نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے سلسلے میںاصل تویہی ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کیا جائے۔{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا}(۲)
حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا ’’صلّ الصلاۃ لوقتہا‘‘(۳) نماز کو اپنے وقت میں پڑھو؛ اس لیے اصل تو یہی ہے کہ نماز کو اپنے وقت میں ادا کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری اور عذر ہو، تو احناف کے نزدیک جمع صوری کی اجازت ہے؛ اس لیے طبی عملہ اگر ہر نماز کو اپنے وقت میں پڑھنے میں دشواری محسوس کریں، تو وقتی طور پر جمع بین الصلاتین صوری کرسکتے ہیں اس طور پر ظہر کی نماز آخری وقت میں پڑھیں اور عصر کی نماز ا ول وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اول وقت میں پڑھ لیںنماز یں حقیقت میں اپنے اپنے وقت میں ہی پڑھی جائیں گی لیکن جمع کی سی صورت ہوجائے گی۔
’’ولکن حملناہ علی الجمع الصوري حتی لا یعارض الخبر الواحد الاٰیۃ القطعیۃ وہو قولہ تعالیٰ: {حافظواعلی الصلوات} أي أدوہا في أوقاتہا۔۔۔۔۔ وما قلناہ ہو العمل بالآیۃ والخبر وما قالوہ یؤدي إلی ترک العمل بالاٰیۃ‘‘(۱)
 

(۲) سورۃ النساء:۱۰۳۔
(۳)عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال لي  قال رسول اللّٰہ: ’’کیف أنت إذا کانت علیک أمراء یؤخرون الصلاۃ عن وقتہا؟ - أو- یمیتون الصلاۃ عن وقتہا؟‘‘ قال: قلت: فما تأمرني؟ قال: ’’صل الصلاۃ لوقتہا،فإن أدرکتہا معہم، فصل، فإنہا لک نافلۃ‘‘ ولم یذکر خلف عن وقتہا۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ،’’کتاب المساجد    ومواضع الصلاۃ: باب کراہیۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا، ج۱، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۴۸)
عن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: ما رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتہا، إلا صلاتین: جمع بین المغرب والعشاء، وصلی الفجر قبل میقاتہا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المناسک: باب متی  یصلی الفجر بجمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، رقم:۱۶۲۸، مکتبہ، فیصل، دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقد أتی بابا من أبواب الکبائر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصلاۃ: باب ما جاء في الجمع بین الصلاتین‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۸۸)
(۱) العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب الجمع في السفر بین المغرب والعشاء‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۱۰۔(شاملہ)

 

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 73

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نسبندی کرانا ناجائز و حرام ہے اور نسبندی کرانے والا شخص فاسق و فاجر ہے ایسے شخص کی امامت اور اذان مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ وہ شخص پہلی صف میں نماز پڑھ سکتا ہے اگر ایسا شخص اپنی غلطی پر نادم و پشیمان ہوجائے۔اور سچی توبہ کااعلان کرے تو پھر اس کی امامت واذان وغیرہ کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) ولذاکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ … لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر۔ الخ … وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳۰۳، شیخ الہند، دیوبند)
إلا أنا جوزناہا مع الکراہۃ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر وجاہدوا مع کل بر وفاجر رواہ دار قطني۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ، ’’فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۴۴۲، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص193

نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روئی کے باریک گدے جس پر پیشانی ٹک جاتی ہے ایسے  گدوں پر نماز، سجدہ وغیرہ سب درست ہے۔(۲)
(۲) ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وإن لم تستقر، لا!۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ‘‘: الفصل الأول، في فرائض الصلاۃ ومنہا السجود ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 334

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز کی حالت میں بائیں طرف تھوکنے کی گنجائش ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنے کپڑے میں یا رومال میں تھوک لے۔(۲)
(۲) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃً في القبلۃ، فحکہا بیدہ ورئي منہ کراھیۃ أو رئيکراہیتہ لذلک وشدتہ علیہ۔ وقال: إن أحدکم إذا قام في صلاتہ فإنما یناجی ربہ أو ربہ بینہ وبین قبلتہ فلا یبزقن في قبلتہ، ولکن عن یسارہ أو تحت قدمہ۔ ثم أخذ طرف ردائہ فبزق فیہ، و رد بعضہ علی بعض قال: أو یفعل ہکذا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا بدرہ البزاق فلیأخذ بطرف ثوبہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۴۱۷)
عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأي نخامۃ في قبلۃ المسجد، فحکہا بحصاۃ، ثم نہی أن یبزق الرجل عن یمینہ أو أمامہ ولکن یبزق عن یسارہ أو تحت قدمہ الیسری۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب النہي عن البصاق في المسجد في الصلاۃ و غیرھا‘‘: ج ۱، ص:۲۰۷، رقم: ۵۴۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص141

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوگئی نماز کا اعادہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر معنی فاسد ہورہا ہے اور اس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے؛ بلکہ خطاء فاحش ہے۔ آیت میں جنتیوں کا تذکرہ چل رہا کہ جنتی جنت میں نہ تو لغو باتیں سنیں گے او رنہ ہی جھوٹ اس کی جگہ جہنمیوں کا مضمون بیان ہوگیا کہ جنتی جنت میں نہ تو کسی ٹھنڈک کا مزا چکھیں گے او رنہ ہی پینے کی کسی چیز کا؛ بلکہ حمیم اور غساق یعنی گرم پانی اور لہو پینے کو ملے گا۔
’’إن غیرت المعنی ووجدت في القرآن نحو أن یقرأ: والذین آمنوا و کفروا باللّٰہ ورسلہ أولئک ہم الصدیقون۔ أو لم یوجد نحو أن یقرأ {إنما نملي لہم لیزدادوا إثما وجمالا تفسد صلاتہ بلاخلاف‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸، زکریا دیوبند)
وإن کان مثلہ فيالقرآن والمعنیٰ أيمعنیٰ اللفظ الذي قرأہ بعید من معنی اللفظ المراد ولم یکن معنی اللفظ المراد متغیراً باللفظ المقر وتغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو الأحوط۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان أحکام زلۃ القاري‘‘: ص: ۴۱۱، دار الکتاب دیوبند)
والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنیٰ تعییرا یکون اعتقادہ کفراً یفسد في جمیع ذلک، سواء کان في القرآن أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص263

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان شعائر اسلام میں ہے، اذان کے ذریعہ آدمی دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، ڈرامہ اور سیریل دیکھنے والا شرعاً فاسق ہے اور فاسق کا اذان دینا درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ أذان فاسق لأن خبرہ لا یقبل في الدیانات‘‘(۱)
’’وینبغي أن لا یصح أذان الفاسق بالنسبۃ إلی قبول خبرہ والاعتماد علیہ أي لأنہ لا یقبل قولہ في الأمور الدینیۃ‘‘(۲)
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراؤکم‘‘(۳)
’’وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ کذا في النہایۃ‘‘(۴)
’’ویکرہ أذان الفاسق ولا یعاد ہکذا في الذخیرۃ‘‘(۵)

(۱) أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی  مراقي الفلاح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۲۰۰۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱، ۶۲۔
(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۵۹۰۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰۔    (۵)  أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص194

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدے میں صرف پیر کا انگوٹھا زمین پر رکھے رہنے سے نماز ادا ہو جائے گی، صرف انگوٹھا رکھنا اور دوسری انگلیوں کو اٹھائے رکھنا خلاف سنت ہے؛ اس لیے مکروہ ہے، سنت یہ ہے کہ کہ دونوں قدموں کی انگلیاں زمین پر لگی رہیں اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب ہو۔

’’لأن وضع اصبع واحدۃ منہما یکفی و أفاد أنہ لو لم یضع شیئاً من القدمین لم یصح السجود‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ:  بحث الرکوع والسجو‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۵۔
ولو سجد ولم یضع قدمیہ علی الأرض لا یجوز، ولو وضع إحداہما جاز مع الکراہۃ إن کان بغیر عذر … وضع القدم بوضع أصابعہ وإن وضع أصبعاً واحدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند: ج 4، ص: 335

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں مسبوق بھی امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک ہوگا ہاں جب امام سجدہ سہو کے لیے سلام پھیرے گا اس میں مسبوق امام کی متابعت نہیں کرے گا۔(۱)

(۱) ثالثہا: أنہ لو قام إلی قضاء ما سبق بہ، وعلی الإمام سجدتا سہو قبل أن یدخل معہ، کان علیہ أں یعود فیسجد معہ ما لم یقید بسجدۃ، فإن لم یعد حتی سجد، وعلیہ أن یسجد في آخر صلاتہ … ومنہا أنہ یتابع الإمام في السہو ولا یتابعہ في التسلیم والتکبیر والتلبیۃ، فإن تابعہ في التسلیم والتلبیۃ فسدت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، زکریا دیوبند)
ولو قام لقضاء ما سبق بہ وسجد إمامہ لسہو تابعہ فیہ إن لم یقید الرکعۃ بسجدۃ فإن لم یتابعہ سجد في آخر صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃالطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في ما یفعلہ المقتدي الخ‘‘: ص: ۳۰۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص33

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا مصلی اور جائے نماز جس پر خانہ کعبہ کی تصویر پرنٹ ہو یا نقش ہو اس پر نماز پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے۔ اگر اس سے خشوع و خضوع متاثر ہو، تو ایسے مصلی پر نماز پڑھنے سے احتراز بہتر ہے، ایسے مصلی میں بسااوقات خشوع فوت ہونے کا امکان ہے؛ اس لیے مصلی سادے ہونے چاہئیں۔ حدیث سے بھی اس طرف اشارہ ملتاہے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منقش چادر میں نماز پڑھی پھر آپ نے وہ چادر ابوجہم کو دینے کا حکم دے دیا۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی في خمیصۃ لہا أعلام، فنظر إلی أعلامھا نظرۃ، فلما انصرف قال: إذہبوا بخمیصتي ہذہ إلی أبي جہم، وائتوني بأنبجانیّۃ أبي جہم؛ فإنہا ألہتنی آنفا عن صلاتي‘‘(۱)
 فتاویٰ عثمانی میں لکھا ہے: ’’جا نمازوں پر فی نفسہ کسی بھی قسم کا نقش پسندیدہ نہیں؛ لیکن اگر کسی جانماز پر حرمین شریفین میں سے کسی کی تصویر اس طرح بنی ہوئی ہے کہ وہ پاؤں کے نیچے نہیں آتی تو اس میں بھی اہانت کا کوئی پہلو نہیں؛ البتہ موضع سجود میں بیت اللہ کے سوا کسی اور چیز کی تصویر بالخصوص روضۂ اقدس کی شبیہ میں چوں کہ ایہام خلافِ مقصود کا ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس سے احتراز مناسب معلوم ہوتا ہے‘‘۔(۲)
(۱) معلوم ہوا کہ اس طرح کے مصلی سے احتراز ہی بہتر ہے۔
(۲) ایسے مصلی جس پر خانہ کعبہ وغیرہ کی تصویر ہو اس پر پاؤں رکھناخلاف احتیاطہے۔
(۳) ایسے مصلی کو بچھانے اور اس پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن حضرات فقہاء نے لکھاہے کہ جو مصلیٰ نماز کے لیے مختص ہو بہتر ہے کہ جب تک نماز کے لیے استعمال ہو اس کو کسی دوسرے کام میں استعمال میں نہ لایا جائے؛ اس لیے اس پر بلاضرورت بیٹھنا خلاف اولیٰ کہلائے گا۔(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إذا صلی في ثوب لہ أعلام و نظر إلی علمھا‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم:۳۷۳۔
ویستنبط منہ کراہیۃ کل ما یشغل عن الصلاۃ من الأصباغ والنقوش ونحو ہا۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري بشرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ، باب إذا صلی في ثوب الخ‘‘: ج ۱، ص:۶۰۷
(۲) مفتي تقي عثماني،  فتاوی عثماني: ج ۱، ص: ۱۵۔
(۳) قولہ أو لغیر ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: فإن کنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس لہ رواہ الشیخان ولا فرق في الشجر بین المثمر وغیرہ خلافاً لمجاہد،  قولہ لأنہا لا تعبد، أي ہذہ المذکورات وحینئذ فلا یحصل التشبہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۸، زکریا دیوبند)
صح فرض ونفل فیہا وکذا فوقہا وإن لم یتخذ سترۃ لکنہ مکروہ لإسائۃ الأدب باستعلائہ علیہا۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في الکعبۃ‘‘: ص: ۱۰۰، المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص142


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز صحیح ہوگئی اعادے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ ایسی غلطی کا احساس بہت کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو غلطی ہوتی ہی نہیں اور احساس غلطی کا سننے والے کو ہوتا ہے اس لیے اس سے پرہیز مشکل ہے پس نماز صحیح ہوگئی ہر امام قاری نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو من ثمرہ إذا أثمر واستحصد، تعالیٰ جد ربنا، انفرجت بدل، انفجرت، أیاب بدل أواب لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا وکذا لو کرر کلمۃ؛ وصحح الباقاني الفساد إن غیر المعنی نحو رب رب العالمین للإضافۃ کما لو بدل کلمۃ بکلمۃ وغیر المعنی نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامہ في المطولات، وإن غیر أفسد مثل: وزرابیب مکان، زرابي مبثوثۃ، ومثانین مکان مثاني، وکذا، {والقرآن الحکیم} (یٰس: ۲) و {إنک لمن المرسلین} (یٰس:۳) بزیادۃ الواو تفسد اہـ أي لأنہ جعل جواب القسم قسما کما في الخانیۃ، لکن في المنیۃ: وینبغي أن لا تفسد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۴-۳۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص264