نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر واقعی طور پر وہ امام مذکورہ اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ شخص گناہگار ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے اور اگر قرأت میں فحش غلطیاں ہوجاتی ہیں کہ جن سے نماز ہی فاسد ہوجائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوگی کسی اچھے عالم، دیندار، متقی لائق امامت کو امام بنانا چاہئے تاکہ فریضۂ نماز عمدہ اور بہترین طریقہ پر ادا ہوسکے۔(۱)

(۱) صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وقال الشامي تحتہ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع وکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن وجہا۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص215

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ختم قرآن پر لین دین کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ پہلے سے لینا دینا مقرر کرلیا جائے یا مقرر تو صراحتا نہ کرے، لیکن اس جگہ پر لین دین کو لازمی و ضروری سمجھا جاتا ہو کہ اگر ایسا نہ ہوا رسوائی بدنامی اور لعن طن ہو تو ’’المعروف کا لمشروط‘‘ کے قاعدے کے مطابق یہ مقرر ہی کرنا ہوا، ایسی صورت میں یہ لین دین ہدیہ نہ ہوکر اجرت ہوجائے گی خواہ اس کا نام ہدیہ ہی رکھا جائے اور یہ لین دین شرعا ناجائز ہے اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی امامت مکروہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لین دین صراحتاً یا رواجا مقرر نہ ہو یا سنانے والا صراحتاً طے کردے کہ میں کچھ نہ لوں گا یا مقتدی صراحت کردے ایسی صورت میں اگر لین دین ہو تو واقعی ہدیہ تحفہ ہی ہے اور اس کے لین دین میں کوئی مضائقہ نہیں اور ایسی صورت میں لینے دینے والے کی امامت بھی بلاشبہ درست ہے۔(۱)
’’کذا صرح بہ العلامہ ابن العابدین في رد المحتار ورسم المفتي والفقہاء ٔالآخرون في الکتب الأخری‘‘

(۱) الہبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ السلام تہادوا تحابّوا وعلی ذلک انعقد الإجماع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الہبۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۳، مکتبہ فیصل دیوبند)
وقال في الشامي: أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ الخ بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص299

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دو بارہ اقامت کی ضرورت نہیں(۲) بعد میں آنے والے شخص کے لیے جماعت میں شرکت درست نہیں ہوگی۔اس لیے کہ وہ جماعت پہلی جماعت میں جو کمی ہوتی ہے اس کی تلافی کے لیے ہے اور آنے والے شخص کی نماز مستقل نماز ہے۔ (۳)

(۲) (فروع) صلی السنۃ بعد الإقامۃ أو حضر الإمام بعدہا لا یعیدہا، بزازیۃ۔ وینبغي إن طال الفصل أو وجد ما یعد قاطعاً کأکل أن تعاد۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان،مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
(۳) ومن المشائخ من قال: یلزمہ أن یعید ویکون الفرض ہو الثاني، والمختار أن الفرض ہو الأول والثاني جبر للخلل الواقع فیہ بترک الواجب۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’الفائتۃ من الفرائض تعدیل الأرکان‘‘: ص: ۲۵۷)
والمختار أنہ أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلۃ الجبر بسجود السہو وبالأول یخرج عن العہدۃ وإن کان علی وجہ الکراہۃ علی الأصح۔ (الحصکفي، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج  ۲، ص: ۱۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص196

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ کے بعد اگر امام سہواً کھڑا ہوجائے تو مسبوق کو اس زائد نماز میں اقتداء جائز نہیں ہے اگر اقتدا کیا تو مسبوق کی نماز فاسد ہوجائیگی۔
’’قال في الدر ولو قام إمامہ لخامسۃ فتابعہ، إن بعد القعود تفسد، قولہ تفسد أي صلاۃ المسبوق لأنہ اقتداء في موضع الإنفراد الخ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ … مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما الخ‘‘: ج۲، ص: ۳۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص43

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث میں تین جگہ سکتہ کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک جگہ {ولا الضالین} کے بعد ہے تاکہ آمین کہہ لے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک مختصر سکتہ کا حکم ہے سکتہ طویلہ مکروہ ہے،(۱) مذکورہ امام اگرطویل سکتہ کرتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز مع الکراہت ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر امام بلا عذر ایسا کرتے ہیں، تو اس کی عادت ترک کردیں۔
(۱) قال سعید: فقلنا لقتادۃ:  ماہاتان السکتتان ؟ قال: إذا دخل في صلاتہ وإذا فرغ من القراء ۃ۔ ثم قال بعد ذلک: وإذا قرأ: ولا الضالین۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في السکتتین‘‘: ج۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۱)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص157

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: قرآن کریم کی تلاوت قواعد تجوید کی رعایت کے ساتھ کرنی چاہئے اور امام صاحب کو تو اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور اسی کو امام بنانا چاہئے جو قواعد تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھے۔ باقی اگر معنی میں تغیر نہ ہو تو نماز ادا ہوجاتی ہے۔
’’والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ … ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا‘‘(۱)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص274

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، حنفی کے لیے اس میں شامل ہونا درست ہے؛ اس لیے کہ جو ائمہ اس نماز کی جماعت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں۔
’’الحنابلۃ قالوا: أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ: کصلاۃ التہجد‘‘(۱)

 (۱)حاشیۃ الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ’’البلوغ وہل تصح إمامۃ الصبي‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۲، دار الغد الجدید
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص384

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جنازہ کی نماز مسجد میں  اور مسجد کے برآمدہ میں ادا کرنا  مکروہ ہے۔  اس کا انتظام مسجد کے باہر ہی ہونا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بہتر یہ ہے کہ امام صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ قرآن کو درست کرلیں تاہم نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی بشرطیکہ کوئی مفسد صلوٰۃ پیش نہ آئے، اگر ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو مفسد صلوٰۃ ہیں تو پھر امام صاحب سے بڑے ادب و احترام کے ساتھ منصب امامت ترک کرنے کی درخواست کرکے کسی دوسرے شخص کو جس میں اوصاف امامت موجود ہوں امام تجویز کرلیا جائے اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ جو کچھ کیا جائے اخلاص و للہیت کے جذبہ سے ہی ہو کسی اور جذبہ فاسد سے نہ ہو اور باہمی مشورہ سے کیا جائے تاکہ کوئی فتنہ برپا نہ ہو اللہ تعالیٰ سب کو اخلاص عطا فرمائیں۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب: المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۵)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)
فإن کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ ۔۔۔۔۔ عند عامۃ المشایخ ۔۔۔۔۔ہکذا في المحیط، وإن غیر المعنی نحو أن یقرأ وزرابیب مبثوثۃ مکان وزر ابي ۔۔۔۔۔  تفسد، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص216

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد کتاب پڑھنا یا سننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اس میں عدم شرکت کی بناء پر کوئی گناہ نہیں۔ تعلیم دین کے لیے نماز کے بعد کتاب پڑھی جاتی ہے۔ امام صاحب اپنے مقتدیوں کے معیارِ تعلیم اور ان کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کسی کتاب کا انتخاب کریں مشورہ بھی مقتدیوں سے کرلیں تو بہتر ہے۔ جس کتاب کا امام صاحب انتخاب کریں اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ بیٹھ سکے تو اس کو طعنہ دینا ہر گز جائز نہیں ہے اور صرف ان باتوں کی وجہ سے امام صاحب سے اختلاف ’’البغض في اللّٰہ‘‘ میں داخل نہیں، بغیر وجہ شرعی کے کسی عام انسان سے بغض رکھنا جائز نہیں، تو امام صاحب جو قابلِ عزت واحترام ہیں جو پیشوا ہیں ان سے کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ہاں ایک نماز کے بعد امام صاحب کوئی کتاب تعلیم دین کے لیے پڑھیں اور دوسرے یا وہی لوگ دوسرے وقت دوسری کتاب حسب ضرورت پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہمیشہ کے لیے کسی ایک کتاب کو لازم سمجھ لینا بھی اصول تعلیم کے خلاف ہے۔(۱)

(۱) فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یطالب أحداً بشيء سوی ماذکرناہ وکذلک الخلفاء الراشدون ومن سواہم من الصحابۃ ومن بعدہم من الصدر الأول، (شرح المہذب، ج۱، ص: ۲۴)، دارالفکر۔
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301