نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر دل میں عشاء کی نمازہے اور غلطی سے زبان سے مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب بول دیا تو نماز نہیں ہوگی، دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔(۱)

(۱) لا یصح اقتداء مصلي الظہر بمصلي العصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)
(والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ) فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبی (وہو) أي عمل القلب (أن یعلم) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي) فلو لم یعلم إلا بتأمل لم یجز۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۲)
عزم علی الظہر وجری علی لسانہ العصر یجزیہ کذا في شرح مقدمۃ أبي اللیث وہکذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلاۃ،… الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اقیمت الصلٰوۃ فلا صلٰوۃ إلا المکتوبۃ التي أقیمت۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الرابع عشر‘‘: ج ۱۴، ص: ۲۷۱، رقم: ۸۶۲۳)
واستدل بقولہ: (التي أقیمت) بأن المأموم لا یصلي فرضا ولا نفلا خلف من یصلي فرضا آخر کالظہر مثلا خلف من یصلي العصر وإن جازت إعادۃ الفرض خلف من یصلي ذلک الفرض۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري  شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب إذا أقمت الصلاۃ فلا صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۷)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص350

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ سمجھنا غلط ہے کہ حاکم کی موجودگی میں محکوم نماز نہیں پڑھا سکتا؛ لہٰذا استاذ کی موجودگی میں طالب علم کا امامت کرنا درست ہے۔ وہ باریش ہو تو زیادہ بہتر ہے  استاذ کو مقدم کرنا چاہیے، لیکن استاذ ہی اپنے شاگرد کو آگے بڑھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم، فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱،۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں بالعموم سورج کے غروب سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز عشاء کا وقت ہوتا ہے فی زمانہ اپنے علاقہ کے معتبر جنتریوں میں وقت دیکھ کر مقرر کرلیا جائے اس طرح سفیدی یا سرخی کے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔(۱)

(۱) وقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی ہکذا في شرح الوقایۃ وعند أبي حنیفۃ الشفق ہو البیاض الذي یلی الحمرۃ ہکذا في القدوري وقولہما أوسع للناس وقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أحوط … ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في مواقیت الصلاۃ وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸)
ویقل رعایۃ أوقاتہا أي بعدم ظہور الشمس أو التوقیت بالساعات الفلکیۃ ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲،ص: ۲۹، مکتبہ، زکریا، دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص79

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب سے ایسی غلطی ہوتی ہے تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ بھی ہے۔
’’وکذا لو مد ألف أکبر أو بائہ لا یصیر شارعا؛ لأن اکبار جمع کبر، وہو الطبل وقیل إسم للشیطان، ولو مد ہاء ’’اللہ‘‘ فہو خطأ لغۃ، وکذا لو مد رائہ ومد لام ’’اللہ‘‘ صواب وجزم الہاء خطأ؛ لأنہ لم یجییٔ إلا في ضرورۃ الشعر، وقد بحث الأکمل في العنایۃ في قولہم إنہ إذا مد الہمزۃ من ’’اللہ‘‘ تفسد ویکفر إن تعمدہ للشک بأن الہمزۃ یجوز أن تکون للتقریر فلا یکون ہناک لا کفر ولا فساد‘‘(۱)
’’وفي المبسوط: ولو مد ألف اللّٰہ لا یصیر شارعا، وخیف علیہ الکفر إن کان قاصدا، وکذا لو مد ألف أکبر، وکذا لو مد بائہ لا یصیر شارعا، لأن إکبار جمع کبر، فکان فیہ إثبات الشرکۃ. وقیل: إکبار اسم للشیطان. وقیل: إکبار جمع کبر وہو الطبل. فإن قلت: یجوز أن تشبع فتحۃ الباء، فصارت ألفا. قلت: ہذا في ضرورۃ الشعر، ویجزم الراء في أکبر، وإن کان أصلہ الرفع بالخبریۃ، لأنہ روي عن إبراہیم التکبیر جزم والسلام جزم‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲؛ ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰۔
(۱) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: التکبیر قبل الرکوع و بعد الرفع منہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۱۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص351



 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1535/43-1044

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب  سے ایسی غلطی ہوتی ہے  تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ  بھی ہے۔

وكذا لو مد ألف " أكبر " أو باءه لا يصير شارعا؛ لأن أكبار جمع كبر، وهو الطبل وقيل اسم للشيطان، ولو مد هاء " الله " فهو خطأ لغة، وكذا لو مد راءه ومد لام " الله " صواب وجزم الهاء خطأ؛ لأنه لم يجئ إلا في ضرورة الشعر، وقد بحث الأكمل في العناية في قولهم إنه إذا مد الهمزة من " الله " تفسد ويكفر إن تعمده للشك بأن الهمزة يجوز أن تكون للتقرير فلا يكون هناك لا كفر ولا فساد اهـ. (البحرالرائق، آداب الصلوۃ 1/332) (فتح القدیر، باب صفۃ الصلوۃ 1/297) (الھندیۃ، الفصل الثالث فی سنن الصلوۃ 1/73)

وفي " المبسوط ": ولو مد ألف الله لا يصير شارعا، وخيف عليه الكفر إن كان قاصدا، وكذا لو مد ألف أكبر، وكذا لو مد باءه لا يصير شارعا، لأن إكبار جمع كبر، فكان فيه إثبات الشركة. وقيل: إكبار اسم للشيطان. وقيل: إكبار جمع كبر وهو الطبل. فإن قلت: يجوز أن تشبع فتحة الباء، فصارت ألفا. قلت: هذا في ضرورة الشعر، ويجزم الراء في أكبر، وإن كان أصله الرفع بالخبرية، لأنه روي عن إبراهيم التكبير جزم والسلام جزم (البنایۃ، التکبیر قبل الرکوع 2/221)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو آدمی نمازیوں میں سب سے زیادہ لائق ہو اور نماز وغیرہ کے مسائل سے زیادہ واقف ہو، متبع شریعت ہو، قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو ایسے شخص کو امام بنانا چاہئے، امامت ایک جلیل القدر منصب ہے اس کے لیے کسی اچھے وجید عالم کو ہی منتخب کیا جانا چاہئے تاہم فتنہ وفساد سے بچنے کی ہر ممکن کوشش اہل مسجد پر لازم ہے۔
’’والأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصباً، الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ … ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ ثم الأورع‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند۔
عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳)
ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص106

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: افضل تو یہی ہے کہ ظہر کی نماز مثل اول میں پڑھے اور عصر کی دو مثل ہونے کے بعد پڑھے البتہ دفع نزاع اور رفع ضرر کی وجہ سے صاحبینؒ کے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے یعنی ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے کے بعد نماز عصر پڑھنا درست ہے۔ پس صورت مسئولہ عنہا میں مذکورہ حنفی امام کا ایک مثل بعد نماز عصر پڑھانا فرض کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔(۱)

(۱) وقد قال في البحر لا یعدل عن قول الإمام إلی قولہما أو قول أحدہما إلا لضرورۃ من ضعف دلیل أو تعامل بخلافہ کالمزارعۃ و إن صرّح المشایخ بأن الفتویٰ علی قولہما کما ہنا قولہ: (وعلیہ عمل الناس الیوم) أي في کثیر من البلاد والأحسن مافي السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یؤخر الظہر إلی المثل وأن لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مؤدّیا للصلاتین في وقتہما بالإجماع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في تعبدہ علیہ السلام قبل البعثۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵، زکریا، دیوبند)
أول وقت الظہر إذا زالت الشمس وأخر وقتہا عند أبي حنیفۃؒ إذا صار ظل کل شيء مثلیہ سوی فيء الزوال وقالا إذا صار الظل مثلہ وہو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ۔ (المرغیناني، الہدایۃ: کتاب الصلاۃ، باب المواقیت، ج ۱، ص: ۸۱، دار الکتاب، دیوبند)
وقت الظہر من الزوال إلی بلوغ الظل مثلیہ سوی الفيء کذا في الکافي … إلی أن قال … الاحتیاط أن یصلی الظہر قبل صیرورۃ الظل مثلہ ویصلی العصر حین یصیر مثلیہ لیکون الصلاتان في وقتیہما بیقین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الأول في أوقات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ فیصل، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص79

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، اگر نیت کرلی تو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے،اس کو بدعت کہنا درست نہیں ہے جب کہ بعض فقہائِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب قراردیا ہے۔
(۲) صورت مسئولہ میں اگر حالت قیام میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلاگیا تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اوراللہ اکبر کہنے کے بعد قیام میں کچھ دیررہنافرائض میں سے نہیں ہے۔ اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کھڑے ہونے کی حالت میں کہے اور اس کے فورا بعد رکوع میں چلاجائے تو اس کو قیام ورکوع پانے والا شمار کیاجائے گا۔ اس میں کسی فرض کا ترک کرنا لازم نہیں آیا اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔
’’والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ) فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب؛ لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکیفیہ اللسان، مجتبی (وہو) أي عمل القلب (أن یعلم) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي) فلو لم یعلم إلا بتأمل لم یجز (والتلفظ) عند الإرادۃ (بہا مستحب) ہو المختار‘‘(۱)
’’النیۃ إرادۃ الدخول في الصلاۃ والشرط أن یعلم بقلبہ أي صلاۃ یصلي وأدناہا ما لو سئل لأمکنہ أن یجیب علی البداھۃ وإن لم یقدر علی أن یجیب إلا بتأمل لم تجز صلاتہ ولا عبرۃ للذکر باللسان، فإن فعلہ لتجتمع عزیمۃ قلبہ فہو حسن، کذا في الکافي‘‘(۲)
’’فلو کبر قائماً فرکع ولم یقف صح؛ لأن ما أتي بہ من القیام إلی أن یبلغ حد الرکوع یکفیہ، قنیۃ‘‘(۳)
’’ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام الخ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲، ص:۹۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص353

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)ہماری معلومات کے مطابق شامی میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں کعبۃ اللہ کی ترک تعظیم لازم آتی ہے، کعبہ کے عکس یا اس کی تصویر پر نماز کی کراہت وعدم کراہت کا مسئلہ شامی میں ہماری معلومات کے مطابق نہیں ہے۔
(۲) کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا ترک تعظیم کی وجہ سے مکروہ ہے اور کعبہ کے عکس پر یا کعبہ کے نقش والے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کراہت معلوم نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ یہ عکس اور تصویر غیر ذی روح کی ہے اور غیر ذی روح کی تصویر کے سامنے نمازپڑھنے میں مضائقہ نہیں اگر مصلی کو غافل نہ کرے، تو غیر ذی روح کی تصویر کی گنجائش ہے۔ غیر ذی روح کی تصویر کے متعلق ہی شامی میں ہے ’’أو لغیر ذي روح لا یکرہ، لأنہا لا تعبد‘‘(۱) غیر ذی روح کی تصویر میں مدار انتشار قلب وذہن اور فوت خشوع ہے اگر نقش ونگار اور تصویر سے مصلی کا خشوع فوت ہوجائے، تو کراہت ہے اور اگر خشوع فوت نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں؛ قرآن کریم کی آیت {الذین ہم في صلاتہم خاشعون}(۱)  میں خشوع کا حکم ہے؛ پس جو چیز خشوع میں کمی پیدا کرے یا خشوع کو ختم کردے وہ چیز باعث کراہت ہوگی، آج کل چوں کہ مصلیٰ پر بنے ہوئے نقش یا عکس کعبہ سے خشوع فوت نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کوئی نئی چیز ہے جس کی طرف ذہن کا التفاف ہو یعنی نقش ونگار کا رواج نہ ہو پھر کسی جگہ نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، تو انسان کا ذہن اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے؛ لیکن جب اس طرح کے نقش عام ہوجائیں، تو التفاتِ ذہن یا فوات خشوع کا مطلب ہی نہیں؛ پس عکس کعبہ سے جب فوات خشوع نہ ہو، تو شرعاً ایسے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
عکس کعبہ بنی ہوئی جا نماز کے بارے میں یہ بھی بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کی ایجاد یہودیوں نے کی ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی تعظیم ذہن مسلم سے نکل جائے۔ سو اول تو عکس کعبہ مصلّے پر سجدے کی جگہ بنا ہوا ہوتا ہے پیروں کی جگہ نہیں ہوتا جس میں ترک تعظیم لازم نہیں آتی دوسرے یہ کہ نمازی جس وقت اس پر نماز پڑھتا ہے اس کے ذہن میں یہ تفصیل یا سوء ادبی کی (عیاذاً باللہ) نیت نہیں ہوتی اور مشابہت یا یہودیوں وعیسائیوں کی کسی چیز کا اختیار کرنا مطلقاً ناجائز نہیں؛ بلکہ جو دین کے لیے باعث ضرر ہو اس کا اختیار یا اس میں مشابہت ممنوع ہے ’’وإن کانت العلۃ التشبہ بعبادتہا فلا تکرہ‘‘(۲) یہودیوں وعیسائیوں کی چیزوں وافعال کو اس قصد سے اختیار کرے کہ یہ ان کی چیز یا ان کی مشابہت ہے، تو مکروہ ہے اگر ایسا نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں ’’صورۃ المشابہۃ بلا قصد لایکرہ‘‘(۳) اس قسم کی جا نماز میں نہ تشبہ ہے جو ممنوع ہو اور نہ یہ قصد نمازی کا ہوتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایجاد ہے پس اس قسم کی جا نماز پر نماز مکروہ نہیں؛ ہاں! اگر جا نماز پر ایسا نقش ہو کہ اس سے خشوع فوت ہوجائے، تو وہ عکس کعبہ ہو یا دوسرا نقش ہو ہر صورت میں کراہت ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا‘‘: ج۱، ص: ۴۱۸،زکریا۔)
(۲) سورۃ المؤمنون: ۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص:۴۱۹، زکریا۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۹، سعید کراچی۔
فأما إذا صلوا في جوف الکعبۃ فالصلاۃ في جوف الکعبۃ جائزۃ عند عامۃ العلماء، نافلۃ کانت أو مکتوبۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان: الصلاۃ في جوف الکعبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، زکریا دیوبند)
ولو صلی في جوف الکعبۃ أو علی سطحہا جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
ولا باس بہ للتذلل … وتعقبہ في الامداد بما في التجنیس من أنہ یستحب لہ ذلک، لأن مبنی الصلاۃ علی الخشوع۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،زکریا دیوبند)
إعلم أن التشبیہ بأہل الکتاب لایکرہ في کل شيء فانا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ہو التشبہ فیما کان مذموماً وفیما کان یقصد بہ التشبیہ، کذا ذکرہ قاضي خان في شرح الصغیر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج ۲، ص: ۱۱، مطبوعہ مصر)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص162

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 17/43-1540

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کو تجوید کی رعایت کے ساتھ ہی قرآن پڑھنا چاہئے، آپ قرآن اچھا پڑھتے ہیں مگر معنی نہیں سمجھتے ہیں، ایسی صورت میں صرف یہی حل ہے کہ کسی اچھے عالم سے غلطی کی نشاندہی کرکے مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔ اتنا یاد رہے کہ چند آیات چھوٹ جانے سے یا معروف کو مجہول پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ حرکات میں غلطی یا ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لینے کی صورت میں معنی کی خرابی پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس علاقہ کے کسی عالم و مفتی کواس امام کا قرآن کریم سنوادیاجائے اور  اگرآپ کو کوئی مفتی میسر نہ ہو اور آپ کو غالب گمان ہے کہ نماز نہیں ہوئی تو   آپ اپنی صوابدید پر نمازیں دوبارہ تنہا پڑھ سکتے ہیں۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند