نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں جماعتوں کے اجتماعات میں شرکت کرنا جائز ہے اور ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے مقامی لوگ اگر بغیر وجہ شرعی کے ان کی امامت کے خلاف ہیں تو وہ عاصی ہیں ان کے کہنے پر عمل جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۸)
کذا في الھندیۃ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص297

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال مسبوق (جس کی امام سے کوئی رکعت رہ گئی) مطلقاً اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ اقتداء سے پہلے امام بھولا ہو یا بعد میں۔
اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد مقتدی اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے بھول گیا تو دوبارہ اکیلا سجدہ سہو کرے۔ اور اگر امام کے ساتھ اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا، پھر وہ بھی امام کی طرح بھول گیا اسے دو بار سجدہ سہو کی بجائے ایک بار سجدہ سہو کرنا کافی ہے کیوں کہ سجدہ (سہو) میں تکرار نہیں ہوتا۔
’’(والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقا) سواء کان السہو قبل الاقتداء أو بعدہ (ثم یقضي مافاتہ) ولو سہا فیہ سجد ثانیا‘‘(۱)
علامہ شامی مذکورہ بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’(ولو سہا فیہ) أي فیما یقضیہ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ، والمنفرد یسجد لسہوہ، وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا، ہو أیضا کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لایتکرر‘‘(۲)
’’والمسبوق یسجد لسہوہ فیما یقضي ولو سہا إمامہ ولم یسجد المسبوق معہ وسہا ہو فیما یقضي یکفیہ سجدتان‘‘(۳)
خلاصہ:  مذکورہ بالا عبارت کی رو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
اگر مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو نہ کرے تو اپنی نماز مکمل ہونے سے قبل اس پر سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، ایسے میں اگر امام کے ساتھ اس نے سجدہ سہو کر لیا پھر چھوٹی ہوئی نماز کے درمیان اس پر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوا تو مسبوق دوبارہ سجدہ سہو کرے گا نیز مسبوق اگر امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کر سکا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کے اوپر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوگیا اس صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کر لینا کافی ہے دوبارہ سجدہ سہو نہیں گرے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸، بیروت: دار المعرفۃ۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص40

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز کی حالت میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنے کے سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ بغیر کسی عذر اور بلا ضرورت آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ خشوع وخضوع یا وساوس سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کی جائیں تومکروہ نہیں ہے؛ لہٰذا ذکر کردہ سوال میں آنکھ کھول کر تلاوت کرنے کی صورت میں آپ آیات کریمہ کی تلاوت نہیں کرپاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اس لیے ذہن کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے آنکھیں بند کر کے آپ کے لئے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، تاہم آنکھیں کھلی رکھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے، نیز آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ اس لیے ہے کہ حالت قیام میں سجدہ کی جگہ کو دیکھنا سنت ہے، اور آنکھیں بند کرنے کی صورت میں ترکِ سنت کی وجہ سے سنت ادا نہیں ہوئی اس لیے مکروہ ہے لہٰذا آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے؛ جیسا کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے:
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ، وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید۔ حلیۃ وبحر‘‘(۱)
’’(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قام أحد کم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔
’’قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھما لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ درأ۔ و قصد قطع النظر عن الأغیار، والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب و ما یکرہ في الصلاۃ: ج ۱، ص:۵۰۷۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج۲، ص: ۴۱۳، ۴۱۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص154

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں قران کی آیت میں نہی کا صیغہ ہے اور نہی کی جگہ امر کا صیغہ پڑھا گیا جس سے معنی بالکل ہی بدل گئے اس لئے نماز فاسد ہوگئی۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص:۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند)
وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ : وعداً علینا إن کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص272

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ بعد میں پڑھی جانے والی نماز باجماعت اس کے لیے نفل ہے اور فرض نماز کے ساتھ وہ سنت اور وتر پڑھ چکا ہے۔(۱)

(۱) التطوع المطلق یستحب أداء ہ في کل وقت، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲)
عن أبي سلمۃ قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: کان یصلي ثمان رکعات ثم یوتر ثم یصلي رکعتین وہو جالس، فإذا أراد أن یرکع قام فرکع، ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامۃ من صلاۃ الصبح۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في اللیل وأن یوتر رکعۃ وإن الرکعۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص382

نماز / جمعہ و عیدین

 

Ref. No. 1179 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔فجر کا وقت طلوع آفتاب یعنی سورج کا کنارہ ظاہر ہونے پر ختم ہوتا ہے، اس سے پہلے باقی رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کا وقت مساجد میں لگے ٹائم ٹیبل اور اردو اخبارات میں عموماً موجود ہوتا ہے، ان سے مدد لے سکتے ہیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام اگر نماز میں قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو تو ان کی امامت شرعاً درست ہے۔ باقی امام کے تقرر یا بدلنے کے ذمہ دار مسجد کے متولی و مسجد کمیٹی یا وہ علماء ہیں جو اس مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔(۱)

(۱) عن شعبۃ عن إسماعیل بن رجائٍ قال سمعت أوس بن ضمعجٍ یقول سمعت أبا مسعود یقول: قال لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یؤم القوم أقرؤہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃً، فإن کانت قراء تہم سواء فلیؤمہم أقدمہم ہجرۃ، فإن کانوا في الہجرۃ سواء فلیؤمہم أکبرہم سناً، ولاتؤمن الرجل في أہلہ ولا في سلطانہ ولاتجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا أن یاذن لک أو بإذنہ۔(أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۴۶۵، رقم: ۶۷۳)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقرأۃ ثم الأورع، والتقوی اتقاء المحرمات ثم الأسن أي الأقدم إسلاما فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا: یقدم الأقدم ورعا، وفي النہر عن الزاد وعلیہ یقاس سائر الخصال فیقال: یقدم أقدمہم علما ونحوہ وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ ثم الأحسن خلقا بالضم الفۃ بالناس ثم الأحسن وجہا أي أکثرہم تہجدا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۵)

الأولٰی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص213

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حلال خور برادری اگر مسلمان ہے تو ان کی نماز جنازہ پڑھانا اور ان کے بچوں کے کانوں میں اذان پڑھنا درست ہے خواہ وہ لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں(۱) تو ایسی صورت میں اس شخص کی امامت بلا کراہت درست ہے۔

(۱) قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا علی کل بروفاجر، أخرجہ ابن الجوزی في العلل المتناہیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ‘‘:ج۳، ص: ۱۰۲)
ویصلي علی کل مسلم مات بعد الولادۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘:ج۱، ص: ۲۲۴)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص298

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص اذان وتکبیر کے لیے مقرر ہے اس کی اجازت کے بغیر دوسرے کو تکبیر نہیں کہنی چاہیے(۱) اور اگر کسی نے اجازت کے بغیر تکبیر پڑھ دی تو اچھا نہیں کیا  لیکن اس کی وجہ سے نماز میں کوئی خلل یا خرابی نہیں آئے گی۔(۲)

(۱) أقام غیر من أذن بغیبتہ أي المؤذن لا یکرہ مطلقا وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشۃ، کما کرہ مشیہ في إقامتہ، قولہ کرہ إن لحقہ وحشۃ أي بأن لم یرض بہ، … لکن في الخلاصۃ: إن لم یرض بہ یکرہ۔ وجواب الروایۃ إنہ لا بأس بہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘: ج ۲، ص: ۶۴)
(۲) ولکن الأفضل أن یکون المؤذن ہو المقیم أي لحدیث من أذن فہو یقیم۔ (أیضًا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص195

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید کو ثنا (سبحانک اللہم الخ) تعوذ (أعوذ باللّٰہ الخ) اور تسمیہ (بسم اللّٰہ الخ) پڑھنی چاہئے۔(۱)

(۱) والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو بعضہا وہو منفرد حتی یثنی ویتعوذ ویقرا،ٔ وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۶، ۳۴۷)
منہا : أنہ إذا أدرک الإمام في القراء ۃ في الرکعۃ التي یجہر فیہا، لا یأتي بالثناء، کذا في الخلاصۃ ہو الصحیح، کذا فيالتجنیس وہو الأصح … فإذا قام إلی قضاء ما سبق، یأتي بالثناء ویتعوذ للقراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص41