Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: غیر اللہ کے نام پر مانگنا، غیر اللہ کے نام پر دیئے ہوئے جانور کے گوشت کو کھانا وغیرہ مذکورہ امور ناجائز وحرام ہیں ایسا شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے(۱) اور اس کی اذان، اقامت وامامت مکروہ تحریمی ہے۔(۲)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام ویؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام … قولہ: باطل وحرام، لوجوہ منہا أنہ نذر لمخلوق لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصلوۃ وما لا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، زکریا دیوبند)
ویکرہ أذان الفاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات، قولہ وأذان الفاسق، ہو الخارج عن أمر الشرع بارتکاب کبیرۃ کذا في الحموي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص191
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 332
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذ أثمر واستحصد۔ تعالیٰ جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أوّاب لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا ،دیوبند)
وإن بدل القاري في الصلاۃ حرفاً مکان حرف کان الأصل فیہ أي في ذلک التبدیل أنہ إن کان بینہما أي بین الحرفین المبدل والمبدل منہ قرب المخرج کالقاف مکان الکاف أو کانا من مخرج واحد کالسین مع الصاد لا تفسد صلاتہ۔ (إبراھیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۲، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر موقع ہو تو چاروں رکعت پوری کرے اگر موقع نہ ہو تو دو رکعت بھی کافی ہے عشا و عصر سے قبل چار رکعت یا دو رکعت دونوں پڑھ سکتا ہے۔
’’ویستحب أربع قبل العصر، وقبل العشاء وبعدہا بتسلیمۃ وإن شاء رکعتین‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2357/44-3555
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیرات انتقالیہ مسنون ہیں، اور سنت میں کمی یا زیادتی کراہت کا باعث ہے۔لقمہ ملنے پر امام کوقیام کے لئے دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہئے تھی، البتہ مقتدیوں کی رعایت میں چونکہ امام نے ایسا کیا ہے، اس لئے نماز درست ہوگئی۔
(وجهر الامام بالتكبير) بقدر حاجته للاعلام بالدخول والانتقال”(شامی ج ۱ ص ۴۷۵/المکتبة الاسلامية)
ولایجب السجود إلا بترک واجب - إلی قولہ - ولا یجب بترک التعوذ وتکبیرات الانتقال إلا في تکبیرۃ رکوع الرکعۃ الثانیۃ من صلوۃ العید۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۲۶)
ترک السنۃ لا یوجب فسادا ولا سہوا بل إساءۃ لو عامدا ۔(الدر المختار، ۱/۳۱۸)
وثانی عشرہا التکبیرات التي یؤتی بہا فی خلال الصلاۃ عند الرکوع والسجود والرفع منہ والنہوض من السجود أو القعود إلی القیام وکذا التسمیع ونحوہ فہی مشتملۃٌ علی ست سنن کما تری۔ (بدائع الصنائع : ۱/۴۸۳)
"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط". (الھندیۃ کتاب الصلوۃ1/ 131، ط: دار الکتب العلمیة )
وفي مجمع الأنہر: والتبکیر سنة کذا في أکثر الکتب / مجمع الأنہر ۱ص۱۴۹۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے اور جس طرح عام دنوں میں زوال کا وقت ہوتا ہے اسی طرح جمعہ میں بھی زوال کا وقت ہوتاہے اور جمعہ کے دن بھی زوال (نصف النہار) کے وقت نماز مکروہ ہے۔ روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن زوال کے بعد نماز پڑھتے تھے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے شرح بخاری میں اس پر اجماع نقل کیاہے کہ جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔
’’وأجمع الفقہاء علی أن وقت الجمعۃ بعد زوال الشمس إلا ما روي عن مجاہد أنہ قال: جائز أن تصلي الجمعۃ في وقت صلاۃ العید؛ لأنہا صلاۃ عید‘‘(۲)
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز زوال کے بعد ہی پڑھتے تھے اور جن روایتوں سے زوال کے سے پہلے پڑھنے کا وہم ہوتا ہے اس کا جواب بھی انہوں نے دیا ہے۔
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس فیہ إشعار بمواظبتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاۃ الجمعۃ إذا زالت الشمس، وأما روایۃ حمید التي بعد ہذا عن أنس رضي اللّٰہ عنہ کنا نبکر بالجمعۃ ونقیل بعد الجمعۃ فظاہرہ أنہم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النہار لکن طریق الجمع أولی من دعوی التعارض وقد تقرر فیما تقدم أن التبکیر یطلق علی فعل الشیء في أول وقتہ أو تقدیمہ علی غیرہ وہو المراد ہنا والمعنی أنہم کانوا یبدوؤن بالصلاۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتہم في صلاۃ الظہر في الحر‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب ما جاء في وقت الجمعۃ، إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن بطال أبو الحسن علي بن خلق بن عبد الملک، شرح صحیح البخاري لابن بطال، ’’باب ما جاء في وقت الجمعۃ إذا زالت‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷۔(شاملہ)
(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الجمعۃ:باب وقت الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۵،۴۷۷، مکتبہ، شیخ الہند، دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 72
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: دونوں مسائل میں مذکورہ شخص کی اذان مکروہ ہے، اگر دوسرا شخص باشرع موجود ہو تواسی کو اذان واقامت کے لیے متعین کرنا چاہیے۔
’’یکرہ أذان الفاسق و لا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔
وأذان امرأۃ وخنثی وفاسق ولو عالما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص192
نماز / جمعہ و عیدین
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 333
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نجاست نہ لگی ہو اور اس سے نماز میں کوئی خلل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے، تاہم احترام قبلہ کے خلاف ہے، اس لیے بہتر ہے کہ چپل بائیں جانب رکھ کر نماز پڑھیں۔ (۱)
(۱) ولو خلع نعلیہ وقام علیہما، جاز، سواء کان ما یلي الأرض منہ نجساً أو طاہراً۔ إذا کان ما یلي القدم طاہراً، والآجرّ إذا کان أحد وجہیہما نجساً، فقام علی الوجہ الطاہر وصلی جاز مفروشۃ کانت أو موضوعۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 6ص 140
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں چوں کہ معنی فاسد ہورہا ہے ؛اس لیے نماز فاسد ہوگئی اس کا اعادہ ضروری ہے، قرأت میں خطاء فاحش کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس میں تین آیت کے پڑھنے یا نہ پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
’’و إن تغیر المعنی نحو أن یقرأ: إن الأبرار لفي جحیم، و إن الفجار لفي نعیم؛ فأکثر المشائخ علی أنہا تفسد وہو الصحیح‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:’’ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند۔)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرًا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳،زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص262