نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ اور خلاف سنت ہے؛ بلکہ نگاہیں پیروں کی طرف ہونی چاہئیں۔(۱)
(۱) ومنہا نظر المصلي سواء کان رجلا أو امرأۃ إلی موضع سجودہ قائما حفظا لہ عن النظر إلی مایشغلہ عن الخشوع ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعا، وإلی أرنبۃ أنفہ ساجدا، وإلی حجرہ جالسا ملاحظا قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک فلا یشتغل بسواہ … وإذا کان بصیرا أو في ظلمۃ فیلاحظ عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل من أدابہا‘‘: ج۱، ص: ۲۷۶، ۲۷۷)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص155

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تراویح میں قرآن کریم اس طرح پڑھنا کہ الفاظ کٹ رہے ہوں اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو بسا اوقات نماز درست نہیں ہوتی ہے اس لیے امام کو اس پر تنبیہ کی جائے یا دوسرے امام کا انتظام کرلیا جائے۔(۱)

(۱) روی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ یقرأ في کل رکعۃ عشر آیات ونحوہا وہو الصحیح کذا في التبیین، ویکرہ الإسراع في القراء ۃ وفي أداء الأرکان، کذا في السراجیۃ وکلما رتل فہو حسن، کذا في فتاوی قاضي خان، والأفضل في زماننا: أن یقرأ بما لا یؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم؛ لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷، زکریا)
ویجتنب المنکرات ہذرمۃ القراء ۃ، وترک تعوذ وتسمیۃ، وطمأنینۃ، وتسبیح، واستراحۃ۔
(قولہ ہذرمۃ) بفتح الہاء وسکون الذال المعجمۃ وفتح الراء: سرعۃ الکلام والقراء ۃ قاموس، وہو منصوب علی البدلیۃ من المنکرات، ویجوز القطع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص:۴۹۹، ط،زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص273

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسجد میں نہ تحیۃ الوضوء ہے نہ تحیۃ المسجد ہے، کیوں کہ طلوع صبح صادق کے بعد فجر کی سنت اور فرض کے علاوہ کوئی نفل نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ فجر کی سنت چوں کہ مؤکدہ ہیں، تو اس کو مسجد میں جاکر پڑھ لے تاکہ اس کے ضمن میں تحیۃ الوضو کا ثواب بھی مل جائے۔(۱)

(۱) وھي أفضل لتحیۃ المسجد إلا إذا دخل فیہ بعد الفجر أو العصر، فإنہ یسبح ویہلل ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فإنہ حینئذٍ یؤدي حق المسجد، کما إذا دخل للمکتوبۃ، فإنہ غیر مأمور بہا حینئذ کما في التمرتاشي، قولہ: وأداء الفرض أو غیرہ الخ، قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاۃ صلاہا عند الدخول فرضاً کانت أو سنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۸، ۴۵۹، زکریا دیوبند)
إذا دخل المسجد بعد الفجر، أو العصر لا یأتي بالتحیۃ، بل یسبح، ویہلل، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنہ حینئذ یؤدي حق المسجد۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد‘‘: ج ، ص: ۳۹۴، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص382

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنے یا انتظامی مصلحت کی بنا پر اہل محلہ کے مشورہ پر متولی نے جب امامت سے سبکدوش کر دیا، تو مذکورہ شخص کا زبردستی امامت کرنا، آپسی انتشار پھیلانا شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے متولی کو صحیح قرآن پڑھنے والے شخص کو امام مقرر کرنا چاہئے اور مذکورہ شخص کی قرأت اگر مفسد نماز نہیں ہے، تو اس کے پیچھے اداء کی گئیں نمازیں درست ہیں۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
قال في الخانیہ والخلاصۃ الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیرالمعنی إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم لاتفسد وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبوعاصم: إن تعمد ذلک تفسد وإن جری علی لسانہ أولا یعرف التمییز لاتفسد وہو المختار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ،  باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۶)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امامت کے لیے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اکابر ملت اور سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے امام بننے سے گریز کیا اور اپنے بجائے ایسے لوگوں کو امامت کے لیے بڑھا دیا کہ جو بزرگی اور تقوے میں ان کے برابر نہیں تھے۔(۲)

(۲) فإن تساووا فأورعہم، لقولہ علیہ السلام: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۵۸، زکریا دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ، فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَہ۱ } (سورۃ الأنفال: ۱)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص298

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تکبیر پڑھتے وقت اگر آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے تو جائز ہے، (۱) بلا وجہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے؛ لیکن اس سے نماز میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔

(۱) ویستقبل غیر الراکب القبلۃ بہما ویکرہ ترکہ تنزیہا (قولہ: غیر الراکب) عبارۃ الإمداد: إلا أن یکون راکباً مسافراً لضرورۃ السیر الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص196

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص خطبہ کے وقت یا نماز جمعہ میں تشہد تک شریک ہو جائے ایسا شخص جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائے، اور جمعہ کی نماز پوری کرے ظہر نہیں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من أدرک من الجمعۃ رکعۃ فلیصل إلیہا أخری۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیمن أدرک من الجمعۃ رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸، رقم: ۱۱۲۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرک رکعۃ الجمعۃ فقد أدرکہا ولیضف إلیہا أخری۔ (أخرجہ الدار قطني، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳، رقم: ۱۶۰۸)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص42

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: روشنی اور تاریکی دونوں حالتوں میں نماز پڑھنا شرعاً بلاکراہت درست ہے(۲) اور نماز میں خشوع وخضوع اور دنیاوی باتوں سے دھیان ہٹا کر اللہ رب العزت کی طرف ذہن کو پورے طور پر متوجہ کرنا مطلوب شرعی ہے۔ {الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَہلا ۲  }(۳) تاہم مقتدیوں کو جس میں سہولت ہو وہی اختیار کیا جائے اگر کسی چیز سے نقصان کا اندیشہ ہو تو کچھ روشنی رکھنی چاہئے۔
(۲) عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزنی فقبضت رجلي فإذا قام بسطتہما قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘ ج۱، ص: ۵۶، رقم ۳۸۲)
(۳) سورۃ المؤمنون: ۲۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص156

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: معنی میں ایسی خرابی نہیں آئی کہ اس سے نماز فاسد ہو اس لیے نماز فاسدہ نہیں ہوئی۔(۱)

(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو : من ثمرہ إذا أثمر واستحصد تعالی جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أواب لم تفسد ما لم یتغیر المعنی إلا ما یشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا۔
(قولہ: أو بدلہ بآخر) ہذا إما أن یکون عجزا کالألثغ وقدمنا حکمہ فی باب الإمامۃ، وإما أن یکون خطأ، وحینئذ فإذا لم یغیر المعنی، فإن کان مثلہ في القرآن نحو : (إن المسلمون) لا یفسد، وإلا نحو (قیامین بالقسط)، وکمثال الشارح لا تفسد عندہما، وتفسد عند أبي یوسف، وإن غیر فسدت عندہما؛ وعند أبي یوسف إن لم یکن مثلہ في القرآن، فلو قرأ (أصحاب الشعیر) بالشین المعجمۃ فسدت اتفاقا، وتمامہ في الفتح (قولہ: نحو من ثمرہ إلخ) لف ونشر مرتب (قولہ: إلا ما یشق إلخ) ( الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج۲، ص۳۹۵، ۳۹۶، زکریا)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص274

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے مذکورہ نفل ہوں یا دیگر نوافل بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے، اگرچہ ان نوافل کا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ثابت ہے۔(۲)

(۲) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعداً لا مضطجعاً إلا بعذر ابتداء وکذا بناء الشروع بلا کراہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳، ۴۸۴، زکریا دیوبند)
وفي التجنیس: الأفضل أن یقوم فیقرأ شیئاً ثم یرکع لیکون مواقفاً للسنۃ … ففی صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمرو قلت : حدثت یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) انک قلت صلاۃ الرجل قاعداً علی نصف الصلاۃ وأنت تصلی قاعداً قال أجل لست کأحد منکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، مکتبہ: سعید کراچی پاکستان)
ویجوز أن یتنفل القادر علی القیام قاعداً بلا کراہۃ في الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع، في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص383