Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1042
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: علاقہ کے معتبر علماء سے معائنہ کرالیں، وہ جو فیصلہ کریں اس پر عمل کریں۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 949/41-93
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے ساتھ بھول کر سلام پھیر دیا تو اب آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا۔
ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الفتاوی الھندیۃ 1/98)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1390/42-821
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام ومقتدی سب کی نماز پوری ہو جاتی ہے۔ نماز کے بعد دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہیں اور قبولیت دعا کے مواقع میں سے ہے۔ یہ دعا جہری بھی ہوسکتی ہے اور سری بھی، انفرادی بھی اور بوقت ضرورت اجتماعی بھی۔ البتہ سرا اور انفرادی طور پر دعا مانگنا افضل ہے۔ جماعت کے بعد دعا مانگنے یا نہ مانگنے کے سلسلے میں امام و مقتدی آزاد ہیں۔ دعا نہ کرنے پر امام یا مقتدیوں پر اعتراض کرنا غلط ہے۔ اسی طرح دعا شروع کرنے یا نہ کرنے میں امام کی اقتداء کا التزام خلاف سنت ہے۔ اگر لوگ اس کو ضروری سمجھیں تو امام کا دعا کی ابتداء میں الحمد للہ یا آخر میں یا ارحم الراحمین کہنے کا اہتمام قابل ترک ہے۔ ائمہ حضرات کی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو صحیح مسئلہ سے آگاہ کرتے رہا کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے، البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا، تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔ اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ ارسال کریں۔(۲)
(۲) ومنہا: أنہ یقضی أول صلاتہ في حق القراء ۃ، وآخرہا في حق التشہد، حتی لو أدرک رکعۃ من المغرب قضی رکعتین وفصل بقعدۃ فیکون بثلاث قعدات، وقرأ في کل فاتحۃً وسورۃً، و لو ترک القراء ۃ في إحداہما تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس… في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)
قولہ: (وتشہد بینہما) قال في شرح المنیۃ: ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً ولم یلزمہ سجود السہو لکون الرکعۃ أولیٰ من وجہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص37
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: واضح رہے کہ روشنی ہو یا اندھیرا دونوں میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں اندھیرے میں نماز پڑھ سکتے ہیں جس طرح اجالے میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح اندھیرے میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے، ہاں اگر کسی کو اندھیرے میں وحشت ہورہی ہو یا قبلہ کا رخ یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو روشنی میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ بخاری شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھیرے میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک روایت منقول ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوئی تھی اور میرے دونوں پیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کی جانب میں تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اشارہ کرتے تو میں اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ لیتی جب آپ قیام میں جاتے تو میں پیروں کو پھیلا لیتی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
’’عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، و رجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزني فقبضتُ رجليَّ، فإذا قام بسطتُھما، قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح‘‘(۱
’’أما باللیل فیصلي قائماً لأن ظلمۃ اللیل تستر عورتہ‘‘(۱)
’’وان علم بہ في صلوتہ أو تحول رایہ … ولو بمکۃ أو مسجد مظلم ولا یلزمہ قرع أبواب ومس جدران۔ وفي الشامیۃ تحتہ: في الخلاصۃ إذا لم یکن في المسجد قوم والمسجد في مصر في لیلۃٍ مظلمۃٍ (قولہ ومس جدران) لأن الحائط لو کانت منقوشۃ لا یمکنہ تمییز المحراب من غیرہ، وعسی أن یکون ثم ھامۃ مؤذیۃً … وھذا إنما یصح في بعض المساجد فأما في الأکثر فیمکن تمییز المحراب من غیرہ في الظلمۃ بلا إیذاء‘‘(۲)
’’رجل صلی في المسجد في لیلۃ مظلمۃ بالتحري، فتبین أنہ صلی إلی غیر القبلۃ، جازت صلاتہ؛ لأنہ لیس علیہ أن یقرع أبواب الناس للسؤال عن القبلۃ‘‘(۳)
مذکورہ عربی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے؛ بلکہ حدیث سے ثابت ہے، البتہ نمازی اگر اپنی اور دوسروں کی سہولت کے لیے تھوڑی بہت روشنی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مناسب اور بہتر ہے تاکہ اندھیرے میں کوئی موذی جانور تکلیف نہ دے سکے یا قبلہ اندھیرے کی وجہ سے مشتبہ نہ ہو جائے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘: ج ۱، ص: ۵۶،رقم۳۸۲۔
(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد‘‘ ج۲، ص۸۵، زکریا دیوبند
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۱۶، ۱۱۷، زکریا۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص149
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہوگئی اس لیے کہ ’’من قبلہ‘‘ کواگر زائد ما ن لیا جائے تو معنی میں فساد نہیں لازم آتاہے اور دونوں صورت میں مطلب قریب قریب ہے۔ پہلی صورت میں مطلب ہے کہ رسول جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ایمان لائے اور دوسری صورت میں مطلب ہوگا کہ رسول پر جو نازل ہو ا اس پر ایمان لائے اور مومنین اس پر ایمان لائے۔ معلوم ہوا کہ معنی میں تغیر فاحش نہیں ہے اس لیے نماز درست ہوگئی اعادہ کی ضرروت نہیں ہے۔
’’ومنہا: ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لاتفسد صلاتہ، نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: ’’وعداً علینا إنا کنا غافلین‘‘ مکان (فاعلین) ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص269
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نفل نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے، بعض حضرات نے تداعی کے ساتھ اور بعض نے دونوں صورتوں میں مکروہ قرار دیا ہے۔ حضرت مدنیؒ کا تفرد ہے باقی علمائے دیوبند اس کے قائل نہیں ہیں، جمہور فقہا کی رائے کراہت ہی کی ہے۔(۱)
(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعۃ بواحد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
فتاویٰ رشیدیۃ: ج ۲،ص: ۵۵؛ وامداد الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۳۰۰؛ وکفایت المفتي: ج ۳، ص: ۳۸۶؛ وفتاویٰ محمودیہ،: ج ۹، ص: ۲۰۹۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص379
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر تحریر کردہ سوالات صحیح ہیں، تو مذکورہ امام کو جب کہ قرآن صحیح نہیں پڑھتا امامت سے الگ کر دیا جائے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے، کسی صحیح پڑھنے والے اور متدین کو جو کہ جھگڑا لو نہ ہو امام مقرر کر لیں(۱) مذکورہ صورت میں اس کی طرف داری کرنے والے غلطی پر ہیں، اگر یہ شرعی مسجد ہے، تو بلڈنگ وسوسائٹی کے لوگوں کا نمازیوں کو روکنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر یہ صرف جماعت خانہ ہے، تو اہل محلہ کو مسجد کی تعمیر کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ …ثم الأورع ثم الأسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (أیضاً: ص: ۲۹۷، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص210
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2743/45-4280
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے، البتہ کسی خاص صورت حال میں شریعت نے تاخیر کی اجازت دی ہے تو اس میں تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورتِ مسئولہ میں گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا شدیدگرمی کا ہوتا ہے جس میں بہت ممکن ہے کہ جماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہو؛ لہذا جماعت میں زیادہ لوگوں کی شرکت کے پیشِ نظر گرمی کے دنوں میں ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ سردی کے موسم میں چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تقلیل جماعت کا سبب بنے ؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے اور سردیوں میں ظہر کی نماز میں تعجیل مستحب ہے۔
"ويستحب تأخير الظهر في الصيف وتعجيله في الشتاء. هكذا في الكافي سواء كان يصلي الظهر وحده أو بجماعة." (الھندیۃ كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، 52/1، ط: رشيدية)
"و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.
و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1 / 249)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2763/45-4307
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اشراق باب افعال کا مصدر ہے اشرقت الشمس کے معنی آتے ہیں آفتات کا طلوع ہونا۔چاشت عربی لفظ نہیں ہے بلکہ عربی میں اس کے لیے ضحی کا لفظ آتاہے جس کے معنی چاشت کا وقت ہے ۔جو نماز طلوع آفتاب سے زوال آفتاب کے درمیان اداکی جائے اسے صلوۃضحیٰ کہتے ہیں ہم اسے نماز چاشت یا شراق بھی کہتے ہیں اس کا ایک نام صلوٰۃ الاوابین بھی ہے۔اشراق اور چاشت یہ دونوں مختلف نمازیں ہیں او ر دونوں احادیث سے ثابت ہیں تاہم اشراق کی نماز کے لیے حدیث میں کوئی مستقل نام نہیں ذکر کیا گیا ہےجب کہ چاشت کے لیے صلاۃ الضحی کا لفظ آحادیث میں مذکور ہے ۔ ان دونوں نمازوں میں ابتداءِ وقت اور انتہاءِ وقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ دونوں کا ابتدائی اور انتہائی وقت ایک ہی ہے یعنی سورج نکلنے کے کم از کم دس منٹ بعد سے زوال تک، البتہ اشراق کی نماز اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جب کہ چاشت کا افضل وقت چوتھائی دن گزرنے کے بعد ہے، جب سورج گرم ہوجاتاہے۔بعض علما طلوع آفتاب کے بعد صرف ایک نماز مانتے ہیں، یعنی: نماز چاشت ، وہ نماز اشراق نہیں مانتے۔ اور جو حضرات دو نمازیں (نماز اشراق اور نماز چاشت) مانتے ہیں، احادیث سے ان کے قول کی بھی تائید ہوتی ہے۔
(قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا (إعلاء السنن: ۷/۳۰) عاصم بن ضمرة السلولي، قال: سألنا عليًّا، عن تطوع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالنهار فقال: إنكم لاتطيقونه، فقلنا: أخبرنا به نأخذ منه ما استطعنا، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا صلى الفجر يمهل، حتى إذا كانت الشمس من هاهنا - يعني من قبل المشرق - بمقدارها من صلاة العصر من هاهنا - يعني من قبل المغرب - قام فصلى ركعتين، ثم يمهل حتى إذا كانت الشمس من هاهنا، - يعني من قبل المشرق - مقدارها من صلاة الظهر من هاهنا قام فصلى أربعًا"سنن ابن ماجه (1/ 367):۔ قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا(إعلاء السنن: ۷/۳۰
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند