نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں گاؤں والے اگر اس امام کی شرعی بناء پر مخالفت کرتے ہیں، تو اس کو چاہئے کہ امامت کو چھوڑ دے، کیوں کہ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام سے نمازی کراہت کرتے ہوں اس کو امامت چھوڑ دینی چاہئے اور متولی عیدگاہ کو چاہئے کہ دیندار پرہیزگار امام متعین کریں۔لیکن اس کے الگ کرنے میں اگر فتنہ کا اندیشہ ہو، تو حسن تدبیر کے ساتھ ان کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ اور جب تک وہ شخص امامت پر باقی رہے اس کی اقتداء میں نماز اداء کرتے رہیں اس کی امامت میں نماز بکراہت ادا ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن ابن عمر -رضی اللّٰہ عنہما- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلثۃ لاتقبل منہم صلوٰتہم من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ، ورجل اعتبد حجرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۰۰، رقم: ۱۱۲۳،یاسر ندیم دیوبند)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الامامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص302

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کی طرح اقامت بھی سنت ہے اور خارج نماز ہے اس سنت کے ترک سے نماز کا اعادہ لازم نہیں اور سہوا ترک سے اس پر کوئی وعید بھی نہیں ہے۔
’’وھو أي الأذان سنۃ موکدۃ کالواجب، والإقامۃ کالأذان، ترک السنۃ لایوجب فسادا ولا سھوا بل إساء ۃ لوعامدا  غیر مستخف، وقالوا: الإساء ۃ أدون من الکراہۃ‘‘(۱)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح ’’کتاب الصلاۃ، فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۶)
ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتا شی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص199

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ متصل سلام پھیرا تھا تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا لیکن اگر مسبوق نے امام کے متصل سلام نہ پھیرا اس کے لفظ السلام کہنے میں امام سے تاخیر ہوئی ہو تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے،اسی طرح اگر مسبوق بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو آخر میں سجدہ سہوکرلے اور اگر مسبوق عمداً امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا ہو کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہو جائے گی، اعادہ ضروری ہوگا اور جن صورتوں میں مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو وقت کے اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’قولہ والمسبوق یسجد مع إمامہ … فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ؛  وإن سلم بعد لزمہ لکونہ منفرداً حینئذ، بحر۔ وأراد بالمعیۃ المقارنۃ، وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ۔  وفیہ :  ولو سلم علیٰ ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء‘‘(۱)
’’ولو سلم ساہیا إن بعد إمامہ لزمہ السہو وإلا لا۔ ’’قولہ ولم سلم ساہیا: قید بہ لأنہ لو سلم مع الإمام علی ظن أنہ علیہ السلام معہ فہو سلام عمد فتفسد کمافي البحر عن الظہیریۃ۔ قولہ: لزمہ السہو لأنہ منفرد في ہذہ الحالۃ … قولہ وإلا لا … أي وإن سلم معہ أو قبلہ لا یلزمہ لأنہ مقتد في ہاتین الحالتین‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص:۵۴۶، ۵۴۷، زکریا۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص45

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر دوسروں کی نمازوں میں خلل پیدا ہوتا ہے تو ان کو ایسی عادت چھوڑدینی چاہئے کہ دوسروں کی نماز میں خلل ڈالنے والا کوئی عمل کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)
(۱) في حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا، إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ الخ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۴۳۴)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص159

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس قسم کی غلطی سے اگر معنی میں تغیر ہوگا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر تغیر نہیں ہوگا تو نماز فاسد نہیں ہوگی جہاں پر غلطی ہوئی نشاندھی فرماکر مسئلہ معلوم کیا جائے۔(۱)

(۱) وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص277

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کے بعد نفل پڑھنا بلاشبہ درست اور جائز ہے اور ثابت بھی ہے۔(۲)

(۲) عن أم سلمۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر: باب ما جاء لا وتران في لیلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
عن أم سلمۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الوتر رکعتین خفیفتین وہو جالس۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب ما جاء في الرکعتین بعد الوتر جالساً‘‘: ص: ۸۳، رقم: ۱۱۹۵، نعیمیہ دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص386

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1790/43-1529

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سنن مؤکدہ وقت کے اندر ادا نمازوں کے ساتھ ہی پڑھی جاتی ہیں ، سنن مؤکدہ  کی قضا نہیں ہے، صرف فرض نمازوں کی قضا  کی جائے گی۔  البتہ جس وقت قضا کریں اس وقت کی فرض نماز اور سنن مؤکدہ کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔  سنن مؤکدہ وقت کے اندر وقتیہ فرض کے ساتھ  پڑھنا واجب کے قریب ہے، اس کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے وقتیہ فرض اور سنن مؤکدہ کو ادا کرنے کے بعد چھوٹی ہوئی فرض  اورواجب  نماز  کی قضا پڑھے۔  

إن التطوع على وجهين سنة مؤكدة وهي السنن الرواتب وغير مؤكدة وهو ما زاد عليها والمصلي لا يخلو إما أن يؤدي الفرض بجماعة أو منفرد فإن كان يؤديه بجماعة فإنه يصلي السنن الرواتب قطعا ولا يتخير فيها مع الإمكان لكونها مؤكدة وإن كان يؤديه منفردا فكذلك الجواب في رواية وقيل يتخير؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - واظب عليها عند أداء المكتوبة بالجماعة ولم يرو أنه - عليه الصلاة والسلام - واظب عليها وهو يصلي منفردا فلا يكون سنة بدون المواظبة والأول أحوط؛ لأنها شرعت قبل الفرض لقطع طمع الشيطان عن المصلي وبعده لجبر نقصان يمكن في الفرض والمنفرد أحوج إلى ذلك والنص الوارد فيها لم يفرق فيجري على إطلاقه إلا إذا خاف الفوت لأن أداء الفرض في وقته واجب، (تبیین الحقائق، باب ادراک الفریضۃ 1/184)

بخلاف سنة الهدي، وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأن تركها استخفاف بالدين، (الدرالمختار مع الشامی، سنن الوضوء 1/103)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لحنِ جلی سے پڑھنے کی صورت میں اگر کلمہ میں تغیر ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر لحن صرف حروف مدولین میں ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ لحن جلی فاحش نہ ہو، جو نماز پڑھی گئی اور اس کی قرأت میں کسی کلمہ میںتغیر نہ ہو تو نماز آپ کی اور امام اوردوسرے مقتدی کی صحیح ہوجائے گی اس لیے جماعت ہی سے نماز پڑھا کریں۔(۱)

(۱) ومنہا القراء ۃ بالألحان إن غیر المعنی وإلا لا إلا في حرف مد ولین إذا فحش وإلا لا۔ بزازیۃ، (قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ (الحمد للّٰہ رب العالمین) (الفاتحۃ:۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ: وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی، وحروف المد واللین ہي حروف العلۃ الثلاثۃ الألف والواو والیاء إذا کانت ساکنۃ وقبلہا حرکۃ تجانسہا، فلو لم تجانسہا فہي حروف علۃ ولین لا مد۔ تتمۃ۔ فہم مما ذکرہ أن القراء ۃ بالألحان إذا لم تغیر الکلمۃ عن وضعہا ولم یحصل بہا تطویل الحروف حتی لا یصیر الحرف حرفین بل مجرد تحسین الصوت وتزیین القراء ۃ لا یضر، بل یستحب عندنا في الصلاۃ وخارجہا کذا فی التتارخانیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص: ۹۳، ۳۹۲)
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ) وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (قولہ: ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم بعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص218

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر متولی یا انتظامیہ کمیٹی موجود ہوں اور ان کی طرف سے ضابطہ اور قانون متعین ہے اور اس کی ملازمت یا تقرر کے وقت جو معاملہ طے ہوا ہے اس کے خلاف ورزی کرتا ہو، تو تنخواہ کا مستحق نہ ہوگا غیر حاضری کی تنخواہ وضع ہوگی۔ نیز دھمکی کے مذکورہ الفاظ کہنے جائز نہیں۔(۱)

(۱) الإجارۃ عقد یرد علی المنافع بعوض ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۳)
وإذا شرط علی الصانع أن یعمل بنفسہ فلیس لہ أن یستعمل غیرہ وإن أطلق لہ العمل فلہ أن یستاجر من یعملہ لأن المستحق عمل في ذمتہ ویمکن إیفاء ہ بنفسہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۹۶، دارالکتاب دیوبند)
لو استوجر أحد ہولاء علی أن یعمل للمستاجر إلی وقت معین یکون أجیراً خاصاً في مدۃ ذلک الوقت، مجلۃ الأحکام العدلیۃ مع شرحہا۔ (درر الحکام لعلي حیدر، ص: ۴۵۴، رقم المادۃ: ۴۲۲، دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع)، الریاض۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص303

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نمازی کم ہوں اور صف اول میں تکبیر کہنے سے سب کو آواز پہنچتی ہے، تو تکبیر واقامت صف اول میں کہنا بہتر ہے، ہاں اگر سب کو آواز نہ پہنچے اور درمیان کی کسی صف میں تکبیر کہی جائے کہ جس وجہ سے سب کو آواز پہنچ جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ۔۔۔۔ والأحسن أن یکون إماما في الصلوٰۃ إلی قولہ: وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضیخان وإن لم ینزل وأقام أجزاہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج۱، ص: ۱۱۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص200