Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ایسے امام کے پیچھے متقی پرہیز گار لوگوں کی نماز یعنی فریضہ تو ادا ہو جائے گا، مگر اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، اس صورت میں کسی دیندار پرہیز گار مستحق امامت شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سنت کے مطابق ہو جائے۔(۱)
(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضًا:)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص273
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے، اسے زبانی پڑھنا چاہئے ہاتھ اٹھا کر دعاء پڑھنا ثابت نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرنی چاہئے۔
’’المسنون في ہذا الدعاء أن لاترفع الأیدی لأنہ لم یثبت عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رفعہا‘‘(۱)
اذان کے وقت انگوٹھے چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، نہ ہی احادیث سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا ثبوت ملتا ہے، کفایت المفتی میں ہے: حضور کا نام سننے پر ابہام کو چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیںہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی صحابہ ؓسے یہ عمل در آمد ہوا۔
’’الأحادیث التي رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المؤذن في کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات‘‘ (۲)
(۱) الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴۔
(۲) مفتی کفایت اللہ، پانی پتی، کفایت المفتی: ج ۲، ص: ۱۶۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض کے بعد دعاء سے فارغ ہوکر مقتدیوں کو متفرق ہو جانا چاہئے، سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا کا التزام ثابت نہیں ہے، کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکثر وبیشتر سنتیں گھر جاکر اداء فرماتے تھے؛ لہٰذا سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أي الدعاء أسمع؟ قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبۃ(۱)، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطیل القرأۃ في الرکعتین بعد المغرب حتی یتفرق أہل المسجد‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الدعوات، باب،: ج ۱، ص: ۲۸۰، رقم: ۳۴۹۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ، باب رکعتي المغرب أین تصلیان‘‘: ج۱، ص:۱۸۴، رقم: ۱۳۰۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص429
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: درست ہے لیکن پہلے سے سورتوں کو متعین کرلینا اچھا نہیں ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات … وأما إذ قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ علیہ السلام فلا کراہیۃ في ذلک … الأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ وسورۃ کاملۃ في المکتوبۃ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القرائۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶، ۱۳۵، زکریا دیوبند)
لابأس أن یقرأ سورۃ ویعیدہا في الثانیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص226
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دو رکعت سنت ہو گئی اور دو رکعت نفل ہوگئی۔(۱)
(۱) وفي روایۃ الجامع أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولو لم یقعد علی رأس الشفع الأول القیاس أنہ لا یجوز وبہ أخذ محمد وزفر رحمہما اللّٰہ تعالیٰ وہو إحدی الروایتین عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وفي الاستحسان یجوز وہو قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ واختلفوا علی قولہما أنہ متی جاز تجوز عن تسلیمۃ واحدۃ أم عن تسلیمتین، والأصح أنہ یجوز عن تسلیمۃ واحدۃ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب التراویح، الفصل الثامن في الزیادۃ علی القدر المسنون‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال شخص بلا شبہ فاسق ہے جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص فاسق و گناہگار ہو سچی توبہ کرے اور اپنی توبہ کا اعلان کرے تو اس کو اللہ رب العزت معاف کردیتے ہیں حدیث شریف میں ہے۔ ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲) جس شخص نے توبہ کرلی وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ فی السوال حافظ کی اقتداء میں تراویح یا دیگر نماز پڑھنا بلا شبہ درست ہے اس کی اقتداء میں جو لوگ تراویح پڑھ رہے ہیں شرعاً ان کا یہ فعل بلا شبہ درست ہے۔(۳)
(۱) إمامۃ الفاسق مکروہۃ تحریماً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘:ص: ۳۰۳، رقم: ۴۲۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹا الزام لگانے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے(۲) اس لیے بشرطِ صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اس شخص سے معافی و توبہ و استغفار کے بعد امامت درست ہے، جس پر الزام لگایا گیا باہمی مشورے سے متولی و ذمہ داران مسئلہ کو حل کریں۔(۳)
(۲) إن الکذب یہدی إلی الفجور وإن الفجور یہدی إلی النار وإن الرجل لیکذب حتی یکتب عند اللّٰہ، کذابا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الآداب باب قول اللّٰہ، یاأیہا الذین آمنوا اتقو اللّٰہ وکونوا مع الصادقین وما ینہی عن الکذب‘‘: ج ۵، ص: ۵۳، رقم: ۶۰۹۴)
(۳) ومن أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ… کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم، (محمد بن علی الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق‘‘: ج۳، ص:۱۴۲، رقم: ۱۰۸۸)
وقد أخرجہ الحاکم في ترجمۃ مرتد الغنوي عنہ أن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم ویؤید ذلک حدیث ابن عباس المذکور۔ (أیضًا: ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الصبي‘‘: ج۳، ص: ۱۹۶، رقم: ۱۰۹۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص184
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شوہر اس کو اس قبیح فعل سے منع کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی مرضی یا شوہر کے حکم سے ایسا کرتی ہے، تو پھر اس کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) {ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} أي اعملوا الأعمال الصالحۃ وأتمروا بالأوامر واجتنبوا النواہي وأمروا أہلیکم بہا ولزموہم الطاعۃ والعبادۃ لتتقوا بذلک النار۔ (أوضح التفاسیر، ’’الباب السادس‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۶)
إن رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول أن الناس إذا أرادوا المنکر ولا یغیرونہ…یوشک اللّٰہ عز وجل أن یعمہم بعقابہ۔ (التیسیر في أحادیث التفسیر، ’’الربع الثاني من الحزب الثالث عشر‘‘: ج ۲، ص: ۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان یا تکبیر میں اگر کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور پھر یاد آجائے تواس جگہ سے اذان واقامت لوٹائیں جہاں کوئی کلمہ چھوٹا ہے، اگر اذان یا اقامت سے فارغ ہوجانے کے بعد یاد آیا تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اکثر کلمات ادا ہوگئے یا اکثر چھوٹ گئے اگر اکثر کلمات چھوٹ گئے تو اعادہ کیا جائے ورنہ اعادہ کی ضرورت نہیں، اور اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)
(۱) قال (وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لا یعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررا لا یعتد بہ فکأنہ لم یکرر۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، دارالکتاب العلمیہ، بیروت)
وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت متطوعۃ مرتبۃ فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم۔ (أبو المعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني: ’’کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، في تدارک الحد الواقع فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸)
وإذا قدم فی أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول: أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص161
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان قدرے فاصلہ رکھیں۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: المسألۃ أن ترفع یدیک حذ ومنکبیک أو نحوہما۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۹)
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع یدیہ في الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بہما وجہہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في رفع الیدین عند الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۳، رقم: ۳۳۸۶)
فیبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لأنہا قبلہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فيإطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430