نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام صاحب مستقل امامت کرتے ہیں اور رمضان المبارک میں قرآن کریم بھی سناتے ہیں تو انہیں جو کچھ دیا جاتا ہے وہ مستقل امامت و خدمت پر ہے اُسے تلاوت قرآن کی اُجرت کے دائرہ میں لانا درست نہیں ہے؛ لہٰذا انہیں دینا اور ان کا اسے قبول کرنا درست ہے اور وہ مسئلہ بھی بالکل درست ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے پر اُجرت کا لین دین جائز نہیں لیکن وہ صرف تراویح کی صورت میں ہے امامت کی صورت اس سے الگ ہے۔(۱)(۱) الأصل أن کل طاعۃ یختص بہا الإسلام لا یجوز الاستئجار علیہا عندنا لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’اقرؤا القرآن ولا تأکلون بہ، وفي آخر ما عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إني عمرو بن العاص: وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ علی الأذان أجراً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)ولا تصح الإجارۃ لأجل الطاعات مثل الأذان والحج، والإمامۃ، وتعلیم القرآن، والفقہ، ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن، والفقہ، والإمامۃ، والأذان۔ (أیضاً:)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 108

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے، ضروری نہیں ہے۔ اگر اس کے لیے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ وعالم کو بھی سمجھ میں نہ آتا ہو درست نہیں ہے؛ بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہو جایا کرتی ہیں؛ اس کے لیے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے اور وہ بھی نہ ہوسکے، تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔(۱)(۱) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل (ولا یترک) الختم (لکسل القوم) لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر ما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ۔ وفي المجتبی عن الإمام: لو قرأ ثلاثا قصارا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسیئ، فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی: أفتی أبو الفضل الکرماني والوبري أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحۃ وآیۃ أو آیتین لا یکرہ، ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ فہو جاہل۔(قولہ الأفضل في زماننا إلخ) لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ حلیۃ عن المحیط۔ وفیہ إشعار بأن ہذا مبني علی اختلاف الزمان، فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان في کثیر من المسائل علی حسب المصالح، ولہذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذہب أن الختم سنۃ لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصا في زماننا فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔(قولہ وفي المجتبی إلخ) عبارتہ علی ما في البحر: والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ حتی لا یمل القوم ولا یلزم تعطیلہا، فإن الحسن روي عن الإمام أنہ إن قرأ في المکتوبۃ بعد الفاتحۃ ثلاث آیات فقد أحسن ولم یسیئ، ہذا في المکتوبۃ فما ظنک في غیرہا؟ اہـ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، ۴۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 106

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرآن کریم تراویح میں حدراً پڑھنا چاہئے لیکن اتنی جلدی کرنا بالکل درست نہیں ہے کہ حروف کٹنے لگیں اور ادائیگی پورے طور پر نہ ہو، اتنے سکون سے پڑھیں کہ ادائیگی درست اور صحیح ہوجائے۔(۲)(۲) روي الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ یقرأ في کل رکعۃ عشر آیات ونحوہا وہو الصحیح، کذا في التبیین ویکرہ الإسراع في القراء ۃ وفي أداء الأرکان، کذا في السراجیۃ وکلما رتل فہو حسن، کذا في فتاوی قاضي خان والأفضل في زماننا أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم؛ لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)ویجتنب المنکرات ہذرمۃ القراء ۃ، وترک تعوذ وتسمیۃ، وطمأنینۃ، وتسبیح، واستراحۃ۔ (قولہ ہذرمۃ) بفتح الہاء وسکون الذال المعجمۃ وفتح الراء: سرعۃ الکلام والقراء ۃ قاموس، وہو منصوب علی البدلیۃ من المنکرات، ویجوز القطع ح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر سامع ہو تو بہتر ہے، اس سے بڑی سہولت ہوتی ہے؛ لیکن اگر سامع میسر نہ آئے تو پھر بغیر سامع کے بھی قرآن سنانا درست ہے، قرآن سنانے والے کو پورا احتیاط سے کام لینا چاہئے کہ پورا قرآن پاک صحیح پڑھا جائے۔ اور اگر قرآن ٹھیک یاد نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھی جائے۔(۱)(۱) لأن اللحن حرام بلا خلاف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 104

