Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت شب اس طرح پڑھنا جائز ہے، مگر قعدہ ہر دو رکعت کے بعد کرنا چاہئے جس میں صرف تشہد (التحیات پڑھی جائے) اور قعدہ اخیرہ میں درود شریف اور دعاء بھی پڑھنی چاہئے؛ البتہ دن ورات کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت تک پڑھنا افضلہے، دن کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے(۱) اور رات کے نوافل ایک سلام کے ساتھ آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے۔
’’وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلا بتسلیمۃ لأنہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل وبہ یفتی‘‘(۲)
(۱) والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل: وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج۲، ص:۴۵۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا، دیوبند۔)
وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان، ولو جعلہ أثلاثاً فالأوسط أفضل، ولو أنصافا فالأخیر أفضل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۶۷- ۴۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص381
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1170 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مستقلا ہمیشہ عصرکی نماز مثل واحد پر اداکرنا گویا امام ابوحنیفہ کے مسلک کو ترک کرنا ہے، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر کبھی ایسی مجبوری آجائے یا سفر وغیرہ درپیش ہو تو اس کی گنجائش ہے؛ تاہم ایک حنفی المسلک کے لئے اس کی عادت بنالینا ٹھیک نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔ اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ ارسال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/756
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے، اور بہتر ہے کہ التحیات ٹھہرٹھہر کر پڑھے کہ اما م کے سلام پھیرنے کا وقت ہوجائے۔ جب امام سلام پھیرلے تو کھڑا ہو اور اپنی نماز مکمل کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1061/41-246
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ اگر سجدہ میں دشواری ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تلاوت صحیح نہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ اگر قرآن اس طرح غلط پڑھتا ہے کہ جس سے نمازیں فاسد ہوں، تو اس کی اقتداء درست نہیں ہے، فوری طور پر صحیح پڑھنے والے کا انتظام ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر اس کی اقتداء میں پڑھے لکھے مقتدی کی نماز صحیح اور درست ہے۔ متولیان مسجد پر لازم ہے کہ ایسا امام رکھیں جو قرآن کریم صاف اور صحیح پڑھے۔(۲)
(۲) (قولہ بغیر حافظ لہا) شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القرائۃ المفروضۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۴؛ ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: اقتداء المفترض بإمام متنفل‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں جماعتوں کے اجتماعات میں شرکت کرنا جائز ہے اور ایسے امام کی امامت میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے مقامی لوگ اگر بغیر وجہ شرعی کے ان کی امامت کے خلاف ہیں تو وہ عاصی ہیں ان کے کہنے پر عمل جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۸)
کذا في الھندیۃ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص297
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال مسبوق (جس کی امام سے کوئی رکعت رہ گئی) مطلقاً اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ اقتداء سے پہلے امام بھولا ہو یا بعد میں۔
اور اگر امام کے فارغ ہونے کے بعد مقتدی اپنی بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے بھول گیا تو دوبارہ اکیلا سجدہ سہو کرے۔ اور اگر امام کے ساتھ اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تھا، پھر وہ بھی امام کی طرح بھول گیا اسے دو بار سجدہ سہو کی بجائے ایک بار سجدہ سہو کرنا کافی ہے کیوں کہ سجدہ (سہو) میں تکرار نہیں ہوتا۔
’’(والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقا) سواء کان السہو قبل الاقتداء أو بعدہ (ثم یقضي مافاتہ) ولو سہا فیہ سجد ثانیا‘‘(۱)
علامہ شامی مذکورہ بالا عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’(ولو سہا فیہ) أي فیما یقضیہ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ، والمنفرد یسجد لسہوہ، وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا، ہو أیضا کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لایتکرر‘‘(۲)
’’والمسبوق یسجد لسہوہ فیما یقضي ولو سہا إمامہ ولم یسجد المسبوق معہ وسہا ہو فیما یقضي یکفیہ سجدتان‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ بالا عبارت کی رو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
اگر مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو نہ کرے تو اپنی نماز مکمل ہونے سے قبل اس پر سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، ایسے میں اگر امام کے ساتھ اس نے سجدہ سہو کر لیا پھر چھوٹی ہوئی نماز کے درمیان اس پر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوا تو مسبوق دوبارہ سجدہ سہو کرے گا نیز مسبوق اگر امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کر سکا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس کے اوپر دوبارہ سجدہ سہو لازم ہوگیا اس صورت میں ایک ہی سجدہ سہو کر لینا کافی ہے دوبارہ سجدہ سہو نہیں گرے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸، بیروت: دار المعرفۃ۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص40
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز کی حالت میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنے کے سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ بغیر کسی عذر اور بلا ضرورت آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ خشوع وخضوع یا وساوس سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کی جائیں تومکروہ نہیں ہے؛ لہٰذا ذکر کردہ سوال میں آنکھ کھول کر تلاوت کرنے کی صورت میں آپ آیات کریمہ کی تلاوت نہیں کرپاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اس لیے ذہن کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے آنکھیں بند کر کے آپ کے لئے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، تاہم آنکھیں کھلی رکھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے، نیز آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ اس لیے ہے کہ حالت قیام میں سجدہ کی جگہ کو دیکھنا سنت ہے، اور آنکھیں بند کرنے کی صورت میں ترکِ سنت کی وجہ سے سنت ادا نہیں ہوئی اس لیے مکروہ ہے لہٰذا آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے؛ جیسا کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے:
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ، وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید۔ حلیۃ وبحر‘‘(۱)
’’(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قام أحد کم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔
’’قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھما لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ درأ۔ و قصد قطع النظر عن الأغیار، والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب و ما یکرہ في الصلاۃ: ج ۱، ص:۵۰۷۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج۲، ص: ۴۱۳، ۴۱۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں قران کی آیت میں نہی کا صیغہ ہے اور نہی کی جگہ امر کا صیغہ پڑھا گیا جس سے معنی بالکل ہی بدل گئے اس لئے نماز فاسد ہوگئی۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص:۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند)
وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ : وعداً علینا إن کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص272