Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان عصر کے بعد فرائض کے ادا کرنے سے پہلے عصر کی سنت مستحبہ اور دیگر نوافل ادا کرسکتے ہیں۔(۲)
(۲) ویجوز التطوع قبل العصر۔ (فخر الدین حسن بن منصور، فتاویٰ قاضي خان: کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۱، ص: ۴۹، زکریا دیوبند)
ویستحب أیضاً عند نا تاخیر العصر في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم ما لم تتغیر الشمس، وذلک لیتوسع وقت النوافل، إذا التنفل بعد أداء ہا مکروہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز وہاں بھی فرض ہے اور بلا وجہ شرعی اس کو ترک کرنا گناہ ہے؛(۲) اس لیے پردہ کے اہتمام کے ساتھ کھیت میںہی نماز اداء کریں اور کھیت میں نماز کا کوئی علاحدہ طریقہ نہیں ہے جس طرح گھر میں نماز پڑھتی ہیں اسی طرح کھیت میں نماز پڑھیں گی بس پردہ کا خیال رکھنا چاہئے۔(۳)
(۲) {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہلا۴ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَہلا۵ } (سورۃ الماعون: ۴،۵)
من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔ (أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، ’’من اسمہ جعفر‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۴۸)(شاملہ)
(۳){وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗط} (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)
عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جعلت لي الأرض مسجداً وطہوراً أینما أدرک رجل من أمتي الصلاۃ صلی۔ (أخرجہ النسائي، ’’کتاب المساجد: الرخصۃ في ذلک‘‘: ج۱، ص: ۸۵، رقم: ۷۳۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص349
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2445/45-3708
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کی نماز میں ہر دو خطبے طوال مفصل یعنی سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک میں سے کسی سورہ کے برابر رہیں‘ اتنا طویل خطبہ دیناکہ طوال مفصل سے بڑھ جائے مکروہ ہے۔ حدیث میں خطبہ طویل کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ اس لئے نماز جمعہ میں خطبہ مختصر ہونا چاہئے، نبی اکرم ﷺ کے اقوال ا فعال سے، اور صحابہ کرام کے آثار اور اجماع سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ طویل خطبہ دینا خلافِ سنت ہے۔ حدیث میں صراحت کے ساتھ نمازمیں تخفیف کا حکم ہے۔ لہذانماز پڑھانے والے پر لازم ہے کہ کمزوروں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھ کر نماز پڑھائے خطبہ مختصر دے۔ اس قدر طویل خطبہ دینا جو تقلیل جماعت کا سبب بنے درست نہیں ہے۔
خطبنا عمار فاوجز وابلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد بلغت واوجزت فلو کنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان طول صلوٰة الرجل وقصر خطبتہ مئنة من فقہ فاطیلو الصلوٰة واقصروا الخطبة وان من البیان لسحرًا(مسلم شریف ج۱،ص۲۸۶،مکتبہ ملت دیوبند۔)
عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا․ (نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند۔)
عن جابررضى الله تعالى عنہ قال : کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعة یخطبہ فیقول بعد ان یحمد اللّٰہ ویصلی علی انبیائہ ”ایہا الناس ان لکم معالم فانتہو الی معالمکم وان لکم نہایة فانتہوا الی نہایتکم ان العبد الموٴمن بین مخافتین بین اجل قد مضی لایدری ما اللّٰہ قاض فیہ وبین اجل قد بقی لا یدری ما اللّٰہ صانع فیہ فلیاخذ العبد من نفسہ لنفسہ ومن دیناہ لآخرتہ ومن الشبیبة قبل الکبر ومن الحیاة قبل الممات والذی نفسی بیدہ ما بعد الموت من مستعتب ما بعد الدنیا من دار الا الجنة او النار اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم وقد تقدم ما خطبہ بہ علیہ الصلوٰة والسلام اول جمعة عند قدومہ المدینة (اخرجہ ابوداؤد، مراسیل ص ۱۹۴۰۸، بیہقی ج۲، ص۲۱۵، باب کیف یستحب ان تکون الخطبة، بحوالہ الجامع الاحکام القرآن ص ۱۰۵،۱۰۶ ج۹، جز ۱۸ مکتبہ دارالفکر۔)
عن جابررضى الله تعالى عنہ قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایطیل الموعظة یوم الجمعة انما ہن کلمات یسیرات․( ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔)
"قال أبوحنیفة رحمة الله عليه: إن اقتصر الخطیب علی مقدار یسمي ذکر اللّٰه کقوله: الحمد اللّٰه، سبحان اللّٰه جاز ... وقال الصاحبان: لابد من ذکر طویل یسمٰی خطبة".(بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبه دارالفکر)
