نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر کوئی شخص تراویح کی نماز نہ پڑھے اور روزہ رکھنے کااہتمام کرے تو روزہ کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا؛ لیکن تراویح کے اجر و ثواب سے محروم رہے گا۔ تراویح کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے سنتِ مؤکدہ ہے، بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:’’(التراویح سنۃ) مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین (للرجال والنساء) إجماعا‘‘’’(قولہ سنۃ مؤکدۃ) صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن أبي حنیفۃ۔ وذکر في الاختیار أن أبا یوسف سأل أبا حنیفۃ عنہا وما فعلہ عمر، فقال: التراویح سنۃ مؤکدۃ، ولم یتخرجہ عمر من تلقاء نفسہ، ولم یکن فیہ مبتدعا؛ ولم یأمر بہ إلا عن أصل لدیہ وعہد من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۱)نیز مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنتِ کفایہ ہے، اگر کوئی انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے محروم رہے گا اور عورتوں کے لیے جماعت سنتِ مؤکدہ کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔’’قولہ: والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ إلخ) أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین، فلو ترکہا واحد کرہ، بخلاف صلاتہا بالجماعۃ فإنہا سنۃ کفایۃ، فلو ترکہا الکل أسائوا؛ أما لو تخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ، وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد،   وہکذا في المکتوبات، کما في المنیۃ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ؟ ظاہر کلام الشارح الأول۔ واستظہر ط الثاني۔ ویظہر لي الثالث، لقول المنیۃ: حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأسائوا‘‘(۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 87

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں ضرورت سے زائد روشنی کرنا مناسب نہیں ہے، خواہ کسی ایک شخص کی طرف سے ہو یا بہت سے لوگوں کی طرف سے ہو، مسلمان کی کمائی ایسی چیزوں میں صرف ہونی چاہئے جو کہ کار خیر اور قرب الی اللہ کے قبیل سے ہو۔ فضول خرچی سے حتی الامکان مسلمان کو پرہیز لازم ہے۔{وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًاہ۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاہ۲۷}(۱)’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳)(۱) سورۃ الاسراء: ۲۶، ۲۷۔(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: گرمی کی وجہ سے مسجد کی چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے کیوں کہ اس میں جماعت خانہ اور صحن مسجد کا خالی رہنا لازم آتا ہے جو کراہت سے خالی نہیں ہے۔ البتہ اگر جگہ نہ رہے اور پھر کچھ حضرات اوپر چھت پر جاکر جماعت میں شریک ہوجائیں تو بلاکراہت درست ہے۔(۱)(۱) الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب السجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح سنت مؤکدہ ہے(۱) بعض فقہاء نے کہا کہ صرف سنت ہے جماعت بھی سنت کفایہ ہے۔ علامہ قدوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا مستحب ہے لیکن قول اول صحیح ہے ختم قرآن تراویح میں سنت ہے(۲) لیکن سنت مؤکدہ نہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ پورے رمضان تراویح کا مکمل اہتمام کرے تاکہ ترتیب کے ساتھ قرآن کریم مکمل ہو، تاہم عذر کی وجہ سے مذکورہ صورت میں بھی قرآن مکمل ہو جائے گا۔ نیز فقہاء متاخرین نے الم ترکیف سے پڑھنے کو بھی کافی کہا ہے۔ جس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن سننا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔(۱) التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً۔…(الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۳)(۲) والسنۃ في التراویح إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 85

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: شبینہ میں ایک رات میں قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے اکابر و اسلاف کا معمول بھی رہا ہے؛ اس لیے نفس شبینہ کو تو ناجائز نہیں قرار دیا جاسکتا؛ لیکن اس میں جو غیر شرعی امور رائج ہوگئے ہیں جن کا سوال میں آپ نے ذکر کیا ہے ان سے احتراز لازم ہے۔(۱)(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُہلا ۱   قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاًہلا ۲  نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاًہلا ۳  اَوْزِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاًہط ۴ } (سورۃ المزمل: ۱، ۴)قام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی تورمت قدماہ فقیل لہ غفر اللّٰہ لک ما تقدم من ذنبک وما تأخر قال: أفلا أکون عبدا شکوراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ الفتح، باب قولہ: لیغفرلک اللّٰہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۶، رقم: ۴۸۳۶)حدثنا عبد اللّٰہ بن مسلمۃ، عن مالک، عن زید بن أسلم، عن عطاء بن یسار، … …عن عبد اللّٰہ بن عباس، قال: انخسفت الشمس علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقام قیاما طویلا نحوا من قراء ۃ سورۃ البقرۃ، ثم رکع رکوعا طویلا، ثم رفع فقام قیاما طویلا: وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم سجد ثم قام قیاما طویلا وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم رفع فقام قیاما طویلا وہو دون القیام الأول، ثم رکع رکوعا طویلا وہو دون الرکوع الأول، ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب صلاۃ الکسوف جماعۃً‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، رقم: ۱۰۵۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: رمضان المبارک کی ہر رات میں ہر شرعی مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، اگر مسجد میں تراویح کی جماعت نہ ہو تو اہل محلہ مذکورہ سنت ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوں گے؛ اس لیے اسی مسجد میں بقیہ بارہ رکعات بھی ادا کرنی چاہئیں۔’’إن أقامتہا بالجماعۃ سنۃ علی الکفایۃ حتی لو ترک أہل المسجد کلہم الجماعۃ فقد أساؤوا وأثموا‘‘(۱)پس اگر آٹھ رکعت پڑھا کر امام چلا جائے تو اپنا دوسرا امام مقرر کرکے باقی بارہ رکعت پوری کرلیں۔(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰۔(والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ) في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم، وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل قالہ الحلبي۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ۲، ص: ۴۹۵)و إن أقیمت التراویح في المسجد بالجماعۃ وتخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ لا السنۃ … وإن صلی واحد في بیتہ بالجماعۃ حصل لہم ثوابہا    وأدرکوا فضلہا ولکن لم ینالو فضل الجماعۃ التي تکون في المسجد لزیادۃ فضیلۃ المسجد وتکثیر جماعتہ وإظہار شعار الإسلام۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۸۴)(والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ) في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم، وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل قالہ الحلبي۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷، ۴۹۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 83

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز عشاء مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور پھر تراویح اپنے گھر جاکر ادا کرنا درست ہے، کیوں کہ تراویح کی نماز کے لیے مسجد شرط نہیں ہے، لیکن گھر میں جماعت سے نہ پڑھے تو جماعت کے ثواب سے اور جماعت سے پڑھے تو مسجد کے ثواب سے محرومی رہے گی۔(۱)(۱) (والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ) في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم، وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل قالہ الحلبي۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ۲، ص: ۴۹۵)وإن أقیمت التراویح في المسجد بالجماعۃ وتخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ لا السنۃ … وإن صلی واحد في بیتہ بالجماعۃ حصل لہم ثوابہا وأدرکوا فضلہا ولکن لم ینالوا فضل الجماعۃ التي تکون في المسجد لزیادۃ فضیلۃ المسجد وتکثیر جماعتہ وإظہار شعار الإسلام۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في النوافل‘‘: ص: ۳۸۴)(والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ) في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم، وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل قالہ الحلبي۔ (قولہ الأفضل في زماننا إلخ) لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ حلیۃ عن المحیط۔ وفیہ إشعار بأن ہذا مبني علی اختلاف الزمان، فقد تتغیر الأحکام لاختلاف الزمان في کثیر من المسائل علی حسب المصالح، ولہذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذہب أن الختم سنۃ لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصا في زماننا فالظاہر اختیار الأخف علی القوم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷، ۴۹۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر واقعی طور پر مسجد دور ہے اور عیدگاہ قریب ہے جس کی وجہ سے عیدگاہ میں پنجوقتہ نماز اور تراویح کی نماز باجماعت لوگ پڑھتے ہیں تو نماز (خواہ جماعت کے ساتھ ہو یا بغیر جماعت کے) ادا ہوجاتی ہے اور جماعت کی صورت میں ثواب بھی جماعت کا ملتا ہے البتہ چوں کہ عیدگاہ ہے اور عیدگاہ کا حکم عید کے وقت مسجد کا ہوتا ہے ناکہ دوسری نمازوں کے لیے، اس کا ثواب مسجد کی نماز کا نہ رہے گا مگر نماز اور جماعت کا ثواب برابر رہے گا۔(۱)(۱) أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۰)وفیہ إلی المصلی والخروج إلیہ، ولا یصلي في المسجد إلا عن ضرورۃ، وروي ابن زیاد عن مالک قال: السنۃ الخروج إلی الجبانۃ۔ (بدر الدین عیني، عمدۃ القاري، ’’کتاب العیدین: باب الخروج إلی المصلی‘‘: ج ۵، ص: ۱۷۱، مکتبہ زکریا دیوبند)عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج یوم الفطر، و الأضحیٰ إلی المصلی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العیدین: باب الخروج إلی المصلی بغیر منبر‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱، رقم: ۹۴۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نابالغ کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ یہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، امام شافعی ؒ فرض اور نفل ہر نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ فرض نمازمیں اقتداء کو درست نہیں کہتے ہیںاور نفل نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں اور احناف کے یہاں مفتی بہ روایت یہ ہے کہ فرض اور نفل دونوں میں نابالغ کی اقتداء درست نہیں ہے ۔ امام شافعیؒ نے عمرو بن سلمہؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ان کی قوم نے ان کو امام بنایا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سات سال یا آٹھ سال کی تھی ،لیکن امام احمد ؒاو ر امام مالکؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عمر و بن سلمہؓ کے واقعہ کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھااور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر و بن سلمہؓ کو امام بنانے کا حکم دیا تھا؛ بلکہ یہ لوگوں کااپنا اجتہاد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو وہ امامت کرے لوگو ں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ قرآن جاننے والے عمر و بن سلمہؓ ہیںاس لیے ان کو امام بنادیا، نیز یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے۔ علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں یہی جواب نقل کیا ہے۔’’قال أحمد بن حنبل: لیس فیہ اطلاع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أجیب بأن إمامتہ بہم کانت حال نزول الوحي و لایقع حالہ  التقدیر لأحد من الصحابۃ علی الخطاء‘‘(۱)نیز یہ مسئلہ ائمہ مذاہب کے ساتھ خود احناف کے یہاں بھی مختلف فیہ ہے، احناف کے یہاں مشائخ بلخ نے نفل نماز کو جائز قرار دیا ہے؛ اس لیے کہ نفل نماز میں بہت سی رعایت ہوتی ہے جس کی فرض میں گنجائش نہیں ہوتی ہے، پھر نابالغ کی نماز اور تراویح کی نماز دونوں نفل ہونے میں برابر ہیں؛  لیکن احناف کے یہاں مفتی بہ قول یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میںبھی امام نہیں بناسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بالغ کی نفل اور نابالغ کی نماز میں فرق ہوتا ہے ، اگر چہ نابالغ کی نماز نفل ہوتی ہے اور تراویح پر بھی نفل کا اطلاق ہوتا ہے لیکن نابالغ کی نماز، بالغ کی نماز کی طرح نہیں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر بالغ مرد نفل نماز شروع کرکے اس کو فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم ہوتی ہے اور نابالغ اگر نفل نماز شروع کرکے فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہوتی ہے معلوم ہوا کہ نابالغ کی نماز اگر چہ نفل ہے؛ لیکن بالغ مردوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ بالغ کی نفل نماز قوی ہے اور نابالغ کی نفل نماز ضعیف ہے اور قوی نماز پڑھنے والا ضعیف کی اقتداء نہیں کرسکتا ہے۔ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الامام ضامن‘‘(۱) کہ امام مقتدی کی نماز کا ضامن ہوتا ہے ، جب کہ نابالغ خود اپنی نماز کا ضامن نہیں ہوتا ہے تو وہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن کس طرح ہوگا؟ علامہ شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے کہ بالغ مردوں کی نماز حقیقی نماز ہے اور نابالغ کی نماز حقیقی نماز نہیں ہے اس لیے نابالغ کو امام بناکر اس کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے۔(۲)جن حضرات نے جائزقرار دیا ہے ان کے سامنے بھی دلائل ہیںاور جنہوں نے ناجائز قرار دیا ہے ان کے پاس بھی دلائل ہیں، احناف کے دلائل مضبوط ہیں ؛اس لیے کہ حدیث کے مطابق امام مقتدی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن ہوتاہے جب کہ نابالغ کسی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن نہیں ہوسکتا ہے؛ اس لیے کہ وہ مکلف ہی نہیں ہے ۔ اس لیے نابالغ کو تراویح میں امام بنانا درست نہیں ہے۔

(۱) شوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الإمامۃ وصفۃ الأئمۃ، باب ما جاء في إمامۃ الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أبواب الأذان، باب ما جاء أن الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۲۰۷۔(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یفسد الصلاۃ وما لا یفسدہ‘‘: ج۱، ص: ۴۰۷، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: حضرات ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ تراویح بیس رکعت سنت مؤکدہ ہے، صرف امام مالک کی ایک روایت یہ ہے کہ تراویح چھتیس رکعت سنت ہے،بیس سے کم کسی کا قول نہیں ہے۔ ابن قدامہ نے المغنی میں بیس رکعت تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے(۱) اس لیے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیس رکعت تروایح پر جمع کیا تو کسی بھی صحابی نے انکار نہیں کیا؛ جب کہ صحابہؓ دین میں مداہنت کے قائل نہیں تھے، او رنہ ہی سست یا بزدل تھے کہ کسی امر کو خلاف شریعت محسوس کریں اور اس پر انکار نہ کریں، اس عہد میں ایک عورت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوک دیا کرتی تھی اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بالکل یہ امر بعید ہے؛ بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تروایح پڑھائی تھی؛ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ سنن بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں بیس رکعت کا تذکرہ ہے۔’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یصلی في شہر رمضان في غیر جماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر‘‘(۲)اس حدیث میں ایک راوی عثمان ابوشیبہ ہیں جو ضعیف ہیں اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے؛ لیکن حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل اور اجماع اور تواتر عملی سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا  ہے۔امام ترمذی فرماتے ہیں:’’أکثر أہل العلم علی ما روي علی وعمر وغیرہما من أصحاب النبي عشرین رکعۃ‘‘(۱)علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:’’اعلم أن صلاۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء و ہي عشرون رکعۃ یسلم من کل رکعتین‘‘(۲)امام شافعی کا قول ہے: ’’أدرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’أحب إلي عشرون و کذلک یقومون بمکۃ‘‘حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھائی پھر تیسرے دن آپ فرضیت کے اندیشے سے تشریف نہیں لائے(۳) اس طرح دلائل بہت زیادہ ہیں جس میں تراویح کی نماز بیس رکعت ہونے کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔بعض حضرات کو تراویح کے آٹھ رکعت ہونے پر اصرار ہے اور جب کہ بعض حضرات اختیار کے قائل ہیں کہ جتنا چاہیں پڑھ لیں اس میں گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ کا ایک قول نقل کیا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر چاہے تو بیس رکعت تراویح پڑھے، جیسا کہ امام شافعی اور احمد کی رائے ہے اور چاہے توچھتیس رکعت تراویح پڑھے جیسا کہ امام مالک کی رائے ہے اور چاہے تو گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت پڑھے یہ سب درست ہے اور یہ رکعت کی کمی اور زیادتی قیام کی کمی زیادتی کی بناء پر ہے