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اس بچہ (نابالغ) کو سامع بنایا جاسکتا  ہے بشرطیکہ بچہ سمجھدار ہو، پاکی اور وضو وغیرہ کا خیال رکھتا ہو؛ اس لیے کہ اگر بچہ ناسمجھ ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ بغیر وضو ہو اور لقمہ دے تو اس صورت میں نماز ہی فاسد ہو جائے گی اور عند الاحناف اعادہ لازم ہوگا؛ اس لیے ناسمجھ زیادہ چھوٹے بچہ کو سامع نہ بنایا جائے؛ البتہ اگر سمجھدار ہے تو درست ہے۔(۱)(۱) فتحہ علی إمامہ لایفسد مطلقا لفاتح، وآخذ بکل حال، إلا إذا سمعہ المؤتم من غیر مصل ففتح بہ تفسد صلاۃ الکل۔قال الشامي: قلت: والذي ینبغي أن یقال: إن حصل التذکر بسبب الفتح تفسد مطلقا، أي سواء شرع في التلاوۃ قبل تمام الفتح أو بعدہ لوجود التعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي لایجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۲)ولو فتح علی المصلي إنسان فہذا علی وجہین: إما إن کان الفاتح ہو المقتدي بہ أو غیرہ، فإن کان غیرہ فسدت صلاۃ المصلي، سواء کان الفاتح خارج الصلاۃ أو في صلاۃ أخری غیر صلاۃ المصلي۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۲؛ و فخر الدین العثماني، تبیین الحقائق، ’’مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)لاتجب الصلاۃ علی الصبي؛ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: رفع القلم عن ثلاثۃ: عن المجنون المغلوب علی عقلہ حتی یفیق، وعن النائم حتی یستیقظ، وعن الصبي حتی یحتلم۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۱۵، ص: ۲۶، ۲۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صرف قرآن کے پورا کرنے کے لیے چھوٹی ہوئی آیات کا اعادہ کرلیا جائے تو کافی ہے، اس طرح پورے قرآن کے ختم کا ثواب ہوگا اور اگر بھولا ہی رہے تو اس میں کچھ گناہ نہیں ہے۔ ’’وإذا غلط في القراء ۃ في التراویح فترک سورۃ أو آیۃ وقرأ ما بعدہا فالمستحب لہ أن یقرأ المتروکۃ ثم المقروء ۃ لیکون علی الترتیب، کذا في فتاویٰ قاضي خان‘‘(۱)’’وإن ترک آیۃ من سورۃ وقد قرأ مقدار ما تجوز بہ الصلاۃ جازت صلوتہ‘‘(۲)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷۔(۲) ابن العلاء، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۹۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں قرآن کریم کی آیتوں کو بلا ترتیب یا کہیں کہیں سے کاٹ کر پڑھنے سے معنی میں تغیر و تبدل کا خوف ہوتا ہے، نیز مضمون و مفہوم میں یکسانیت باقی نہیں رہتی اور اس طرح مذکورہ صورت کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملتا؛ اس لیے ہاتھ اٹھاکر یا بغیر ہاتھ اٹھائے دونوں طرح اس میں کراہت ہے، ہاتھ اٹھاکر پڑھنے کی صورت میں کراہت شدید ہوگی اس لیے کہ اس کا ثبوت ہمارے مسلک میں نہیں ہے۔ تراویح کی آخری رکعت میں سورۂ بقرہ کا پہلا رکوع پڑھنا مستحب ہے۔’’ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوسا إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ، قال في شرح المنیۃ وفي الولوالجیۃ: من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر الناس الحال المرتحل أي الخاتم المفتتح‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۶۹۔عن ابن عباس، قال، قال رجل: یا رسول اللّٰہ أي العمل أحب إلی اللّٰہ: قال (الحال المرتحل) قال: وما الحال، المرتحل؟ قال: الذي یضرب من أول القرآن إلی أخرہ کلما حل ارتحل۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القراء ۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن القرآں أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۳، رقم: ۲۹۴۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 101

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جو حضرات حافظ نہیں ہوتے ان کے لیے سہولت کے پیش نظر الم تر کیف سے تراویح پڑھانا مشہور ہے، ورنہ تو اگر کوئی شخص حافظ ہے یا اس کو قرآن پاک یاد ہے تو وہ تراویح میں جہاں سے جی چاہے پڑھ سکتا ہے؛ بلا شبہ جائز اور درست ہے، البتہ تراویح میں بالترتیب پورا قرآن سنانا یا سننا سنت ہے۔(۱)(۱) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثاً أفضل، ولا یترک، الختم (لکسل القوم)، لکن في الاختیار، الأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسئ، فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدي أفتی أبو الفضل الکرماني والوبري أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحۃ وآیۃ، أو آیتین لا یکرہ، ومن لم یکن عالماً بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷، ۴۹۸)السنۃ في التراویح: إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم … والختم مرتین فضیلۃ، والختم ثلاث مرات أفضل … والأفضل أن یقرأ بما لایؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم؛ لأں تکثیر الجماعۃ أفضل من تطویل القراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: پورا قرآن کریم تراویح میں سننا سنت ہے؛ اس لیے ترتیب کو مقدم رکھا جائے بغیر کسی شرعی وجہ کے ترتیب نہ چھوڑے۔(۱)(۱) والختم مرۃ سنۃ أي قراء ۃ الختم في صلاۃ التراویح سنۃ وصححہ في الخانیۃ وغیرہا۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)السنۃ في التراویح إنما ہو الختم مرۃً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: کوئی ایک ہی سورت نہیں پڑھنی چاہئے، قرآن کریم مزید یاد کریں تاہم کچھ اور یاد نہ ہونے تک ایک ہی سورت پڑھ سکتے ہیں، شامی نے لکھا ہے کہ ’’واختار بعضہم سورۃ الإخلاص من کل رکعۃ‘‘(۲) اس سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔

(۲) وفي التنجیس: واختار بعضہم سورۃ الإخلاص في کل رکعۃ، وبعضہم سورۃ الفیل: أي البدائۃ منہا ثم یعیدہا، وہذا أحسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۸)ثم بعضہم اختار {قل ہو اللّٰہ أحد} (سورۃ الإخلاص: ۱) في کل رکعۃ وبعضہم اختار قراء ۃ سورۃ الفیل إلی آخر القرآن وہذا أحسن القولین؛ لأنہ لا یشتبہ علیہ عدد الرکعات ولا یشتغل قلبہ بحفظہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 99