Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث میں تین جگہ سکتہ کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک جگہ {ولا الضالین} کے بعد ہے تاکہ آمین کہہ لے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک مختصر سکتہ کا حکم ہے سکتہ طویلہ مکروہ ہے،(۱) مذکورہ امام اگرطویل سکتہ کرتے ہیں تو ان کے پیچھے نماز مع الکراہت ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن اگر امام بلا عذر ایسا کرتے ہیں، تو اس کی عادت ترک کردیں۔
(۱) قال سعید: فقلنا لقتادۃ: ماہاتان السکتتان ؟ قال: إذا دخل في صلاتہ وإذا فرغ من القراء ۃ۔ ثم قال بعد ذلک: وإذا قرأ: ولا الضالین۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في السکتتین‘‘: ج۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص157
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: قرآن کریم کی تلاوت قواعد تجوید کی رعایت کے ساتھ کرنی چاہئے اور امام صاحب کو تو اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور اسی کو امام بنانا چاہئے جو قواعد تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھے۔ باقی اگر معنی میں تغیر نہ ہو تو نماز ادا ہوجاتی ہے۔
’’والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ … ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا‘‘(۱)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، حنفی کے لیے اس میں شامل ہونا درست ہے؛ اس لیے کہ جو ائمہ اس نماز کی جماعت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں۔
’’الحنابلۃ قالوا: أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ: کصلاۃ التہجد‘‘(۱)
(۱)حاشیۃ الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، ’’البلوغ وہل تصح إمامۃ الصبي‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۲، دار الغد الجدید
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص384
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 /
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جنازہ کی نماز مسجد میں اور مسجد کے برآمدہ میں ادا کرنا مکروہ ہے۔ اس کا انتظام مسجد کے باہر ہی ہونا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بہتر یہ ہے کہ امام صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ قرآن کو درست کرلیں تاہم نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی بشرطیکہ کوئی مفسد صلوٰۃ پیش نہ آئے، اگر ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو مفسد صلوٰۃ ہیں تو پھر امام صاحب سے بڑے ادب و احترام کے ساتھ منصب امامت ترک کرنے کی درخواست کرکے کسی دوسرے شخص کو جس میں اوصاف امامت موجود ہوں امام تجویز کرلیا جائے اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ جو کچھ کیا جائے اخلاص و للہیت کے جذبہ سے ہی ہو کسی اور جذبہ فاسد سے نہ ہو اور باہمی مشورہ سے کیا جائے تاکہ کوئی فتنہ برپا نہ ہو اللہ تعالیٰ سب کو اخلاص عطا فرمائیں۔(۱)
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب: المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۵)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)
فإن کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ ۔۔۔۔۔ عند عامۃ المشایخ ۔۔۔۔۔ہکذا في المحیط، وإن غیر المعنی نحو أن یقرأ وزرابیب مبثوثۃ مکان وزر ابي ۔۔۔۔۔ تفسد، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص216
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد کتاب پڑھنا یا سننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اس میں عدم شرکت کی بناء پر کوئی گناہ نہیں۔ تعلیم دین کے لیے نماز کے بعد کتاب پڑھی جاتی ہے۔ امام صاحب اپنے مقتدیوں کے معیارِ تعلیم اور ان کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کسی کتاب کا انتخاب کریں مشورہ بھی مقتدیوں سے کرلیں تو بہتر ہے۔ جس کتاب کا امام صاحب انتخاب کریں اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ بیٹھ سکے تو اس کو طعنہ دینا ہر گز جائز نہیں ہے اور صرف ان باتوں کی وجہ سے امام صاحب سے اختلاف ’’البغض في اللّٰہ‘‘ میں داخل نہیں، بغیر وجہ شرعی کے کسی عام انسان سے بغض رکھنا جائز نہیں، تو امام صاحب جو قابلِ عزت واحترام ہیں جو پیشوا ہیں ان سے کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ہاں ایک نماز کے بعد امام صاحب کوئی کتاب تعلیم دین کے لیے پڑھیں اور دوسرے یا وہی لوگ دوسرے وقت دوسری کتاب حسب ضرورت پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہمیشہ کے لیے کسی ایک کتاب کو لازم سمجھ لینا بھی اصول تعلیم کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یطالب أحداً بشيء سوی ماذکرناہ وکذلک الخلفاء الراشدون ومن سواہم من الصحابۃ ومن بعدہم من الصدر الأول، (شرح المہذب، ج۱، ص: ۲۴)، دارالفکر۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحابۂ کرامؓ اور اکابر واسلاف سے ایسا کرنا ثابت نہیں، اگر یہ عمل ضروری یا باعث ثواب ہوتا، تو صحابۂ کرامؓ وعلماء عظام ایسا ضرور کرتے، اس لیے اس نئی چیز سے امام موصوف کو احتراز کرنا چاہئے، بعض علماء نے تواقامت کہنے والے کو بھی چہرہ پھیرنے سے منع کیا ہے؛ کیوں کہ اقامت میں اس کی ضرورت نہیں رہی؛ اس لیے اقامت کہنے والے کے علاوہ لوگوں کو اس طرح کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ (۱)
(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً، وقیل: إن المحل متسعا یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلوٰۃ وفلاح ولو وحدہ، أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ، وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص197
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ سے مراد وہ قعدہ ہے جو امام کا قعدہ اخیرہ ہو جس میں مسبوق کو صرف تشہد پڑھنا چاہئے خواہ آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام تک تشہد پورا ہوجائے یا تشہد ہی کو مکرر پڑھتا رہے اس پر درود دعاء کا اضافہ نہ کرے۔(۲)
(۲) ومنہا أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الأمام في التشہد الأخیر، وإذا أتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص43
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح چادر یا کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ چادر اوڑھے ہوئے ہی ہاتھ اٹھائیں یا باہر نکال کر ہاتھ اٹھائیں دونوں درست اور جائز ہیں؛ لیکن چادر اس طرح اوڑھ کر نماز پڑھنا کہ منہ اور ناک چھپ جائے مکروہ ہے۔(۱)
(۱)یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ والتلثم: وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳، زکریا)
ویکرہ التلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: {انی لأجد} کے معنی ہیں کہ میں یقیناً اور بلا شبہ پاتا ہوں، محسوس کر رہا ہوں اور ’’انی لا أجد‘‘ کے معنی ہیں کہ میں بالکل نہیں پاتا محسوس نہیں کرتا تو ’’لا أجد‘‘ پڑھنے سے معنی بالکل بدل گئے اس لیے نماز نہیں ہوئی۔(۲)
(۲) وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو: إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص275