نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحابۂ کرامؓ اور اکابر واسلاف سے ایسا کرنا ثابت نہیں، اگر یہ عمل ضروری یا باعث ثواب ہوتا، تو صحابۂ کرامؓ وعلماء عظام ایسا ضرور کرتے، اس لیے اس نئی چیز سے امام موصوف کو احتراز کرنا چاہئے، بعض علماء نے تواقامت کہنے والے کو بھی چہرہ پھیرنے سے منع کیا ہے؛ کیوں کہ اقامت میں اس کی ضرورت نہیں رہی؛ اس لیے اقامت کہنے والے کے علاوہ لوگوں کو اس طرح کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ (۱)

(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً، وقیل: إن المحل متسعا یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلوٰۃ وفلاح ولو وحدہ، أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص197

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ سے مراد وہ قعدہ ہے جو امام کا قعدہ اخیرہ ہو جس میں مسبوق کو صرف تشہد پڑھنا چاہئے خواہ آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام تک تشہد پورا ہوجائے یا تشہد ہی کو مکرر پڑھتا رہے اس پر درود دعاء کا اضافہ نہ کرے۔(۲)

(۲) ومنہا أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الأمام في التشہد الأخیر، وإذا أتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص43

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح چادر یا کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ چادر اوڑھے ہوئے ہی ہاتھ اٹھائیں یا باہر نکال کر ہاتھ اٹھائیں دونوں درست اور جائز ہیں؛ لیکن چادر اس طرح اوڑھ کر نماز پڑھنا کہ منہ اور ناک چھپ جائے مکروہ ہے۔(۱)
(۱)یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ والتلثم: وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳، زکریا)
ویکرہ التلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: {انی لأجد} کے معنی ہیں کہ میں یقیناً اور بلا شبہ پاتا ہوں، محسوس کر رہا ہوں اور ’’انی لا أجد‘‘ کے معنی ہیں کہ میں بالکل نہیں پاتا محسوس نہیں کرتا تو ’’لا أجد‘‘ پڑھنے سے معنی بالکل بدل گئے اس لیے نماز نہیں ہوئی۔(۲)

(۲) وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو: إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص275

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دو دو رکعت پڑھنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) حدثنا أبو الیمان قال: أخبرنا شعیب عن الزہري قال: أخبرني سالم بن عبد اللّٰہ: أن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: إن رجلاً قال: یا رسول اللّٰہ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کیف صلاۃ اللیل؟ قال: مثنیٰ مثنیٰ فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدۃ۔ (فیض الباري، ’’کتاب التہجد: باب کیف کانت صلاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و کم کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی من اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۱۱۳۷، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
والأفضل في اللیل عند أبي یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ مثنیٰ مثنیٰ، وفي النہار أربع أربع، وعند الشافعي رحمہ اللّٰہ فیہما مثنیٰ مثنیٰ، وعند أبي حنیفۃ فیہما أربع أربع۔ (بدر الدین العیني، البنایۃ في شرح الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۵، دارالفکر)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص385

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کے پیچھے نماز درست ہوجائے گی تاہم مستقل ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، (۱)   کوئی اور خامی ہو تو تحریر فرما کر معلوم کر لیا جائے۔

(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب: المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳؛ و أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۵)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)
ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضاً:)
فإن کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ ۔۔۔۔۔ ہکذا في المحیط وإن غیر المعنی نحو أن یقرأ وزرابیب مبثوثۃ مکان وزرابي تفسد، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع، صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص217

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اختلاف جس بنا پر ہے وہ غیر شرعی اختلاف ہے، اختلاف کرنے والوں کو چاہئے کہ امام و پیشوا کا منصب پہچان کر اختلاف کو ختم کریں اور بغیر وجہ شرعی اختلاف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ایسے امام کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)
 لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ فیہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (الحصکفی، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز باجماعت میں اقامت کہنا سنت ہے، جب کہ انفرادی طور پر اگر نماز پڑھی جائے تو اس صورت میں اقامت کہنا مستحب ہوگا اور اگر کوئی شخص اقامت کے بغیر ہی نماز پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے اور گناہ کا باعث ہے، الحاصل: قصداً اقامت کو چھوڑنا مکروہ ہے اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز گھر پر ہی ادا کرنی پڑے تو ایسی صورت میں مسجد کی اقامت کافی ہے، گھر میں اقامت چھوٹ جائے یا چھوڑ دے تو گناہ نہیں ہوگا۔
’’و‘‘ کذا’’الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ‘‘ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلي اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا ’’للفرائض‘‘، ومنہا الجمعۃ  فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما، ولو ترک الأذان وحدہ  لایکرہ کذا في المحیط، ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص198

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی نماز پوری ہو جائے وہ اپنی نماز پوری ہونے پر بیٹھا رہے امام نماز پوری کرکے جب سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیردے۔(۱)

(۱) و لو کان الذین خلف الإمام المحدث کلہم مسبوقون، ینظر إن بقي علی الإمام شيء من الصلاۃ فإنہ یستخلف واحدا منہم، لأن المسبوق یصلح خلیفۃ لما بینا، فیتم صلاۃ الإمام ثم یقوم إلی قضاء ما سبق بہ من غیر تسلیم لبقاء بعض أرکان الصلاۃ علیہ۔  وکذا القوم یقومون من غیر تسلیم ویصلون وحدانا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شرائط جواز الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص:۵۳۰،دارالکتاب، دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص44

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے بلا ضرورت بدن کھجلانا، بدن پر ہاتھ پھیرتے رہنا مکروہ تحریمی ہے۔ ’’وعبثہ بہ وبثوبہ وبجسدہ للنہي إلالحاجۃ ولا بأس بہ خارج الصلاۃ‘‘(۲) یعنی بلا ضرورت اپنے کپڑے اور بدن سے کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)
(۲) وکرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمرکم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ و بجسدہ للنہی إلالحاجۃ۔ (قولہ للنہي) وہو ما أخرجہ القضاعي عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ کرہ لکم ثلاثا:  العبث في الصلاۃ، والرفث في الصیام، والضحک في المقابر۔ وہي کراہۃ تحریم کما في البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، ۴۰۷)
(۳) یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني، فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، مکتبۃ الفیصل دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158