نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ عام فقہاء کا قول یہی ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؛ لیکن مختار قول یہ ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ البتہ امام کو اپنے طریقہ پر ضد ہرگز نہیں کرنی چاہیے کوشش یہی کرے کہ ترک تشدید نہ ہو، تاکہ عامۃ الفقہاء کی بھی مطابقت ہو جائے، امام تصحیح کرلے یا بغیر فتنہ کے امام بدلا جائے ورنہ اسی کی اقتدا کی جائے۔(۱)

(۱) ومنہا ترک التشدید والمد في موضعہما: لو ترک التشدید في قولہ إیاک نعبد وإیاک نستعین۔ (الفاتحۃ: ۵) أو قرأ الحمد للّٰہ رب العالمین۔ (الفاتحۃ: ۲) وأسقط التشدید علی الباء المختار أنہا لا تفسد، وکذا في جمیع المواضع وإن کان قول عامۃ المشایخ إنہا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسبوق کو چاہئے کہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً ہی کھڑا ہو جائے اور اپنی ایک رکعت پوری کرے اور سجدہ سہو اس پر واجب ہے اپنی رکعت کے آخر میں سجدہ سہو کر کے پھر سلام پھیر لے۔(۱)

(۱) ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو لا في السلام، فیسجد معہ و یتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا فلا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، زکریا، دیوبند)
وإن سلم مع الإمام مقارناً لہ، أو قبلہ ساہیاً، فلا سہو علیہ لأنہ في حال اقتدائہ وإن سلم بعدہ یلزمہ السہو لأنہ منفرد۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۵، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص39

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وہ زمین جو ناحق طریقہ سے قبضہ کی گئی ہے ایسی مغصوبہ زمین پر نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، البتہ اس پر پڑھی گئی نمازیں ادا ہوگئیں ان نمازوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ صاحب مراقی الفلاح نے شرح نور الایضاح میں لکھا ہے:
’’و تکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ، و إذا ابتلی بالصلاۃ في أرض الغیر و لیست مزروعۃً، أو الطریق إن کانت لمسلم صلی فیہا، و إن کانت لکافر صلی في الطریق‘‘(۱)
’’(قولہ: صلی فیہا) لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ‘‘(۲)
’’الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ، و لکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالی یثاب، وما کان بینہ و بین العباد یعاقب، کذا في مختار الفتاوی‘‘(۳)
’’و في الواقعات: بنی مسجداً علی سور المدینۃ لاینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ فلم یخلص للّٰہ تعالی، کالمبني في أرض مغصوبۃ…‘‘(۴)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۸۔
(۴) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ودخول البساتین و بناء المسجد في أرض الغصب‘‘: ج ۲، ص۴۴، ۵۴، زکریا دیوبند

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص153

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: {أن جاء ہ الاعمیٰ} پڑھنے کی وجہ سے معنی بدل گئے، اس لیے نماز فاسد ہو گئی۔(۲)

(۲) وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو ان قرأ: وعداً علینا ان کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت شب اس طرح پڑھنا جائز ہے، مگر قعدہ ہر دو رکعت کے بعد کرنا چاہئے جس میں صرف تشہد (التحیات پڑھی جائے) اور قعدہ اخیرہ میں درود شریف اور دعاء بھی پڑھنی چاہئے؛ البتہ دن ورات کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت تک پڑھنا افضلہے، دن کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے(۱) اور رات کے نوافل ایک سلام کے ساتھ آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے۔
’’وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلا بتسلیمۃ لأنہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل وبہ یفتی‘‘(۲)

(۱) والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل: وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج۲، ص:۴۵۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا، دیوبند۔)
وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان، ولو جعلہ أثلاثاً فالأوسط أفضل، ولو أنصافا فالأخیر أفضل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۶۷- ۴۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص381

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1170 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مستقلا ہمیشہ عصرکی نماز مثل واحد پر اداکرنا گویا امام ابوحنیفہ کے مسلک کو ترک کرنا ہے، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر کبھی ایسی مجبوری آجائے یا سفر وغیرہ درپیش ہو تو اس کی گنجائش ہے؛ تاہم ایک حنفی المسلک کے لئے اس کی عادت بنالینا ٹھیک نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔    اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ  ارسال کریں۔    

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/756

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے،   اور بہتر ہے کہ التحیات ٹھہرٹھہر کر پڑھے کہ اما م کے سلام پھیرنے کا وقت ہوجائے۔ جب امام سلام پھیرلے تو کھڑا ہو اور اپنی نماز مکمل کرے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1061/41-246

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  اگر سجدہ میں دشواری ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں. 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تلاوت صحیح نہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر قرآن اس طرح غلط پڑھتا ہے کہ جس سے نمازیں فاسد ہوں، تو اس کی اقتداء درست نہیں ہے، فوری طور پر صحیح پڑھنے والے کا انتظام ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر اس کی اقتداء میں پڑھے لکھے مقتدی کی نماز صحیح اور درست ہے۔ متولیان مسجد پر لازم ہے کہ ایسا امام رکھیں جو قرآن کریم صاف اور صحیح پڑھے۔(۲)

(۲) (قولہ بغیر حافظ لہا) شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القرائۃ المفروضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: اقتداء المفترض بإمام متنفل‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص212