نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت مسجد کے نچلے حصہ میں ہی ہونی چاہئے؛ لیکن کسی ضرورت مثلاً شدت گرمی کی وجہ سے مسجد کے اوپر کے حصہ میں نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے اور مسجد ہی کا ثواب ملے گا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱)

(۱) وکرہ تحریماً الوطأ فوقہ والبول والتغوّط لأنہ مسجد إلی عنان السماء، قال الزیلعي: ولہٰذا صح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذ لم یتقدم علی الإمام ولایبطل الاعتکاف بالصعود إلیہ ولایحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب فيأحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
عند العذر کما في الجمعۃ والعیدین فإن القوم یقومون علی الخذف والإمام علی الأرض لم یکرہ ذلک لضیق المکان، کذا في النہایۃ … والأصح أنہ لایکرہ وبہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین في أغلب الأمصار۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۴۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص435

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللہ التوفیق:غروب کے ڈیڑھ گھنٹہ (شفق ابیض کے غروب ہونے کے بعد) عشاء کی نماز پڑھنی چاہئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری ہو تو ایک گھنٹہ (شفق احمر کے غروب کے) بعد بھی پڑھی جاسکتی ہے یہ صاحبین رحمہما اللہ کا مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قرأت کرنا فرض ہے، پہلی رکعت میں اس نے قرأت نہیں کی اس لیے ترک فرض کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی، اعادہ کرنا لازم ہے۔(۱)

(۱) ومنہا القراء ۃ: وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، زکریا دیوبند)
وفي الولو الجیۃ‘‘ الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض، وسنۃ، وواجب ففي الأول: أمکنہ التدارک بالقضاء یقضي وإلا فسدت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، زکریا دیوبند)
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بقرأۃ‘‘ رواہ مسلم من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ وعلیہ انعقد الإجماع … (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ص: ۲۲۵، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1741/43-1439

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان میں حی علی الصلوۃ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور حی علی الفلاح کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیرنا مسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہ کرنا چاہئے،کہ ایسا کرنا مکروہ ہے،  لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہوگئی اوراس کے بعد پڑھی گئی نمازبلاکراہت درست ہوگئی۔ 2 جو شخص اذان دے اقامت  کہنا بھی اسی کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے اگر مؤذن ناراض ہوتاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہوتاہے تو دوسرا شخص بلااجازت بھی اقامت کہہ سکتاہے۔ نماز بہرصورت درست ہوجاتی ہے۔

قوله: ويلتفت يمينًا وشمالًا بالصلاة والفلاح) لما قدمناه ولفعل بلال - رضي الله عنه - على ما رواه الجماعة، ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح؛ لكونه سنة الأذان فلايتركه خلافًا للحلواني؛ لعدم الحاجة إليه، وفي السراج الوهاج: أنه من سنن الأذان فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. اهـ.

وقيد باليمين والشمال؛ لأنه لايحول وراءه لما فيه من استدبار القبلة، ولا أمامه لحصول الإعلام في الجملة بغيرها من كلمات الأذان، وقوله بالصلاة والفلاح لف ونشر مرتب، يعني أنه يلتفت يمينًا بالصلاة وشمالاً بالفلاح، وهو الصحيح خلافًا لمن قال: إن الصلاة باليمين والشمال والفلاح كذلك، وفي فتح القدير: أنه الأوجه، ولم يبين وجهه، وقيد بالالتفات؛ لأنه لايحول قدميه؛ لما رواه الدارقطني عن بلال قال: «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أذّنّا أو أقمنا أن لانزيل أقدامنا عن مواضعها»، وأطلق في الالتفات ولم يقيده بالأذان، وقدمنا عن الغنية أنه يحول في الإقامة أيضًا، وفي السراج الوهاج: لايحول فيها؛ لأنها لإعلام الحاضرين بخلاف الأذان فإنه إعلام للغائبين، وقيل: يحول إذا كان الموضع متسعًا". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (1/ 272)

ويحول في الإقامة إذا كان المكان متسعًا وهو أعدل الأقوال كما في النهر". حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 197)
"وفي البستان: لايحول في الإقامة إلا لإناس ينتظرون، ذكره التمرتاشي. اهـ. كاكي". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 92)
 أقام غير من أذن بغيبته) أي المؤذن (لا يكره مطلقاً)، وإن بحضوره كره إن لحقه وحشة‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک شخص صرف حافظ ہے اور دوسرا شخص عالم باعمل ہے پس اگر کوئی مقررہ امام مسجد موجود نہ ہو یا اس کا قائم مقام نہ ہو تو ایسی صورت میں عالم دین کو امامت کا مستحق قرار دیا جائے گا یہی افضل اور بہتر ہے جیسا کہ ہدایہ، شامی، البحرالرائق اور فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔(۲)

(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
 الأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصبا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے، اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لیے یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں
اور صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے؛ لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔
’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم، وکان في زمن عمر رضي اللّٰہ تعالی عنہ رجل موکل علی التسویۃ، کان یمشی بین الصفوف ویسوِّیہم، وہو واجب عندنا تکرہ الصلاۃ بترکہ تحریمًا، وسنۃ عند الشافعیۃ لانتفاء مرتبۃ الواجب عندہم، وذہب إبن حزم إلی أنہ فرض‘‘(۱)
’’عن أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ‘‘(۲)
’’قال علیہ السلام: لتسون صفوفکم، أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وفیہ: أنس، قال الرسول:  أقیموا الصفوف، فإني أراکم من وراء ظہری۔ تسویۃ الصفوف من سنۃ الصلاۃ عند العلماء، وإنہ ینبغي للإمام تعاہد ذلک من الناس،  وینبغی للناس تعاہد ذلک من أنفسہم، وقد کان لعمر وعثمان رجال یوکلونہم بتسویۃ الصفوف، فإذا استوت کبرا إلا أنہ إن لم یقیموا صفوفہم لم تبطل بذلک صلاتہم۔ وفیہ: الوعید علی ترک التسویۃ‘‘(۱)
’’قلت: قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تراصوا، وقولہ: رصوا صفوفکم، وقولہ: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشیطان، وقول النعمان بن بشیر: فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ الخ، وقول أنس: وکان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ
الخ، کل ذلک یدل دلالۃ واضحۃ علی أن المراد باقامۃ الصف وتسویتہ إنما ہو اعتدال القائمین علی سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم، وعلی أن الصحابۃ في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یفعلون ذلک، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل کان في الصدر الأول من الصحابۃ وتبعہم، ثم تہاون الناس بہ‘‘(۲)
’’أي یصفہم الإمام بأن یأمرہم بذلک۔ قال الشمني: وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا مناکبہم ویقف وسطا‘‘(۳)

(۱) الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔
(۱) ابن بطال، فتح الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۲، ص: ۳۳۴۔
(۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الاول‘‘: ج۲، ص: ۵۵۔
(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘ج۲، ص: ۳۰۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص436

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان کے کناروں پر جو سرخی رہتی ہے۔ اس کو شفق کہتے ہیں جب تک یہ سرخی موجود رہے جو تقریباً غروب سے ایک گھنٹہ تک رہتی ہے۔ اس وقت تک مغرب کی نماز ہوسکتی ہے۔(۲) بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذرا سا اندھیرا ہوا تو وقت مغرب ختم ہوگیا یہ غلط ہے البتہ قصداً نماز مغرب میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔(۱) تاہم اگر شفق سرخ کے غروب ہونے سے پہلے پڑھ لے تو مغرب کی نماز ادا ہو جائے گی۔
 

(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) أیضًا۔

(۱) ویستحب أیضاً تعجیل المغرب في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم کما في الصحیحین۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۵، دار الکتاب، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فاقرء وا ما تیسر من القرآن} اس آیت میں بآسانی قرأت کرنے کا حکم ملتا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃالفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم میں آسان ہو اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ومنہا القرء ۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمۃ اللّٰہ علیہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترک فرض (سورۂ فاتحہ اور قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
 

(۱) أخرجہ أبوداود، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم:۸۱۸، ومسند أحمد، ’’مسند أبی ہریرۃؓ‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۳۹، رقم: ۷۲۹۱۔
(۲) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج۱ ، ص: ۱۷۰، رقم:۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔…

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص348

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان دونوں میں سے جو شخص مسائل نماز سے واقف اور پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنے والا ہے وہ ہی افضل ہے کہ اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے اس صورت میں {إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم} پر عمل کیا جائے اور جو نماز نہیں پڑھتا وہ فاسق ہے  اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے جماعت میں نہ دیکھنے یا اس کے حاضر جماعت نہ ہونے کی وجہ کو معلوم کریں کوئی شرعی عذر تو نہیں ہے۔(۱)

(۱) فإن تساووا فأورعہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ،…الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلندی کی کم سے کم حد کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے اس سے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں اس بات کی تصریح نہیں ہے، ابو داؤد میں روایت ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ نماز پڑھانے کے لیے آگے پڑھے، تو اونچی جگہ پر کھڑے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے امام کو اونچی جگہ کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے، چوں کہ اس کی کوئی مقدار مقررہ حدیث میں نہیں ہے؛ اس
لیے اختلاف ہونا بھی لازمی ہے اس میں دو قول معتبر سمجھے گئے ہیں۔
(۱) ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ کی مقدار بلندی ممنوع ومکروہ ہے اس سے کم مکروہ نہیں دلیل یہ ہے کہ نمازی کے لیے سترہ کی بلندی کی مقدار کم از کم ایک ذراع ہے یعنی ایک ہاتھ کے برابر ہے اس پر قیاس کر کے امام کی جگہ کی بلندی کی مقدار بھی یہی ہوگی کہ ایک ذراع کے برابر مکروہ ہوگی اور اس سے کم میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
(۲) اتنی بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے کہ نمایاں طور پر امام مقتدیوں سے ممتاز اور الگ معلوم ہوتا ہو، دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مطلق بلندی ممنوع ہے؛ لہٰذا جتنی بلند جگہ پر امام مقتدیوں سے جدا اور نمایاں معلوم ہوتا ہو اتنی بلندی مکروہ ہونی چاہیے، اور جیسے یہ بلندی بڑھتی چلی جائے گی کراہت میں زیادتی ہوتی جائے گی۔
لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے کہ اس پر امام کھڑا ہوکر نمایاں اور ممتاز معلوم نہ ہو اور معمولی سی بلندی تو قریب قریب ہر جگہ ہی ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز ممکن نہیں ہے؛ اس لیے چھ سات انچ کی بلندی تو مکروہ ہوگی اور اس سے کم بلندی باعث کراہت نہ ہوگی یہ بظاہر معلوم ہوتا ہے۔(۱)

(۱) عن عدي بن ثابت الأنصاري، حدثني رجل، أنہ کان مع عمار بن یاسر بالمدائن فأقیمت الصلاۃ فتقدم عمار وقام علی دکان یصلي والناس أسفل منہ، فتقدم حذیفۃ فأخذ علی یدیہ فاتبعہ عمار، حتی أنزلہ حذیفۃ فلما فرغ عمار من صلاتہ قال لہ حذیفۃ: ألم تسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا أم الرجل القوم فلا یقم في مکان أرفع من مقامہم أو نحو ذلک؟ قال عمار: لذلک اتبعتک حین أخذت علی یدي۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمام یقوم مکانا أرفع من مکان القوم‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۵۹۸)
فالحاصل أن التصحیح قد اختلف والأولی العمل بظاہر الروایۃ وإطلاق الحدیث وأما عکسہ وہو انفراد القوم علی الدکان بأن یکون الإمام أسفل فہو مکروہ أیضا في ظاہر الروایۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، تغمیض عینہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص438