نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: افہام و تفہیم کا پہلو اختیار کرنا ہی بہتر ہے اس کے لیے آپ کوئی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں؛ بلکہ یہ عمل کار ثواب ہوگا اور فتنہ وفساد کا سد باب بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ، خطبات میں خطا ہوجائے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا مگر امامت کے دوران قرأت میں خطا ہوجانا بعض دفعہ نماز کے فاسد ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے؛ لہٰذا کوئی فریق ضد سے کام نہ لے اگر واقعۃً ایسی خطا نہیں ہے جو مفسد نماز ہو تو بھی امام و خطیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا خیال کرکے اعلم من الناس کو ترجیح دینا چاہئے دین میں واراثت علمی اعتبار سے چلتی ہے خاندانی اعتبار سے نہیں، پھر بھی امام بضد رہتا ہے تو اس کے لیے امامت کرنا مناسب نہیں۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵ - ۲۹۴، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص107

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز وقت مقررہ پر پڑھانی چاہئے اتفاقاً کبھی کچھ تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن تاخیر کی عادت بنا لینا قطعاً درست نہیں ہے اس سے مقتدیوں کوپریشانی ہوگی۔(۱)

(۱) فالحاصل أن التاخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۱۹۹۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص80

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت اور مرد کی نمازوں میں کئی اعتبار سے فرق ہے حضرات فقہاء نے اس کی تفصیلات ذکر کی ہیں اور وہ تفصیلات اور فرق احادیث مبارکہ سے ماخوذ اور مستفاد ہے جس کا جواب درج ذیل ہے اس سے مرد وعورت کی نمازوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہو جائے گا۔
مرد تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھائیں گے جب کہ خواتین کے لیے سینہ تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، اور یہ حدیث سے ثابت ہے:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۱)
’’عن عبد ربہ بن زیتون، قال: رأیت أم الدرداء ترفع یدیہا حذو منکبیہا حین تفتتح الصلاۃ‘‘(۲)
عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں، علامہ ابن الہمام ؒنے بھی فتح القدیر میں لکھا ہے: تکبیر تحریمہ کے وقت عورت اپنے کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے، یہ صحیح تر ہے  کیوں کہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔ ’’المرأۃ ترفع یدیہا حذاء منکبیہا، وہو الصحیح؛ لأنہ أسترلہا‘‘(۳)
ان روایات اور فتح القدیر کی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت کے لیے ہاتھوں کو کندھے اور سینہ تک اٹھانے کا حکم ہے؛ لہٰذا عورت اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائے گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آجائیں۔ فرق کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہاتھ اٹھانے میں زیادہ ستر پوشی ہوتی ہے، جو عورت کے حق میں عین مطلوب ہے۔
دوسرا فرق عورت اور مرد کی نماز میں قیام کی حالت میں ہاتھ باندھنے کی ہیئت میں ہے کہ مرد کے لیے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا مستحب ہے، اگرچہ حضرات فقہاء نے اس حوالے سے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم عورتوں کے حوالہ سے تمام اہلِ علم کا اجماع ہے (اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے) کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔ جیسا کہ کنز کی شرح میں لکھا ہے:
’’تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘(۱)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’و تضع المرأۃ یدیہا علی صدرہا‘‘(۲)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی۔
’’وأما في حق النساء فاتفقوا علی أن السنۃ لہن وضع الیدین علی الصدر لأنہا أستر لہا‘‘(۳)
الحاصل: مذکورہ عبارتوں سے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق واضح ہو جاتا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت خواتین سینہ تک ہاتھ اٹھائیں گی اور قیام کی حالت میںسینہ پر ہاتھ باندھیںگی۔

(۱) المعجم الکبیر للطبراني، أم یحییٰ بنت عبدالجبار بن وائل: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۲، ص:۱۲۲، رقم: ۲۵۹۴۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في المرأۃ إذا افتتحت الصلاۃ إلی أین ترفع یدیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۱) مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص: ۱۵۳۔
۲) فخرالدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷۔
(۳) السعایۃ: ج ۲، ص: ۱۵۶۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص354

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی تاہم امام صاحب کو اس طرف توجہ دلائے تاکہ وہ اس عمل سے رک جائیں۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال من جرّ ثوبہ خیلاء لم ینظر اللّٰہ إلیہ یوم القیامۃ فقال ابوبکر یارسول اللّٰہ إن أحد شقي إزاری یسترخي إلا أن اتعاہدہ ذلک منہ، فقال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لست ممن یفعلہ خیلاء،( أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل أصحاب النبي‘‘: ج۲، ص: ۳۷۶، یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
قولہ: لست یفعلہ: والمعنی أن استرخاء ہ من غیر قصد لایضر لاسیّما بمن لایکون من شیمتہ الخیلاء ولکن الأفضل ہو المتابعۃ وبہ یظہر أن سبب الحرمۃ من جرّ الازار ہو الخیلاء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’اللباس‘‘: ج ۷، ص: ۲۷۹۱)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص164

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1554/43-1083

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جہاں اس کو امام کی آواز صاف سنائی دے تاکہ وہ تکبیر کہہ سکے اس کا خیال کرتے ہوئے اس کو مناسب جگہ کھڑا ہونا چاہئے۔ البتہ بہتر یہی ہے صف میں ہی کھڑا ہواور تکبیر کہے۔ صف سے الگ کھڑا ہونا اچھا نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: منتظمہ کمیٹی کا مقرر کردہ امام ہی امام ہے جس کو لکنت وغیرہ اعذار کی وجہ سے علاحدہ کردیا گیا وہ امام ہی نہیں ہے؛ البتہ جو نمازیں سابق امام کی اقتداء میں پڑھی گئیں وہ نمازیں سب کی ادا ہوگئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کو چاہئے کہ اختلافات کا باعث نہ بنے منتظمہ کمیٹی کو تقرر کرنے اور علاحدگی کا پورا اختیار حاصل ہے اس کے فیصلہ پر عمل ضروری ہے۔(۱)

(۱) إعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولیٰ بالإمامۃ من غیرہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۷)
(۲) ولو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (أیضًا:)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص108

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:سورج غروب ہوتے ہی سورج کی روشنی ختم ہوجاتی ہے، مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے پھر سرخی کے بعد ایک سفیدی ظاہر ہوجاتی ہے اس سفیدی کے ختم ہونے تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہ ہی مسلک ہے۔ علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے سوال میں جو مذکور ہے کہ سرخی ختم ہوتے ہی مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے یہ صاحبین امام ابویوسف و امام محمد رحمہما اللہ کا مسلک ہے؛ لیکن احناف کے یہاں اس پر فتویٰ نہیں ہے۔(۱)
’’ووقت المغرب إذا غربت الشمس واٰخر وقتہا ما لم یغب الشفق … ولنا قولہ علیہ السلام أول وقت المغرب حین تغرب الشمس وآخر وقتہا حین یغیب الشفق … ثم الشفق ہو البیاض الذي في الأفق بعد الحمرۃ عند أبي حنیفۃ الخ‘‘(۲)

(۱) فثبت أن قول الإمام ہو أصح ومشی علیہ في البحر مؤیدا لہ بما قدمناہ عنہ من أنہ لا یعدل عن قول الإمام إلا لضرورۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتارمع الدر المختار: ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘ ج ۲، ص: ۱۷، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب المواقیت‘‘: ج ۱، ص: ۸۱،۸۲، ط: یاسر ندیم، اینڈ کمپنی، دیوبند۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص81

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ کے دوست کا دعویٰ کہ مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے! بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے، حدیث کی کتابوں میں کئی ایسی روایتیں ہیں جو مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان کرتی ہیں کنزل العمال میں یزید بن ابو حبیب سے مرسلاً ایک روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کی نماز میں فرق کو بیان فرمایا ہے: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین سے ملاؤ؛ کیوں کہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
’’أن النبي مر علی امرأتین تصلیان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ في ذلک لیست کالرجل‘‘(۱)
ایک اور روایت ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذیہا کأستر ما یکون لہا وأن اللّٰہ ینظر إلیہا ویقول یا ملائکتي أشہدکم أني قد غفرت لہا‘‘(۲)
حضرت ابن عمر ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں … جب عورت سجدہ کرے گی تو
اپنا پیٹ رانوں سے ملائے جتنا چھپانا ممکن ہو اپنے اعضاء کو چھپائے گی اور اللہ تعالیٰ ایسی عورت کی طرف دیکھ کر فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! تم کو میں اس کی مغفرت پر گواہ بناتا ہوں۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ:
’’عن إبراہیم قال: إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنہا بفخذیہا و لا ترفع عجیزتہا ولا تجافی کما یجافی الرجل‘‘(۱)
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ (مشہور تابعی) کہتے ہیں کہ عورت پیٹ کو دونوں رانوں سے ملائے اور سرین کو نہ اٹھائے اور مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہ کرے۔
مذکورہ اثر سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا مسئلہ صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒکے زمانہ میں مشہور تھا اور صحابہؓ وتابعین ؒنماز میں مردوں کے لیے اعضاء کشادہ کرنے کے قائل تھے نہ کہ عورتوں کے لیے، ایسے ہی مذاہب اربعہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، فقہاء اور حدیث کے شارحین کے اقوال تو اس سلسلے میں لا تعداد ہیں۔ مزید تفصیلات کتب احادیث میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
خلاصہ: مرد اورعورت کی نماز میں فروق نصوص سے ثابت ہیں۔ جیسا کہ معجم الکبیر اور مجمع الزوائد میں منقول ہے:
حضرت وائل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔
’’عن وائل بن حجر، قال: جئت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فقال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا وائل بن حجر، إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأۃ تجعل یدیہا حذاء ثدییہا‘‘(۲)

(۱) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۹۷۸، وجمع الجوامع: ج ۱، ص: ج ۱، ص: ۲۴۶۔
(۲) کنز العمال، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني، في أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۷، ص: ۵۴۹، و جامع الأحادیث: ج ۳، ص: ۴۳۔
(۱)أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، باب: المرأۃ کیف تکون في سجودھا: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم:۲۷۸۲۔
(۲) المعجم الکبیر للطبراني: ج ۹، ص: ۱۴۴، رقم: ۱۷۴۹۷؛ ومجمع الزوائد: ج ۹، ص: ۶۲۴، رقم: ۱۶۰۵۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص357

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھتے ہوئے کہنیوں تک کھلا رکھنا مرد کے لیے بھی مکروہ تنزیہی ہے (غیراولیٰ ہے) اگر بنیان ایسی ہے کہ اس میں کہنیاں کھلی رہتی ہیں، تو اس میں نماز تو ادا ہوجائے گی مگر مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ ہوگی۔(۱)
’’قال ابن الہمام وقد أخرج الستۃ عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علیٰ سبعۃ وأن لا أکف شعرا ولا ثوباً ویتضمن کراہۃ کون المصلی مشمرا کمیہ‘‘(۲)
’’ولو صلی رافعاً کمیہ إلی المرفقین کرہ‘‘(۳)

(۱) وکرہ الإقعاء وافتراش ذراعیہ وتشمیر کمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۴۹، ۳۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ٰیبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱  (الأعراف: ۳۱)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۴۲۴۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما یکرہ: ج ۱، ص: ۱۶۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص165

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1170/42-418

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہری نمازوں کی قضاء  اگر جہری نماز  کے اوقات میں کرے تو جہری اور سری دونوں کا اختیار ہے، اور اگر سری نماز کے اوقات میں قضاء کرے تو سری ہی قراء ت کرے گا۔ جہر جائز نہیں ہے۔ فجر کی نماز کی قضاء اگر طلوع فجر کے بعد کرے تو سری قراءت کرے گا، البتہ اگر جماعت کے ساتھ نماز ہو تو امام جہری قراءت کرے گا۔

ویخافت المنفرد حتما ای وجوبا ان قضی الجھر یۃ فی وقت المخافتۃ کان صلی العشاء بعد طلوع الشمس۔ (ردالمحتار، فصل فی القراءۃ 1/533)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند