلا فتحت علي قال طننت أنہا نسخت، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولو نسخت لأعلمتکم۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، (شاملہ)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 127
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں بھی نماز تراویح درست ہوگئی۔(۱)(۱) أما النفل فیجوز مالم یقید بالسجدۃ ثم تذکرہ عاد إلیہ وتشہد ولا سہو علیہ في الأصح مالم یستقم قائما في ظاہر المذہب، وہو الأصح۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 127
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ اس نے لوٹ کر اور بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے پھر سلام پھیرا اس کی نماز تراویح دو رکعت ادا ہوگئی۔(۱)(۱) عن أبي بکر الإسکاف أنہ سئل عن رجل قام إلی الثالثۃ في التراویح ولم یقعد في الثانیۃ قال: إن تذکر في القیام ینبغي أن یعود ویقعد ویسلم وإن تذکر بعد ما سجد الثالثۃ فإن أضاف إلیہا رکعۃ أخری کانت ہذہ الأربعۃ عن تسلیمۃ واحدۃ وإن قعد في الثانیۃ قدر التشہد اختلفوا فیہ فعلی قول العامۃ یجوز عن تسلیمتین وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸) أما في النفل إذا قام إلی الثالثۃ من غیر قعدۃ فإنہ یعود ولو استقام قائما ما لم یقیدہا بسجدۃ، کذا في السراج الوہاج … وقیل یعود ما لم یقید ہا بالسجدۃ لأن کل شفع صلاۃ علی حدۃ في حق القراء ۃ فأمرنا بالعود إلی القعدہ احتیاطاً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج۲، ص: ۱۷۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 126
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام صاحب روز کتنا قرآن پاک تراویح میں پڑھ رہے ہیں اس اعتبار سے چار پانچ دن پہلے کون سا پارہ پڑھا تھا اور پندرہویں رکعت میں کون سا رکوع تھا اسی حساب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اور اگر اندازہ نہ ہوسکے تو غور کریں اور سوچیں اور جس پارہ اور رکوع پر غلبہ ظن ہو تو اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسی کو اس کی رکعت میں دوبارہ پڑھ لیں۔(۲)(۲) وإذا غلط في القراء ۃ في التراویح فترک سورۃ أو آیۃ وقرأ ما بعدہا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکۃ ثم المقرء وۃ لیکون علی الترتیب وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ، وقال بعضہم: یعید بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 125
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں تراویح کی دو رکعت شمار نہیں ہوں گی اس کو اسی دن دو رکعتیں دوبارہ پڑھنا ضروری ہے، دوسرے دن قضا لازم نہیں البتہ تکمیل قرآن کے لئے ان رکعات میں پڑھے گئے قرآن کا اعادہ ضروری ہے۔(۱)(۱) وإذا فسد الشفع وقد قرأ فیہ لا یعتد بما قرأ فیہ ویعید القراء ۃ لیحصل لہ الختم في الصلاۃ الجائزۃ وقال بعضہم: یعتد بہا، کذا في الجوہرۃ النیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)…وأما إذا صلی ثلاثا بتسلیمۃ واحدۃ إن قعدہ علی رأس الرکعتین، یجزیہ عن تسلیمۃ واحدۃ … وإن لم یقعد علی رأس الثانیۃ ساہیاً أو عامداً لا شک إن صلاتہ باطلۃ … وفي الخانیۃ ہو الصحیح۔ (ابن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، رقم: ۲۵۷۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 124
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی شبہ نہ کیا جائے اور اس صورت میں سجدۂ سہو کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے لیے اسی دن یا اگلے دن اس آیت کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔(۱)(۱) وکذا الکلام في الخطأ یذکر کلمۃ أو آیۃ مکان آیۃ إلا أنہ إذا وقف وقفاً تاماً وکان الآیۃ أو الکلمۃ في القرآن لا تفسد ولو کان مما یکفر معتقدہ علی تقدیرہ الوصل لزوال ذلک بالفصل وہذا ملخص قاعدۃ المتقدمین وہو الذي صححہ المحققون من أہل الفتویٰ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۲۵)لو ذکر آیۃ مکان آیۃ إن وقف وقفاً تاما ثم ابتدأ بآیۃ أخریٰ أو ببعض آیۃ لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 123
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: پہلی دو رکعت فاسد ہوگئی، آخری دو رکعت درست ہو گئیں، پہلی دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآن کریم اس دن یا اگلے دن کی تراویح میں لوٹا لیں۔(۱)(۱) سہا عن القعود الأول من الفرض، ولو عملیاً، أما النفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ (ثم تذکرہ عاد إلیہ) وتشہد، ولا سہو علیہ في الأصح (مالم یستقم قائماً) في ظاہر المذہب، وہو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) یعود لاشتغالہ بفرض القیام (وسجد للسہو) لترک الواجب (فلو عاد إلی القعود) بعد ذلک (تفسد صلاتہ) لرفض الفرض لما لیس بفرض، وصححہ الزیلعي (وقیل: لا) تفسد، لکنہ یکون مسیئاً ویسجد لتأخیر الواجب (وہو الأشبہ)، کما حققہ الکمال، وہو الحق، بحر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۹)وإن سہا عن العقود الأول وہو إلیہ أقرب عاد وإلا لا ویسجد للسہو وإن سہا عن الأخیر عاد مالم یسجد وسجد للسہو۔ (ابن نجیم، البحرا الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 123
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن پاک سنانے کی ذمہ داری شرعاً امام کی نہیں ہے، اگر وہ ایسا کردے، تو اس کی طرف سے تبرع ہے، البتہ اگر مقتدیوں کو شوق ہے اور جذبہ ہے، تو حافظ کا انتظام الگ سے کریں، اگر بلا اجرت حافظ نہ ملتا ہو، تو حافظ کو بلا کر اس کو نائب امام بنا دیں اور ایک دو وقت کی امامت اس کے ذمہ کر دیں اور اجرت بھی متعین کردیں اور نائب امام بن کر وہ تراویح میںقرآن پاک بھی سنا دیں اس طرح اجرت بھی جائز ہو جائے گی اور مسجد میں رمضان کے مہینہ میں پورا قرآن کا سنانا اور سننا جو کہ سنت ہے، وہ بھی ادا ہو جائے گی، اگر ایسا بھی نہ ہوسکے تو امام ہی الم ترکیف سے تراویح پڑھادے۔(۱)
(۱) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہمفي عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۶) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثاً أفضل۔ (أیضاً، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، محبث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 122