نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورۃ مسئول عنہا میں اگر ترک واجب سے نماز کا اعادہ کیا گیا اور اس اعادہ والی نماز میں اگر کوئی دوسرا مقتدی شامل ہو گیا، تو اس کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی؛ اس لیے کہ یہ اعادہ والی نماز نفل ہے۔ قول اصح کی بناء پر اور اگر شامل ہونے والے مقتدی کو اس مسئلہ کا علم نہیں ہے، تو اس کی نماز ہو جائے گی۔ امام کو چاہئے کہ نماز میں جو خرابی آئی نقصان ہوا ہے اس کو مقتدیوں کے سامنے ظاہر کر دے۔(۱)
’’وکذا کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا، والمختار أنہ جابر للأول۔ لأن الفرض لا یتکرر، وقال الشامي‘‘ (والمختار أنہ) ’’أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلۃ الجبر بسجود السہو، و بالأول یخرج عن العہدۃ وإن کان علی وجہ الکراہۃ علی الأصح، کذا في شرح الأکمل علی أصول البزدوي الخ‘‘(۲)

(۱) والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، الدر المختار علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸،زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص38

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوران نماز دیوار پر کلینڈر اور گھڑی دیکھ کر تاریخ اور ٹائم سمجھنے سے نماز پڑھنے والے کی نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ نماز کی حالت میں دیوار کی طرف دیکھنا نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع کے منافی ہے اور بالقصد ان چیزوں کی طرف دیکھنا کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
’’ولا یفسدہا نظرہ إلی مکتوب وفہمہ لو مستفہماً وإن کرہ (در مختار) قولہ: وإن کرہ أي لاشتغالہ بما لیس من أعمال الصلاۃ، وأما لو وقع علیہ نظر بلا قصد وفہمہ فلا یکرہ‘‘(۱)
’’إذا کان المکتوب علی المحراب غیر القرآن فنظر المصلي إلی ذلک وتأمل وفہم، فعلی قول أبي یوسفؒ : لا تفسد، وبہ أخذ مشائخنا‘‘(۲)

نیز نماز پڑھتے ہوئے اگر جیب سے موبائل نکال کر باضابطہ موبائل سوئچ آف کیا جائے تو یہ عمل نماز فاسد کرنے والا ہے، کیوں کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، اسی کو فقہی اصطلاح میں عمل کثیر کہا جاتا ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اس لیے اس عمل سے نماز فاسد ہو جائے گی۔
البتہ اگر عمل قلیل کے ذریعہ موبائل بند کرنا ممکن ہو مثلاً موبائل کی گھنٹی بجنے پر انگلی سے بٹن بند کردے یا ایک ہی ہاتھ سے موبائل نکال کر موبائل کو بند کرے تو یہ عمل قلیل ہے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ جیب سے موبائل نکالے بغیر ہی ایک ہی ہاتھ سے جیب میں ہی موبائل بند کردے یا فون کاٹ دے۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا ما لا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا، وفي الشامیۃ: الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل‘‘(۱)
’’ویفسدہا العمل الکثیر لا القلیل والفاصل بینہما أن الکثیر ہو الذي لا یشک الناظر لفاعلہ أنہ لیس في الصلاۃ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ تعالیٰ جدک بدون ألف لا تفسد‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۷،۳۹۸، زکریا، : ج ۱، ص: ۶۳۴، کراچی۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ:کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج ۱، ص: ۱۶۰؛ وکذا في الفتاوی التاتار خانیۃ: ج ۲، ص: ۲۲۸۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب‘‘: ج ۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵، زکریا۔)
(۲) أحمد بن محمد، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘ : ص: ۳۲۲۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص151

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ کی اس صورت میں کوئی نقص نہیں آیا اور نماز کو لوٹانا صحیح نہیں تھا اس لیے فرض نماز میں کچھ بھی ترک نہیں ہوا نہ سجدہ سہو واجب ہوا؛ کیوں کہ سجدہ سہو واجب کے ترک کرنے سے لازم آتا ہے اور یہاں پر قدر فرض وواجب کی قرأۃ ادا ہوگئی اور درمیان قرأت کے اگر کوئی آیت چھوٹ گئی تو بھی نماز جمعہ درست اور صحیح ہوگئی اور فرض نماز میں اگر ضرورت ہو تو لقمہ دیا جا سکتا ہے، اس سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’ولوزاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً … لم تفسد ما لم یتغیر المعنیٰ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ، مطلب: …مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۵،۳۹۶، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شب قدر و شب برأت کا احیاء مستحب ہے، یہ راتیں عند اللہ بہت متبرک ہیں ان میں جتنی عبادت کی جائے بہت زیادہ اجر وثواب ہے، لیکن نوافل باجماعت نہ پڑھنی چاہئے،(۱) کیوں کہ یہ بدعت ومکروہ ہے اور کسی خاص اجتماع کی بھی ضرورت نہیں ہے۔(۲) فرداً فرداً نوافل، تلاوت کرنا چاہئے؛ البتہ شب معراج کی نہ تعیین ہے نہ کوئی فضیلت، اس میں عبادت کا خصوصی اہتمام بدعت ہے۔(۳)

(۱) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ۔ (إبراہیم حلبي، حلبي کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی پاکستان)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستندلہا من الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذا العبادات ما استطاعوا۔ (الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام: باب إذا اجتہد العامل أو الحاکم فأخطأ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۹۲، رقم: ۱۷۱۸)
(۳) ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد الخ‘‘: ص: ۴۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص380

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مرد و عورت کی نماز میں درج ذیل  اعمال میں فرق ہے (1) مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے گا اور عورت سینے تک ہاتھوں کو اٹھائے گی (البحر الرائق1/35)۔  (2) مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی(اعلاء السنن2/153)۔ (3) عورت رکوع میں کم جھکے گی اور رکوع میں عورت انگلیاں مرد کی طرح کشادہ نہیں رکھے گی(عالمگیری 1/74)۔ (4) مرد سجدے کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے اور بازو  کو بغل سے جُدا رکھے گا اورکہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے  گا،   جبکہ عورت  پیٹ کو   رانوں سے اور بازو کو بغل سے ملائے رکھے گی اور کہنیاں زمین پر بچھا کر سجدہ کرے گی(البحر الرائق 1/320)۔  (5) مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا دایاں پیر کھڑا کرکے بایاں پیر بچھاکر اس پر بیٹھ جائے  گا جبکہ  عورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے گی(کبیری223)۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1157/42-393

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے پر نجاست اس قدر لگی ہے  جو منافی صلوۃ ہے  یعنی ایک درھم کے برابر نجاست ہےتو ایسی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ اور اگر نجاست ایک درہم کی مقدار سے کم ہے تو نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ عام فقہاء کا قول یہی ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؛ لیکن مختار قول یہ ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ البتہ امام کو اپنے طریقہ پر ضد ہرگز نہیں کرنی چاہیے کوشش یہی کرے کہ ترک تشدید نہ ہو، تاکہ عامۃ الفقہاء کی بھی مطابقت ہو جائے، امام تصحیح کرلے یا بغیر فتنہ کے امام بدلا جائے ورنہ اسی کی اقتدا کی جائے۔(۱)

(۱) ومنہا ترک التشدید والمد في موضعہما: لو ترک التشدید في قولہ إیاک نعبد وإیاک نستعین۔ (الفاتحۃ: ۵) أو قرأ الحمد للّٰہ رب العالمین۔ (الفاتحۃ: ۲) وأسقط التشدید علی الباء المختار أنہا لا تفسد، وکذا في جمیع المواضع وإن کان قول عامۃ المشایخ إنہا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسبوق کو چاہئے کہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً ہی کھڑا ہو جائے اور اپنی ایک رکعت پوری کرے اور سجدہ سہو اس پر واجب ہے اپنی رکعت کے آخر میں سجدہ سہو کر کے پھر سلام پھیر لے۔(۱)

(۱) ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو لا في السلام، فیسجد معہ و یتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا فلا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، زکریا، دیوبند)
وإن سلم مع الإمام مقارناً لہ، أو قبلہ ساہیاً، فلا سہو علیہ لأنہ في حال اقتدائہ وإن سلم بعدہ یلزمہ السہو لأنہ منفرد۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۵، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص39

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وہ زمین جو ناحق طریقہ سے قبضہ کی گئی ہے ایسی مغصوبہ زمین پر نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، البتہ اس پر پڑھی گئی نمازیں ادا ہوگئیں ان نمازوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ صاحب مراقی الفلاح نے شرح نور الایضاح میں لکھا ہے:
’’و تکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ، و إذا ابتلی بالصلاۃ في أرض الغیر و لیست مزروعۃً، أو الطریق إن کانت لمسلم صلی فیہا، و إن کانت لکافر صلی في الطریق‘‘(۱)
’’(قولہ: صلی فیہا) لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ‘‘(۲)
’’الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ، و لکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالی یثاب، وما کان بینہ و بین العباد یعاقب، کذا في مختار الفتاوی‘‘(۳)
’’و في الواقعات: بنی مسجداً علی سور المدینۃ لاینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ فلم یخلص للّٰہ تعالی، کالمبني في أرض مغصوبۃ…‘‘(۴)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۸۔
(۴) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ودخول البساتین و بناء المسجد في أرض الغصب‘‘: ج ۲، ص۴۴، ۵۴، زکریا دیوبند

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص153

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: {أن جاء ہ الاعمیٰ} پڑھنے کی وجہ سے معنی بدل گئے، اس لیے نماز فاسد ہو گئی۔(۲)

(۲) وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو ان قرأ: وعداً علینا ان کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271