یعنی اگر قیام لمبا کرے تو گیارہ بھی پڑھ سکتا ہے اوراگر قیام مختصر کرے تو بیس رکعت یا چھتیس رکعت پڑھے،ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے کہ آپ اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو، پھر جب  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو تراویح کی جماعت پر مجتمع کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اس درجہ قیام کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی؛ اس لیے طول قیام کی تلافی کے لیے رکعت کا اضافہ کردیا گیااور دس کی جگہ بیس رکعت تراویح ہوگئی انہوں نے دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہ توجیہ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں حقیقت کا احتمال ہوسکتا ہے یقین نہیں ہے پھر بھی جو لوگ ابن تیمیہ کے فلسفہ کو تسلیم کرتے ہیں ان کو بھی بیس رکعت کا ہی اہتمام کرنا چاہے؛ اس لیے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طول قیام کو برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی تو آج کون لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تراویح کی نماز پڑھیں گے؟ اس لیے ابن تیمیہ کی توجیہ کے مطابق بھی بیس رکعت تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے۔علامہ ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:’’ثبت أن أبي بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ في قیام رمضان، ویوتر بثلاث فرأی کثیر من العلماء إن ذلک ہو السنۃ لأنہ أقامہ بین المہاجرین و الأنصار و لم ینکرہ منکر و استحب آخرون تسعۃ و ثلاثین رکعۃ بناء علی أنہ عمل المدینۃ القدیم وأبي بن کعب لما قام بہم وہم جماعۃ واحدۃ لم یمکن أن یطیل بہم القیام فکثر الرکعات لیکون عوضا عن طول القیام وجعلوا ذلک ضعف عدد رکعاتہ فإنہ یقوم باللیل إحدی عشرۃ أو ثلاث عشرۃ ثم بعد ذلک کان الناس بالمدینۃ ضعفوا عن طول القیام فکثروا الرکعات حتی بلغت تسعا و ثلاثین‘‘(۱)ذرا ایک نظر اس روایت پر بھی ڈال لیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیا رہ رکعت پڑھا کرتے تھے تم اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور لمبی ہوتی تھی۔(۲) اس روایت سے تراویح کے آٹھ رکعت  پر استدلال کیا گیا ہے۔ لیکن اس استدلال میں بڑی خامی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز کوخلط ملط کردیا گیا ہے اس روایت میں تہجد کا تذکرہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان دونوں میں گیا رہ رکعت پڑھتے تھے اس کا صاف مطلب ہے کہ تہجد کی نماز ہے؛ کیوں کہ غیر رمضان میں تروایح نہیں ہے۔ اور اس روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے کہ اس گیا رہ رکعت کے علاوہ آپ رمضان میں مزید نمازیں نہیں پڑھتے تھے، ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آ پ کے تہجد کا معمول اور اس کی عمدگی کو بیان کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء کی پیروی کرنا، یہ صحیح سندسے ثابت ہے بیس رکعت حضرت عمر کے زمانے میں طے ہوگئی تھی جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اتفاق کیا تھا۔(۱) ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: باب الساعات التي نہی عن الصلاۃ فیہا، صلاۃ التراویح، فصل والمختار عند أبي عبد اللّٰہ رحمہ اللّٰہ فیہا عشرون رکعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶)(۲) أخرجہ البیہقي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما روي في عدد رکعات القیام في شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، رقم: ۴۷۹۹، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔)(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’کتاب الصوم: باب ما جاء في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶۔(۲) النووی، کتاب الأذکار، ’’باب أذکار صلاۃ التراویح‘‘: ص:۹۹۲۔(۳) ابن حجر، التلخیص الحبیر، ’’باب صلاۃ التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۵۴۰۔(۱) ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ’’باب تنازع العلماء في مقدار القیام في رمضان‘‘: ج ۲۳، ص: ۱۱۲، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد: باب قیام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في رمضان وغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۱۱۴۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 74