"ومنها الخطبة"؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم ما صلاها بدون الخطبة في عمره، "وهي قبل الصلاة بعد الزوال"، به وردت السنة، "ويخطب خطبتين يفصل بينهما بقعدة"، به جرى التوارث"، ويخطب قائمًا على طهارة؛ "لأن القيام فيهما متوارث، ثم هي شرط الصلاة فيستحب فيها الطهارة كالأذان، "ولو خطب قاعدًا أو على غير طهارة جاز؛ "لحصول المقصود، إلا أنه يكره؛ لمخالفته التوارث؛ وللفصل بينهما وبين الصلاة، "فإن اقتصر على ذكر الله جاز عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا: لا بد من ذكر طويل يسمى خطبة، "لأن الخطبة هي الواجبة والتسبيحة أو التحميدة لاتسمى خطبةً، وقال الشافعي رحمه الله: لاتجوز حتى يخطب خطبتين اعتبارًا للمتعارف، وله قوله تعالى: {فَاسَعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة: 9] من غير فصل، وعن عثمان رضي الله عنه أنه قال: الحمد لله فأرتج عليه، فنزل وصلى". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 82)
(والرابع عشر) تخفیف الخطبتین بقدرسورۃ من طوال المفصل ویکرہ التطویل۔ (فتاویٰ عالمگیری ج1ص 147)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دکاندار اگر لائق امامت ہو تو اس کی امامت بالکل درست ہے، دکاندار ہونے کی وجہ سے اس کی امامت کے صحیح ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔(۱)
(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱، ۱۱۲)
عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ: ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في الصلوۃ‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۵، ۲۹۴)؛
وثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضًا:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:زید کی یہ نماز ادا ہے، قضاء نہیں ہے؛ کیوںکہ عشاء کا وقت طلوع فجر تک رہتا ہے؛ البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے؛(۱) اس لیے آدمی رات سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لیا کریں، تاکہ کراہت نہ ہو نیز عشاء اداء کرنے سے پہلے سونا مکروہ ہے۔
’’عن أبي برزۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یکرہ النوم قبل العشاء والحدیث بعدہا‘‘(۲)
نیز زید کا ترک جماعت کرنا سخت گناہ ہے زید کو چاہئے کہ عشاء کی نماز باجماعت ادا کرے اور پھر سوجائے ۔(۳)
(۱) وتاخیرہا إلی ما بعدہ أي بعد نصف اللیل إلی طلوع الفجر مکروہ إذا کان بغیر عذر۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۶)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب مواقیت الصلوۃ ’’باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۶۸، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۳) قال رسول اللّٰہ ﷺ : من سمع المنادی فلم یمنعہ من اتباعہ عذر قالوا: وماالعذر؟ قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ الصلاۃ التی صلی۔(أخرجہ أبو داود ، في سننہ، کتاب الصلاۃ، في التشدید في ترک الجماعۃ، ج:۱،ص:۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص78
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر دل میں عشاء کی نمازہے اور غلطی سے زبان سے مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب بول دیا تو نماز نہیں ہوگی، دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔(۱)
(۱) لا یصح اقتداء مصلي الظہر بمصلي العصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)
(والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ) فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبی (وہو) أي عمل القلب (أن یعلم) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي) فلو لم یعلم إلا بتأمل لم یجز۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۲)
عزم علی الظہر وجری علی لسانہ العصر یجزیہ کذا في شرح مقدمۃ أبي اللیث وہکذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلاۃ،… الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اقیمت الصلٰوۃ فلا صلٰوۃ إلا المکتوبۃ التي أقیمت۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الرابع عشر‘‘: ج ۱۴، ص: ۲۷۱، رقم: ۸۶۲۳)
واستدل بقولہ: (التي أقیمت) بأن المأموم لا یصلي فرضا ولا نفلا خلف من یصلي فرضا آخر کالظہر مثلا خلف من یصلي العصر وإن جازت إعادۃ الفرض خلف من یصلي ذلک الفرض۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب إذا أقمت الصلاۃ فلا صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص350
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ سمجھنا غلط ہے کہ حاکم کی موجودگی میں محکوم نماز نہیں پڑھا سکتا؛ لہٰذا استاذ کی موجودگی میں طالب علم کا امامت کرنا درست ہے۔ وہ باریش ہو تو زیادہ بہتر ہے استاذ کو مقدم کرنا چاہیے، لیکن استاذ ہی اپنے شاگرد کو آگے بڑھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم، فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱،۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص105
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں بالعموم سورج کے غروب سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز عشاء کا وقت ہوتا ہے فی زمانہ اپنے علاقہ کے معتبر جنتریوں میں وقت دیکھ کر مقرر کرلیا جائے اس طرح سفیدی یا سرخی کے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔(۱)
(۱) وقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی ہکذا في شرح الوقایۃ وعند أبي حنیفۃ الشفق ہو البیاض الذي یلی الحمرۃ ہکذا في القدوري وقولہما أوسع للناس وقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أحوط … ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في مواقیت الصلاۃ وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸)
ویقل رعایۃ أوقاتہا أي بعدم ظہور الشمس أو التوقیت بالساعات الفلکیۃ ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲،ص: ۲۹، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص79
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب سے ایسی غلطی ہوتی ہے تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ بھی ہے۔
’’وکذا لو مد ألف أکبر أو بائہ لا یصیر شارعا؛ لأن اکبار جمع کبر، وہو الطبل وقیل إسم للشیطان، ولو مد ہاء ’’اللہ‘‘ فہو خطأ لغۃ، وکذا لو مد رائہ ومد لام ’’اللہ‘‘ صواب وجزم الہاء خطأ؛ لأنہ لم یجییٔ إلا في ضرورۃ الشعر، وقد بحث الأکمل في العنایۃ في قولہم إنہ إذا مد الہمزۃ من ’’اللہ‘‘ تفسد ویکفر إن تعمدہ للشک بأن الہمزۃ یجوز أن تکون للتقریر فلا یکون ہناک لا کفر ولا فساد‘‘(۱)
’’وفي المبسوط: ولو مد ألف اللّٰہ لا یصیر شارعا، وخیف علیہ الکفر إن کان قاصدا، وکذا لو مد ألف أکبر، وکذا لو مد بائہ لا یصیر شارعا، لأن إکبار جمع کبر، فکان فیہ إثبات الشرکۃ. وقیل: إکبار اسم للشیطان. وقیل: إکبار جمع کبر وہو الطبل. فإن قلت: یجوز أن تشبع فتحۃ الباء، فصارت ألفا. قلت: ہذا في ضرورۃ الشعر، ویجزم الراء في أکبر، وإن کان أصلہ الرفع بالخبریۃ، لأنہ روي عن إبراہیم التکبیر جزم والسلام جزم‘‘(۱)
(۱) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲؛ ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰۔
(۱) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: التکبیر قبل الرکوع و بعد الرفع منہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص351
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1535/43-1044
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب سے ایسی غلطی ہوتی ہے تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ بھی ہے۔
وكذا لو مد ألف " أكبر " أو باءه لا يصير شارعا؛ لأن أكبار جمع كبر، وهو الطبل وقيل اسم للشيطان، ولو مد هاء " الله " فهو خطأ لغة، وكذا لو مد راءه ومد لام " الله " صواب وجزم الهاء خطأ؛ لأنه لم يجئ إلا في ضرورة الشعر، وقد بحث الأكمل في العناية في قولهم إنه إذا مد الهمزة من " الله " تفسد ويكفر إن تعمده للشك بأن الهمزة يجوز أن تكون للتقرير فلا يكون هناك لا كفر ولا فساد اهـ. (البحرالرائق، آداب الصلوۃ 1/332) (فتح القدیر، باب صفۃ الصلوۃ 1/297) (الھندیۃ، الفصل الثالث فی سنن الصلوۃ 1/73)
وفي " المبسوط ": ولو مد ألف الله لا يصير شارعا، وخيف عليه الكفر إن كان قاصدا، وكذا لو مد ألف أكبر، وكذا لو مد باءه لا يصير شارعا، لأن إكبار جمع كبر، فكان فيه إثبات الشركة. وقيل: إكبار اسم للشيطان. وقيل: إكبار جمع كبر وهو الطبل. فإن قلت: يجوز أن تشبع فتحة الباء، فصارت ألفا. قلت: هذا في ضرورة الشعر، ويجزم الراء في أكبر، وإن كان أصله الرفع بالخبرية، لأنه روي عن إبراهيم التكبير جزم والسلام جزم (البنایۃ، التکبیر قبل الرکوع 2/221)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند